اداریہ: یوم مئی، مرد و خواتین مزدوروں کا استحصال کب تک؟

ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا محنت کی۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جتنے انبیاء بھیجے ہیں ان سب نے بکریاں چرائیں یعنی سب نے مزدوری کی اور رزق حلال سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی کفالت کی؟ ایک صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چرائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے اہل مکہ کی بکریاں چرائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت محنت مزدوری کرتی تھی، ازواج مطہرات گھروں میں اون کاتتی تھیں، بعض صحابیات کھانا پکا کر فروخت کرتی تھیں، بعض زراعت، تجارت کے شعبہ جات سے وابستہ تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا زوجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ’’وہ اپنی محنت سے کماتیں اور اللہ کی راہ میں صدقہ کرتی تھیں‘‘ اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں رہنما اصول وضع کیے۔ ان میں مزدوروں کے حقوق و فرائض بھی بڑی فصاحت کے ساتھ بیان کیے گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر دو ‘‘ ایک اور موقع پر فرمایا ’’جن کو اللہ نے تمہارے ماتحت بنا دیا ہے ان کو وہی کھلائو جو خود کھائو وہی پہنائو جو خود پہنو، ان سے ایسا کام نہ لو کہ جس سے وہ بالکل نڈھال ہو جائیں اگر ان سے زیادہ کام لو تو ان کی اعانت کرو‘‘ یعنی انہیں زیادہ (اوورٹائم)مزدوری ادا کرو۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدوروں کو اللہ کا دوست قرار دے کر دنیا کے ہر بڑے سے بڑے اعزاز اور شیلڈ کو کم تر کر دیا، ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اورشکاگو کے جانثار مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر کی مزدور تنظیمیں اپنی حالت زار بیان کرتی ہیں، اپنے مطالبات دہراتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ حکمران جماعتیں مزدوروں کے حق میں بروئے کار لائے جانے والے اقدامات کا تذکرہ کرتی ہیں اور حکومتی پالیسیوں کو مزدور دوست قرار دیتی ہیں جبکہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود پاکستان میں نصف آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ 2 کروڑ 30 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے،یہ بچے سرمایہ داروں، صنعتکاروں، کارخانہ داروں کے نہیں بلکہ زرعی و صنعتی کارکنوں ،مزدوروں کے بچے ہیں، اسی طرح نصف سے زائد آبادی ذاتی گھروں سے محروم ہے، شہر شہر کمرشل ہائوسنگ سوسائٹیاں پھل پھول رہی ہیں مگر کوئی ایک ایسی ہائوسنگ سوسائٹی نظر نہیں آئے گی جو کم آمدنی والے مزدوروں کیلئے بن رہی ہو ۔پنجاب حکومت نے آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے تحت 2015 ء تک 50ہزار گھروں کی تعمیر کا ہدف مقرر کیا تھا مگر2017 ء میں 370 گھروں کی تعمیر پر آ کر کام رک گیا ہے کیونکہ مزدوروں کو چھت دینے کی اس سکیم کا قومی خزانہ متحمل نہیں؟ ہر سال توانائی بحران کے باعث سالانہ 10 لاکھ مزدور بے روزگار ہوتے ہیں۔ افراط زر میں کمی کے باوجود نصف آبادی پھل، سبزیاں، دودھ دہی مقرر شدہ سرکاری نرخوں پر نہیں خرید پاتی، حال ہی میں آئیڈیاز نامی تنظیم کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ 64فیصد عوام مہنگائی میں اضافہ کی وجہ سے پریشان ہیں۔ یہ 64فیصد صرف اور صرف مزدور ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل ایجوکیشن سروے میں بتایا گیا ہے کہ کم آمدنی الے شہریوں کو سکولوں کے ساتھ معاملات میں 24فیصد، ہسپتالوں میں سہولیات کے حصول اور علاج کے ضمن میں 42فیصد، تھانوں میں انصاف کے حصول اور ایف آئی آر کے اندراج کے ضمن میں 31فیصد رشوت اور سفارش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کم آمدنی والے شہریوں کو بجلی کے بلوں میں 6 قسم کے ٹیکسوں کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ ادائیگیاں مزدور اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرتے ہیں۔ اووربلنگ اور لوڈشیڈنگ کے مسائل اس کے علاوہ ہیں، پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں مزدور ہیں مگر انہیں سوشل سکیورٹی دستیاب نہیں۔ کرپشن اور چور بازاری کے باعث مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی کیونکہ طاقتور اور بااثر سرمایہ دار مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہونے دیتا اورمزدوروں کی چیخیں، رشوت اور کرپشن کے شور میں دب جاتی ہیں۔ رجسٹریشن نہ ہونے کے باعث فیکٹری مالکان وجہ بتائے بغیر مزدوروں کو ملازمت سے نکال دیتے ہیں اور اب اس غیر قانونی ،غیر اخلاقی ،غیر انسانی حرکت کو کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا اور مرد و خواتین مزدور برابر اس ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔

ہوم بیسڈ ورکرز خواتین کو بطور مزدور ڈیکلئر کیے جانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا تھا ۔منظوری کے بعدیہ بل سینیٹ آف پاکستان میں گیا مگر وہاں مقررہ مدت کے اندر منظور نہ ہو سکا ۔فی الحال ہوم بیسڈ ورکرز خواتین کے حوالے سے قانون اسلام آباد کی حدود تک محدود ہے۔ ملک بھر میں کروڑوں ہوم بیسڈ ورکرز سوشل سکیورٹی اور حقوق کی منتظر ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کم و بیش ہر گھر کسی نہ کسی شکل میں مزدور کے استحصال میں ملوث ہے ،وفاقی سطح پر اور پھر صوبائی سطح پر ہوم بیسڈورکرز خواتین کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے اور سختی کے ساتھ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے تاکہ کروڑوں خواتین جو غیر اعلانیہ طور پر غلامانہ بیگار لیے جانے جیسے استحصال سے دو چار ہیں انہیں انصاف میسر آسکے۔ زراعت اگر ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے تو خواتین زراعت میں بطور افرادی قوت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دیہاتی پس منظر رکھنے والے حضرات آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مئی کی جان لیوا گرمی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ گندم کی کٹائی میں شریک ہیں مگر ان کی انفرادی حیثیت میں بطور مزدور ان کا کوئی معاوضہ ہے اور نہ کوئی شناخت ،لائیو سٹاک میں خواتین کا کردارمرکزی اور اہم ہے۔ زراعت سے منسلک ہر شعبہ میں خواتین ملکی زرعی معیشت کے استحکام اور 19 کروڑ عوام کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے برسرپیکار ہیں، صرف زراعت ہی نہیں بلکہ ٹیکسٹائل، تعمیراتی میٹریل کی تیاری اور سپورٹس انڈسٹری میں بھی خواتین موثر پیداواری کردار ادا کررہی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدوروں کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں مزدوروں کو عزت دی جائے۔ حکومتیں ان کے استحصال کو بند کروائیں۔ مزدوروں کو عزت دینے اور ان کے حقوق کو قانونی تحفظ دینے کیلئے ہر چھوٹی بڑی انڈسٹری کو رجسٹرڈ کیا جائے کسی بھی فیکٹری ،صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کارڈ ملنے چاہئیں کیونکہ اس کارڈ کے باعث ہی مزدور کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں معاشی تحفظ ملتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مزدور کسی حادثاتی موت کا شکار ہو جاتا ہے تو اہلخانہ سوشل سکیورٹی کارڈ کے باعث ہی معاشی تحفظ حاصل کرنے کی چارہ جوئی کر سکتے ہیں ۔بصورت دیگر ان کے پاس اور کوئی قانونی چارہ نہیں ہوتا۔ مگر یہاں سرمایہ داری نظام نے سب سے بڑا ظلم یہ کررکھا ہے کہ مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہونے دی جاتی اور اس مکروہ عمل میں ریاستی ادارے پیش پیش رہتے ہیں ۔ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر ہونی چاہیے تاکہ مزدور بھی اپنے بچوں کو متوازن غذا کھلانے کے ساتھ ساتھ انہیں معیاری عصری تعلیم دلوا سکیں مگر یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار مقرر کررکھی ہے وہ بھی مزدور کو نہیں ملتی اویہ ایک اوپن سیکرٹ ہے۔ مزدوروں سے 8 گھنٹے کی بجائے 12 گھنٹے کام لیا جاتاہے اور اضافی کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اس حوالے سے خواتین اور مردوں کا یکساں استحصال ہورہا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بہت سے منصوبے بنتے ہیں مگر اگر پالیسی ساز حقیقی معنوں میں پاکستان کی ترقی اور استحکام چاہتے ہیں تو مزدوروں کو ان کے حقوق دیں۔