ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے حالاتِ زندگی

شیلا مالکی

زوجۂ رسول ایک پاکباز، دیندار، صالح، نیک اور شائستہ خاتون تھیں

حضرت ماریہ قبطیہ بنت شمعون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات تھیں۔ ان کی والدہ رومی تھیں۔ وہ مصر کے خفن نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنہ 6 ھجری میں بیرون ملک اپنے چند سفیر بھیجے اور ایک خط کے ذریعہ ان ممالک کے سربراہوں اور حکام کو اسلام کی دعوت دیدی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو مصر کے سربراہ، مقوقس کے پاس بھیجا اور اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط کا مضمون یہ تھا:" عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے۔ محمد بن عبداللہ کی طرف سے، مصر کے سربراہ مقوقس کے نام، حق کی پیروی کرنے والوں پر سلام، اما بعد، میں تمھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ھوں۔ اگر تم نے اسے قبول کیا تو اللہ تعالیٰ تمھیں دو برابر اجر عطا کرے گا اوراگر اسے قبول نہ کیا تو پورے قبطہ یعنی مصر کے گناہ تیری گردن پر ھوں گے۔"

مقوقس نے خط کی مہر اور دستخط دیکھے اور اسے پڑھ لی۔ اس کے بعد اس خط کو ہاتھی کے دانت کے بنے ایک برتن میں رکھا اور حاطب بن ابی بلتعہ سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و صفات کے بارے میں کچھ بتائیں، حاطب نے ایسا ہی کی۔ مقوقس نے تھوڑا غور کرنے کے بعد کہا:" میں سوچتا تھا، کہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام سے ظہور کریں گے، کیونکہ وہ پیغمبروں کے ظہور کرنے کی جگہ ہے۔ اب معلوم ھورہا ہے کہ انھوں نے جزیرۃ العرب سے ظہور کیا ہے۔ قبط ( مصر) ان کی اطاعت نہیں کرے گا"۔

اس کے بعد کاتب سے کہا کہ یوں لکھے: ’’اما بعد، میں نے آپ کے خط کو پڑھا، جو کچھ اس میں لکھا تھا، اس سے آگاہ ھوا اور آپ کی دعوت سے بھی مطلع ھو۔ لیکن میں خیال کرتا ھوں کہ پیغمبر آخر الزمان شام سے ظہور کریں گے۔ میں آپ کے قاصد کا احترام کرتا ھوں اور اس کے ہمراہ قبط (مصر) کی عظیم سرزمین سے لباس و مرکب (سواری) کے ساتھ دو کنیزیں بھیج رہا ھوں۔ والسلام۔‘‘

مقوقس نے خط کو حاطب کے حوالہ کیا اور معافی مانگی اور ان کے ہمراہ ماریہ و سیرین نامی دو کنیزیں، ایک غلام اور ان کے ساتھ ہزار مثقال سونا، بیس جوڑے مصری لباس، ایک خاکستری رنگ کے خچر کے علاوہ شہد، عود، مشک و عطر کی ایک مقدار بھیجی تھی۔

ماریہ اور سیرین مدینہ کی طرف جاتے ہوئے ،اپنے وطن سے دوری کی وجہ سے غمگین تھیں اور اپنی سرزمین کی یاد میں آنسو بہاتی تھیں۔ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے غم و اندوہ کا احساس کی۔ اس لئے ان کے سامنے مکہ و حجاز کے بارے میں کچھ قصے اور داستانیں بیان کیں۔ اس کے بعد دین اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تفصیل سے بتای۔ ان دونوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات اور تعلیمات اور دین اسلام کی اچھائی کو پسند کرتے ہوئے اسلام قبول کیا اور ایک نئی زندگی کی سوچ میں ڈوب گئیں۔ وہ سنہ 7ھجری کو مدینہ پہنچ گئیں۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی حدیبیہ سے واپس لوٹے تھے۔

حضرت حاطب رضی اللہ عنہ پیغمبر اسلام کے پاس حاضر ہوئے اور مقوقس کا خط اور تحفے پیش کئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقوقس کا خط اور اس کے تحفے دیکھے اور حضرت ماریہ کو اپنے عقد زوجیت میں لے لیا اور سیرین کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو ایک مشہور ادیب و شاعر دربار رسالت محمدیa تھے کے عقدِ زوجیت میں دے دیا۔ جن سے بعد ازاں عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھو۔ اس کے علاوہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باقی تحائف کو صحابیوں کے درمیان تقسیم کردی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیویوں کو یہ خبر ملی کہ، سرزمین نیل (مصر) سے ایک خاتون پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحفہ کے طور پر ملی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں مسجد کے قریب حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھا ہے۔

ایک سال کا عرصہ گزر گیا، اور چونکہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مقام ملا تھا، اس لئے وہ کافی مسرت و شادمانی محسوس کر رہی تھیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس خاتون سے کافی راضی تھے، کیونکہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لاتی تھیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک مخلص، جاں نثار اور پرہیزگار خاتون تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستورات کی مکمل طور پر اطاعت اور فرمانبرداری کرتی تھیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے شوہر بھی تھے اور مالک و مولا بھی۔

حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ہاجر رضی اللہ عنہا:

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو حضرت ہاجر، حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی داستان سے کافی دلچسپی تھی اور اس داستان کو کئی بار سن چکی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے حضرت ہاجر کی مدد فرمائی، جب وہ حجاز میں تن تنہا اور بے یار و مدد گار تھیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں چاہ زمزم عطا کرکے، سر زمین حجاز کو ایک نئی زندگی بخشی تھی، وہ جانتی تھیں کہ حضرت ہاجر کی زندگی تاریخ میں لافانی بنی ہے اور ان کا صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا مناسک حج کے ایک حصہ میں تبدیل ھوا ہے۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اپنے اور حضرت ہاجر کے درمیان پائی جانی والی شباہتوں پر غور و فکر کرتی تھیں، کیونکہ دونوں کنیز تھیں، حضرت ہاجر کو حضرت سارہ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کیا تھا اور حضرت ماریہ قبطیہ کو مقوقس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تحفہ کے طور پر بھیجا تھ۔ لیکن حضرت ماریہ قبطیہ اور حضرت ہاجر کے درمیان صرف یہ فرق تھا کہ حضرت ہاجر، حضرت اسماعیل کی ماں تھیں اور حضرت ماریہ قبطیہ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابھی صاحب اولاد نہیں ھوئی تھیں۔

ابراھیم رضی اللہ عنہ کی پیدائش:

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو سنہ 8ھجری میں ایک رات کو معلوم ھوا کہ وہ حاملہ ھوئی ہیں، وہ کافی شاد و مسرور ھوئیں اور خدا کا شکر و ثناء بجا لائیں۔ ابراھیم رضی اللہ عنہ ، ذی الحجہ کے مہینہ میں پیدا ھوئے۔ ان کی دایہ " سلمیٰ" تھیں۔ اس نے اپنے شوہر " ابو رافع" کو یہ خوشخبری سنائی، اور انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوکر اس نومولود کی خوشخبری دیدی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خوشخبری پر ابورافع، کو ایک غلام انعام کے طور پر دیا اور نو مولود کا نام ابراھیم رضی اللہ عنہ رکھا، کیونکہ آپ کے جد امجد کا نام حضرت ابراھیم علیہ السلام تھ۔ ابراھیم رضی اللہ عنہ سات دن کے ھوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقیقہ کے لئے ایک بھیڑ کو ذبح کیا اور نو مولود کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر راہ خدا میں چاندی دیدی۔

ابراھیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی محبت فرماتے تھے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

" جب ابراھیم رضی اللہ عنہ پیدا ھوئے، حضرت جبریل امین علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام کہا:" السلام علیک یا ابا ابراھیم؛" " سلام ھو آپ پر اے ابراھیم کے والد۔"

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد فرمایا:" کل رات میرے ہاں ایک بچہ پیدا ھوا کہ میں نے اسے اپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کے ہم نام قرار دیا"۔

انصار کی خواتین ابراھیم رضی اللہ عنہ کو دودھ پلانے میں رقابت کر رہی تھیں، اور اس طرح وہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک تر ھونا چاہتی تھیں، کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس قدر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو عزیز رکھتے ہیں۔ ابراھیم رضی اللہ عنہ کی دایہ بننے کی سعادت بالآخر " اُم بردہ خولہ بنت منذر بن زید" کو حاصل ھوئی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی اور مسرت کے عالم میں ابراھیم رضی اللہ عنہ کے بڑے ھونے کا مشاہدہ فرما رہے تھے۔

ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابراھیم رضی اللہ عنہ کی حالت خطرناک صورت میں خراب ھونے کی خبر ملی، فوراً گھر تشریف لائے اور اپنے لخت جگر کو ماں کی گود سے اٹھا کر اپنی آغوش میں لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک سے غم و آلام کے آثار نمایاں تھے اور اسی حالت میں فرمایا:

" اے ابراھیم؛ اگر موت حق اور وعدہ الہی نہ ھوتی اور ہم سب آخر کار اسی سے ملحق ھونے والے نہ ھوتے، تو میں تیرے بارے میں اس سے زیادہ غمگین ھوتا، میری آنکھیں پر نم ہیں اور میرا دل غم و اندوہ سے لبریز ہے، لیکن میں ہرگز زبان پر ایسا کلام جاری نہیں کروں گا جس میں خدا کی رضامندی اور خوشنودی نہ ھو۔ لیکن ابراھیم ؛ جان لو کہ ہم تیرے فقدان اور موت کی وجہ سے غمگین اور محزون ہیں"۔

آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ابراھیم رضی اللہ عنہ کو غسل دے کر کفن دیا جائے۔ اس کے بعد ان کے جنازہ کو اٹھا کر قبرستان بقیع میں لایا گیا اور اس جگہ پر سپرد خاک کیا گیا، جو اس وقت حضرت ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر کے عنوان سے مشہور ہے۔

جس دن حضرت ابراھیم رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، اس دن سورج کو گہن لگ گیا اور مدینہ کے لوگوں نے کہا:" سورج کو ابراھیم رضی اللہ عنہ کی موت کی وجہ سے گھن لگ گیا ہے"۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غلط فہمی کو دور کرنے اور اس خرافہ سے مقابلہ کرنے کے لئے منبر پر جاکر لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا: " اے لوگو؛ بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اور خدا کے ارادہ اور حکم کے تابع ھوتے ہیں اور کسی کی موت یا حیات کے لئے ان کو گھن نہیں لگتا ہے۔"

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے گھن نہیں لگتا ہے، پس جب گھن کا مشاہدہ کرو تو نماز پڑھن۔"

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی کافی غمگین تھیں اور اپنے لخت جگر حضرت ابراھیم رضی اللہ عنہ کی شان یوں بیان کرتی تھیں: ’’ اے ابراھیم رضی اللہ عنہ ، تم میرے بیٹے تھے اور ابھی تمھیں دودھ پلانا بند نہیں کیا تھا، اب بہشت میں فرشتے تمھیں دودھ پلائیں گے‘‘۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب شریک حیات تھیں۔ وہ خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ سے کافی لگاؤ رکھتی تھیں اور ان کا بہت احترام کرتی تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے آرام و آسائش کے لئے ان کا گھر مدینہ کے اطراف میں ایک باغ میں بناکر دیا تھا، جسے " مشربہ ام ابراھیم" کہا جاتا ہے۔ یہ باغ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ بنی نضیر میں ملا تھا۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا موسم گرما اور کھجور اتارنے کے موسم میں وہیں پر ساکن ھوتی تھیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں ملنے کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے " مشربہ ام ابراھیم" میں ساکن ھونے کے بعد، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراھیم رضی اللہ عنہ ذی الحجہ کے مہینے میں وہیں پر پیدا ھوئے تھے۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا خاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ حضرت ابراھیم کی ولادت کے بعد حضراتِ اہل بیت اور جید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمیشہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی حمایت کرتے تھے اور ذاتی طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے میں اقدام کرتے تھے اور وہ ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا خاص ادب و احترام کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے لئے ایک وظیفہ مقرر کیا تھا جسے خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی جاری رکھ۔

اخلاقی اوصاف:

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ایک پاک باز، دیندار، صالح، نیک اور شائستہ خاتون تھیں۔ اس کے علاوہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منظور نظر بیوی تھیں۔ مورخین و سیرت نگاروں نے ان کی دینداری کی ستائش کی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بیان میں اس خاتون کے ساتھ اپنے لگاؤ کا یوں اظہار فرمایا ہے: ’’جب مصر کو فتح کروگے، وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا کیونکہ میں ان کا داماد ھوں‘‘۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی وفات:

ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ محرم سنہ 61ھجری میں وفات پاگئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی خبر دی، اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی اورانھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گی۔