شبِ برات۔۔۔ رحمتوں، برکتوں والی رات

محمد احمد طاہر

شعبان المعظم قمری سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کے فضائل پیغمبر اسلام حضور نبی مکرم علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے دلنشیں انداز میں بیان فرمائے ہیں چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

الشعبان شهری

’’شعبان میرا مہینہ ہے‘‘۔

مذکورہ حدیث مبارکہ سے ماہ شعبان کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ جس مہینے کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا مہینہ فرمادیں، اس کی عظمت اور شان کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔

(الجامع الصغير، رقم الحديث 4889)

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے: رجب بیج بونے کا مہینہ ہے، شعبان آبیاری جبکہ رمضان اس کا پھل کھانے کا مہینہ ہے۔

اس ماہ مقدس کی عظمتوں اور فضیلتوں میں یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو نہایت رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں والی ہے۔ یہ رات شعبان المعظم کی پندرھویں شب ہے۔ اس رات کو نصف شعبان کی رات بھی کہا جاتا ہے۔

شب برات کے دیگر نام

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مکاشفۃ القلوب میں اس شب کے اور نام بھی درج فرمائے ہیں۔

  1. لیلۃ التکفیر (گناہوں کی معافی کی رات)
  2. شب حیات
  3. شب مغفرت
  4. شب آزادی
  5. لیلۃ الشفاعۃ (شب شفاعت)
  6. لیلۃ القسمہ والتقدیر (تقسیم اور تقدیر کی رات)

اسی طرح صاحب کشاف فرماتے ہیں: اس رات کے چار نام ہیں۔

  1. لیلۃ المبارکہ (برکت والی رات)
  2. لیلۃ البراۃ (نجات پانے کی رات)
  3. لیلۃ الصک (پروانہ لکھے جانے والی رات)
  4. لیلۃ الرحمہ (رحمت والی رات)

شب برات کی خصوصیات

بہت سے مفسرین نے سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 (انا انزلناه فی ليلة مبارکة) کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:

  1. اس رات میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔
  2. اس رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔
  3. اس رات میں رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
  4. اس رات میں شفاعت کا اہتمام ہوتا ہے۔
  5. اس رات بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔

(زمخشری، الکشاف، 4: 272 تا 273)

شب برات کی وجہ تسمیہ

اس مبارک رات کو شب برات کہا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ شب کا معنی رات اور برات کا معنی نجات حاصل کرنا، بری ہونا ہے۔ عربی میں اسے لیلۃ البرات کہا جاتا ہے۔ لیلۃ بمعنی رات جبکہ البرات کا معنی نجات اور چھٹکارا کے ہیں۔ علماء کرام بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ رات گناہوں سے چھٹکارے اور نجات پانے کی رات ہے بایں وجہ اسے شب برات کہا جاتا ہے۔

شب برات قرآن کی روشنی میں

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 میں اس مبارک رات کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:

انا انزلناه فی ليلة مبرکة

’’بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) ایک بابرکت رات میں اتارا ہے‘‘۔

(الدخان، 44: 3)

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں لیلۃ مبارکۃ (بابرکت رات) سے مراد کون سی رات ہے۔ اس بارے علماء کرام کے دو اقوال ہیں۔ صاحب ضیاء القرآن نے دو اقوال اسی آیت کے تحت نقل کئے ہیں:

  • حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، قتادہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے کیونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔
  • حضرت عکرمہ اور ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ پندرہ شعبان کی رات تھی۔

اسی طرح صاحب خزائن العرفان رقمطراز ہیں:

اس رات سے مراد شب قدر مراد ہے یا شب برات۔ اس شب میں قرآن پاک بتمام لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا۔ پھر وہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑ اتھوڑا لے کر نازل ہوئے۔ اس شب کو شب مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس میں خیرو برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔

شب برات احادیث کی روشنی میں

  • حضرت امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عثمان بن ابی العاص  رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا کان ليلة النصف من شعبان فاذا مناد هل من مستغفر؟ فاغفرله، هل من سائل؟ فاعطيه، فلايسئل احد ا عطی الا زانية بفرجها اومشرک.

’’جب نصف شعبان کی شب آتی ہے تو ندا کرنے والا پکارتا ہے: کوئی ہے جو گناہوں سے مغفرت چاہے؟ میں اسے معاف کردوں۔ کوئی مانگنے والا ہے کہ اسے عطا فرمائوں؟ پس کوئی سائل ایسا نہیں مگر اسے ضرور دیا جاتا ہے، بجز زانیہ عورت یا مشرک کے‘‘۔

(بيهقی، شعب الايمان، 3: 383، رقم الحديث: 3836)

  • حضرت امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جناب سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا کانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فان الله ينزل فيها لغروب الشمس الی سماء الدنيا، فيقول: الا من مستغفرلی؟ فاغفرله، الامسترزق؟ الا مبتلی فاعافيه، الاکذا الا کذا حتی يطلع الفجر.

’’جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور فرماتا ہے: کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ اسی طرح صبح تک ارشاد ہوتا رہتا ہے‘‘۔

(ابن ماجه، السنن، رقم: 1388)

  • حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نصف شعبان کی رات رحمت خداوندی آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک کے یا جس کے دل میں کینہ ہو۔

(شعب الايمان، رقم: 3827)

شب برات اور معمول مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں نے ایک رات سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری حق تلفی کریں گے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ!( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الله تبارک وتعالیٰ ينزل ليلة النصف من شعبان الی سماء الدنيا فيغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب.

’’بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخشش دیتا ہے‘‘۔

(سنن الترمذی، رقم الحديث: 739)

شب برات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ماہ شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے، اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزور و مسکین لوگ ماہ رمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں، حکام قیدیوں کو طلب کرکے جس پر ’’حد‘‘ (سزا) قائم کرنا ہوتی، اس پر حد قائم کرتے۔ بقیہ کو آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے اد اکردیتے، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے اور رمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔

(غنية الطالبين، جلد1، ص246)

حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کا معمول

حضرت امام طائوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی علیھما السلام سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں:

ایک حصہ میں اپنے نانا جان پر درود شریف پڑھتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتا ہوں کہ اس نے حکم دیا:

يا يها الذين امنوا صلو عليه وسلموا تسليما.

’’اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب بھیجا کرو‘‘۔

(الاحزاب، 33: 56)

رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے حکم فرمایا:

وما کان الله معذبهم وهم يستغفرون.

’’(اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا کہ وہ (اس سے)مغفرت طلب کررہے ہوں)

(الانفال، 8: 33)

اور رات کے تیسرے حصہ میں نماز پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے:

واسجد واقترب.

’’اور (اے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم!) آپ سربسجود رہئے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جایئے‘‘۔

(العلق، 96: 19)

میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہوگا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے پندرہ شعبان کی رات کو زندہ کیا اس کو مقربین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں میں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فاما ان کان من المقربين.

’’پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقربین میں سے تھا‘‘۔

(الواقعه، 56: 88)

(توبه و استغفار، طاهرالقادری، ص:362، 361)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا معمول

امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شعبان المعظم کی پندرھویں شب عبادت میں مصروف تھے۔ سر اٹھایا تو ایک سبز پرچہ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا:

هذه براءة من النار من الملک العزيز لعبده عمر بن عبدالعزيز.

’’یعنی خدائے مالک و غالب اللہ جل جلالہ کی طرف سے یہ جہنم کی آگ سے برات نامہ ہے جو اس کے بندے عمر بن عبدالعزیز کو عطا ہوا ہے‘‘۔

(تفسير روح البيان، ج8، ص402)

مندرجہ بالا تمام روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے نصف شعبان المعظم کی یہ عظیم مقدس شب ہمارے لئے اللہ سبحانہ کی طرف سے رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کی نوید سعید لے کر آتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس شب کی برکتوں کو سمیٹیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

بیان چند اوراد و وظائف بھی نقل کئے جارہے ہیں تاکہ ہم مزید اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے سزاوار ٹھہریں۔

رحمت خدا بہانہ می جوید، بہا نمی جوید

’’اللہ تعالیٰ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے، بہا (قیمت) نہیں مانگتی‘‘۔

شب برات کے اورادو وظائف

اس شب میں عبادت کی نیت سے غسل کرکے دو رکعت نفل تحیۃ الوضو پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور سورۃ اخلاص تین بار پڑھیں اور مغرب کے وقت ہی سے مشغول ہوجائیں تاکہ نامہ اعمال کی ابتداء اچھے کاموں سے ہو۔

  1. غروب آفتاب سے پہلے چالیس بار لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ چالیس برس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
  2. اس شب میں قرآن شریف، درود شریف، صلوٰۃ التسبیح و دیگر نوافل ادا کریں۔
  3. 8 رکعت نفل نماز ادا کریں۔ ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص پچیس بار پڑھیں۔ (ماخوذ از فضیلت کی راتیں)
  4. جو شخص شب برات کو دو رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک بار آیت الکرسی اور پندرہ بار سورہ اخلاص پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں مکان عطا فرمائے گا۔
  5. آٹھ رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھیں اور ان کا ثواب حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے حضور پیش کیا جائے تو حضرت سیدہ فرماتی ہیں میں ایسے شخص کو جنت کی ضمانت دیتی ہوں۔
  6. اس رات قبرستان جانا سنت ہے۔
  7. دس رکعتیں نفل پڑھے اور ہر رکعت میں سو سو مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام حاجتیں پوری فرمادے گا اور اس کے گناہ معاف فرمادے گا۔ (روح البیان)
  8. سو رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیں ہر رکعت میں گیارہ گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیں اسے صلاۃ الخیر کہتے ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے تین صحابہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص یہ نماز پڑھے اللہ تعالیٰ اس پر ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے اور ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے۔