حضرت غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ

محمد احمد طاہر

ٍٍٍٍنام وکنیت

آپ کا اسم گرامی عبدالقادر تھا۔ کنیت ابو محمد تھی اور لقب محی الدین تھا۔ عامۃ المسلمین میں آپ غوث اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) کے عرف سے مشہور ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نجیب الطرفین سید ہیں۔ والد ماجد حضرت ابو صالح موسیٰ (رحمۃ اللہ علیہ) تھے اور والدہ ماجدہ ام الخیر فاطمہ (رحمۃ اللہ علیھا) تھیں۔ ان کا لقب امۃ الجبار تھا۔

جائے ولادت

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:

انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال

غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا سن ولادت و وصال

حضرت قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں میں گیارہ ربیع الثانی 470ھ کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الاول 561 کو 91 سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے۔ (تذکرے اور صحبتیں، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، ص97)

زمانۂ رضاعت

سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ مادر زاد ولی تھے۔ شب ولادت کی صبح رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لئے ہوئے تھی گویا یکم رمضان المبارک اس دنیائے رنگ و بو میں آپ کی آمد کا پہلا دن تھا۔ حضرت نے روز اول ہی روزہ رکھ کر ثابت کردیا کہ آپ جن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے ان کی سعادت کسبی نہیں وہبی تھی۔ پورے رمضان شریف میں یہ حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ جس وقت افطار کا وقت ہوتا دودھ لے لیتے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتے چلاتے تھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے خود بھی ایک شعر میں اپنے زمانہ رضاعت کے روزوں کا ذکر کیا ہے:

بداية امری ذکره ملاء الفضا
وصومی في مهدی به کان

’’میرے زمانہ طفولیت کے حالات کا ایک زمانہ میں چرچا ہے اور گہوارہ میں روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔

آغاز تعلیم

جیلان میں ایک مقامی مکتب تھا۔ جب حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھادیا۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہوگئی۔ (تذکرہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ ، طالب ہاشمی، ص36،35)

اعلیٰ تعلیم کا حصول

حضرت سیدنا غوث اعظم 488ھ میں 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے۔

بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا۔

علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ رضی اللہ عنہ نے ماہ ذی الحجہ 496ھ میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا۔ آپ علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے۔ فرماتے ہیں:

درست العلم حتی صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی

میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا۔

مسند تدریس

آپ رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی اپنے جدِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان: تعلموا العلم وعلموا الناس۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو سے عبارت تھی۔ تصوف و ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلق خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے درس و تدریس اور کار افتاء سے پہلو تہی نہ کی۔

آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور اس کے لئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ، مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی۔

شیخ موفق الدین ابن قدامہ آپ کے تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں:

ہم 561ھ میں بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اتباع شریعت

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت کے لئے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے۔

مسند وعظ و ارشاد

سرکار غوثیت مآب رضی اللہ عنہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ رقمطراز ہیں:

حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں۔

تمام مے کدہ سیراب کردیا جس نے
وہ چشم یار تھی، جام شراب تھا، کیا تھا؟

آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے۔

آپ رضی اللہ عنہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر تنبیہ فرماتے۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رقمطراز ہیں:

آپ رضی اللہ عنہ خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفرِ محبت، محمد محب اللہ نوری، ص62تا 64)

ملفوظات عالیہ

آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکابر صوفیاء و مشائخ اور عرفاء و فقراء حاضر ہوکر اسرار و معارف کی نسبت سوال کرتے تو آپ جواب مرحمت فرماتے تھے:

  • محبت: محبت ایک نشہ ہے جس کے ساتھ ہوش نہیں، ذکر ہے جس کے ساتھ محو نہیں۔ اضطراب ہے جس کے ساتھ سکون نہیں۔
  • ہمت: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے نفس کو دنیا سے، روح کو تعلقات آخرت سے، اپنے قلب کو ارادوں سے اور اپنے سرکو موجودات سے علیحدہ کرلینا ہمت ہے۔
  • ذکر: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا دلوں میں حق کے اشاروں سے ایک ایسا اثر ہو جس کو غفلت مکدر نہ کرے۔ اس وصف کے ساتھ چپ رہنا، سانس لینا، قدم چلنا، پھرنا سب ذکر ہی ہوگا۔
  • شوق: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمدہ شوق یہ ہے کہ مشاہدہ سے وہ ملاقات سے سست نہ پڑ جائے، دیکھنے سے ساکن ہو، قرب سے ختم نہ ہو اور محبت سے زائل نہ ہو بلکہ جوں جوں ملاقات بڑھتی جائے شوق بھی بڑھتا جائے۔
  • توکل: حضرت شیخ رضی اللہ عنہ سے توکل کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا کہ دل کا خدا کی طرف مشغول ہونا اور غیر خدا سے الگ ہونا توکل ہے۔ جس پر پہلے بھروسہ کرتا تھا اس کی وجہ سے اب اس کو بھول جائے اور اس کے سبب ہر غیر سے مستغنی ہوجائے۔
  • توبہ: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا توبہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اپنی عنایت سے دیکھے اور اس عنایت سے اپنے بندے کے دل کی طرف اشارہ کرے، اس کو خاص اپنی شفقت سے اپنی طرف قبضہ کرتے ہوئے کھینچ لے۔
  • صبر: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا صبر یہ ہے کہ بلا کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب و ثبات پر قائم رہے اور اس کے کڑوے فیصلوں کو فراخ دلی کے ساتھ احکام کتاب و سنت کے مطابق مانے۔

صدق: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا صدق کی تین اقسام ہیں:

  1. صدق اقوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام دل کی موافقت پر ہو۔
  2. اعمال میں یہ کہ ان کا قیام حق کی رؤیت پر ہو۔
  3. احوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام خود حق پر مبنی ہو، انہیں نہ رقیب کا مطالبہ مکدر کرے اور نہ فقیہہ کا جھگڑا۔

رضا: حضرت شیخ رضی اللہ عنہ سے رضا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ تردد کو اٹھا دیا جائے اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ہو اسی پر کفایت کرے اور جب کوئی قضا نازل ہو تو دل اس کے زوال کی طرف نہ جھانکے۔

دعا: حضرت شیخ سے دعا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس کے تین درجے ہیں:

  1. تصریح
  2. اشارہ
  3. تعریض

تصریح: یہ ہے کہ اس کا تلفظ ہو تصریح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قول میں ہے کہ اے میرے رب! مجھے اپنا آپ دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھ لوں۔ یہ رؤیت کی تصریح ہے۔

اشارہ: یہ وہ قول ہے جو قول میں چھپا ہوا ہو یعنی اشارہ قول مخفی ہے۔ اشارہ ابراہیم خلیل علیہ السلام کا یہ قول ہے کہ اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ یہ رؤیت کی طرف اشارہ ہے۔

تعریض: تعریض وہ التجا ہے جو دعا میں چھپی ہوئی ہو۔ تعریض میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول ہے کہ خداوند ہم کو ایک لحظہ کے لئے بھی ہمارے نفسوں کے سپرد نہ کر۔ (تذکرے اور صحبتیں، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، ص111 تا 114)