معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر میں خواتین کے یکساں اختیارات

شیبا طراز

انسان نے جب وحشت سے معاشرت میں قدم رکھا یا یوں کہہ لیجئے کہ جب ڈارون کے بندر نے انسان کے قالب میں خود کو ڈھالنے پر آمادہ کیا تو معاشرے کی تشکیل کے لئے کچھ اصول وضع کئے ان اولین اصولوں میں سے ہی ایک یہ تھا کہ وہ خود شکار کرتا تھا اور عورت اس کا اور اس کے شکار کا انتظار۔ اسی انتظار اور شکار کے گرد وہ سماجی ڈھانچہ وجود میں آیا جس کے تحت ذمہ داریاں ایک دوسرے کو سونپی گئیں۔ یوں زمانے بیتے اور معاشرے تشکیل ہوہوکر مختلف داخلی و خارجی وجوہات کی بنا پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوتے رہے۔ اصول و قوانین کے ردوبدل کے ساتھ تازہ رحجانات وجود پاتے رہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوا اور بہت کچھ سے کچھ زیادہ اب بھی ایسا ہے جس کو تبدیل ہونا ہے۔ اولین معاشروں کے وجود کے ساتھ ہی مذاہب، عقائد اور گروہی تفکر کا بھی آغاز ہوا اور یوں ایک معاشرہ یا قبیلہ دوسرے سے جداگانہ حیثیت اختیار کرتا چلا گیا۔ زیادہ تر معاشروں میں مرد کی برتری ضرور قبول کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تکمیل اور فعالیت کی کسی ایک فریق کے بغیر ممکن نہیں۔

اپنے موقف کو طول دینے سے پرہیز کرتے ہوئے ان تمام مذاہب کی بحث کو صرفِ نظر کرتی ہوں جو قبل از اسلام موجود رہے اور اب اسلام کی موجودگی میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔ اسلام پر اپنی فکر کو مرکوز کرتے ہوئے چند باتیں ضرور دہرانا چاہوں گی۔

آج سے پینتالیس چالیس سال پہلے بچپن میں گھر میں دس بببیوں کی کہانی سنی جاتی تھی جو اکثر کسی دعا یا منت کے پورا ہونے پر یا منت اٹھانے پر سنتے تھے۔ یہ دس مقدس بیبیاں انبیاء کی ازواج یا والدہ اور آلِ محمدؐ کے خاندانوں سے تھیں اور مذہبی وابستگی کی وجہ سے بغیر کسی تفصیل کے ان پاکیزہ ہستیوں سے قلبی لگائو رکھنا دینی فرائض میں شامل تھا۔ جب میں کچھ اور بڑی ہوئی تو ایک چھوٹی سی کتاب ’’سو بڑے آدمی‘‘ زیر مطالعہ آئی۔ ان عظیم آدمیوں میں دو چار خواتین کا تذکرہ بھی تھا۔ ان میں ’’جون آف آرک‘‘ کا تعارف بھی شامل تھا لیکن مجھے بچپن سے ذہن نشین ہونے والی دس بیبیوں میں سے کسی کا نام نظر نہیں آیا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی عظیم ہستیوں سے آگہی حاصل ہوتی گئی۔ مجھے کبھی حیرت ہوتی ہے کہ بین الاقوامی تذکروں میں زیادہ تر عظیم عورتوں میں جن کا ذکر ہوتا ہے وہ غیر اسلامی و غیر ملکی خواتین ہیں۔

اسلامی معاشرے کی عورت کو حیا کے نام پر ایسا حجاب اوڑھا دیا گیا ہے کہ اس کا تشخص مجروح ہوکر رہ گیا ہے۔ یقین کیجئے نہ تو میں حجاب کے خلاف ہوں نہ ہی حیا کے۔ اتنا ضرور ہے کہ میں ’’آگہی‘‘ کو فوقیت دیتی ہوں چونکہ میں سمجھتی ہوں کہ صرف ’’پردے‘‘ کو فوکس کرنے کی وجہ سے دنیا تو دنیا ہم خود بھی اپنے معاشرے میں عورت کی عظمت کے تمام باب اور ساری داستانیں بھلا بیٹھے۔ ہم یہ بھی بھلا بیٹھے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف قبل از قبول اسلام ایک بہت بڑے کاروبار کو سنبھالتی تھیں بلکہ بعد میں بھی وہ اپنے کاروبار سے منسلک رہیں۔ جو بعد ازاں اسلام کی ترویج کے لئے کام کرتا رہا۔ ہم ام المومنین حضرت عائشہ کی سماجی خدمات کو بھلا بیٹھے جن کے تحت وہ ہر خاص و عام کو مسائل کے حل بھی دیتی رہیں اور اسلامی امور سے آشنائی بھی فراہم کرتی رہیں۔ ہم خاتون جنت حضرت فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا کے ان تمام دروس کو بھلا بیٹھے جن کو سن کر خواتین مشرف بہ اسلام ہوتی رہیں، ان معجزات کو فراموش کر بیٹھے جو آپ کی ذات مقدسہ کا حوالہ ہیں۔ کیا ہم اس فاطمہ کو نہیں جانتے جو جنگوں کے دوران زخمیوں کر مرہم پٹی کا انتظام کرتی تھی۔ ہم سکینہ بنت الحسین کے رائج کردہ اس اسلامی حجاب کو نہیں پہچانتے جو آج بھی عرب ممالک میں انہی کے نام سے فیشن لائن کے طور پر موجود ہے۔ جبکہ باقی مذاہب میں کرشن کے ساتھ رادھا اور رام کے ساتھ سیتا کھڑی نظر آرہی ہے۔ حضرت عیسیٰ سے پہلے حضرت عیسیٰ کی ماں مقدس حضرت مریم ہر موڑ پر راہنمائی کررہی ہے۔ چھوٹی موٹی سینٹ خواتین کے چرچز پورے یورپ میں جابجا پھیلے ہیں۔ یونانی دیوتائوں کے ساتھ حسن کی دیوی، علم کی دیوی اور بہت سے قوتیں رکھنے والی دیویاں موجود ہیں اور دنیا کے امور سنبھالے ہوئے ہیں۔

جب ہم خدا کی تاریخ، مذاہب کی تاریخ اور دنیا کی تاریخ پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے مذہب میں تبدیلی کی بہت گنجائش ہے۔ اس کمسن مذہب میں ابھی بہت سے قوانین وضع ہونے ہیں۔ مروجہ اصولوں کو تیزی سے تبدیل ہوتے ارضیائی ڈھانچے کے مطابق ڈھالنا ہے۔ آج کی مسلمان عورت کو نہ صرف اپنے ملک یا معاشرے میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا ہے بلکہ غیر ممالک میں بھی اسے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ابھی تو ہم اپنے ملک میں کاروکاری کا نشانہ بنتی عورت اور ونی ہوتی عورت کو بچانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ابھی ہم اپنے ملک کے ابتر معاشی وسائل اور ان میں گھری عورت کو ہراساں ہونے سے بچا نہیں پارہے، حد تو یہ ہے کہ ہم سڑک پر چلتی یا حجاب عورت پر بھی فقرے بازی سے باز نہیں آرہے۔ کجا غیر معاشروں میں تعلیم پاتی یا روزگار کرتی عورت کے لئے کوئی اسلامی اصول وضع کے جائیں۔ مجھے لگتا ہے ہمیں نئے سرے سے اپنے مذہبی قوانین کو بھی مرتب کرنا چاہئے اور معاشرتی دبائومیں آجانے والے اصولوں کو از سر نو تعمیر کرنا چاہے اس صورت میں اختیارات کے استعمال کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا اور خواتین کو معاشرے کے فعال فرد کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔

ابھی علامہ طاہرالقادری صاحب کی صورت امید کی ایک کرن موجود ہے۔ ان جیسے علماء کرام کی علمیت اور انسانی ہمدردی پر ہمیں بھروسہ ہے۔ آپ خصوصاً حقوق نسواں کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والوں میں ایک مضبوط اور توانا آواز ہیں۔ قادری صاحب ایک عالم تو ہیں ہی ساتھ ساتھ ایک ایسے دانش ور بھی ہیں جو طاقت نسواں پر یقین رکھتے ہیں اور اس طبقے کی فعالیت میں معاونت بھی کرتے ہیں۔ قادری صاحب کا مطالعہ وسیع اور عمل کھرا ہے۔ ان کے ادارے میں آکر میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ہے کہ یہاں تنظیم کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو عام معاشرے سے کہیں زیادہ باشعور اور باعلم ہے۔ یہاں حجاب دوسری خواتین کو نیچا یا کمتر ثابت کرنے کے لئے نہیں اوڑھا جاتا بلکہ اپنے ذاتی تقدس کی شناخت کے بعد اوڑھا جاتا ہے۔ یہاں عورت عورت سے بات کرسکتی ہے اور مرد سے بھی مخاطب ہوسکتی ہے اور مرد بھی عورت کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھ کر اور اعتراف عظمت کے بعد اس سے مخاطب ہوتا ہے اور بلاشبہ یہ علامہ طاہرالقادری کے تفکر اور تدبر کا نتیجہ ہے کہ یہاں اس ادارے میں ایک منظم، مستحکم اور اصولی معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے اور خواتین کے اختیارات کا مثبت رحجان بھی دل موہ لینے والا ہے۔

میری دعا ہے کہ ہم اسی معاشرتی سچائی اور خوبصورتی کو اپنے تمام ملک میں پھیلتا، پھلتا، پھولتا دیکھ سکیں۔ آمین