اداریہ: تو سلامت رہے۔۔۔ تا قیامت رہے

اس کائنات رنگ و بو میں اللہ نے قسم قسم کی مخلوقات خلق کی ہیں اور ہر مخلوق کو کسی خاص صفت کے باعث دوسری مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ ان نمائندہ مخلوقات میں انسان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ’’احسن تخلیق‘‘ کا تاج پہن کر اس دنیا میں نمودار ہوا اور اسکی علمی وجاہتوں کو دیکھ کر ملائکہ سجدہ ریز ہوگئے بلاشبہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ’’آدمیت‘‘ کے جوہر تو موجود تھے لیکن رفتہ رفتہ ان میں انس و محبت کے جذبات واحساسات بھی داخل ہوگئے اور آدمیت کے جذبہ سے مالا مال ’’آدمی‘‘ انسانیت کے جذبو ں سے رونق افروز ہو کر ’’انسان‘‘ بن گیا۔ آدمی سے انسان بننے میں اس اشرف المخلوقات کو کتنا عرصہ لگا اس کا احاطہ تو سردست ممکن نہیں لیکن آج کے ’’آدمی‘‘ کو ’’انسان‘‘ بننے میں شاید سینکڑوں برس درکار ہونگے۔

ان انسانوں میں ایسے چنیدہ افراد ہوتے ہیں جو خو د بھی منزل آشنا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی منزل تک پہنچانے کی صلاحیت اور عزم و حوصلہ رکھتے ہیں اور اس پر خطر راہ میں آ کر انہیں اپنے تن، من، دھن کی قربانی بھی دینا پڑے تو وہ اس سے گریز نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی بے لوث، بے غرضی اور انسان دوستی کا وقار آج بھی قائم ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو ذاتی مفادات کوقومی و ملی مفادات پر قربان کر دیتے ہیں۔ ان برگزیدہ اور نیکوکاروں کی بدولت انسان اور انسانیت کا وقار قائم ہے اور انہی ذوات مقدسہ کو دیکھ کر فرشتے آج بھی آدمی بننے کی آرزو کرتے ہیں۔

اس پر ہجوم اور نفوس انسانی سے بھری دنیا میں ہر گر وہ اپنے اپنے طور پر سرگرم عمل ہے تاہم ایک ایسا فرد اپنے افعال و اعمال اور اقوال کی بدولت چشمِ اقوام میں تارا بن کر جگمگا رہا ہے جسے لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اسمِ گرامی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس فرد کے ایک ہاتھ میں قلم ہے جو صفحہء قرطاس پر حق و صداقت کی کہانیاں رقم کر رہا ہے۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں دنیوی شان وشوکت کا علم ہے جو نفوس انسانی کیلئے سمت نمائی کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ اسکے منہ میں ایسی سیف زبان ہے جو مسلسل دشمنان دین کے حلقوم کاٹ رہی ہے اور اللہ تعالی کا جیتا جاگتا معجزہ یہ ہے کہ نہ تو علم و قلم کے بار سے اس شخص کے کاندھے شل ہوتے ہیں نہ اس کی تیغ زبان کی کاٹ میں کمی آتی ہے۔ یہ فرزانہ دنیاوی معاملات سے بے خبر ہو کر دیوانہ وار صحرائے زندگی میں اذان صداقت بلند کر رہا ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عظمت کا راز محض اس امر میں پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ ایک عالم باعمل اور شعلہ بیان مقرر ہیں یا وہ ایک صاحب طر ز اسلوب نگار مصنف ہیں یا انہوں نے صاحبان فہم و ذکاء سے اپنی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے یا وہ دنیا کے تخت و تاج کو ٹھکرا کر علمی مسند پر متمکن ہوگئے ہیں بلکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری میں تین ایسی خوبیاں ہیں جو کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں۔ ان کے پاس علم ہے اور اس کے رقیب علمی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہیں دوسرا وہ عشق و محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر بھوکا رہ سکتا ہے جبکہ اس کے مدّ مقابل خوردونوش کے رسیا ہیں۔ تیسرا وہ انتظار کر سکتا ہے جبکہ اس کے مخالفین ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے قائل ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پوری زندگی کا منظرنامہ مرتب کریں تو وہ اسی مثلث پر استوار نظر آتے ہیں یعنی علمی استعداد، مقاصد جلیلہ کی خاطر ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرنا اور خو ف و مایوسی سے دامن بچا کر اچھے وقت کا انتظار کرنا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہم عصر رقیبوں کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں تو وہ ان تینوں صلاحیتوں کے فقدان کے باعث دنیا میں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جسکا مقصد جتنا ارفع ہوتا ہے اس کے اعمال بھی اتنے ہی رفیع الشان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری معاشرے میں حق و صداقت کی روشنی پھیلانے کے متمنی ہیں۔ وہ اہل دنیا کی نگاہوں میں اسی لیے قدر و منزلت کے حقدار قرار پائے ہیں کہ انہوں نے سچ کی فرمانروائی کی خاطر اپنوں کو بیگانہ اور بیگانوں کو اپنا کر لیا لیکن حق و صداقت کے علم کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ بقول شاعر

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو بھی کہہ نہ سکا قند

موجودہ صورت حال پر غور کریں تو نوجوان نسل ایک جانب تو مذہب سے متنفر ہو رہی ہے اور دوسری جانب معاشی بدحالی نے اسے منفی حربوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اہل مغرب بھی اس صورت حال کا شکار ہوں لیکن وہ سائنس او ر ٹیکنالوجی کی برق رفتار تر قی سے غافل نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں حالات کی خرابی کے باوجود سائنسی ایجادات بھی ہو رہی ہیں اور فکر و نظر کے نئے نئے زاویے بھی اجاگر ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ذہنی پستی کا شکار ہوکر محض دقیانوسی خیالات پر اکتفا کر بیٹھے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارا فکری سفر بھی رک گیا ہے اور سائنسی ترقی کی رفتار بھی معدوم ہوگئی ہے۔ اس ابتر اور غیر یقینی صورت حال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی ایسا مسیحا سامنے آئے جو اخلاص کا پیکر بن کر بے سمت نوجوانوں کے سر پر دست شفقت رکھے اور انہیں دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ کرے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نوجوانوں کی فکری آبیاری بھی کی اور ان کی سمت نمائی بھی۔ اب تو یہ بات بلا شک و بلا تردد کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فکری تربیت یافتہ نوجوان پوری دنیا میں دین حق اور پیغمبر انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افکار و نظریات کی تشہیر و تبلیغ میں مصروف عمل ہیں۔ ان نوجوانوں پر یہ راز منکشف ہو چکا ہے کہ وہی شجر تناور ہوتے ہیں جن کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسے شجرِ سایہ دار ہیں جن کے سائے میں علم و ادب کے شائقین سستا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی زندگی کو انتہائی منضبط طریقے سے بسر کیا ہے اور انکے وضع کردہ جلیل القدر کاموں کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ یہ ایک فرد نہیں بلکہ مستقل ادارہ ہے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار و نظریات نے سینکڑوں طاہرالقادری پیدا کردیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔

اے میرے قائد تو سلامت رہے
تا قیامت رہے