دعا اور آدابِ دعا کی فضیلت و اہمیت (قسط دوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شبِ برات کے اجتماع سے خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد معاونت: محمد خلیق عامر

مورخہ 24 جون 2013ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں شبِ برات کے ایک بڑے روحانی اجتماع سے دعا اور آدابِ دعا کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب فرمایا تھا جس کا نمبرFT-18 ہے۔ جو ماہ شعبان المعظم کی مناسبت سے ایڈٹ کرکے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔ (منجانب ادارہ دختران اسلام)

اور پھر فرمایا: وَلْيُؤْمِنُوْا بِیْ ’’مجھ پر پختہ یقین رکھو‘‘۔ یعنی ایمان کو یقین کے درجے میں لے جاؤ۔ حالانکہ جب فرمایا: اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ ’’اے میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں‘‘ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بات ہی اہل ایمان کی ہو رہی ہے۔ پھر اس کے بعد مومنوں کو کہنا: وَلْيُؤْمِنُوْا بِیْ ’’مجھ پر ایمان کامل رکھو‘‘، تو یہاں ایمان کا معنیٰ یقین کا ہو گا کہ جتنی باتیں میں نے تم سے پہلے کہی ہیں کہ میں تمہارے قریب ہوں اس کا یقین پختہ کرو۔ یہ جو میں نے کہا کہ میں ہر پکار کوسنتا ہوں، اس کا یقین پیدا کرو اور یہ جو میں نے کہا کہ پھر میری فرمانبرداری اختیار کرو تمہارا ہر کام ہو جائے گا، اس کا یقین پیدا کرو۔ فرمایا: جب اس پر پختہ یقین رکھ لوگے تو فرمایا: لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ تاکہ وہ لوگ راہ مراد کو پا جائیں۔ یعنی وہ بندے جنہوں نے میری نسبت سوال کیا تھا، اگر یہ شرائط پوری کر دیں تو انہیں مراد مل جائے گی۔ تو اس آیت کریمہ نے مراد کے مل جانے کی ضمانت دے دی۔ اس آیت کریمہ میں یہ چار ادب بیان کیے گئے۔

اور پھر دوسری آیت سورۃ الغافر کی آیت نمبر 60 جو میں نے بیان کی اس آیت کریمہ کی تفسیر آقا علیہ السلام کی حدیث مبارکہ سے کرتا ہوں، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں اور اس حدیث کو امام ابوداؤد نے اور امام ترمذی نے اور امام نسائی نے اور امام ابن ماجہ سب نے، اصحاب سنن نے روایت کیا اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: سمعتُ النبيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقولُ: میں نے آقاں کی زبان مبارک سے سنا، آپ فرما رہے تھے، اب یہ الفاظ سننے والے ہیں، آقاں نے فرمایا: الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَة ’’دعا عین عبادت ہے‘‘۔ کیونکہ دعا میں التفات ہے اللہ کی طرف، بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اللہ کی طرف اپنے دل و دماغ اور قلب و روح کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے اورپھر دعا کرتے ہوئے منگتا بنتا ہے، اللہ سے مانگتا ہے اور منگتا بننا یہ اصل تذلل اور خشوع و خضوع ہے۔ یہ بندگی کا حسن ہے، مانگتا ہے اللہ سے، وہ تب ہی مانگتا ہے کہ خود کو بے بس اور بے کس سمجھتا ہے۔ اور مولا کو مالک و قادر، سمجھتا ہے۔

یہاں بندے کا رشتہ اپنے اللہ سے قائم ہو رہا ہے۔ پھر اس کی طرف متوجہ ہو کے مانگتا ہے کہ میں بے بس ہوں، میرے اختیار میں کچھ نہیں مولا، ہر شے تیرے ہاتھ میں ہے، تو مجھے عطا کر، تو میری مدد کر، تو مجھے ہدایت دے، تو مجھے ایمان دے، تو مجھے عمل صالح کی توفیق دے، تو مجھے بخشش دے، مجھے معاف کر، تو مجھے رزق عطا کر، تو مجھے دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا کر، جب اللہ سے مانگتا ہے تو گویا مانگنے اس کیفیت میں بندہ اپنے مولا کے ساتھ ایک تعلق استوار کر رہا ہے یہ عبادت ہے۔

لہذا ان شرائط کے ساتھ کوئی دعا کرے تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: یہ دعا خود عبادت ہے۔ اور پھر وہ آیت کریمہ پڑھی ثُمَّ قَرَءَ: وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ ارشاد فرمایا: تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو۔ اَسْتَجِبْ لَکُمْ میں تمہاری دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ اور اس آیت کریمہ کا جو اگلا لفظ ہے وہ وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے آقا علیہ السلام نے دعا کو عبادت فرمایا اور آیت کی تفسیر کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ ’’وہ لوگ جو میرے عبادت سے تکبر کرتے ہیں‘‘،لفظ عبادت جو یہاں آیا اس سے مراد دعا ہے۔ جو مجھ سے مانگنے میں سرکشی کرتے ہیں۔ بھلے نماز پڑھ کے چلے جاتے ہیں مجھ سے مانگتے نہیں، میری بارگاہ کے منگتے نہیں بنتے، ہاتھ نہیں اٹھاتے، ایک حدیث میں اللہ پاک نے فرمایا:

مجھے تمہارے سجود اور تمہاری عبادات سے اتنی خوشی نہیں جتنی تمہاری دعا سے ہوتی ہے کیونکہ جب تم میری بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کے مانگتے ہو اور مجھ سے سوال کرتے ہو تو مجھے خوشی ہوتی ہے مگر جو لوگ میری عبادت کرنے سے، مجھ سے دعا کرنے اور مجھ سے مانگتے اس سے سرکشی کرتے ہیں فرمایا: سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ اب یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ دعا خود عبادت ہے۔ لہٰذا کثرت کے ساتھ دعا کو معمول بنانا چاہیے۔

جامع ترمذی کی حدیث ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا اور یہ حدیث حسن ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ليسَ شيئٌ أکْرَمَ علیَ اللّٰهِ تعالیٰ مِنَ الدُّعاء ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ محترم و مکرم کوئی چیز نہیں‘‘۔آپ اندازہ کریں۔ اس لیے دعا کو عین عبادت کہا۔ اور ایک حدیث میں فرمایا: الدعاءُ مخُّ العبادة ’’دعا پوری عبادت کا مغز اور نچوڑ ہے‘‘۔ اور فرمایا: ’’اللہ کے حضور اس کی بارگاہ میں دعا کرنے سے بہتر کوئی شے تکریم و عزت والی نہیں ہے‘‘۔ خدا کے حضور یہ قابل تکریم عمل ہے۔ اور جامع ترمذی میں یہ حدیث حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: الدُّعاءُ مُخُّ العِبَادَة کہ دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے۔ اور پھر آقا علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا جسے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ فرمایا: لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيْدُ فِيْ العُمُرْ إلَّا البِر. آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ دعا کے علاوہ کوئی شے اللہ کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی اور نیکی و پرہیزگاری کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی۔

یعنی دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے اور دعا کے سوا کوئی اور شے تقدیر کو نہیں بدل سکتی۔ اور تاریخ میں جائیں جب بھی تقدیر کسی کی بدلی ہے کسی نہ کسی کی دعا سے بدلی ہے، خواہ نبی کی دعا سے خواہ ولی کی دعا سے، دعا تقدیر کو بدلتی ہے۔ اور اسی طرح کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کر سکتی، عمر مقرر ہے۔ اللہ پاک نے جب دنیا میں ہمیں بھیجا تو عمر مقرر کر کے بھیجا مگر فرمایا: عمر کو بڑھانے والی بھی ایک چیز ہے اور وہ ہے؟ نیکی۔ نیک اعمال کرنا، لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنا، صدقہ کرنا، لوگوں کے ساتھ احسان کرنا، خرچ کرنا، لوگوں کے حالات کو بہتر کرنا، لہذا فرمایا کہ جتنی لوگوں کے ساتھ نیکی کرو گے تمہاری عمر میں اضافہ ہو گا۔ نیکی کرنا خود ایک دعا بن گئی اور عمر میں اضافے کا باعث ہو گئی۔ اور چونکہ دعا اللہ کے حضور سب سے اکرم چیز اور برگزیدہ عمل ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے قبول کرنے کے لیے منتظر رہتی ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور امام ترمذی نے سنن میں اور دارمی نے بھی اسے روایت کیا اور یہ حدیث بھی حسن ہے۔ حضرت انس ابن مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ: سمعتُ رسول اﷲِ يقُولُ: قَالَ اﷲ يبنیٰ آدم، إِنَّکَ مَعَ دَعُوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِيْکَ وَلَا أُبَالِيْ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے بندے جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور قبولیت کی امید رکھتا رہے گا تو جو بھی گناہ و لغزش تم سے سرزد ہوتی رہے میں تمہاری امید اور دعا کے عمل کے باعث میں تجھ کو بخشتا رہوں گا، پھر فرمایا: اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ زمین سے بڑھ کر آسمانوں اور فضاء کے بادلوں کو چھونے لگیں یعنی فضاء بھر جائے تمہارے گناہوں سے اور پھر بھی تو مجھ سے مایوس نہ ہو اور مجھ سے بخشش مانگتا رہے تو فرمایا: میں پھر بھی تمہیں بخش دوں گا اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تیرے گناہ اتنے زیادہ ہو گئے کہ فضا کے بادلوں تک جا پہنچے۔ کیونکہ میری بخشش اور میری رحمت کی کوئی حد نہیں، مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ تمہارے گناہ کتنے تھے، میں دیکھتا ہوں کہ تیری امید میری بخشش پہ کتنی ہے اور تیرا یقین میری رحمت پہ کتنا ہے اور مجھ سے بخشش و مغفرت کتنے یقین کے ساتھ اور تسلسل سے کتنا مانگتا رہتا ہے۔ اگر تیرا عمل مجھ سے معافی مانگنے کا، دعا کرنے کا، بخشش طلبی کا نہ ٹوٹے تو میرا بخش دینے اور معاف کردینے کا عمل بھی نہیں ٹوٹے گا۔

پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: يٰبنِی آدَمُ! إِنَّکَ لَوْ أَعْطَيْتَنِيْ بِقُرَابِ الأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِيْ لَا تُشْرِکُ بِيْ شَيْئَا لأَتَيْتُکَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً اے ابن آدم! اللہ فرماتا ہے اگر تو اتنے گناہ کر دے گا کہ جتنی زمین کے وسعتیں ہیں، مشارق سے مغارب تک، پوری زمین اگر تو گناہوں سے بھر دے گا، بشرطیکہ تم نے اللہ سے شرک نہ کیا ہو، ایمان باللہ اور توحید پر قائم ہو تو زمین کی وسعتوں کے برابر بھی اگر گناہ لے کے آئے گا اور مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے گا اور بندہ بن کے تذلل، خشوع و خضوع اور میری رحمت و بخشش پہ کامل یقین رکھ کر مجھ سے معافی مانگے گا تو میں زمین کے وسعت کے برابر تجھے بخشش عطا کر دوں گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا پر کتنا زور دیا اور اللہ تعالیٰ کو ہماری دعا سے کتنی خوشی ہوتی ہے اور ہماری دعا پر اللہ کتنی بخشش و رحمت لوٹاتا ہے۔ اسی طرح امام ترمذی نے ایک اور حدیث صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی، حضرت عبداللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ اس کے راوی ہیں جس میں آقاںنے فرمایا: مَنْ فُتِحَ لَہُ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاء فُتِحَتْ لَہُ بَابُ الرَّحْمَۃِ کہ ’’تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس پر اللہ کی رحمت کا دروازہ کھول دیا گیا‘‘۔یعنی جس شخص کو اللہ سے دعا کرنے اور دعا کرتے رہنے کی توفیق دے دی گئی کہ وہ کبھی بھی اللہ سے دعا کرنا نہ چھوڑے اور مایوسی کو قریب نہ لائے اور اللہ سے دعا کرتا رہے، تو اس کے لئے اللہ پاک کی طرف سے پیغامِ رحمت ہے، دوسرے لفظوں میں ایک دعا کا دروازہ جس پر کھل گیا، اللہ نے اس پر رحمت کے سب دروازے کھول دئیے۔

پھر بے شمار مانگی جانے والی چیزوں میں سب سے بہتر چیز جو اللہ کو محبوب ہے، جس پر اللہ خوش ہوتا ہے وہ معافی ہے۔ ایک گناہگار کے اللہ سے معافی مانگنے پر جتنی اس کی رحمت خوش ہوتی ہے اتنی اور کسی چیز سے نہیں۔ پھر آقا نے فرمایا: إنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ فَعَلَيْکُمْ عِبَادَ اﷲِ بِالدُّعَاء آقا علیہ السلام نے فرمایا: لوگو سن لو دعا اس مصیبت کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو اتر چکی ہے۔اور اس کے لئے بھی جو ابھی نہیں اتری لہذا اللہ کے بندو ہمیشہ دعا کو اختیار کرو۔ آقاں نے فرمایا: ’’دعا تقدیر کو بھی رد کر دیتی ہے لہذا فرمایا دعا کیا کرو، دعا کرتے رہا کرو، اپنے دستِ سوال منگتے بن کر اپنے اللہ کے سامنے دراز کرتے رہا کرو۔ جو تکلیفیں آ گئی ہیں وہ بھی اللہ دفع کر دے گا اور جو ابھی نہیں آئیں اور ابھی پردہ غیب میں ہیں، مستقبل میں انہیں آنا تھا، اللہ تعالیٰ وہیں سے انہیں موڑ دے گا اور رد کر دے گا اور تمہیں ـپتہ بھی نہیں ہو گا کہ وہ مصیبت آنی تھی نہیں آئی، لیکن اللہ اس پردہ غیب میں اسکا اہتمام فرما دے گا۔

یہ تعلیم دے کر آقا علیہ السلام نے فرمایا: فَعَلَيْکُمْ عِبَادَ اﷲِ بِالدُّعَاءءء بس اللہ کے بندو! اپنے اوپر دعا کرنا لازم کر لو، یعنی ہمہ وقت اپنا معمول بنالو اور اللہ کے حضور دعا کرتے رہا کرو۔ ایک اور حدیث جسے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا اور امام ابودائود نے اس کی تخریج کی اور یہ حدیث بھی صحیح الاسناد ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَّسْتَجِيْبَ اﷲُ لَهُ عِندَالشَّدَائِدِ وَالکُرَبِ فَاليُکْثِرِ الدُّعَاء فِيْ الرَّخَاء ’’جو شخص یہ چاہے (جسے یہ پسند ہو) جب مشکلات آتی ہیں۔ مصیبتیں اور تکالیف آتی ہیں اس زمانے میں اس کی دعا قبول کی جائے تو وہ خوشحالی کے اوقات میں یعنی جب بیماری نہیں ہوتی، امتحان نہیں دیا ہوتا، پریشانی نہیں ہوتی، کوئی مشکل اور مصیبت نہیں ہوتی، بندہ خوش ہوتا ہے، خوشحال ہوتا ہے) تو وہ اللہ سے زیادہ دعا کیا کرے۔

جو ہر وقت خوشحالی کے اوقات میں اللہ کا منگتا بنا رہے۔ اس سے مانگتا رہے اور دعا کے عمل میں تسلسل رکھے اللہ پاک ان دعاؤں کے صدقے سے مشکلات کے زمانے میں بھی اس کی پریشانیوں کو ٹال دے گا اور مشکلات کے زمانے کی دعاؤں کو قبول کر دے گا۔ خوشحالی کے دور کی دعائیں طاقت اور قوت دیتی ہیں۔ وہ دعائیں جو مشکلات کے زمانے میں بندہ کرتا ہے ان کی تاثیر اور قبولیت کو بڑھا دیتی ہیں۔

اب آخر میں آپ کو کچھ سبق ایسے دے دیتا ہوں، کچھ راز بتاتا ہوں آقا علیہ السلام کی احادیث مبارکہ اور آقا کی بتائی ہوئی تعلیمات اور ہدایات سے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے کہ تو دائماً آدمی مستجاب الدعوات ہو جائے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ صلہ رحمی کریں اور قاطع رحم نہ بنیں۔ خونی رشتوں کو مت توڑیں۔ ہم خونی رشتوں میں بڑی نا انصافیاں کرتے ہیں۔ اپنی سوسائٹی میں ظلم کرتے ہیں، باہر بڑے اچھے کہلاتے ہیں مگر خونی رشتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ بھائی بہن آپس کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ بھائی اپنی بہنوں کے دل توڑتے ہیں، ان کی ضروریات کی پرواہ نہیں کرتے، ان کی دلجوئی نہیں کرتے۔ بہنیں بھائیوں کا خیال نہیں کرتیں۔ آج رشتوں میں جو خون سفید ہو گئے ہیں اس محبت اور صلہ رحمی کی جگہ ہمارے شریکہ نے (ہم پاکستانی اور پنجابی زبان میں اسے شریکہ کہتے ہیں)لے لی ہے۔ اس شریکہ میں حسد اور بغض آتا ہے جس نے صلہ رحمی ختم ہوگئی اور ہم قاطع رحم بن گئے۔ یعنی خونی رشتوں کو توڑنے والے ہو گئے ہیں۔ خونی رشتوں کا حیا ختم ہو گیا ہے اور خونی رشتوں کے سبب ایک دوسرے سے بھلائی کرنے والے نہیں رہے، دل ہمارے تنگ ہو گئے ہیں۔ شادیاں ہو جاتی ہیں تو وہ بھائی بہن اور رشتہ دار جو شادیوں سے پہلے ایک ماں باپ کے گھر میں آپس میں ایک دوسرے کے لیے جان دیتے تھے، جب ان کی اپنی اولادیں ہو جاتی ہیں تو ان اولادوں کی محبت بھائی بہن کی محبت کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔

ان کی بھی اولادیں ہو جاتی ہیں تو پھر اولادوں کا مقابلہ ہو جاتا ہے۔ حسد آ جاتا ہے، موازنہ آ جاتا ہے۔ ہم قاطع رحم بن جاتے ہیں۔ مال و دولت مل جاتی ہے۔ اگر ایک دوسرے خونی رشتے کے پاس مال کم ہے تو ہم باہر خرچ کریں گے مگر اپنے ارحام پر خرچ نہیں کرتے۔ بہنوں بھائیوں پر، اولاد پر، ماں باپ پر، اقارب پر حتیٰ کہ ہم تو بعض اوقات میں نے آنکھوں سے دیکھا ہے باہر کوئی شخص بے پناہ خرچ کرتا ہے گھر بیوی بچوں کی خوشحالی کے لیے خرچ نہیں کرتا۔ بیوی بچوں کو گھر میں تنگی دے گا، ان کی ضروریات میں کہے گا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ آجکل انکم نہیں ہے، انہیں تنگ رکھے گا۔ سہولت نہیں دے گا، لباس میں تنگی دے گا، آسائش حیات میں تنگی دے گا، جائز ضروریات میں تنگی دے گا۔ باہر بڑا سخی کہلائے گا۔

اب باہر وہ لوگوں کو جہیز بھی دے رہا ہے، نیکیاں بھی کر رہا ہے، میلاد پاک اور گیارہویں شریف پہ بھی خرچ کر رہا ہے، صدقات و خیرات بھی کر رہا ہے، نیکی کے کاموں پر بھی خرچ کر رہا ہے اور سیاسی کاموں پر بھی بے تحاشا حرام کے پیسے لٹا رہا ہے مگر گھر تنگی دیتا ہے۔ اسے سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے حضور ایسی سخاوتیں قبول نہیں جو پہلے فرائض کو نظر انداز کر کے کی جائیں۔ جہاں خونی رشتہ ہے، جو مستحق ہیں، آقا سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بہتر صدقہ کیا ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا۔ یعنی بیوی بچوں پہ خرچ کرنا، خونی رشتوں پر خرچ کرنا۔ لہذا اگر خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی و دلجوئی کریں گے تو آپ کی دعائیں قبول ہو جائیں گی، آپ مستجاب الدعوات بن جائیں گے، یہ راز سمجھیں۔ خونی رشتوں میں بھلائی اور احسان کرنا دعاؤں کو اللہ کے حضور قبولیت کا یقین اور ضمانت دے دیتا ہے۔ اور دوسرا راز جو آقاں نے فرمایا وہ یہ ہے کہ اپنے رزق کو حلال کر لیں۔ رزق حرام سے پرہیز کریں۔ بھوک سے مر جائیں مگر حرام کا رزق نہ کھائیں، رشوت نہ لیں، غبن نہ کریں، اپنے کام میں بددیانتی نہ کریں، چوری نہ کریں، خیانت نہ کریں، جہاں جہاں آپ بیٹھے ہیں، جس دفتر میں متعین ہیں، آپ کے پاس ایک پیسہ بھی اگر آتا جاتا ہے وہ بھی اللہ و رسول کی امانت ہے چونکہ آپ کو اس کے اوپر امین اور محافظ بنایا گیا ہے۔ اس کی خیانت کریں گے تو آپ کا رزق بھی حرام ہو گا، آپ کی عبادتیں بھی مردود ہوں گی، آپ کی دعائیں بھی مردود ہوں گی۔ آپ دنیا و آخرت سب برباد کر بیٹھیں گے۔ ان چار ٹکوں کے باعث جن کی خاطر انسان بے ایمانی کرتا ہے، رشوت لیتا ہے یا پیسے چوری کرتا ہے، مارکیٹ میں سودا کرنے جاتا ہے، مختلف ریٹس لاتا ہے اور ان کے ساتھ اپنے حصے کا کمیشن بناتا ہے، دفتر سے زیادہ وصول کرتا ہے اور باقی اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ وہ یہ سب دوزخ کا سامان تیار کر رہا ہے۔ وہ شخص دوزخ خرید رہا ہے، ایمان برباد کر رہا ہے، عبادتیں رد ہو رہی ہیں، دعائیں بے پناہ رد ہو رہی ہیں۔ رزق کے ذرائع حلال رکھیں۔ جس شخص کا رزق حلال ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جس کا رزق حرام ہے اس کی دعائیں رد کر دی جاتی ہیں جن کی قبولیت کے لئے میں نے دو راز بتائے۔ صلۃ الارحام اور پرہیز از اکل حرام۔ خونی رشتوں کو بھلائی اور نیکی سے ڈیل کریں اور رزق حرام سے بچیں، رزق کو ہمیشہ حلال رکھیں۔ یہ دو راز کی باتیں بتا دیں جو آقا ںنے امت کو بتائیں۔ اب میں قبولیت دعا کی دو تین چیزیں ایسی بھی بتا دتیا ہوں جو حالت دعا سے متعلق ہیں اور دو تین چیزیں ایسے بتا دینا چاہتا ہوں جو وقت دعا سے متعلق ہیں۔ لہذا جب دعا کریں غافل دل کے ساتھ نہ کریں، ہم بعض اوقات دعا میں لمبا وقت لگاتے ہیں مگر دل اس دعا کے ساتھ شریک نہیں ہوتا۔ جو کچھ زبان کہہ رہی ہوتی ہے دل اس کی لذت محسوس نہیں کر رہا ہوتا۔ دل زبان کے ساتھ نہیں ہوتا، بس ہاتھ اٹھا کے دعا ہو رہی ہے مگر دل غائب ہے۔ ارے! اللہ سے مانگتے ہوئے، جب دل اس کے حضور سے غائب ہو تو مالک تمہاری جھولی میں کیسے ڈالے گا؟

وہ دیکھتا ہے تمہارے دھیان کو کہ حاضر ہے یا غائب۔ لہذا قلبِ غافل سے کبھی دعا نہ کریں، جب دعا کریں سب سے پہلے رجوع الی اللہ کریں اور دل کو حاضر کریں، توجہ کے ساتھ دل کو حاضر کریں، اللہ کی طرف دل کا رجوع کریں، اللہ کی رحمت کو چشم تصور کے ساتھ دیکھیں اور اپنے دل کو اللہ کے باب رحمت اور باب مغفرت پہ کھڑا دیکھیں۔ مولیٰ کی بارگاہ میں دل کو حاضر کریں اور جو زبان سے کہیں دل اس کے ساتھ شریک ہو۔ اس سے اجابت بڑھ جائے گی، قبولیت بڑھ جائے گی، دوسری چیز جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ دعا کریں تو اس میں عجلت نہ کریں کہ اس کی قبولیت جلد ہو، یہ چیز دعاؤں کی قبولیت کو روک دیتی ہے۔ ہم اس مصیبت میں بھی مبتلاء ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی، جب فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کی حد کر دی، دعا مانگی! باری تعالیٰ فرعون اور اس کے لشکر کو جو کمزور بنی اسرائیل کی نسلوں پر ظلم کررہا ہے اسے غرق کر دے، اللہ رب العزت نے جبریل امین علیہ السلام کو اگلے ہی دن بھیجا، وحی فرمائی، فرمایا: موسیٰ (علیہ السلام) تمہاری دعا ہم نے قبول کرلی۔ فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنا اللہ نے قبول کر لیا، اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اگلے دن سے انتظار کرنے لگے کہ دعا قبول ہو گئی اور وحی میں آ گیا، حضرت جبریل امین علیہ السلام نے خوشخبری سنا دی، لیکن اب عمل کب ہوتا ہے؟ اس قبولیت دعا کا عملی مظاہرہ کب ہوتا ہے؟ فرعون لشکر سمیت غرق کب ہوتا ہے؟ دعا قبول ہو گئی، پیغام آ گیا مگر حقیقتاً اس کے غرق ہونے میں چالیس سال لگے۔ یعنی فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کا جو واقعہ پیش آیا وہ دعا کے قبول ہونے کے دن سے چالیس سال بعد میں پیش آیا۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دن بھی شکوہ نہیں کیا کہ باری تعالیٰ تو نے وحی بھیجی کہ دعا قبول ہوگئی اور آج اتنے سال گزر گئے؟ نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل و دماغ میں اس کا خیال تو نہیں آیا۔ اس لئے یقین نبوت کی شان ہے۔

جس کا عالم یہ تھا کہ چالیس سال گزر گئے تب بھی اس وحی کی صداقت میں شک نہیں کیا اور اطمینان رہا کیونکہ معلوم ہے کہ جب اللہ نے دعا قبول کرلی تو اس کا عملی مظاہرہ کرنا یہ اس کی شان اور اس کا حق ہے۔ بندے کا یہ حق نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ کھپ نہ ڈالیں، کھپ زبان کی بھی ہوتی ہے اور دل کی بھی ہوتی ہے۔ دل جب بے چین و مضطرب ہوتا ہے تو یہ دل کی کھپ ہے۔ بندے کا کام عرض کر دینا ہے، آگے مالک پہ چھوڑ دیں۔ جب عجلت نہیں کریں گے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اس بندے کے لئے قبولیت بڑھ جاتی ہے کہ بندہ صحیح وفاداری کر رہا ہے۔ یہ کہ جو چیز اللہ و رسول کی نافرمانی کا باعث ہو اور گناہ کا سبب بنے یا اللہ سے دور کر دے، ایسی چیز کے لیے دعا نہ مانگیں۔ یعنی گناہ کے لیے دعا نہ مانگیں اور نہ کسی ایسے امر کے لیے مانگیں جو گناہ کی طرف لے جائے۔

اور چوتھی چیز ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی مصطفوی انقلاب کے اس عظیم مشن میں جو آپ کام کرتے ہیں، تحریک منہاج القرآن میں اور باطل کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہیں، سوسائٹی میں نیکی اور اچھائی کی دعوت دیتے ہیں۔ اور برائی و منکرات کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہیں اور شب و روز اس کی دعوت لے کے نکلتے ہیں، وقت لگادیتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور جان و مال خرچ کرتے ہیں، اس کو جاری رکھیں۔ فرداً فرداً بھی اور جماعتًا جماعتاً بھی کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر جس سوسائٹی، جس گھر، جس تنظیم و جماعت میں جاری رہے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جس معاشرے سے یہ دعوت ختم ہو جائے اس معاشرے کی دعاؤں کی قبولیت ختم ہو جاتی ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک تم نیکی کی دعوت دیتے رہو گے اور منکر سے منع کرتے رہو گے تو اللہ پاک تمہاری دعاؤں کو قبول کرے گا اور اگر تم نے دعوت کا کام روک دیا یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے رک گئے، گھر بیٹھ گئے اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ برائیاں، منکرات، پریشانی، فحاشی، عریانی، ظلم، خیانت، بددیانتی اور کرپشن اس کو عام ہونے دیا اور اس کو روکنے کے لیے آواز بلند نہ کی، جدوجہد نہ کی، گھر گھر تک آواز نہ پہنچائی، اگر یہ کام تم نے چھوڑ دیا تو اللہ پاک ساری قوم کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. (اگر تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو چھوڑ دیا تو) ’’اللہ پاک تم پر ایسا عذاب نازل کرے گا پھر اس ماحول میں تم دعا کرتے رہ جاؤ گے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی‘‘۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا اور امام ترمذی نے بھی روایت کیا اور اس باب میں کثیر احادیث ہیں جو میں نے مختلف وقتوں میں بیان کی ہیں۔یہ حدیث حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی تھی۔ ایک حدیث سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا: ’’جس معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام ختم ہو جائے، (یعنی جس معاشرے میں خیر کی دعوت کا عمل ختم ہو جائے اور شر اور کرپشن و گناہ کے کاموں اور منکرات کے کاموں سے روکنے کا عمل، جدوجہد اور کاوش ختم ہو جائے) اس معاشرے پر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ پھر شِرارُکُم ’’تم میں بدترین لوگ اس معاشرے کے حکمران بن جاتے ہیں‘‘۔ یعنی کمینے، گھٹیا، بدترین، خائن، تمہارے حکمران بن جاتے ہیں۔ آگے فرمایا: ثُمَّ يَدْعُوْا خِيَارُکُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ ’’پھر اولیاء و صالحین، اللہ والے اور خیار امت بھی دعائیں اپنے ملک و قوم اور سوسائٹی کے لیے کریں تو ان کی دعائیں اللہ قبول نہیں کرتا‘‘۔ یعنی ان کی دعاؤں کو روک لیتا ہے اور آخرت کے لیے اللہ اپنے مقرب بندوں کی دعاؤں کو نیک اعمال کے طور پر اجر میں رکھ دیتا ہے ان کو رد نہیں فرماتا بلکہ ان کی دعاؤں کو نیک اعمال میں بدل دیتا ہے اور آخرت میں ان کو اجر عطا کر دے گا کہ انہوں نے دعائیں کیں اپنی امت اور سوسائٹی کے لیے، مگر ان اولیاء صالحین اور خیار امت کی بھی دنیا میں دعائیں قبول نہیں ہوتیں اس معاشرے کے حق میں جس معاشرے نے از خود خیر کے لیے اٹھنا چھوڑ دیا ہو اور شر کا راستہ روکنے کے لیے اٹھنا چھوڑ دیا ہو، جس نے امر بالمعروف کی دعوت روک دی ہو اور جس نے نہی عن المنکر پر محنت روک دی ہو۔

ہم اس نتیجے پر عرصے سے پہنچ چکے ہیں اور ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ اس ملک میں شر ہے، فتنہ ہے، خیانت ہے، کرپشن ہے، بد دیانتی ہے، منکرات ہیں، فحاشی ہے، عریانی ہے، بے حیائی ہے، گلے کٹ رہے ہیں، خون بہہ رہے ہیں، عزتیں لٹ رہی ہیں، شراب عام ہے، بدکاری عام ہے، حق تلفی عام ہے، ہر شخص جانتا اور دیکھتا ہے مگر کوئی شخص ان برائیوں کو روکنے کے لیے نہ خود اٹھنے کو تیار ہے اور نہ وہ لوگ جو اجتماعی طور پر، تنظیمی طور پر اس کے خاتمے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک عذاب کی لپیٹ میں ہیں۔

لہٰذا لوگو! اگر چاہتے ہو کہ اللہ کی قبولیت والی رحمت منقطع نہ ہو اور ہماری دعائیں قبول ہوتی رہیں تو پھر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت جاری رکھو، یہ جہاد اکبر ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں دعا کی حقیقت، اس کا معنٰی، اس کا سچا مفہوم سمجھنے کی توفیق دے، اس کے آداب بھی عطا کرے، اس کی قبولیت اور یقین کی شرائط بھی عطا کرے اور ہمیں اس قابل کرے کہ ہم قبولیت دعا کا انفرادی زندگیوں میں اور معاشرے کے اندر اجتماعی زندگیوں میں ماحول بھی پیدا کر سکیں۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پر کرم فرمائے اور ہمیں ہمہ وقت اپنی بندگی، تابعداری، فرمانبرداری اور وفاداری میں رکھے۔ وما علينا الا البلاغ