یرت سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا

فاطمہ حسین

تعارف

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جن کا معروف نام فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی تھیں۔تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروزجمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دو بیٹیاں زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد گرامی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔

آپ کی تربیت خاندانِ رسالت میں ہوئی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا، ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، ام الفضل رضی اللہ عنہا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کی زوجہ)، ام ہانی رضی اللہ عنہا (حضرت ابوطالب کی ہمشیرہ)، اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (زوجہ جعفرطیار رضی اللہ عنہا)، صفیہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی تربیت و پرورش کے لیے فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیا۔ جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو ان کی تربیت کی ذمہ داری دی۔

القاب اور کنیت

آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد  نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ (سردار) ہیں۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔

حالاتِ زندگی

بچپن: حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ابتدائی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں برداشت کی۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو کہتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔

ان کے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ہوا۔ ربیع الاول میں بعثت کی دس تاریخ کو ہجرت ہوئی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو 500 درھم اور اونٹ دے کر مکہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا چنانچہ وہ کچھ دن بعد مدینہ پہنچ گئیں۔ بعض دیگر روایات کے مطابق انہیں حضرت علی علیہ السلام بعد میں لے کر آئے۔ 2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں رسول اللہ نے حضرت ام سلمیٰ سے عقد کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کی تربیت میں دے دیا۔

حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مودب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ابھی کم سن تھیں تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔آنحضرت نے دیکھا تو کہا کہ بیٹی ادھر آو۔ جب آپ قریب آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے بھوکوں کو سیر کرنے والے پروردگار، اے پستی کو بلندی عطا کرنے والے مالک، فاطمہ کے بھوک کی شدت کو ختم فرما دے۔ اس دعا کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چہرے کی زردی مبدل بسرخی ہو گئی، چہرے پر خون دوڑنے لگا اور آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔خود حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔

شادی: بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ نے کی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود خواہش کا اظہار فرمایا تو حضور  نے قبول فرمالیا اور کہا: مرحباً و اھلاً۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔ کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درھم میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی اور بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہی زرہ تحفۃً انہیں لوٹادی۔ یہ رقم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔

جہیز: جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ عنہا کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔ یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔

رخصتی:

نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ سلام اللہ علیہا کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کے اردگرد چکر لگانے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں اتارا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاندان عبدالمطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات نے جو رجز پڑھے وہ درج ذیل ہیں:

حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کا رجز: اے پڑوسنو! چلو اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرو۔ اور جن پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرکے اللہ نے احسان فرمایا ہے اسے یاد کرو۔ آسمانوں کے پروردگار نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور ہر طرح کا عیش و آرام دیا۔ اے پڑوسنو۔ چلو سیدہ زنانِ عالم کے ساتھ جن پر ان کی پھوپھیاں اور خالائیں نثار ہوں۔ اے عالی مرتبت پیغمبر کی بیٹی جسے اللہ نے وحی اور رسالت کے ذریعے سے تمام لوگوں پر فضیلت دی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجز:اے عورتو! چادر اوڑھ لو اور یاد رکھو کہ یہ چیز مجمع میں اچھی سمجھی جاتی ہے۔ یاد رکھو اس پروردگار کو جس نے اپنے دوسرے شکر گذار بندوں کے ساتھ ہمیں بھی اپنے دینِ حق کے لیے مخصوص فرمایا۔ اللہ کی حمد اس کے فضل و کرم پر اور شکر ہے اس کا جو عزت و قدرت والا ہے۔ فاطمہ زھرا رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کے چلو کہ اللہ نے ان کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ان کے لیے ایک ایسے پاک و پاکیزہ مرد کو مخصوص کیا ہے جو ان ہی کے خاندان سے ہے۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا رجز:اے فاطمہ! تم عالم انسانیت کی تمام عورتوں سے بہتر ہو۔ تمہارا چہرہ چاند کی مثل ہے۔ تمہیں اللہ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس شخص کی فضیلت کے ساتھ جس کا فضل و شرف سورہ زمر کی آیتوں میں مذکور ہے۔ اللہ نے تمہاری تزویج ایک صاحب فضائل و مناقب نوجوان سے کی ہے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ پس اے میری پڑوسنو۔ فاطمہ کو لے کر چلو کیونکہ یہ ایک بڑی شان والے باپ کی عزت مآب بیٹی ہے۔

شادی کے بعد: آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انہیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک غریب سے کردی گئی ہے۔ جس پر انہوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی کہ اے فاطمہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ  بابا جان میں اس پر راضی اور خوش ہوں۔

شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقہ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔ آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔

آپ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہابیمار پڑیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔

آپ رضی اللہ عنہا نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور پیچھے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔

اولاد: اللہ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ دو بیٹے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بیٹیاں زینب بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا و ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود رکھے تھے۔

واقعہ مباہلہ: مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے مسیحی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:

’’اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے بحث کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں‘‘۔

(سوره آل عمران آيت: 61)

اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گرگزیدہ بندوں کے ساتھ آئیں گے اور مباہلہ کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چادر میں لپیٹے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہے۔

ایام وصال مصطفی

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وصال سے قبل مرض وصال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ  نے پھر سرگوشی کی تو آپ رضی اللہ عنہا مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔

ایک اور روایت میں یحیٰ بن جعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ سال میں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل امین سے قرآن کا دور ہوتا تھا مگر اس دفعہ دو مرتبہ کیا گیا۔ اس سے مجھے بتایا گیا ہے کہ میرا وصال قریب ہے۔ میرے اہل میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر آپ غمگین ہوئیں تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم زنان اہلِ جنت کی سردار ہو؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہا مسکرانے لگیں۔

وفات

رسول اللہ  کا وصال ایک عظیم سانحہ تھا جو حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے لئے کوہ گراں ثابت ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد آپ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی۔ اس کی تاریخ 3 جمادی الثانی 11ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں جہاں پر ایک روضہ بھی بنا ہوا تھا جسے سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو شہید کردیا۔

احادیث میں فضائل

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔

حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں۔

ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہل بیت تجھ سے رجس کو دور کرے اور ایسے پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔