ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہا

نواز رومانی

ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چھٹے سال نبوت میں نور اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور اسی دوران ان کے تمام اہل خانہ اس دولت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہا اس منزل میں قدم رکھ چکی تھیں جبکہ شادی کردینی چاہئے۔ چنانچہ بیٹی کے رشتے کے لئے ان کی نظر انتخاب حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ پر پڑی۔ چنانچہ دونوں کی شادی کردی گئی وہ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگے۔

اسلام اور کفر کی پہلی مڈبھیڑ میدان بدر میں ہوئی اس دن رمضان المبارک کی سترہ تاریخ اور 2سن ہجری تھا۔ اس غزوہ میں حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے، بڑی پامردی و جوانمردی سے دشمنوں کے خلاف لڑے اور خوب لڑے، دشمن کو مارا بھی اور خود بھی زخم کھائے اور اتنے زخم کھائے کہ چور چور ہوگئے۔ اسی حالت میں انہیں واپس مدینہ منورہ لایا گیا جہاں انہوں نے غزوہ بدر میں کھائے ہوئے زخموں کی بدولت جام شہادت نوش کیا۔

جب حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کی رفاقت اور محبت سے محروم ہوئیں اور بیوگی کی چادر اوڑھی تو اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی جب عدت کی مدت ختم ہوئی تو لامحالہ اپنی جوان بیٹی کے عقد کی فکر ان کے والد گرامی حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کو ستانے لگی۔ تمنا تھی کہ جلد سے جلد اس کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے اور وہ اس تلاش میں تھے کہ کوئی قابل اعتماد رفیق زندگی اس کے لئے مل جائے۔ وہ اسی تذبذب میں تھے کہ ان کا خیال معاً حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف گیا۔ ’’میرا خیال ہے مجھے عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کرنی چاہئے‘‘۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی ان کے دل و دماغ میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور پھر وہ حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہ اس وقت گھر پر ہی تھے، بڑے تپاک اور محبت سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ملے۔ ایک غرض تمہارے پاس لے آئی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گفتگو کا آغاز کیا: کہو: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ تم جانتے ہو حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوچکی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے شادی کرلو۔ مجھے چند دن دو، سوچ کر جواب دوں گا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔

کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملے، انہیں یقین تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ مثبت جواب دیں گے۔ کیا سوچا ہے تم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ فی الحال میرا نکاح کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

یہ جواب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی توقع کے خلاف تھا۔ پھر وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ دونوں دوست بڑے پیار اور محبت سے ملے، تھوڑی دیر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے سکون حاصل کرتے رہے اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کسی کام سے آئے ہو؟ ہاں۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہو: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری توجہ ان کی جانب مرکوز کردی۔ تم تو جانتے ہو حفصہ(رضی اللہ عنہا) بیوہ ہے۔ بالکل جانتا ہوں۔ تم اس کو اپنے حبالہ عقد میں لے لو۔ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے کہا اور غور سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنے لگے اور کان ان کی آواز سننے کے لئے منتظر تھے کہ کیا جواب دیتے ہیں مگر انہوں نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اسی طرح خاموشی میں کچھ وقت گزر گیا اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اٹھ کر چلے گئے انہیں اپنے دوست اور دینی بھائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خاموشی پر سخت تعجب تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ ایسا رویہ اختیار کریں گے۔ دماغ میں پھر سوچوں کا ہجوم ہونے لگا اور نظروں کے سامنے اور کئی چہرے گھومنے لگے، وہ سوچ رہے تھے:

اب کون ہے جس سے حفصہ (رضی اللہ عنہا) کی بات کروں۔ بیٹی کے مستقبل نے انہیں سوچوں کے گہرے پانیوں میں اتار رکھا تھا۔ ایک دن وہ بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے حفصہ (رضی اللہ عنہا) سے شادی کے لئے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا، ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے اس ضمن میں بات کی تو انہوں نے چپ سادھ لی۔

اپنی مراد کی وجہ پریشانی معلوم ہوئی تو حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فکر نہ کرو حفصہ (رضی اللہ عنہا) کی شادی اس شخص کے ساتھ ہوگی جو (حضرت) ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اور (حضرت) عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) سے افضل ہے اور عثمان (رضی اللہ عنہ) کی شادی اس خاتون سے ہوگی جو حفصہ (رضی اللہ عنہ) سے بہتر ہے۔

اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اطمینان قلب ہوگیا۔ پھر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام و جانثار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تم اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کردو‘‘۔

اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی تھی اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کا نکاح حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بعوض چار سو درہم کردیا اور وہ حرم نبوی میں داخل ہوکر ام المومنین کے اعزاز سے مشرف ہوئیں۔ یہ شادی شعبان 4 ہجری میں ہوئی اس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور قریب کردیا اور ان کا قبیلہ عدی جس کے پاس سفارت کی ذمہ داریاں تھیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ مصاہرت میں منسلک ہوگیا۔

جب حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت سے سرفراز ہوئیں تو دو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پہلے سے موجود تھیں۔ ایک سیدہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اور دوسری سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ مسجد نبوی سے متصل ہی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکانات تھے جب رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی خاتون کو شرف زوجیت سے نوازتے تو وہ اپنا مکان خالی کردیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے یکے بعد دیگرے تمام مکانات اپنے محبوب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نذر کردیئے تھے۔ ان میں چار مکان تو کچی اینٹوں کے بنے ہوئے تھے اور پانچ مکان گارے اور کھجور کی شاخوں کے تھے۔ شادی کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو جس مکان میں رکھا گیا، وہ مشرقی جانب تھا۔ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے باہمی قریبی تعلقات کی وجہ سے امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی آپس میں گاڑھی دوستی تھی اور وہ ایک دوسری کے بہت قریب تھیں۔

امہات المومنین پر خصوصاً عورتوں کے مسائل کے سلسلہ میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی لہذا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرمائی۔ اسلام نے عورتوں کو جو درجہ دیا قرآن مجید میں ان کے متعلق آیات نازل ہوئیں تو ان کی قدرو منزلت معلوم ہوئی۔ جہاں ان کے حقوق و تحفظ کی خاطر بے شمار اصلاحات کیں، وہیں رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم سے حسن سلوک کا ایک مثالی معیار قائم کیا، انہیں رائے کی آزادی کا پورا پورا حق دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں وہ اپنی ضروریات اور اپنے مطالبات پوری بے باکی اور بے تکلفی سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیا کرتی تھیں اور معاشرتی اور دیگر معاملات میں اپنی رائے کا اظہار آزادی سے کردیا کرتی تھیں۔

ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں قدرے تیزی تھی لہذا بعض اوقات گھریلو ماحول میں معمولی سی تلخی پیدا ہوجاتی تھی لیکن اس مبارک گھر میں جلد ہی یہ صورت حال محبت و شفقت اور ملائمت و نرمی کی شیرینی میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اللہ کی قسم! ہم عہد جاہلیت میں عورتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور دبا کر رکھتے تھے جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ بھی ملے جن پر ان کی بیویاں حاوی تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں ان سے سیکھنے لگیں۔ ایک دفعہ کسی کام سے متعلق کسی سے مشورہ کررہا تھا، میری بیوی کہنے لگی:

ایسا اور ایسا کرلو۔ میں نے کہا: تمہیں اس بات سے کیا واسطہ؟ بیوی نے جواب دیا: تعجب ہے کہ آپ اپنے کام میں کسی کی مداخلت گوارا نہیں کرتے حالانکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تکرار کرتی ہے جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنجیدگی کا باعث بنتی ہے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر سنبھالی اور سیدھا بیٹی حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر گیا، وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئی۔ میں نے پوچھا: بیٹی! کیا تم حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تکرار کرتی اور جواب دیتی ہو جو انہیں گراں گزرتی ہے۔

ہاں۔ بیٹی نے جواب دیا۔ کیا تم اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غضب سے نہیں ڈرتی ہو جو ایسا کرتی ہو؟ اور پھر میں نے اس سے کہا: اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی کوئی ایسی بات نہ کرنا جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا اور نہ ہی تم حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی ریس کرنا جو رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر نازاں ہیں۔

ام المومنین سیدہ حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیکر اخلاص، ایمان و ایقان میں پختہ، زہد و ریاضت میں ہمہ تن سرگرم، حب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غریق، وفاشعار، اطاعت گزار، متورع، شب بیدار، کثرت سے روزے رکھنے والی اور احکام دین کی بجا آوری میں پورا اہتمام کرنے والی خاتون تھیں۔ علاوہ ازیں آپ پڑھنا جانتی تھیں۔

ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصوں پر مشتمل کوئی کتاب کہیں سے مل گئی تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اس کو حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھنے لگیں، اس پر ارشاد فرمایا:

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرے موجود ہوتے ہوئے بھی تم میں حضرت یوسف علیہ السلام آجائیں تو مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جائو گے اور گمراہی کا راستہ اختیار کرلو گے حالانکہ تمام نبیوں میں سے تمہارا نبی میں ہوں اور تمام امتوں میں سے تم میری امت ہو۔

جب دیکھا کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے تو کتاب فوراً چھوڑ دی اور عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں آپ کو ناراض نہیں دیکھ سکتی۔

سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خاندان کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ نکتہ آفرینی، زور بیان اور فصاحت و بلاغت میں مشہور و معروف تھا اور یہ خصوصیات و اوصاف ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ورثے میں حاصل ہوئے تھے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں کماحقہ واقف تھے لہذا انہوں نے اپنی اس زوجہ محترمہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک صحابیہ حضرت شفاء بن عبداللہ عدیہ رضی اللہ عنہا کو جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھنا سکھائیں چنانچہ حضرت شفاء  رضی اللہ عنہا نے انہیں لکھنا سکھایا اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی بتایا لہذا بہت جلد انہوں نے لکھنے میں مہارت حاصل کرلی۔

آپ بڑے انہماک و توجہ سے اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات عالیہ سنا کرتی تھیں، انہیں سمجھتیں اور دل و دماغ میں محفوظ کرلیتی تھیں، نکتہ سنج بھی تھیں اور نکتہ آفریں بھی۔ اگر کبھی مسئلہ پر ذہن میں کوئی خیال ابھرتا یا اشکال پیدا ہوتا تو اس کو رفع کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لیتی تھیں اور اسے سمجھنے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے فوراً بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس خیال یا اشکال کو پیش کردیتی تھیں تاکہ وضاحت ہوجائے اور کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے سوالات بڑے تحمل سے سنتے اور ان کے جوابات دیتے۔ ایک مرتبہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو اہل ایمان غزوہ بدر اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے، وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ یہ ارشاد سننے کے بعد ذہن میں طرح طرح کے سوالات نے سر اٹھایا اور بہت غوروخوض کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ جب اس ارشاد کی تفسیر نہ کرسکیں تو عرض کیا:

فداک ابی وامی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! حکمت عطا ہو جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر اور بیعت رضوان کے اہل ایمان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

قرآن پاک وقفے وقفے سے نازل ہوا تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ کے دوران ہی اس بات کا اہتمام فرمادیا تھا کہ جونہی آیات مبارکہ نازل ہوتی تھیں، انہیں متعلقہ سورت میں شامل کرکے احاطہ تحریر میں لایا جاتا۔ دوسرے کاتبان وحی کے علاوہ یہ ذمہ داری سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بھی سپرد تھی کیونکہ وہ لکھنا سیکھ چکی تھیں لہذا سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق نازل شدہ آیت مبارکہ کو اپنے پاس موجود قرآنی نسخے میں درج کرلیتی تھیں۔ اہل سیر کے مطابق رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی قرآن مجید کے تمام کتابت شدہ اجزاء یکجا کراکے اپنی زوجہ اطہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوا دیئے تھے جو تاحیات ان کے پاس رہے۔

روایت ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق رجعی دی جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو بہت دکھ ہوا اور شدت غم سے سر پر مٹی ڈال لی اور کہنے لگے: اس کے بعد اب اللہ کی نگاہ میں عمر  رضی اللہ عنہ اور اس کی بیٹی (رضی اللہ عنہا) کی کوئی قدرو منزلت نہیں رہی۔ اور جب اس کی اطلاع سیدہ حفصہ بنت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ماموں عثمان، قدامہ اور پسران مظعون رضی اللہ عنہم کو ہوئی تو آئے، وہ ان کے سامنے رونے لگیں اور بولیں:

اللہ کی قسم! رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اکتا کر طلاق نہیں دی۔ اتنے میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پردہ کرلیا تو فرمایا: حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہا تھا کہ میں حفصہ (رضی اللہ عنہا) سے رجوع کرلوں کیونکہ وہ کثرت سے روزے رکھنے والی اور شب بیدار ہے اور یہ جنت میں میری زوجہ ہوگی۔

حضرت سیدہ حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمر 29 سال تھی، ساڑھے سات سال آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے محبوب شوہر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت و رفاقت میں گزارے۔

عہد عثمانی میں جب عجمیوں کی ایک کثیر تعداد داخل اسلام ہوئی تو قرآن حکیم کی کتابت (املاء)، تلفظ اور تلاوت میں اختلاف کی صورتیں پیدا ہوئیں تو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جو نسخہ قرآن تھا، اس کی نقول کراکر اپنی مہر کے ساتھ اپنی مملکت کے مختلف شہروں میں بھجوادیں تاکہ ہر جگہ ایک طرح کتابت و قرآت ہو اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رہے لہذا قرآن کی ترتیب و تدوین اور اس کی حفاظت کا سہرا بھی ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے سر ہے۔

زمانہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور سن 4۱ ہجری تک چشم فلک نے بڑے بڑے انقلابات دیکھے۔ اس وقت ام المومنین حضرت سیدہ حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک ۵9 برس تھی، آثار بتارہے تھے کہ اجل نے رخصتی کے لئے زندگی کے دروازے پر دستک دے دی ہے لہذا انہوں نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا، وہ آئے تو کہنے لگیں:

تمہیں یاد ہوگا ابا جان نے داعی اجل کو لبیک کہنے سے قبل چوتھائی حصہ مال کی میرے لئے وصیت کی تھی۔ یاد ہے۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں۔ یہ بھی علم ہوگا کہ ابا جان نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب میں وفات پائوں تو اس مال کو آل عمر میں تقسیم کردیا جائے۔ معلوم ہے۔ سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں۔ ام المومنین  رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لہذا غابہ میں جو مال اور جائیداد ہے اس کو فی سبیل اللہ صدقہ کردینا۔

بہن نے باپ کے ارشادات کے مطابق وصیت کی اور پھر چند دنوں کے بعد اچانک مدینہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہا سفر آخرت پر روانہ ہوگئی ہیں۔ یہ امیرالمومنین سیدنا حضرت امیر معاویہ ابن ابوسفیان  رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور ان دنوں مدینہ طیبہ کا گورنر مروان تھا۔ نماز جنازہ انہوںنے پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کاندھا دیا۔ ایک ہجوم تھا کہ جنازے میں شامل تھا، آخر مومنوں کی ماں کا مقدس جنازہ تھا۔ حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے بیٹے عاصم، سالم اور حمزہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم قبر میں اترے اور اس مقدس ہستی کے جسد پاک کو سپرد خاک کردیا۔

آپ رضی اللہ عنہا سے ساٹھ احادیث منقول ہیں جو انہوں نے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سماعت فرمائی تھیں۔ ان میں سے چار متفق علیہ ہیں، چھ صرف صحیح مسلم شریف میں ہیں اور باقی پچاس احادیث مختلف کتب میں ہیں۔ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

  1. موذن اذان دے کر بیٹھ جاتا تھا اور صبح شروع ہوجاتی تھی تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز باجماعت سے پہلے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
  2. رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانچ جاندار ایسے ہیں جن کے ہلاک کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں:
  • کوا
  • چیل
  • چوہا
  • بچھو
  • کٹکھنا کتا
  1. میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کرکے احرام کھول دیا ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کے بعد احرام نہیں کھولا؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جمالیا ہے اور اپنے قربانی کے جانور کے گلے میں قلاوہ ڈال رکھا ہے اس لئے میں جب تک قربانی نہ کرلوں، احرام نہیں کھول سکتا۔
  2. رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے تھے اور لباس بھی پہلے دائیں سمت سے پہنتے تھے، ان کے سوا دوسرے کام بائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔