نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کا صوفیانہ منہاج (قسط دوم)

آمنہ افضل

  1. ہنسی مذاق

حد سے زیادہ ہنسی مذاق برا اور ممنوع ہے مگر تھوڑا سا مذاق کرنے میں مضائقہ نہیں۔ بعض اکابر کا قول ہے کہ مزاح سے عقل سلب ہوجاتی ہے اور دوست الگ ہوجاتے ہیں۔

  1. یوسف بن اسباط کہتے ہیں: حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین برس تک نہ ہنسے۔ حضرت عطا سلمی چالیس برس تک نہ ہنسے۔
  2. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جو گناہ کرکے ہنستا ہے وہ دوزخ میں روتا ہے۔
  3. حضرت محمد بن مکند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میری ماں نے مجھے نصیحت کی کہ لڑکوں سے ہنسی مذاق نہ کرنا ورنہ تو ان کی نظروں میں بے قدر ہوجائے گا۔
  4. حضرت سعد بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: آپ نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ شریف آدمی سے ہنسی نہ کرنا کہ تجھ سے وہ دشمنی کرے گا اور کمینے سے ہنسی بھی نہ کرنا، وہ تجھ پرجرات کرنے لگے گا۔
  5. حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اللہ سے ڈرو اور ہنسی سے کوسوں دور بھاگو۔ اس سے کینہ بڑھتا ہے اور انجام برا ہوتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کیا کرو۔ اگر گراں معلوم ہو تو اولیاء کے حالات بیان کیا کرو۔

آج صوفیاء اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمارہے ہیں تاکہ ہم کسی کی دل آزاری نہ کریں اور معاشرے میں پُرسکون ماحول قائم رہے۔

  1. وعدہ خلافی

زبان وعدہ کے لئے ایک پیش قدمی کرتی ہے مگر نفس پر پورا کرنا ناگوار ہوتا ہے تو یہ وعدہ جھوٹا ہوجاتا ہے اور یہ نفاق کی علامت ہے۔ دور حاضر میں نوجوان نسل کے اندر جھوٹے وعدے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ.

’’اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو‘‘۔

(المائدة: 1)

حضرت جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ آپ سے کسی نے ایک جگہ پہنچنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ شخص بھولے سے وہاں بائیس دن نہ آیامگر آپ اس کے انتظار میں وہاں اس کا انتظار کرتے رہے‘‘۔

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص کسی سے وعدہ کرے اور وعدہ پر نہ آئے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں تک انتظار کرے کہ نماز آئندہ کا وقت آجائے‘‘۔

آج نوجوان نسل اس عادت کا شکار ہوتی جارہی ہے اور ان اقوال کی روشنی میں نوجوانوں کو اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔

  1. جھوٹ

انسان کے سارے اخلاق میں سب سے زیادہ بری اور مذموم عادت جھوٹ کی ہے۔ امر واقعہ کے خلاف کسی قول و فعل کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے یہ بری عادت ہے۔ ہمارے تمام اعمال کی بنیاد اس پر ہے کہ وہ واقعہ کے مطابق ہوں جبکہ جھوٹ اس کی ضد ہے کیونکہ یہ برائی کی ہر قسم کی قولی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ بولنا عیب فاحش اور گناہ عظیم ہے۔ جس کی مذمت قرآن میں اس طرح موجود ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

الکذب ينقص الرزق.

’’جھوٹ کم کرتا ہے روزی کو‘‘۔

ہمارے اسلاف جھوٹ کی مذمت کرتے تھے اور کلیۃً پرہیز کرتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

’’اللہ کے نزدیک بڑی خطا جھوٹی زبان ہے اور سب سے بڑی قیامت کے دن پشیمانی ہے‘‘۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’جب سے مجھے پاجامہ باندھنے کی تمیز ہوئی، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔

حضرت خالد بن صبیح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’آپ سے کسی نے پوچھا کہ ایک دفعہ کے جھوٹ سے بھی آدمی جھوٹا کہلاتا ہے، آپ نے فرمایا: ہاں۔

ولید بن عبدالملک فرماتے ہیں:

’’ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ولید بن عبدالملک سے کچھ کہا۔ اس نے کہا کہ آپ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بخدا جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ سے جھوٹے آدمی کو عیب لگتا ہے، تب سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔

حضرت مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی چیز کو ہمارا دل چاہتا ہو اور ہم کہہ دیں کہ بھوک نہیں، کیا یہ بھی جھوٹ ہے؟ آپ نے فرمایا: جھوٹ جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے حتی کہ اگر تھوڑا سا جھوٹ ہوگا تو وہ تھوڑا لکھا جائے گا‘‘۔

ان احوال و اقوال صوفیانہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر اس بیماری سے نجات حاصل کی اور کس عمر میں جھوٹ کو ترک کردیا۔ اللہ تعالیٰ نوجوان نسل کو بھی اس بری بیماری سے نجات دلائے۔

  1. غیبت

غیبت سے مراد کسی کو پیٹھ پیچھے برا بھلا کہنا ہے۔ کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات کہنا ہے کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو وہ اس کا برا محسوس کرے۔ اس میں نقصان بدن کا ذکر ہو، نسب کا خلق کا، قول و فعل کا، دین کا، دنیا کا، کپڑے کا، گھر اور سواری وغیرہ سب غیبت میں شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس برائی کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:

وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَيُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ يَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُ ط وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ.

’’اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

(الحجرات: 12)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’جب تمہار ادل چاہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرو تو اپنے عیب کو یاد کرو‘‘۔

حضرت امام زین العابدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’آپ نے کسی سے سنا کہ وہ دوسروں کی غیبت کرتا ہے۔ تو آپ نے فرمایا خبردار غیبت مت کرنا، یہ ان لوگوں کا سالن ہے جو انسانوں میں سے کتے ہیں‘‘۔

حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو منہ سے نکلا کہ وہ کالا ہے پھر کہا استغفراللہ میں نے تو اس کی غیبت کردی‘‘۔

غیبت سننا اور تصدیق کرنا بھی داخل غیبت ہے بلکہ جو چپ کرکے سنا کرے، وہ بھی شریک غیبت ہے۔

المستمع احدالمغتابين.

’’غیبت سننے والا بھی کرنے والوں کا حصہ ہے‘‘