شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا دھرنا

خصوصی رپورٹ: آمنہ بتول

16 اگست 2017 کے دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کی فیملیز نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حوالے سے مال روڈ استنبول چوک پر دھرنا دیا اور 3سال کے بعد بھی انصاف نہ ملنے اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ شرکائے احتجاج کا مطالبہ تھا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر رٹ کی سماعت کیلئے غیر جانبدار بنچ بنا کر سماعت کا آغاز کیا جائے اور بلا تاخیر فیصلہ سنایا جائے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے اکتوبر 2014 میں جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کیلئے رٹ دائر کی گئی تھی جس پر تا حال کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے حوالے سے واحد غیر جانبدار عدالتی انکوائری رپورٹ ہے جسے بوجوہ شہباز حکومت پبلک کرنے سے انکاری ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا موقف ہے کہ مذکورہ عدالتی انکوائری رپورٹ کے استغاثہ کیس کا حصہ بننے سے انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ 16اگست کے دن ہزاروں خواتین اور بچوں نے احتجاج کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ غیر جانبدار صحافتی اداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک اتنی بڑی تعداد میں خواتین باہر نہیں نکلیں۔ اس احتجاج میں دیگر سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں اور اراکین اسمبلی نے بھی شرکت کی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شرکائے احتجاج سے انتہائی مدلل اور مفصل خطاب کیا۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے قانونی پہلوئوں اور عوامی تحریک کی حصول انصاف کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب کا کہنا تھا کہ انصاف کیلئے مال روڈ پر آنیوالی میری بیٹیاں خود کو تنہا نہ سمجھیں وہ جب تک دھرنا دیں گی میں انکے ہمراہ ہونگا اور دنیا کی کوئی طاقت انصاف دلانے سے نہیں روک سکتی۔ انہوں نے کہاکہ آج کا دھرنا جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کیلئے ہے۔ یہ شہیدوں کی مائوں، بہنوں کا دھرنا ہے۔ انصاف کے طلبگار کمزور نہیں یہ چاہیں تو قاتلوں کے گریبان پکڑ کر بھی انصاف لے لیں مگر ہمیں ہماری امن پسندی نے روک رکھا ہے، انہوں نے انصاف کے اداروں میں بیٹھی مقتدر شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے ورثاء پوچھتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو 17 جون کو شہید کرنے والے دندناتے ہوئے کیوں پھررہے ہیں؟ ان کا قصور کیا تھا، کیا انہوں نے رائیونڈ محل پر حملہ کیا تھا؟ یہ پرامن کارکن صرف یہ کہتے تھے ہر بچے کو تعلیم کا حق دیا جائے، ہر ایک کے ساتھ انصاف ہو، ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہو۔ ہر ایک کو اس کی اہلیت کے مطابق روزگار ملے، میں جب دس نکاتی ایجنڈے کے اعلان کے بعد پاکستان آرہا تھا تو قاتل حکمرانوں کے اوسان خطا تھے وہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان آنے سے روکیں مگر ہم دھمکیوں سے کہاں ڈرنے والے، ہماری جدوجہد 21 کروڑ عوام کیلئے تھی، پاکستان کے ہر غریب کیلئے تھی، ہر مظلوم کیلئے تھی جو آج بھی جاری ہے، میری آمدکے خوف میں مبتلا حکمرانوں نے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں ماڈل ٹاؤن پر ہلہ بولا اور اسے مقبوضہ وادی میں تبدیل کر دیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کو تجاوزات ہٹانے کا آپریشن کہنے والے بتائیں کہ کیا کوئی ایک لاش بھی کسی بیریئر کے پاس گری، بیریئر پر اگر مزاحمت ہوتی تو وہاں کوئی زخمی بھی ہوتا، کسی بیریئر پر تو کوئی مزاحمت نہ تھی، میرے گھر کے دروازے پر کون سا بیریئر تھا جہاں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضی کو شہید کیا گیا، منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پر کون سا بیریئر تھا، مرکزی دروازے پر کون سے بیریئرز تھے، گوشہ درود میں کون سا بیریئر تھا، نیشنل مارکیٹ میں کون سے بیریئر تھے جہاںپر لاشیں گرائی تھیں، یہ بیریئر ہٹانے کا آپریشن نہیں تھا یہ خون کی ہولی کھیلنے کا منصوبہ تھا، جو میری آمد سے پہلے بنایا گیا اور جس کا اعتراف پنجاب کے وزیر قانون نے جسٹس باقر نجفی کمیشن کے روبرو اپنے بیان حلفی میں بھی کیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے اور جن کو اس رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ان کے نام سامنے لائے جائیں، ہمارا یہ مطالبہ آئین کے مطابق ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نواز شریف آج تم آئین کی بات کرتے ہوئے مگر 14 شہداء کے یتیم بچوں کو ان کے آئینی حق سے محروم کررہے ہو، آپ بے گناہ ہیں تو پھر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو کیوں چھپا رکھا ہے؟ اسے استغاثہ کا حصہ کیوں نہیں بننے دے رہے، ہم انصاف چاہتے ہیں اس کیلئے ایک بنچ تشکیل دیا جائے، ہم یہ نہیں کہتے کہ بنچ ہماری مرضی کا بنے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ بنچ کسی اور کی مرضی کا بنے، ایسا بنچ جس کے اندر بیٹھنے والے کسی سیاسی جماعت یا حکومتی شخصیت سے کوئی تعلق نہ رہاہو، ہم انصاف بشکل قصاص لے کررہیں گے، ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی آئی نہ آئے گی، شہداء کے ورثاء نے کروڑوں کی دولت کو پائوں کی ٹھوکر ماری اور وہ ڈٹ کر کھڑے ہیں، انہوں نے نااہل وزیراعظم کے ووٹ کے تقدس کے دعوئوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کس تقدس کی بات کی جارہی ہے، نواز شریف نے 80 کی دہائی میں ایم پی ایز کی بولیاں لگائیں اور چھانگا مانگا کے جنگل کو ’’آباد‘‘ کیا، ایم پی اے کے 3 لاکھ، 6لاکھ، 12 لاکھ ریٹ مقرر تھے، مسلمان ایم پی اے کی بولی زیادہ لگائی جاتی تھی اور نان مسلم ایم پی اے کی آدھی بولی لگائی جاتی تھی وہاں بھی امتیاز برتا گیا، اگر یہ بولیاں لگانے والا میرا دعویٰ درست نہیں تو پھر آپ میں جرأت ہے تو اس کی تردید کریں۔ یقینا آپ میں جرأت نہیں ہے، سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ نواز شریف نااہل ہونے کے بعد مینڈیٹ کے احترام کی بات کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے 89 میں سازش کر کے بینظیر بھٹو کو اس وقت کے صدر سے مل کر برطرف کروایا اور پھر خود وزیراعظم بنے، 90ء کی دہائی میں دوسری بار بینظیر کو برطرف کروا کر خود وزیراعظم بنے، جمہوریت کو پیسے کی غلاظت سے آلودہ کیا، نواز شریف نے اس پورے سسٹم کو کرپٹ کیا اور آج وہ اسی سسٹم کے خلاف بول رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پہلی بار ایک آمرنے آپ کو وزیر خزانہ بنایا پھر جنرل ضیاء الحق نے آپ کو وزیراعلیٰ نامزد کیا، آپ آمروں کی نرسری میں ہی پلے بڑھے، اب آپ کہتے ہیں کہ 70 سال سے تماشا لگا ہوا ہے اس تماشے کے بلڈر اور ڈویلپر توآپ ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں اشرافیہ نے ملک لوٹا، عربی اور اردو میں اشرافیہ کی جمع اشراف ہے تو تم کسے اشرافیہ کہہ رہے ہو، یہ درست ہے کہ اشرافیہ نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھ پر تنقید کرنے والوں کے درد کا سبب میں سمجھتا ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نااہلی کے بعد اگلا کیس ماڈل ٹاؤن کا ہے، انہیں پھانسی کا پھندا نظر آرہا ہے، انہوں نے کہا کہ اشرافیہ نے 30 سالہ عہد اقتدار میں اپنے خاندان کو خوشحالی دی اور پوری دنیا میں کاروبار پھیلائے، انہوں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے فرنٹ مین ہندوئوں کو بھی جانتا ہوں اور یہودیوں کو بھی، ایک ایک فرنٹ مین کو جانتا ہوں، انہوں نے نواز شریف کی طرف سے انقلاب کی باتوں پر شدید ردعمل میں کہاکہ کیا نااہل ہونے کے ایک لمحے قبل تک آپ اس نظام کو برا سمجھتے تھے؟ اور کیا اگر یہ فیصلہ آپ کے حق میں آتا تو آپ اس نظام کو برا کہتے، اب بھی آپ کا انقلاب صرف آئین سے امانت اور صداقت کی شقیں نکالنے تک محدود ہے، انہوں نے کہا کہ جب ہم ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کررہے تھے، کرپٹ انتخابی پریکٹسز کے خاتمے کی بات کررہے تھے تو آپ نے ہمیں گولیاں ماریں، ہمارے کارکنوں کو قید کیا، انہیں زخمی کیا، ہم نے اس ظالم نظام کے خلاف جنوری 2013 ء میں لانگ مارچ کیا، انتخابی اصلاحات کیلئے پرامن دھرنے دیے، پوری قوم کو آرٹیکل 62 اور 63 کا سبق پڑھایا اور آج آپ اقتدار سے محرومی کے بعد نیا ڈرامہ لے کر سامنے آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظالم نظام کے خاتمے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی جنگ جاری رہے گی، عیدکے بعد فیصل آباد، ملتان اور پنڈی میں ریلیاں ہونگی، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے خواتین کے اس دھرنے میں نظم کے اشعار بھی سنائے جس میں نواز شریف کو منظوم جواب دیا گیا کہ تجھے کیوں نکالا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے 16اگست 2017 ء کی رات اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج آپ نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا، عظیم اجتماع پر اپنی بیٹیوں کی جرأت پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ آپ جیسی بیٹیاں کم ہی مائیں پیدا کرتی ہیں، انہوں نے کہا کہ میں وقت کے فرعونوں نواز شریف اور شہباز شریف کو بتانا چاہتا ہوں آپ پیسے سے سب کچھ خرید سکتے ہیں مگر میرے کارکنوں کا ضمیر نہیں، یہاں پر دیت کے نام پر خون کے سودے ہوتے ہیں کیونکہ مظلوم جانتے ہیں کہ طاقتور قاتل انہیں انصاف نہیں لینے دینگے اور وہ دیت کے نام پر خون بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن یہ شہیدوں کا خون بکنے والا نہیں، انہوں نے کہا کہ دھرنا طویل تھا مگر ہمارے وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ میں معزز ججز کو کمٹمنٹ دی ہے کہ 10 بجے رات دھرنا ختم کر دینگے، ہم عدالتوں کا احترام کرنے والے ہیں، ہمارا احتجاج جاری ہے اور حصول انصاف تک جاری رہے گا، اگلا احتجاج عید کے بعد فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی میں ہو گا، انصاف ہو کررہے گا اور قاتل انجام کو ضرور پہنچیں گے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے مال روڈ پر دئیے جانیوالے دھرنے سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں منظور وٹو، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، خرم نواز گنڈا پور، بیگم ناہید خان، میاں محمود الرشید، میاں منیر احمد، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر راشد لودھی، تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ، جہاں آراء وٹو، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، نرگس ساجد، سحر چوہدری، منیر احمد، نرگس ساجد، کاشف خان، جاوید چوہدری، افنان بابر، عائشہ شبیر، ڈاکٹر فاریہ ایمن یوسف نے خطاب کیا جبکہ میڈیم توقیر رانا اور انعم الیاس نے نظم پڑھی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض فرح ناز، افنان بابر، راضیہ نوید نے انجام دئیے۔ دھرنے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے مجھے کیوں نکالا کی ردیف پر نظم سنائی جسے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور شرکائے دھرنا نے انتہائی دلچسپی سے سنا۔ دھرنے میں منہاج القرآن سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین، منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین نے خصوصی طور پر شرکت کی، ق لیگ کی ایم پی اے خدیجہ فاروقی، ماجدہ زیدی، کنول نسیم نے وفد کے ہمراہ دھرنے میں شرکت کی۔ میاں منظور احمد وٹو نے گو شہباز گو کے نعرے لگائے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 3 بار شرکائے دھرنا سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے شرکائے دھرنا سے سوال کیا کہ جو دھرنا کو طویل کرنے کے حق میں ہیں وہ ہاتھ کھڑے کریں تمام شرکاء نے ہاتھ کھڑے کئے، تاہم ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ہم عدالت اور اسکے فیصلوں کا احترام کرنے والے ہیں، ہمارے وکلاء نے آج عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ دھرنا 10بجے ختم کر دیں گے لہذا اپنی کمٹمنٹ پوری کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ عید الضحیٰ کے بعد فیصل آباداور ملتان میں احتجاجی جلسے ہونگے۔ شیخ رشید نے روایتی انداز میں پر جوش خطاب کیا اور کہا کہ نواز شریف کی کسی آرمی چیف سے نہ بنی۔ انہوں نے کہا کہ نیوز لیکس کے معاملے پر کور کمانڈرز میں شدید تحفظات تھے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہیں۔ بیگم ناہید خان نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں ظلم ہوا، ورثاء کو انصاف نہ ملنا اس سے بڑا ظلم ہے، ہماری تحریک کے شہداء کو بھی کسی سے انصاف نہیں ملا، ہم اپنی لیڈر بینظیر بھٹو کی شہادت کا بھی حساب مانگ رہے ہیںِ، اگر عوام کے حقوق نہیں تو ہم ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے، پیپلز پارٹی کی سینئر مرکزی رہنما ثمینہ گھرکی نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حکمرانوں کو حکومت میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں دینا چاہیے، سانحہ کے ملزم ضرور بے نقاب ہونے چاہئیں، پیپلز پارٹی کی رہنما جہاں آراء وٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی مظلوموں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے، ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو اللہ رسی کھینچ لیتا ہے، بچے کچلنے والوں کی سیاست بھی کچلی گئی، عوامی تحریک کی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عائشہ شبیر نے کہا کہ شہداء کے خون کا قصاص ہماری منزل ہے، اسے لے کر رہیں گے، تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے کہا کہ 17 جون کا دن خوفناک تھا، ہم پر قیامت ٹوٹی، اس ملک کے محافظوں نے حکمرانوں کے کہنے پر گولیاں چلائیں اور چند منٹوں میں ہماری دنیا اجڑ گئی، تین سال سے دھکے کھارہے ہیں مگر انصاف نہیں ملا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے اور میری ماں اور پھوپھو کی جان لینے والے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ڈاکٹر فارعہ بخاری نے کہا کہ ہم قصاص کیلئے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے شانہ بشانہ ہیں، آج کے دن ہرماں اور بیٹی کو ان مظلوم بیٹیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، تحریک انصاف کی ایم پی اے سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ رانا ثناءاللہ یزیدیت کا سرچشمہ ہے، ایسی کون سے سازش تھی جس کے بے نقاب ہونے کے ڈر سے ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کی جانیں لی گئیں انہوں نے کہا کہ بسمہ کے آنسو تمہارے ظلم کا تختہ الٹ دینگے، مجلس وحدت المسلمین کی رہنما سیدہ نرگس سجاد جعفری نے کہا کہ میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے آئی ہوں اور ان کے ورثاء کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ جو وقت کے فرعونوں کے ساتھ جواں ہمتی کے ساتھ لڑرہے ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں، کوئی بھی معاشرہ کفر کے نظام پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کے نظام پر نہیں، تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والی خواتین اس قوم کی بیٹیاں تھیں، انہیں انصاف نہ ملنے پر دل دکھی ہے، آج یہ بیٹیاں اتنی مجبور ہو گئی ہیں کہ انہیں انصاف کیلئے سڑکوں پر آنا پڑا، کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ قوم کی بیٹیاں انصاف کیلئے سڑکوں پر دھکے کھائیں، انہوں نے کہا کہ انصاف کے اداروں میں بیٹھے ہوئے معزز ججز شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوائیںِ، عوامی مسلم لیگ کی نائب صدر سحر چودھری نے کہا کہ حصول انصاف کی جدوجہد میں ہم پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہیں، سٹیج سیکرٹری کے فرائض افنان بابر نے انجام دیے جبکہ سٹیج پر کوآرڈینیشن کے فرائض زینب ارشد نے انجام دئیے، پنڈال کے جملہ امور مرکزی صدر ویمن لیگ فرح ناز نے انجام دئیے، ڈاکٹر شاہدہ مغل، ثناء وحید، عطیہ بنین، عائشہ قادری، عائشہ مبشر، اقراء یوسف جامی، بلقیس رانی، میمونہ شفاعت، لبنیٰ شوکت، ایمن یوسف، ام حبیبہ، شازیہ بٹ، جویریہ حسن، عذرا اکبر، ثمینہ رحمن، سعدیہ خان، ہادیہ خان نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے احتجاجی دھرنے کو کامیاب بنانے کے حوالے سے شاندار تنظیمی و انتظامی خدمت انجام دی۔