ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا

نواز رومانی

ایک روز حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کھولنے کے بعد تشریف فرما تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے، ادب سے بیٹھ گئے اور عرض گزار ہوئے:

’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں، برہ بنت حارث اسی سال کے ابتدا میں بیوہ ہوگئی تھی‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے قدرے سکوت فرمایا اور پھر ان کی گزشتہ زندگی پر سے پردہ اٹھایا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ برہ بنت حارث کو اپنے حبالہ عقد میں لے لیں۔ ٹھیک ہے میں اسے اپنے حبالہ زوجیت میں لے لیتا ہوں۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تجویز سے اتفاق کیا اور چار سو درہم مہر پر برہ بنت حارث کو اپنی زوجیت میں لینا قبول کرلیا اور ان کا نام تبدیل کرکے میمونہ رکھ دیا۔ اس وقت حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 60 برس تھی۔

بعض مورخین کے مابین یہ اختلاف چلا آرہا ہے کہ آیا یہ نکاح حالت احرام میں کیا تھا یا احرام سے نکل آنے کے بعد یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں جنم لینے والے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو۔ حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم شریف میں ایک باب کا عنوان باندھا ہے۔ بحالت احرام نکاح کرنا حرام اور نکاح کا پیغام دینا مکروہ ہے۔

اس باب کے تحت کئی روایات ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا محرم (احرام کی حالت میں) نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔

حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے یزید بن اصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام میں نہیں تھے۔

امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جب اس مسئلہ پر بحث و تکرار ہوئی تو انہوں نے جزیرہ کے گورنر میمون کو لکھا کہ وہ حضرت یزید بن اصم رضی اللہ عنہ سے دریافت کرکے لکھیں تو انہوں نے بتایا: حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی مبارک بغیر احرام کی حالت میں ہوئی اسی حالت میں رخصتی ہوئی اور اسی حالت میں مقام سرف پر رسم عروسی ادا کی گئی۔

رئیس التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کسی نے کہا: عکرمہ کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام المومنین سیدہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے احرام کی حالت میں نکاح کیا تھا تو حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: وہ جھوٹا ہے۔ اسے جاکر ڈانٹا۔ اور پھر حدیث پاک بیان کی:

’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور احرام کھولنے کے بعد نکاح کیا‘‘

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت میمونہرضی اللہ عنہا کی شادی مبارک کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔

ایک روایت ہے کہ ہادی برحق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے سے اپنے خادم حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حضرت اوس بن خولی کے ساتھ وکیل بناکر بھیجا اور انہوں نے ایجاب و قبول کیا۔ حضرت قتادہ و عکرمہ رضی اللہ عنہ کے حوالوں سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنا نفس ہبہ کردیا تھا۔ ایک تیسری روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جب نکاح کا پیغام پہنچا تو اس وقت حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، جواب دیا:

’’اونٹ اور جو کچھ اس پر ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے‘‘

مگر درست روایت وہی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں خود درخواست کی تھی کہ وہ برہ بنت حارث سے نکاح فرمالیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے شرف قبولیت بخشا تھا۔ قرار داد حدیبیہ کے مطابق مسلمانوں کے سہ روزہ قیام مکہ کی مدت ختم ہوچکی تھی لیکن حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولیمہ کی تقریب کے سلسلے میں کچھ اور مہلت طلب کرنا چاہی اسی اثنا میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی قریش کی جانب سے پہنچے اور عرض کی:

مدت قیام ختم ہوگئی ہے لہذا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی مدینہ واپس تشریف لے جائیں۔ سنا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے برہ جس کا اب نام میمونہ ہے، سے شادی کرلی ہے اگر مزید مہلت مل جائے تو ولیمہ یہیں کروں اور تمہیں بھی اس ضیافت میں شرکت کا موقع دوں۔

اس فرمان کا مقصد وحید یہ تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کی خبر تھی کہ عمرہ قضا نے اہل مکہ کے دلوں پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں اور ان کی عداوتیں اور رنجشیں بہت حد تک کم ہوگئی ہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ان لوگوں نے ضیافت قبول کرلی اور انہوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفت و شنید کی تو مکہ کے دروازے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھل جائیں گے۔ سہیل اور حویطب کو بھی اس بات کا خدشہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے صاف صاف جواب دیا:

’’ہمیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافت کی ضرورت نہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الحال یہاں سے تشریف لے جائیں‘‘

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مطالبے کو تسلیم کرلیا اور مسلمانوں کو روانگی کا حکم دے دیا۔ چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے چل پڑے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مولیٰ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ میں چھوڑا تاکہ وہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو مقام سرف پر لے آئیں۔

عمرۃ القضاء کے موقع پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاء کی اخلاقی، روحانی، معاشرتی لحاظ سے منزہ پاکیزہ زندگیوں کے مظاہرے نے کفارو مشرکین مکہ کو باور کرادیا تھا کہ اسلام حقیقتاً ایسا دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اور جو اس کا پیروکار بن جاتا ہے، وہ نہ صرف اپنی ذات کی بلکہ دوسروں کی کردار سازی بھی بطریق احسن سرانجام دے سکتا ہے۔ آنکھوں دیکھے واقعات کو جھٹلانا کسی کے بس کا روگ نہ تھا اس کا نتیجہ جو منطقی طور پر نکل سکتا تھا، وہ یہی تھا کہ وہ دلی طور پر اس دین حقہ اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین کے معترف ہوچکے تھے۔

ان اثرات کے علاوہ وہ جن کا اب شکار تھے ان کے لئے ایک بات توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور وہ ختم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنا تھی۔ انہیں اپنے وہ کرتوت یاد آرہے تھے جو انہوں نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روا رکھے تھے، ان کا جینا دوبھر کردیا تھا، گھاٹی میں محبوس ہونے پر مجبور کردیا تھا اور آج سے سات سال قبل خفیہ طور پر ہجرت کرجانے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ رہا تھا۔ آج وہی ہستی انکے شہر کی ایسی خاتون کو بیاہ کر ساتھ لے جارہی تھی جس کے قریش کے اکثر معزز خاندانوں سے نہایت قریبی رشتے کے تعلقات تھے اور وہ چشم تصور سے دیکھ رہے تھے کہ آج نہیں تو کل حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے عزیز و اقارب بھی وابستگان اسلام میں شامل ہوجائیں گے۔ یہی وہ سوچ اور فکر تھی جو انہیں مضطرب و بے چین کئے ہوئے تھی اور وہ کرب کے دہکتے انگاروں پر لوٹ رہے تھے، ان کے لئے یہ منظر سوہان روح سے کم نہ تھا کہ جس ہستی کو وہ خانہ کعبہ میں اپنے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھے، آج وہی عظیم و عالی مرتبت ہستی اپنے ہزاروں پیروکاروں کے ہمراہ اسی مقدس شہر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جہاں چاہتے، تشریف لے جاتے تھے جبکہ اس شہر کے مکیں اپنے گھروں سے دور ٹیلوں اور پہاڑوں پر خیمہ زن تھے۔

اس کرب انگیز کیفیت کی وجہ سے قریش مکہ کی طرف سے مختلف قسم کا ردعمل ظاہر ہوا۔ ایک جماعت وہ تھی جو اس انقلاب زمانہ کے اسباب و علل پر تعمق کرنے کی بجائے جذبات سے کام لے رہی تھی جس کا وہ برملا اظہار کررہی تھی اور وہ ناملائم لفظ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استعمال کررہی تھی اور اس نے ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہے۔ یہ الفاظ جب حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ نے سنے تو انہیں سخت رنج ہوا لہذا ان لوگوں کو مخاطب کرکے انہوں نے فرمایا:

تم کیا چاہتے ہو؟ اس جماعت کے چند سرپھروں نے جنہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا، حضرت ابو رافعرضی اللہ عنہ کی یہ بات سنی تو منتشر ہوگئے۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی محبوب کبریا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی مکہ مکرمہ میں جہاں انقلاب بپا کرنے کا موجب بنی وہاں اس کے مثبت اثرات نجد کے علاقے میں بھی ظاہر ہوئے اور وہ یہ تھے کہ اہل نجد کے ساتھ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت داری قائم ہوگئی تھی جس کے بعد ان کے لئے دشمنی و مخالفت کی روش پر قائم رہنا ممکن نہ رہا اور اس میں نمایاں حد تک تبدیلی آگئی۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس امر کا یقین تھا کہ عمرہ قضا نے قریش اور باقی تمام اہل مکہ کے دلوں پر گہرا اثر کیا ہے اور جلد ہی اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا لہذا تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ مکہ سے واپسی کے تھوڑے ہی دنوں بعد (حضرت) خالد بن ولید(رضی اللہ عنہ) جو قریش کے مشہور شہسوار تھے، انہوں نے ایک دن اپنے حلقہ احباب میں کہا:

’’ہر دانش مند شخص پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ساحر ہیں نہ شاعر اور نہ مجنون، ان کی باتیں اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں لہذا ہر عقل مند کا فرض ہے کہ وہ ان کی اطاعت و اتباع کرے‘‘۔

عکرمہ بن ابوجہل نے یہ بات سنی تو پریشان ہوگیا، وحشت اس کے چہرے پر نمایاں ہوگئی اور کہا: اے خالد! تو صابی ہوگیا ہے۔ (حضرت) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا: صابی نہیں بلکہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ عکرمہ اور بھنایا۔ بولا: قریش میں سے جس شخص کی زبان سے ایسے الفاظ کی توقع نہ تھی، وہ تو تھا۔ (حضرت) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: آخر اس کا سبب؟ عکرمہ گویا ہوا: کیونکہ پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرے باپ کو زخمی بھی کیا اور ذلیل و خوار بھی اور جنگ بدر میں تیرا چچا اور اس کا بیٹا مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے۔ واللہ اگر تیری جگہ میں ہوتا تو ہرگز اسلام قبول نہ کرتا اور نہ اس قسم کے الفاظ میرے منہ سے نکلتے تو نہیں جانتا کہ قریش اس سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔

حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے عکرمہ بن ابوجہل کی بات سنی تو فرمایا: یہ معاملہ ایام جاہلیت کی عصبیت اور حمیت پر مبنی ہے لیکن اب تو حقیقت مجھ پر آشکارا ہوچکی ہے، میں نے دل و جان سے اسلام کو سینے سے لگالیا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چند گھوڑے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کردیئے تھے اور اپنے قبول اسلام کی اطلاع بھی بھجوادی تھی جب اس کی اطلاع ابوسفیان کو ہوئی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بلوا بھیجا اور پوچھا: جو افواہیں تیرے متعلق گرم ہیں، کیا سچ ہیں؟ ہاں! حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور پھر بولے: جسے یہ پسند نہیں وہ بے شک خفا ہوجائے۔ یہ سنا تو ابوسفیان ان پر ٹوٹ پڑا مگر عکرمہ بن ابوجہل نے جو وہاں موجود تھا، اسے روکا اور کہا:

اے ابوسفیان! تمہیں جو خدشہ ہے، وہی مجھے بھی ہے ورنہ میں بھی وہی بات کہتا جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہی ہے اور میں بھی اسلام قبول کرلیتا۔ ابوسفیان نے سنا تو عکرمہ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ عکرمہ پھر اس سے مخاطب ہوا: تم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس عقیدے کی بناء پر جو اس نے اختیار کیا ہے، قتل کردینا چاہتے ہو؟ ہاں! ابوسفیان نے کہا۔ یہ بات ہے تو سن لو شاید تمہیں معلوم نہیں کہ قریش کے تمام لوگوں کا زاویہ نظر بدل چکا ہے اور وہ بھی کچھ اسی قسم کے خیالات دلوں میں لئے بیٹھے ہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ ایک سال بھی گزرنے نہ پائے گا کہ تمام اہل مکہ اس عقیدے کے پیرو ہوجائیں گے۔

اس واقعہ کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوگئے اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ ان کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور کعبے کے پاسبان حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ ان کی وجہ سے اور بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے جس سے اسلام کی قوت و شکوہ میں بہت اضافہ ہوا۔ ان باتوں سے ہر شخص سمجھ رہا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب مکہ مکرمہ کے دروازے ہمیشہ کے لئے مسلمانوں پر کھل جائیں گے۔ یہ تھے وہ دور رس نتائج جو عمرہ قضا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کی وجہ سے مرتب ہوئے۔

جب تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے عمرہ قضا کے بعد روانہ ہوئے تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو چند دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں چھوڑ دیا تھا کہ وہ بعد میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو لے کر قافلے سے جاملیں۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے در اقدس کی طرف چل پڑے۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کی گاڑی جو دوسرے شوہر کی وفات پر بیوگی کے مقام پر آکر رک گئی تھی، حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انہیں زوجیت میں قبول کرنے کی وجہ سے پھر متحرک ہوگئی تھی لیکن اب اس گاڑی کا رخ جس منزل کی طرف تھا اس سے بڑھ کر کوئی دوسری منزل عظیم و اعلیٰ نہیں ہوسکتی تھی۔ انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زندگی میں دو حادثات جو طلاق اور بیوگی کی شکل میں نمودار ہوئے تھے، ان کا انجام اس قدر خوب صورت اور حسین ہوگا اور وہ ام المومنین کے مرتبہ پر فائز ہوں گی۔ ام المومنین ایسا مقدس و اعلیٰ لقب جس کے مدمقابل تمام القابات کوئی معنی نہیں رکھتے اس کے نتیجے میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف اس کارگہ عالم میں آقائے نامدار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوگی بلکہ اخروی زندگی میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت و ہم نشینی حاصل ہوگی۔ اب وہ زوجہ رسول، ام المومنین اور دوسری امہات المومنین کی صف میں شامل تھیں جن کا احترام اور عزت کرنا ہر مسلمان پر لازم و فرض ہے اور جو ان کا گستاخ و بے ادب ہے، وہ دائرہ بارگاہ خداوندی و مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر ہے۔

ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی زیست کی ناؤ ایک ایسے کنارے پر جاکر لگ گئی تھی جہاں صبح و شام اللہ عزوجل کی رحمتوں اور نوازشوں کا نزول ہوتا تھا اور ہورہا ہے یہاں ہر طرف نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، حسن ہی حسن تھا جو حد نظر تک بکھرا ہوا تھا، ہرسو خوشبو ہی خوشبو نے مہکار مچا رکھی تھی اور نظر نواز رنگ موجود تھے اور یہ صرف اور صرف راحت انس و جن، ابد قرار، رسول عربی، تاجدار کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن اطہر کے ساتھ وابستہ ہونے کی برکت تھی۔

یار ب العالمین! یارب رحمۃ للعالمین! میں تیرا کس منہ سے اور کس طرح شکر ادا کروں کہ تو نے مجھے جس نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا ہے اس سے بڑھ کر میرے لئے اور کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔

وہ سوچنے لگیں۔ چہرہ اقدس پر نور تہہ در تہہ پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ گھر میں تشریف فرما تھے کہ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رافع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا کیونکہ وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرستادہ تھے، انہیں عزت سے بٹھایا اور تواضع کی۔

فرمان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ان کی امانت ام المومنین سیدہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو لینے حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچادوں۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ نوید اپنی زوجہ محترمہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کو سنائی تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کی فوراً تیاریاں شروع کردیں، وہ اپنی بہن کو دلہن بنانے لگیں، وہ انہیں سجاکر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجنا چاہتی تھیں اس وقت ان کی دوسری بہنیں بھی موجود تھیں۔

تمہیں بے حد مبارک ہو میمونہ (رضی اللہ عنہا)! جس مقدس ہستی کے دامن کے ساتھ تم بندھ گئی ہو اس سے بڑی اور عظیم اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

ایک بہن نے کہا۔ تم نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راحت و آرام کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔