علامہ ڈاکٹر محمد اقبال بطور ایڈووکیٹ

ظفر علی راجہ

مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بچپن لڑکپن اور جوانی عام انسان کی طرح گزری۔ ان کو کامیابیوں کے حصول کیلئے بڑی محنت کرنا پڑی۔ وہ ناکامیوں سے مایوس نہیں ہوئے۔ ناکامیوں کو کامیابیوں کیلئے استعمال کیا۔ علامہ اقبال کی زندگی کا یہ پہلو نوجوان نسل کیلئے خصوصی طور پرمشعل راہ ہے۔ اقبال نے فقیر سید نجم الدین سے ایک مکالمے میں کہا تھا ’’ میں نے ڈاکٹر بننے کی کوشش کی تھی مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ اسکے بعد ای اے سی (کمشنری) کا امتحان پاس کیا لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں آنکھ کی خرابی کی وجہ سے رہ گیا۔‘‘ عام تاثر یہ ہے کہ علامہ اقبال ایک ناکام وکیل تھے۔ یہ تاثر باقاعدہ ایک منصوبہ بندی سے پھیلایاگیا جسے سازش کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ڈاکٹر اقبال وکالت کے شعبے میں کسی بھی شعبے کی طرح کامیاب رہے۔ ظفر علی راجا نے علامہ اقبال کی وکالت کو اپنی کتاب قانون دان اقبال میںموضوع بحث بنایا ہے اور وکالت کے حوالے سے علامہ کی زندگی کے وہ پہلو اجاگر کئے ہیں جو عوام الناس کی نظروں سے اب تک اوجھل تھے۔ اقبال 27 جولائی 1908ء کو لندن سے بیرسٹری کر کے لاہور پہنچے تو انکی وکالت کا دور شروع ہو گیا۔اقبال کی پیشہ وارانہ زندگی کے ابتدائی دور کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ ’’سال ڈیڑھ سال کے عرصہ میں معلمی اور وکالت کے سلسلے میں اقبال کو اتنی تگ و دو کرنی پڑتی کہ ان کا سارا وقت اسی میں صرف ہو جاتا۔ تمام دن تدریسی مشاغل یا مقدمات کی پیروی میں گزرتا، شام کو موکلوں کی ملاقات کیلئے دفتر میں بیٹھنا پڑتا اور رات گئے تک اگلے روز کے مقدمات کی تیاری کرتے رہتے‘‘ ظاہر ہے کہ اتنی محنت وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کرتے تھے۔

اسکے علاوہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے خاندانی معاملات اور تقسیم جائیداد کے تنازع میں ریاست کرنال، نواب بہاولپور کی وائسرائے کے سامنے ایک درخواست کی پیروی کیلئے بمبئی، کچھ دیوانی مقدمات کی پیروی کیلئے سرینگر (کشمیر) اور کچھ قانونی معاملات کے سلسلے میں لدھیانہ اور گجرات کے سفر بھی بیرسٹر اقبال نے اختیار کئے جبکہ دیگر مقدمات کے سلسلے میں پٹیالہ، پٹنہ، دہلی، لدھیانہ، گجرات گئے اور نواب ارشاد علی خان کے مقدمہ کی پروری کیلئے اپریل 1922ء میں شملہ گئے۔ اقبال کے بارے میں ادبی، تحقیقی اور عوامی سطحوں پر ہمیشہ سے یہ تاثر غالب چلا آرہا ہے کہ اقبال کی وکالت برائے نام تھی اور انہوں نے وکالت کے پیشہ کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ ان کی زیادہ تر توجہ شاعری اور تعلیمی مشاغل تک محدود رہتی تھی۔ اس سلسلے میں جسٹس شادی لال کا وہ متعصبانہ تبصرہ روایت کیا جاتا ہے جس میں شادی لال نے کہا تھا کہ وہ اقبال نام کے شاعر کو تو جانتا ہے لیکن اس نام کے وکیل کو نہیں جانتا۔ حیات اقبال پر لکھی گئی سینکڑوں کتب کو اٹھا کر دیکھیں تو کسی میں بھی مقدمات اقبال کے حوالے سے کوئی مختصر سی تحریر بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس زاویے سے بھی ان لوگوں کی آراء کو تقویت ملتی ہے جن کا موقف یہ ہے کہ اقبال بیرسٹر تو تھے مگر وکالت کے حوالے سے محض ایک برائے نام وکیل تھے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

راقم الحروف (ظفر علی راجا) نے اس حوالے سے تحقیق کی تو اقبال کی وکالتی زندگی کی ایک ایسی تصویر اجاگر ہوئی جو اس سے قبل وقت کی دھول میں دبی ہوئی تھی۔ اقبال نے 1908ء کے اواخر میں وکالت کے پیشے میں قدم رکھا تھا۔ اس زمانے میں آل انڈیا رپورٹر، پنجاب لاء رپورٹر اور انڈین کیسز نامی تین بڑے قانونی رسالے شائع ہوتے تھے۔ قانونی رسائل کا خاصہ یہ ہوتا تھا کہ ان میں صرف ان مقدمات کے فیصلے شائع کئے جاتے تھے جن میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان، اہم قانونی نکات پر فیصلہ جات صادر کیا کرتے تھے۔ راقم نے لاہور ہائیکورٹ کے لائبریری ریکارڈ سے ایک صدی قبل کے ان رسالوں کو تلاش کیا۔ جن میں سے اکثر خستہ حالت میں تھے اور کچھ کے صفحات الٹ پلٹ کے عمل میں آتے ہی دریدہ ہونے لگتے تھے۔ 1908ء سے 1934ء تک کے ان قانونی رسائل کے ورق ورق مطالعے کے نتیجے میں ایک سو چار ایسے فیصلہ جات دستیاب ہوئے جن میں بیرسٹر محمد اقبال کسی نہ کسی فریق کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ وفات اقبال کے بعد گزشتہ پون صدی میں آبادی میں بے پناہ بڑھوتری اور ججوں کی تعداد میں کئی گنا اضافے کے باوجود اب بھی ایسے وکلاء کی تعداد خاصی محدود ہے جن کے ایک سو سے زائد مقدمات قانونی رسائل میں شائع ہو چکے ہوں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ اقبال محض برائے نام وکالت کرتے تھے غلط فہمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر اقبال کی وکیلانہ قابلیت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال کے مقدمات سے متعلق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابیاں انہوں نے اپنے وقت کے نامی گرامی وکلاء کے مقابلے میںحاصل کیں۔ ان قانون دانوں میں بیرسٹر سر محمد شفیع، بدرالدین قریشی، مسٹر محمد دین (بعد میں جسٹس)، بیرسٹر خواجہ ضیاء الدین، سید محسن شاہ (بعدازاں جسٹس)، گوکل چند، بھگت ایشو داس، مسٹر گنپت رائے، برج لال، شیخ عمر بخش، عزیز احمد، سرفضل حسین، بھگت رام پوری، کنور نارائن، رائے بہادر لالہ، فقیر چند، موتی ساگر (بعد ازاں جسٹس)، بلونت رائے، لالہ کشن چند، نندلال، رائے بہادر لالہ کپور، رام بھاج دتہ، کالندہ رام، سردار تیجا سنگھ اور دیگر بہت سے بڑے نام ہیں۔

بیرسٹر اقبال کے برائے نام وکیل ہونے کے مفروضے کی تردید کیلئے انکی پیشہ ورانہ شہرت کی وسعت کا ثبوت بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مقدمات اقبال کے دستیاب ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وکیل ان کا نام ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں معتبر گردانا جاتا تھا اور دور دراز اضلاع کے موکلین اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے اقبال کو اپنا وکیل مقرر کرتے تھے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ضلع لاہور اوراپنے آبائی ضلع سیالکوٹ کے علاوہ جن اضلاع کے موکلین نے اقبال کو چیف کورٹ میں اپنا وکیل مقرر کیا تھا ان میں ضلع سرگودھا، راولپنڈی، ملتان، انبالہ، جہلم، اٹک، شاہ پور، لدھیانہ، جالندھر، ہوشیار پور، کانگڑہ، حصار، گورداسپور، فیروزپور، منٹگمری (اب ساہیوال)، دہلی، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ، لائل پور (اب فیصل آباد) گجرات اور کیمبل پور کے علاوہ ریاست کرنال اور ریاست جموں کشمیر کے موکلین شامل ہیں۔

کتاب قانون دان اقبال کے مصنف ظفر علی راجاکواپنی اس تحقیق اور تلاش کے دوران بیرسٹر اقبال کے حوالے سے 103 شائع شدہ مقدمات تک رسائی ہوئی۔ بیرسٹر اقبال کے بارے میں یہ بات بھی غلط طور پر روایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ تر فوجداری پریکٹس کیا کرتے تھے۔ اقبال کے جن ایک سو تین مقدمات کے ریکارڈ تک رسائی ہوئی ہے ان میں 95 فیصد سے زائد مقدمات کی نوعیت دیوانی قوانین سے تعلق رکھتی ہے۔

بیرسٹر اقبال کو جب ’’خان صاحب‘‘ سے کہیں برتر یعنی ’’سر‘‘ کا خطاب جو کہ خود چیف جسٹس شادی لعل کو حاصل تھا، عطا کرنے کا اعلان کیا گیا تو جسٹس شادی لال کی ناگواری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مولانا عبدالمجید سالک کا بیان ہے کہ اقبال کے حاسد حکام اعلیٰ کو اقبال سے بدظن کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے لیکن نواب ذوالفقار علی خان ان تمام فتنہ انگیزیوں کے سد باب کیلئے سینہ سپر رہا کرتے تھے اور چاہتے تھے بیرسٹر اقبال عدالت عالیہ کے جج بن جائیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خطاب کیلئے از خود کوئی کوشش نہیں کی۔

ظاہر ہے کہ اقبال کی اتنی زبردست حکومتی اور عوامی پذیرائی پر جسٹس سرشادی لال تلملاتے رہے ہوں گے اور خود سے اقبال کی بے رخی انکے دل پر نقش ملال بنی ہوئی ہو گی۔ یہی وہ پس منظر ہے کہ جب 1925ء میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک خالی اسامی کیلئے اقبال کی بطور جج تعیناتی کی تحریک ہوئی تو چیف جسٹس سرشادی لعل نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے یہ طنزیہ فقرہ کہا:

’’ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں قانون دان کی حیثیت سے نہیں‘‘

جسٹس شادی لعل کا یہ کہنا کہ وہ اقبال نام کے کسی وکیل کو نہیں جانتے قانونی کتب میں ہائی کورٹ کے شائع شدہ فیصلہ جات کے ریکارڈ سے بھی جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ عدالت عالیہ کے شائع شدہ فیصلہ جات سے ظاہر ہوتاہے کہ شادی لعل بطور مخالف وکیل بھی اقبال کے ساتھ ہائی کورٹ کے مقدمات میں پیش ہوئے اور پھر شادی لعل کے جج بن جانے کے بعد پندرہ ایسے مقدمات کی تفصیل بھی ملتی ہے جن میں بیرسٹر سر محمد اقبال نے جسٹس شادی لعل کی عدالت میں پیش ہو کر مقدمات کی پیروی کی۔ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جسٹس سر شادی لعل نے اقبال کی قانونی حیثیت سے یکسر نا آشنائی کی بات بدنیتی، حسد اور ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر کی تھی کیونکہ بیرسٹر محمد شفیع کے مقابلے میں اقبال سے سرشادی لعل کی ہمنوائی سے انکار کیا تھا۔ ایک طرف تو بحیثیت چیف جسٹس وہ لاہور بار کے ممتاز رکن بیرسٹر اقبال کو بلا کر خود انہیں ’’خان صاحب‘‘ کے خطاب کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ انکی قانونی شناخت تک سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک اور واقعہ کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ اس واقعے نے بھی سرشادی لعل کے دل پر ضرور ایک انمٹ زخم لگایا ہو گا۔ یہ واقعہ اکتوبر 1933ء کا ہے جب چیف کورٹ لاہور کو ہائی کورٹ پنجاب میں تبدیل کیا گیا۔ وائسرائے ہند نئے ہائی کورٹ پنجاب کا افتتاح کرنے کیلئے بطور خاص لاہور آئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سر شادی لعل نے استقبالیہ تقریر کی۔ وائسرائے ہند نے جوابی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ بیرسٹر اقبال کے بارے میں بھی تعریفی کلمات کہے۔ بیرسٹر اقبال کی تعریف پر سب حاضرین حیرت زدہ رہ گئے۔ چونکہ ایسے موقع پر وائسرائے ہند جیسی شخصیت سے ایسی تعریف کی توقع نہ تھی۔ اقبال نے مہاراجہ سرکشن پرشاد کے نام تحریر کردہ اپنے خط مورخہ 24 اکتوبر 1933ء کو خود اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد ریاست حیدر آباد میں وزارت عظمی کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد اپنی تحریروں میں علامہ اقبال کو ہمیشہ بیرسٹر محمد اقبال لکھا اور بولا کرتے تھے۔مہاراجہ کشن پرشاد نے علامہ اقبال کی قانون پر گرفت دیکھتے ہوئے ہی انہیں ریاست کی ہائی کورٹ میں جج لگانے کی کوشش کی تھی۔