راولپنڈی میں قصاص و احتساب مارچ، قائد عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد، معاونت: نازیہ عبدالستار

میرے کارکنو! آپ میری عزت ہیں، آپ کی وجہ سے میرا عزم ہے حوصلہ ہے آپ کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔ اللہ پاک آپ کو تاقیامت سلامت رکھے۔ آپ جیسے کارکن پاکستان کے قیام کے زمانے کو چھوڑ کر اس کے بعد 70 سال میں ماؤں نے آپ جیسے کارکن پیدا نہیں کئے۔ میرے پیارے کارکنو آپ میرے دل کی دھڑکن ہیں۔ میں آپ کی ماؤں کو سلام کرتا ہوں ان کی عظمت کو جنہوں نے آپ کو جنا۔ آپ کے والدین کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے آپ کی پرورش کی۔ آپ میں سے کئی بچپن میں میرے پاس آئے کئی لڑکپن میں آئے کئی جوانی میں آئے کئی بڑھاپے میں آئے۔ میں نے آپ کی فکری تربیت کی۔ آپ کو پرامن بنایا۔ پرعزم بنایا پرعلم بنایا پرعمل بنایا۔ پروقار بنایا، اللہ پر توکل سکھایا، یقین سکھایا، یہ سکھایا کہ جھکنا نہیں یہ سکھایا کہ بکنا نہیں یہ سکھایا کہ ڈرنا نہیں یہ سکھایا کہ پیچھے ہٹنا نہیں اور بڑھتے رہنا ہے۔ وقت کے ہر فرعون کو للکارنا ہے، ہر قارون کی دولت کو ٹھکرانا ہے، وقت کے ہر یزید کے تخت کو جوتوں کی نوک پر لکھنا ہے۔ میںنے آپ کو سکھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح جیو اور مرو تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح مرو۔ آج اپنے رب کو گواہ بناکر پنڈی کی سرزمین پر کہتا ہوں جو کچھ میں نے آپ کو پڑھایا تھا سکھایا تھا اور 34، 35 سال تربیت کی یا بعض کو 15، 10 سال ملے یہ عمر جو لگائی آپ نے اس کا حق ادا کردیا۔ میں قبر میں بھی اور قیامت کے دن بھی آپ کو بھول نہیں سکتا۔ میرا پروگرام آپ کو معلوم ہے اور اسی طرح بیٹیوں کی بات کرلوں۔

میری بیٹیو! میری بہنو! آپ کی عظمت کو لاکھوں سلام۔ اللہ کی عزت کی قسم! آپ کے سروں پر جو مقدس دوپٹے ہیں میں ان مقدس دوپٹوں کو سلام کرتا ہوں آپ کے لئے دعائیں کرتا ہوں آپ جیسی بیٹیاں بھی لوگ دنیا میں ترسیں گے کہ کسی کے گھر پیدا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ ہماری قصاص اور سا لمیت پاکستان کی تحریک ہے اور قصاص اور سا لمیت پاکستان مارچ۔ اس کا پہلا فیز اور پہلا راؤنڈ ہے۔ جس کی ابتداء 17 جون کو مال روڈ سے ہوئی۔ رمضان المبارک کے بعد اس کو تحریک کی شکل دی۔ 6 اگست کو ملک بھر میں 7 شہروں میں آپ نے بہت عظیم دھرنے دیئے میں نے ویڈیو لنک سے خطاب کیا خود نہیں آیا۔ پہلے فیز کی پالیسی یہ تھی۔ قصاص اور سا لمیت پاکستان کے تین فیز ہیں اور نواز شریف صاحب آپ کو بھی بتا رہا ہوں۔ شہباز شریف صاحب آپ کو بھی بتارہا ہوں حکمرانوں اور میڈیا کو بتا رہا ہوں، عوام کو بتارہا ہوں پاکستان کے 19، 18 کروڑ لوگوں کو بتا رہا ہوں۔ اس تحریک کے تین مرحلے ہیں۔ تین راؤنڈ ہیں پہلے راؤنڈ کا فیصلہ یہ تھا کہ میں خود شرکت نہیں کروں گا۔ ویڈیو لنک سے خطاب کروں گا۔

آج پہلے راؤنڈ کا آخری اجتماع ہے۔ دو راؤنڈ اس کے باقی ہیں۔ وہ دو راؤنڈ ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ ہماری مٹھی میں ہیں جس وقت چاہیں گے مٹھی کھول دیں گے۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے جس وقت چاہیں گے فیصلہ کریں گے اور یہ بتادوں اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ زندگی بھیک میں نہیں ملتی۔ زندگی بڑھ کر چھینی جاتی ہے اور یہ بتادوں جہاں سلطنت شریفیہ کا اقتدار اور ان کی ملوکیت ہے۔ یہاں انصاف بھیک میں نہیں ملے گا انصاف بھی بڑھ کر چھینا جائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ انصاف کو بڑھ کر کیسے چھینتے ہیں۔ میں آپ کو بتا رہا تھا پھر 20 اگست کو پورے ملک میں ریلیز ہوئیں اور دھرنے ہوئے اور ملک میں 105 شہروں میں بیک وقت پاکستان کی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔

جبکہ میں کہیں بھی موجود نہیں تھا اور ویڈیو لنک پر خطاب کررہا تھا۔ آپ نے احتجاج کئے اور لاکھوں کی تعداد میں مجموعی طور پر پاکستان کے 105 شہروں میں سمندر امنڈ آئے آپ نے حق ادا کیا پھر 21 کو دھرنے ہوئے اور احتجاج ہوا پھر 25 کو دھرنے ہوئے۔ مختلف جگہوں پر کبھی لاہور کبھی گوجرانوالہ کبھی ملتان کبھی ڈیرہ غازی خان کبھی کراچی کبھی کوئٹہ کبھی حیدر آباد کبھی لاڑکانہ کبھی نواب شاہ کبھی سکھر کبھی کہیں۔ الغرض ملک میں کونے کونے میں جبکہ کہیں میں بھی موجود نہیں تھا۔ آپ نے حق ادا کیا۔ آج کے اجتماع، ریلی اور مارچ پر ہمارا پہلا راؤنڈ ختم ہونا تھا۔ پروگرام کے مطابق کل رات پونے 12 بجے تک آدھی رات تک میرا پنڈی میں خود شریک ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں تھا۔ ساری دنیا کو معلوم تھا کہ میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کروں گا۔ 12 بجے میں سوچ رہا تھا میرے دل نے کہا کہ چونکہ میرے بیٹوں نے میری بیٹیوں نے میری بہنوں نے میرے بھائیوں نے میری ماؤں نے میرے بزرگوں نے بوڑھوں نے نوجوانوں نے ظالموں کو للکانے کا اور میری عدم موجودگی میں اٹھ کھڑے ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔

لہذا میں نے بنفس نفیس شرکت کرنے کا فیصلہ کیا اور آج آپ نے 23 دسمبر 2012ء کا مینار پاکستان کا منظر پیش کردیا ہے اور جنوری 2013ء کے لانگ مارچ کی یاد تازہ کردی ہے۔ آپ نے 75 دن 2014ء کے دھرنے اسلام آباد کا سمندر یاد دلادیا ہے۔ یہ ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ کوئی حد ہے۔ جبکہ 5 منٹ کا فاصلہ تھا مگر دو گھنٹے گاڑی چلتی رہی اور یہاں سٹیج پر پہنچا ہوں۔ زندگی میں ایسا منظر دیکھنے میں بہت کم ملتا ہے۔ رات 12 بجے اعلان کیا کہ میں خود شرکت کروں گا آپ میں سے اکثر سوئے ہوئے ہوں گے صبح آپ کو پتہ چلا ہوگا چند گھنٹوں میں لہریں اٹھیں اور دریا اٹھے اور سمندر بنتے چلے گئے یہاں پوری دنیا ورطہ حیرت میں پڑگئی۔ کاش کوئی اس سمندر کے کنارے کو دنیا کو دکھا سکے۔

آپ کو مبارکباد دیتا ہوں میں نے سوچا کہ پروگرام میرا جانے کا نہیں ہے لیکن کارکنوں نے جو قربانی دی ہے وفا کا جو حق ادا کیا ہے۔ میں نے جب بلایا اٹھ کر آئے ہیں وہ کبھی تھکے نہیں کبھی تنگ نہیں پڑے، کبھی پریشان نہیں ہوئے جو کہا انہوں نے مانا، تن من دھن کی بازی لگادی۔ جان لگادی مال لگادیا ہمارے پاس پانامہ لیک کردار نہیں ہیں جو انوسٹمنٹ کریں۔ انویسٹر کوئی نہیں ہے پوری تحریک میں نہ ملک کے اندر نہ ملک سے باہر فقط کارکن ہیں۔ یہاں بھی اور بیرونی دنیا میں فقط کارکن ہیں۔ وہ گھر بیچتے ہیں زیور بیچتے ہیں، اپنا کمایا ہوا مال لگاتے ہیں، جانیں دیتے ہیں، شہادتیں دیتے ہیں مگر نہ تھکتے ہیں نہ شکوہ کرتے ہیں۔ اللہ کی عزت کی قسم! آپ کی قربانیوں کو دیکھ کر میرے دل نے کہا میں صرف آپ کو اپنا پیار دینے آپ کا شکریہ ادا کرنے آپ کے حوصلوں کو بلند کرنے خود جاتا ہوں کیونکہ آخری اجتماع ہے پہلے فیز کا میں آپ کے چہروں کو دیکھوں گا میرا دل جگمگا اٹھے گا۔

میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم پرامن لوگ ہیں۔ قانون پسند لوگ ہیں میں نے ایک دن پہلے بھی کہا تھا اور آج دہرا رہا ہوں۔ نواز شریف صاحب اور شہباز شریف صاحب ہمیں کمزور مت سمجھیں۔ ہم انصاف کی بھیک جاکر کہیں سے نہیں مانگیں گے میں نے کہا جنرل راحیل شریف صاحب نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا انصاف ملے گا۔ اس لئے میں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف یہ آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ FiR آپ نے کٹوائی اور مجھ سے وعدہ کرتے ہوئے یہ جملہ بولا کہ آپ کو ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا انصاف ضرور ملے گا۔ وہ انصاف نواز شریف شہباز شریف کے اقتدار میں بیٹھے ہوئے کسی ادارے سے نہیں ملنا آپ جارہے ہیں آپ کی ریٹائرمنٹ قریب ہے آپ کا وعدہ کب وفا ہوگا میں بھیک نہیں مانگتا۔ آپ شریف آدمی ہیں میں بھی شریف آدمی ہوں۔ یاد دلاتا ہوں آپ نے ریٹائرمنٹ لی۔ اس سے پہلے آپ جائیں یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے ریٹائرمنٹ کا۔ اس میں ہماری کوئی مداخلت نہیں ہے اگر آپ ریٹائرہوکر گھر چلے گئے اور 14 شہیدوں کا انصاف آپ دلاسکتے ہیں۔ 90 جسموں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا آپ ان یتیموں کو انصاف دلاسکتے ہیں۔ ان بیوگان کو انصاف دلاسکتے ہیں۔ ان شہیدوں کی روتی ہوئی ماؤں کو انصاف دلاسکتے ہیں۔ ان یتیم بچوں کو انصاف دلاسکتے ہیں۔ اگر آپ نے انصاف نہ دلایا تو سوچیں اللہ کے حضور کیا جواب دیں گے۔

آپ کے سوچنے کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔ میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں نواز شریف اور شہباز شریف کو بتانا چاہتا ہوں ہم بھیک نہیں مانگ رہے۔ نہ پاک فوج سے نہ جنرل راحیل شریف صاحب سے ہم بھکاری نہیں ہیں ہم بھیک صرف اللہ کی بارگاہ سے مانگتے ہیں۔ میں صرف اللہ کا بھکاری ہوں کسی اور کے سامنے زندگی میں کبھی دامن نہیں پھیلایا۔ میں نے وعدہ یاد دلایا ہے ان کا فرض منصبی ہے دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب، جنگ کررہے ہیں جہاد کررہے ہیں کامیاب ہورہے ہیں یہ سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی ہے جو ماڈل ٹاؤن میں ہوئی ہے۔ میں نواز شریف صاحب آپ کو بتانا چاہتا ہوں بھیک کہیں سے نہیں مانگیں گے۔ ہمیں انصاف و قصاص لینا آتا ہے۔ یہ ہماری اپنی حکمت عملی ہے اگر لینا چاہیں 7 دن میں خود لے سکتے ہیں۔ مجھے صرف تاریخ دینی ہے مجھے نہیں لگتا ہے پھر انصاف 7 دن سے زیادہ ٹائم لے گا۔ یہ حق اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں۔

یہ کارکن شیر ہیں یہ کارکن اللہ کی مدد و نصرت کے ساتھ حسینی رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ کربلا کے مسافر ہیں، یہ بیٹیاں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی باندیاں ہیں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جینا بھی سیکھا ہے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے مرنا بھی سیکھا ہے۔ مگر ہم بدامنی بھی نہیں پھیلانا چاہتے۔ میں کہہ دوں کارکنوں کو انصاف خود لے لو میں خانہ جنگی نہیں چاہتا ملک میں، میں نے پوری زندگی امن کے فروغ میں گزاری ہے۔ میں نے دہشت گردی کے خلاف فکری نظریاتی جنگ لڑی ہے۔ میں نے ان کے خلاف فتویٰ دیا ہے 25 کتابیں لکھی ہیں۔ امن پرستی کا میرا سبق پوری دنیا میں مشرق سے مغرب تک حکومتیں سلطنتیں اور عوام اور خواص پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ انتہا پسندی کے خلاف میں نے نظریاتی جنگ لڑی ہے، میں ان کے ہاتھوں میں چاقو چھریاں نہیں پکڑاسکتا۔ میں بارودیوں کے خلاف لڑا ہوں میں نے درود پھیلایا ہے، بارود نہیں پھیلایا۔ گوشہ درود بنایا ہے، بارود نہیں پھیلایا۔ میں بارودیوں کے خلاف جنگ لڑتا رہو ہوں۔

آج پاکستان میں نہیں مشرق سے مغرب تک لڑتا رہا ہوں۔ لہذا میں انہیں بدامنی کی طرف نہیں لے جاسکتا۔ مگر انصاف بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ نواز شریف صاحب یہ بات لکھ لیں شہباز شریف صاحب یہ بات لکھ لیں۔ قصاص کے بغیر قاتلوں کی جان نہیں چھوٹے گی۔ قصاص ان شاء اللہ آپ کو دینا ہوگا۔ دینا ہوگا دینا ہوگا۔ ہم قصاص لیں گے۔ آپ ساری کوشش کرچکے آپ بیرونی طاقتوں کو Request کرچکے اور میں ٹھکرا چکا۔ آپ اپنے وزراء کو بھیج چکے میں ٹھکرا چکا۔ اپنے خاندان کے قریبی عزیزوں کو بھیج چکے میں ٹھکرا چکا اور میں نے کہا کہ ہم بے غیرت نہیں ہیں کہ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کردیں۔ مرجاؤں گا انصاف کی جنگ لڑتے لڑتے یا تو زندگی میں انصاف شہیدوں کے لئے لے لوں گا۔ یا کم از کم انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے جان دے دوں گا۔ مجھے یہ اطمینان قلب ہوگا کہ میں نے اور میرے کارکنوں نے ان کی دولت کو جوتے سے ٹھکرادیا ہے لہذا اس پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔