فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الٰہی

هٰذَا ذِکْرٌ ط وَاِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ. جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ. مُتَّکِئِيْنَ فِيْهَا يَدْعُوْنَ فِيْهَا بِفَاکِهَةٍ کَثِيْرَةٍ وَّشَرَابٍ. وَ عِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ. هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ. إِِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَّفَادٍ. هٰذَا ط وَاِنَّ لِلطّٰغِيْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ. جَهَنَّمَ ج يَصْلَوْنَهَاج فَبِئْسَ الْمِهَادُ. هٰذَا لا فَلْيَذُوْقُوْهُ حَمِيْمٌ وَّغَسَّاقٌ. وَّاٰخَرُ مِنْ شَکْلِهِ اَزْوَاجٌ.

(ص، 38: 49 تا 58)

’’یہ (وہ) ذکر ہے (جس کا بیان اس سورت کی پہلی آیت میں ہے)، اور بے شک پرہیزگاروں کے لیے عمدہ ٹھکانہ ہے۔ (جو) دائمی اِقامت کے لیے باغاتِ عدن ہیں جن کے دروازے اُن کے لیے کھلے ہوں گے۔ وہ اس میں (مسندوں پر) تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اس میں (وقفے وقفے سے) بہت سے عمدہ پھل اور میوے اور (لذیذ) شربت طلب کرتے رہیں گے۔ اور اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی (باحیا) ہم عمر (حوریں) ہوں گی۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا روزِ حساب کے لیے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ بے شک یہ ہماری بخشش ہے اسے کبھی بھی ختم نہیں ہونا۔ یہ (تو مومنوں کے لیے ہے)، اور بے شک سرکشوں کے لیے بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ (وہ) دوزخ ہے، اس میں وہ داخل ہوں گے، سو بہت ہی بُرا بچھونا ہے۔ یہ (عذاب ہے) پس انہیں یہ چکھنا چاہیے۔ کھولتا ہوا پانی ہے اور پیپ ہے۔ اور اسی شکل میں اور بھی طرح طرح کا (عذاب) ہے‘‘۔

(ترجمة عرفان القرآن)

فرمان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کََانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ. فَذٰلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اﷲُ فِي کِتَابِهِ {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِهِمْ مَّاکَانُوْا يَکْسِبُوْنَ} [المطففين، 83: 14].

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے (لیکن) اگر وہ زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِهِمْ مَّاکَانُوْا يَکْسِبُوْنَ ’’ہر گز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے عملوں کی وجہ سے سیاہی چھا گئی ہے۔‘‘

(المنهاج السوی من الحديث النبوی صلیٰ الله عليه وآله وسلم، ص410)