سفر توبہ کے تین اسٹیشن (پہلی قسط)

صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری

شبِ برأت کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری
معاونت: نازیہ عبدالستار

شبِ برأت کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورخہ 23 نومبر 1999ء کو گوالمنڈی لاہور میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ’’سفرِ توبہ کے تین اسٹیشن‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو ایڈٹ کرکے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے جو قارئین مکمل سماعت کرنا چاہیں وہ سی ڈی نمبر07 سماعت فرمائیں۔ (منجانب: ادارہ دختران اسلام)

يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اﷲِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا.

(التحريم، 66: 8)

’’اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو‘‘۔

معزز خواتین و حضرات! حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ حج کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ سفر مکہ کے دوران ہر قدم پر اللہ کے حضور دو رکعت نفل شکرانے کے ادا کرتے جارہے ہیں اور در محبوب حاضری کے لئے کشاں کشاں وادی مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح چودہ سال حرم کعبہ پہنچنے تک لگ گئے۔ ان کے عالم اشتیاق کا اندازہ کریں کہ دل کے جذبات کی کیفیت کیا ہوگی اور بے چینی اور اضطراب کتنے جوش پر ہوگا؟ وہ مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ہیں، جب حرم کعبہ پہنچتے ہیں تو آگے کعبہ دکھائی نہیں دیتا۔ پریشان ہوکر اللہ کے حضور سجدے میں گر جاتے ہیں۔ عرض کرتے ہیں مولامیں چودہ سال قدم قدم پر تیرے سجدے ادا کرتا ہوا تیرے گھر پہنچا ہوں یہاں آیا ہوں تیرا گھر موجود نہیں۔ کعبہ کہاں ہے؟

جواب آتا ہے ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ میری ایک ضعیف بندی اسی گھر کے دیدار کے لئے آرہی ہے، کعبہ اس کے استقبال کے لئے گیا ہوا ہے۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کانپ جاتے ہیں۔ مولا! کوئی ایسا بھی ہے کہ کعبہ اس کے استقبال کو جاتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: ہاں رک جا وہ بڑھیا وہ ضعیف بندی پہنچنے والی ہے۔ اس کے پہنچنے پر اس کا منظر دیکھنا۔ وہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا تھی۔ اب ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کعبہ کو بھول گئے اور رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ جب حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا وہاں پہنچی اور کعبہ کو اپنے استقبال میں آگے بڑھ کے کھڑا دیکھا تو رو پڑی۔ چیخ نکلی سجدے میں گریں۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ دیکھ رہے ہیں۔

عرض کرنے لگی مولا! میں مکان تھوڑا دیکھنے آئی تھی میں تو مکین دیکھنے آئی تھی۔ تو نے مکان میری آنکھوں کے سامنے کھڑا کردیا۔ میں تو سارا سفر مکان والے کو دیکھنے آئی تھی۔ابراہیم بن ادھم پوچھتے ہیں مائی صاحبہ! آپ نے سفر کیسے طے کیا؟ وہ پوچھتی ہیں بابا پہلے بتائیں آپ نے سفر کیسے طے کیا؟ انہوں نے کہا میں نے سفر نفلوں کے ساتھ طے کیا۔ آپ جواب دیتی ہیں میں نے سفر عجز و انکساری کے ساتھ طے کیا اور جو لوگ مکان دیکھنے کو جاتے ہیں ان کو مکان کی اصل حقیقت بھی دیکھنے کو ملتی ہے یا نہیں ملتی مگر جو مکیں کو تکنے کے لئے جاتے ہیں تو مکان ان کے دیدار و استقبال کے لئے جاتا ہے۔ یہ کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے کہ کعبہ ایک اللہ کے بندے کی طرف متوجہ ہوا؟ آج اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا مضمون آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں: سورہ آل عمران ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قَدْکَانَ لَکُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَاط فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَاُخْرٰی کَافِرَةٌ.

(آل عمران، 3: 13)

’’بے شک تمہارے لیے ان دو جماعتوں میں ایک نشانی ہے (جو میدانِ بدر میں) آپس میں مقابل ہوئیں، ایک جماعت (یعنی اہلِ ایمان) نے اﷲ کی راہ میں (دفاعی) جنگ کی اور دوسری کافر تھی‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر اس کیفیت کے بارے میں یوں فرمایا:

وَ فِيْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ.

(الذاريات، 51: 61)

’’اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو‘‘۔

فرمایا سب کچھ تمہارے اندر ہے۔ تم دیکھتے کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بہت سے لوگ دنیا میں ہیں جن کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جن کے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جن کے دل اور دماغ ہیں مگر وہ سوچتے نہیں۔ فرمایا سب کچھ تمہارے اندر ہے اگر تم دیکھنے والے بن جاؤ۔ تو اندر تمہیں بڑی کائنات نظر آئے گی۔ ایک کائنات تو وہ ہے جو تم چلتے پھرتے باہر دنیا میں دیکھتے ہو۔ ایک کائنات وہ ہے جو ہم نے تمہارے من کے اندر رکھی ہے مگر جو زندگی کا سراغ ہے۔ اس کے لئے من کو غیر کی پوجا سے بچنا پڑتا ہے۔ تب جا کے من کی کائنات کے پردے اٹھتے ہیں اور اس حسن لازوال کے جلوے جو من کی کائنات کے اندر ہر سو جلوہ گر ہیں وہ پھر آپ کو نظر آنے لگتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لوگو! ہم نے تمہارے من کے اندر دو فوجیں اور لشکر رکھے ہیں۔ فرمایا ایک اللہ کا لشکر ہے ایک نفس کا لشکر۔ اللہ کا لشکر جنود روحانیہ ہے یعنی روحانی فوج ہے اور نفس کا لشکر جنود شیطانیہ ہے۔ وہ شیطانی فوج ہے۔ ہم نے تمہارے اندر دونوں لشکر رکھے ہیں اور وہ آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ تمہارے دل اور من کی زمین ایک میدان جنگ ہے۔ ادھر اللہ کا لشکر صف آراء ہے اس کی قیادت روح کے ہاتھ میں ہے۔ ادھر شیطان کا لشکر صف آراء ہے اس کا کمانڈر نفس امارہ ہے۔ دونوں لشکر من کے میدان اور من کی سرزمین پہ آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

روح کے لشکر کے پاس بھی کچھ اسلحہ ہے۔ نفس کے لشکر کے پاس بھی کچھ اسلحہ ہے اور لڑائی تو اسلحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ نفس کے لشکر کے پاس بندوقیں ہیں بم ہیں ٹینک ہیں توپیں ہیں۔ مزید اس کے پاس شہوت نفسانی کا اسلحہ ہے۔ عورتوں کی خواہش کا اسلحہ ہے۔ بال بچوں کی محبت کا اسلحہ ہے۔ نفس کا لشکر دنیاوی، گھٹیا اور کمینی چاہتوں کے اسلحہ سے لیس ہے۔ یہ لشکر بھی مسلح ہے۔ ادھر روح کا لشکر بھی مسلح کھڑا ہے۔ روح کے پاس نہ شہوت ہے، نہ خواہش ہے، نہ حرص ہے، نہ لالچ ہے۔ روح کا لشکر اس دنیا سے آیا ہی نہیں۔ نفس کا لشکر اس مادہ سے پیدا ہوا۔ اس دنیا سے پیدا ہوا۔ اس خاک سے پیدا ہوا۔ خواہشوں کے نفس کے سپاہی لیس ہیں جبکہ روح اور اس کے سپاہی اس دنیا سے پیدا ہی نہیں ہوئے۔

نفس کے لشکر کو پیچھے سے کمک پہنچ رہی ہے۔ شرق سے غرب تک پوری دنیا نفس اور شیطان کے لشکر کو کمک پہنچاتی جارہی ہے۔ ادھر روح کی دنیا اس کے سپاہی اداس اور پریشان کھڑے ہیں۔ مضطرب و حیران کھڑے ہیں۔ میں نے روح کے کمانڈر سے پوچھا! تیرا لشکر پریشان کیوں کھڑا ہے؟ روح کا لشکر جواب دیتا ہے میرا مدمقابل لشکر اسی دنیا سے ہے۔ ساری دنیا اسے کمک پہنچا رہی ہے۔ میں اور میرے سپاہی اُس دنیا سے آئے ہیں۔ ہمارے پاس وہاں کا اسلحہ ہے جو وہاں رہ گیا۔ روح بتا وہ کون سی دنیا ہے؟ تیرا لشکر کہاں سے آیا ہے؟ اور جو وہاں رہ گیا وہ اسلحہ کیا تھا؟ روح کہتی ہے ایک آواز آئی تھی:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰی.

(الاعراف، 7: 176)

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے،) ‘‘۔

روحیں بول پڑی تھیں۔ ہاں مولا: تو ہی تو رب ہے۔ ہمارا اسلحہ اس مولا کی قربت تھی۔ ہمارا اسلحہ اس رب کی محبت تھی۔ ہمارا اسلحہ اس رب کے حضور سجدے تھے۔ تسبیح تھی۔ اس کی معرفت تھی، اس کی محبت تھی۔ اس کی اطاعت تھی، اس کا تقویٰ تھا، اس کے انوار تھے۔ اس کی تجلیات تھیں۔ ہم مالائے اعلیٰ میں رہتے تھے۔ دائیں تکتے تھے تو ملائکہ نظر آتے تھے۔ بائیں تکتے تھے تو ارواح انبیاء تھیں۔ اوپر نظر اٹھاتے تھے تجلیات الہٰیہ نظر آتی تھیں، نیچے نگاہ ڈالتے تھے عرش و ملکوت کا نظام تھا۔

ہم تو نور کی دنیا کے رہنے والے تھے۔ میرے لشکر کو اس مادی پنجرے میں بند کردیا گیا ہے۔ نفس اپنے دیس میں ہے روح کہتی ہے۔ میں اور میرا لشکر پردیس میں ہے۔ ان کے پاس ساری متاع دنیا ہے۔ یہ اس پر اتراتے ہیں۔ یہ اس پر گھمنڈ کرتے ہیں۔ اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہیں۔ دنیاوی ذرائع وسائل پر گھمنڈ کرتے ہیں مگر میں گھمنڈ کروں تو کس پر؟ میرا نخرہ تو تھا ساجن کے ساتھ، میرا نخرہ تو تھا اپنے دیس میں مولا کی قربت کے ساتھ۔ میرا ناز تو تھا جہاں تجلیات الہٰیہ کا پر تو ہوتا تھا۔ میرا حسن تو تھا اس عالم انوار میں۔ میرا تو روپ چھن گیا۔ اس لئے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

اس بانسری سے پوچھو یہ بجتی ہے اور رولادیتی ہے۔ اسے پوچھو کیا داستان سناتی ہے؟ کیا شکایت کرتی ہے؟ مولانا روم فرماتے ہیں: اس بانسری سے مراد انسان کی روح ہے۔ فرمایا جب روح کی بانسری بجتی ہے آپ کبھی صحراؤں میں جائیں، دیہاتوں میں جائیں، چھوٹی چھوٹی جو پگڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ وہاں جب ریتلے میدانوں میں لوگ بانسری بجاتے ہیں تو اس بانسری کی لے کان میں نہیں اترتی بلکہ جگر کو چیر کر نیچے اتر جاتی ہے۔ اس بانسری کی لے کو سنو تو لگتا ہے کوئی ہجر کی داستان سنارہی ہے۔ کوئی غم و فراق کی داستان سنارہی ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ غم اور فراق کس بات کا؟

روح کی بانسری کہتی ہے کہ میں اتنی اچھی تھی۔ اپنے درخت کی ٹہنیوں اور اس کے تنے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی جہاں مجھے تری ملتی تھی۔ وقت تھا کہ میں بھی سرسبز و شاداب تھی، میں بھی آباد تھی، مجھ پر ہرے بھرے پتے تھے۔ مجھ پر بہار آتی تھی، مجھ پرپھول لگتے تھے مگر ہائے ایک آرا چلا اس نے کاٹ کر مجھے اپنے وطن سے جدا کردیا اور خشک کرکے مجھے بانسری بنادیا۔ اب میں جب سے اپنے وطن سے جدا ہوئی ہوں۔ مجھے وطن کی بہاریں یاد آتی ہیں۔ کہتی ہے جب سے مجھے اپنے وطن سے کاٹ کے جدا کردیا گیا ہے۔ تب سے میں رو رہی ہوں۔ ہجر و فراق میں میری چیخ و پکار سن کر جنہیں تھوڑی سمجھ آتی ہے وہ بھی رو پڑتے ہیں۔ اے روح کی بانسری تو چاہتی کیا ہے؟ کہتی ہے کہ اب تو میں اتنا چاہتی ہوں کہ کوئی میرا رونا سمجھنے والا بھی رہے۔ کوئی میری داستان ہجر و فراق کو سمجھنے والا ملے، کوئی میری داستان سمجھ سکے، کوئی میرا دکھ سمجھ سکے، کوئی میرا رونا دھونا سمجھ سکے، کوئی سمجھنے والا ملے، محرم راز ملے اور محرم راز وہی ہوگا جس کا سینہ ہجر و فراق سے خود پھٹ چکا ہوگا۔ وہی میری داستان کو سمجھے گا اور جس کا جگر خود پھٹا نہیں وہ میرا غم نہیں سمجھے گا۔

تابگوئم در اشتیاق۔ کوئی پھٹے ہوئے سینے والا ملے تو میں بھی اپنے درد و غم کی داستان سناؤں۔ وہ روح کہتی ہے میرا لشکر سارا ویران کھڑا ہے، جبکہ اس مادی جنگ میں نفس کامیاب ہورہا ہے۔ روح کو خوراک سجدوں سے ملتی تھی، وہ بھی نہیں مل رہی۔ عبادت سے ملنی تھی وہ نہیں مل رہی۔ زہد و وریٰ سے وہ خوراک اور اسلحہ نہیں مل رہا۔ محبت الہٰیہ سے ملنی تھی وہ نہیں مل رہی۔ تقویٰ و طہارت سے اسلحہ ملنا تھا وہ نہیں مل رہا۔ لشکر بے اسلحہ ہے۔ یا اس کے پاس اسلحہ بہت کم ہے۔ نفس کی قمق زیادہ ہے، نفس من کی دنیا میں اس جنگ کو جیت گیا اور اس تن کے پنجرے میں تڑپ تڑپ کے روح ہار گئی۔ اس حال میں لوگ خوش ہیں کہ میرا نفس جیت گیا ہے۔ لوگ خوش ہیں مجھے شہوت مل گئی، مجھے طاقت مل گئی، مجھے مال و دولت مل گئی، مجھے زن اور زر مل گیا، مجھے زمین مل گئی، سلطنت مل گئی۔ حکومت مل گئی، تخت مل گیا، تاج مل گیا، دنیا مل گئی، لوگ خوش ہیں۔ مگر انہیں معلوم نہیں کہ نادان جس کو یہ فتح سمجھ رہا ہے۔ اس سے بڑی شکست کوئی نہیں ہے کیونکہ اس فتح نے آخرت میں تیرا حصہ ختم کردیا۔ اس فتح نے مولا کے حضور تیرا اجر ختم کردیا۔

یہ بہت بڑی شکست کا پیش خیمہ ہے۔ ان حالات میں اللہ کے بندے تڑپ کر روتے اور سوچتے ہیں مولا! کیا کوئی سبیل ہے کہ اس دنیا میں رہ کر بھی روح جیت جائے اور تیرا لشکر جیت جائے۔ پریشان حال انسان کو غیب سے جواب آتا ہے:

قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ.

(آل عمران، 3: 15)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟‘‘

لوگو! نفس کی خواہشوں پر اترانے والو! مال و دولت اور دنیا پر اترانے والو! اولاد کی کثرت اور جوانیوں پر اترانے والو! کاروبار اور تجارت کی کثرت پر اترانے والو! بڑے بڑے محلات پر اترانے والو! تخت سلطنت و حکومت پر اترانے والو! ان تمام چیزوں پر فخر کرنے والو سنو! تمہیں یہ باغ یہ سلطنت یہ زمین یہ نفس یہ شہوتیں، تمنائیں، خواہشیں کتنی حسین لگتی ہیں۔ نفس نے کہا ہاں بڑی حسین لگتی ہیں، بڑی پیاری لگتی ہیں۔ ان میں دل بڑا اتراتا ہے۔ اس گھمنڈ میں بڑا مزا آتا ہے۔ ایک آواز آتی ہے اور روح کی وادی میں سنائی دیتی ہے۔ رب کائنات نے فرمایا:

محبوب! اب ان کو سنا دو باری تعالیٰ کیا سناؤں؟ انہیں میرا پیغام دے دے کہ یہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے۔ ایک دنیا اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، کیا تمہیں اس کی خبر دے دوں؟

جونہی یار کی آواز آئی کہ تمہیں بتادوں۔ میرے پاس اس سے زیادہ خوبصورت عالم بھی ہے۔ اس سے زیادہ پیاری دنیا بھی ہے۔ اس سے زیادہ پیاری راحت بھی ہے۔ اس سے زیادہ پیاری لذت بھی ہے۔ اس سے زیادہ پیاری نعمت بھی ہے۔ اگر پردہ اٹھ گیا اور تم نے وہ لذت چکھ لی مجھے اپنی عزت کی قسم! یہ ساری لذتیں بھول جاؤ گے۔ محبوب ان سے پوچھو کیا بتادوں۔ لوگوں نے کہا باری تعالیٰ بتادیں۔ جواب آیا:

لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ.

(آل عمران، 3: 15)

’’پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں۔‘‘

یعنی اگر میرے تقویٰ کی راہ پر آجاؤ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے مجھ سے ڈرنا شروع کردو۔ لوگوں کا بندہ بننے کی بجائے فقط میرا بندہ بن جاؤ۔ لوگوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالنے کی بجائے آج سے میری بندگی اور غلامی کا پٹہ ڈال لو۔ دنیاوی مفاد کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کی بجائے آج سے میرے در پر سجدہ ریز ہوجاؤ۔ میرا تقویٰ اختیار کرلو۔ آج سے میرے بن جاؤ۔

(جاری ہے)