زندہ وفا کا نام ہے زینب رضی اللہ عنہا کے نام سے

مصباح کبیر

تاریخ انسانیت شاہد و عادل ہے کہ قدرت نے جب کسی شخصیت سے عظیم کام لینا ہو تو پھر اس کی پرورش، نگہداشت، تعلیم و تربیت ایسے ماحول میں ہوتی ہے، جس کے باعث اس کی شخصیت میں غیر معمولی انقلابی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، جو اسے آنے والے حالات و واقعات کے لیے تیار کرتی ہیں، اور انہی خصائل و خصائص، عادات و اطوار اور جذبات و احساسات کے حوالے سے وہ شخصیت بڑی منفرد اور عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہی انفرادیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہ کی ہے، جن کی ولادت سے مدینہ طیبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کے والدین کریمین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء پر آپ کا نام زینب منتخب فرمایا، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی طرح آپ بھی وہ خوش نصیب نواسی ہیں جنہیں دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سوار ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کو اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چھ برس کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے قبل آپ رضی اللہ عنہا اپنے نانا جان کے سینہ اقدس پر سر رکھ کر بے اختیار رونے لگیں اور سسکیاں بھرنے لگیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرما جانا اس معصوم جان کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ آئندہ زندگی میں اس پر اس قدر قیامت ٹوٹنے والی ہے کہ اس کی کنیت ام المصائب مشہور ہوجائے گی۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال کے چھ ماہ بعد آپ اپنی والدہ محترمہ کی آغوش شفقت سے بھی محروم ہو گئیں ان حادثات نے ننھی زینب کو سخت صدمات پہنچائے۔ والدہ محترمہ کے وصال کے بعد آپ کو ام البنین رضی اللہ عنہا والدہ گرامی عباس علمدار اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جیسی بلند پایہ خواتین کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ان دونوں شخصیات نے اولاد زہراء کی اچھی دیکھ بھال کی اور خوب عزت و احترام کیا۔

آپ رضی اللہ عنہا اعلیٰ اوصاف، پسندیدہ خصائل، قابل تعریف اور مہذب عادات و اطوار کی مالکہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت اس گھرانے میں ہوئی جو تعلیم و تربیت کا گہوارہ تھا، وہ اتنی بلند پایہ اور جامع کمالات شخصیات کا بے مثال گھرانہ تھا کہ روئے زمین پر ان کا کوئی ثانی نہ تھا، آپ رضی اللہ عنہا کے نانا جان نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حیدر کرار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ باب شہر علم، والدہ محترمہ خاتون جنت سیدۃ النساء العالمین اور بھائی جوانانِ جنت کے سردار، گویا پنجتن پاک کے عظیم محاسن و کمالات نے آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے جھرمٹ میں لے رکھا تھا، اور ہر آن ان کے فطری جواہر معراجِ کمال کی جانب محو سفر تھے۔

جب آپ سن بلوغ کو پہنچیں تو آپ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کا نکاح حضرت جعفر طیار بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تربیت و پرورش فرمائی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے نگران و سرپرست ٹھہرے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نہایت پاکیزہ اخلاق کے حامل نیک سیرت انسان تھے۔ سیدہ زینب کی ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار تھی،آپ اپنے شوہر کی بے حد خدمت گزار تھیں اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بھی آپ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے، اپنے گھریلو امور خود سر انجام دیتی تھیں، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نہایت کشادہ دست اور فیاض تھے۔ سیدۃ النساء کی بیٹی بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں۔ ناممکن تھا کہ کوئی سائل یا حاجت مند آپ کے دروازے پر آئے اور خالی ہاتھ چلا جائے۔ دونوں میاں بیوی کی جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ کئی غیر مستحق لوگ بھی ان کے دست کرم سے فائدہ اٹھا لیتے تھے۔

آپ رضی اللہ عنہا کی شخصیت کے ہر پہلو، انداز و اطوار، سلیقے، اور اوصاف و وقار میں سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا عکس نظر آتا تھا۔ اس لئے آپ کو ثانی زہرا رضی اللہ عنہا بھی کہا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے عظیم والد کی فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان ورثہ میں ملا تھا۔ 37ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب اپنے عہد خلافت میں کوفہ کو اپنا مستقر بنایا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی مدینہ منورہ سے کوفہ آگئے۔ کوفہ میں آپ رضی اللہ عنہا نہایت تندہی سے درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے کام میں مشغول ہوگئیں۔ کوفہ کی اکثر خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ رضی اللہ عنہا سے اکتساب علم کرتیں۔

کوفہ میں قیام کے دوران آپ کی زندگی میں وہ مشکل ترین اور دل سوز واقعہ پیش آیا۔ جس کی وجہ سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ واقعہ آپ رضی اللہ عنہا کے والد محترم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے، 17 رمضان المبارک 40 ہجری آپ کو کوفہ کی مسجد میں حالت نماز میں ایک بد بخت خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم نے زہر آلود تلوار سے شدید زخمی کر دیا۔ جس کے باعث 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو آپ جام شہادت نوش فرما گئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ امام حسن علیہ السلام خلافت کی ذمہ داری ملنے کے بعد اسلام کی سربلندی اور قیام و دوام کے لیے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بھی اپنے بھائیوں کے ہمراہ مدینہ لوٹیں۔ ابتلاء و آزمائش کے اس کٹھن دور میں آپ رضی اللہ عنہا اپنے بھائیوں کے ساتھ رہیں اور اپنے حصے کے فرائض کامیابی سے نبھاتی رہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کے شہید کر دیا گیا۔ اس دل گیر سانحہ کے موقع پر بھی سیدہ زینب بنت علی نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اوراپنے بھائی امام حسینe اور اپنے بھتیجوں کی غمگسار بنیں اور حوصلہ شکن حالات میں ان کی ڈھارس بندھائی۔

جب ذی الحج 60 ھجری میں امام عالی مقام نے اہل کوفہ کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور جانثاروں کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ مکہ سے کوفہ کا عزم کیا تو سیدہ زینب بھی اپنے نوخیز فرزندوں کے ہمراہ اس مقدس قافلہ میں شامل ہوگئیں۔ آپ کا اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کا سفر غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشنے والا اور تاریخ انسانیت کو سرخرو کرنے والا کربلا کا تاریخ ساز معرکہ جرات و شجاعت کی ایک عظیم مثال ہے۔ اس معرکہ حق و باطل میں خواتین کربلا کی لازوال قربانیوں سے انکار محرومی اور بدبختی کی علامت ہے۔ جنہوں نے باطل قوتوں کے مقابل اپنے معصوم بچوں،اپنے سہاگ، مال و دولت،راحت و آرام الغرض سب کچھ قربان کردیا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان کی قائد، ان کی رہبر و رہنما ایسی عظیم خاتون تھیںجو نو اسی پیغمبر آخر الزماں، سیرت و صورت میں شبیہہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جو جرأت و بہادری اور فصاحت و بلاغت میں عکس حیدر کرار، شرم و حیا، عبادت و ریاضت اور وفا شعاری میں خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے رنگ میں ڈھلی ہوئیں تھیں، آپ میں امام حسن علیہ السلام کی حلم و بردباری اور امام حسین علیہ السلام کے عزم و استقلال اور صبر و ثبات کی جھلک نظر آتی تھی۔ گویا آپ کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

اسلام کا سرمایۂ تسکین ہے زینب رضی اللہ عنہا

ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب رضی اللہ عنہا

حیدر کے خدو خال کی تزئین ہے زینب رضی اللہ عنہا

شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب رضی اللہ عنہا

میدان کربلا میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا اپنے دونوں بیٹوں کو دین اسلام کی عظمت وسر بلندی کے لیے قربان کرنا کربلا کی کتاب عشق کا ایک درخشاں باب ہے۔ کہ کس قدر جرات اور جذبہ ایمانی کے ساتھ سیدہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نوخیز فرزندوں عون رضی اللہ عنہ و محمد رضی اللہ عنہ کو امام حسینe سے اجازت لینے کے بعد رزم گاہ کربل کی جانب روانہ کیا گو امام عالی مقام نے اجازت مرحمت فرمانے میں تامل برتا۔ تاہم بہن کے اصرار پر آپ راضی ہو گئے۔ ماں کے ساتھ ساتھ ننھے شہزادوں کا جذبہ شہادت بھی دیدنی تھا، وہ کس قدر بے تاب تھے کہ وہ خود کو دین مصطفیٰ کے لیے قربان کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے جگر گوشے اس شان سے میدان کربلا میں لڑے کہ شجاعت بھی آفریں پکار اٹھی۔ عون و محمد کی شہادت کے بعد خانوادہ نبوت کے باقی نوجوان بھی ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کرتے گئے۔ حتیٰ کہ امام عالی مقام تنہا رہ گئے آپ بیمار کربلا امام زین العابدین اور ہمشیرہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو قافلہ کی خواتین اور بچوں کے پاس چھوڑ کر سفر رضا کی آخری منزل کی جانب شان حیدری کے ساتھ بڑھے۔ اور دشمنان دین مصطفوی سے نہایت دلیری سے لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد بھی یزیدی فوج کو تسکیں نہ ہوئی انہوں نے شہدائے کربلا کے مقدس جسموں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرنا شروع کیا۔ اس پر بھی ان کے سنگ دل سینے ٹھنڈے نہ ہوئے تو امام عالی مقام کے سر انور کو نیزے پہ چڑھا لیا پھر اہل بیت کے خیموں کا رخ کیا اور انہیں نذر آتش کیا۔ خیموں میں موجود عورتوں بچوں کو اسیر بنا دیا گیا۔ زمین وآسمان اور کائنات کی ہر شے اس خون آشام منظر پر گریہ کناں تھی۔ ریگزار کربلا گلشن زہرا کے شہیدوں کے خون کو اپنے اندر جذب کر رہی تھی۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔

معزز قارئین کرام! بیٹوں کی شہادت، خاندان نبوت اور اصحاب حسین علیہ السلام کی قربانی، عظیم بھائی امام حسین علیہ السلام کی دل سوز شہادت، اہل بیت کے باقی ماندہ افراد کی اسیری اور قافلہ حسین علیہ السلام کے پسماندگان کی کوفہ،شام اور دمشق کی جانب سفر کے قیامت خیز لمحات پر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا صبر و ثبات ناقابل فراموش ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے گریہ کناں اور آہ وفغاں کی بجائے اسے رب کی رضا جانتے ہوئے نہایت حوصلہ سے برداشت کیا۔ یزید کے دربار میں اس جرات کے ساتھ تقریر کی کہ یزید اور اس کے درباریوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ یزید کو خوف محسوس ہوا کہ کہیں لوگ خاندان رسالت کی حمایت میں میرے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ لہٰذا اس نے حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کے زیر حفاظت قافلہ اہل بیت کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔

جب یہ ستم رسیدہ قافلہ شہر مدینہ میں داخل ہوا تو اس قافلہ عشق و وفا کو دیکھنے اہل مدینہ گھروں سے نکل پڑے۔ ہزارہا لوگوں نے روتے ہوئے استقبال کیا۔ روایات میںآتا ہے کہ کربلا سے وآپسی کے بعد کسی نے آپ رضی اللہ عنہا کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے صبر و استقامت، جرات و بہادری، مقام و مرتبہ، شر م و حیا، عفت و عصمت، تحمل و بردباری، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت، وفا شعاری، ایثار و قربانی، اور عظمت کردار کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں۔ ان تمام الفاظ کو رفعت و بلندی آپ رضی اللہ عنہا کے کردار ہی کی بدولت ملی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل و کمالات کو احاطہ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ والدین کا گھر ہویا شوہر کا، شہر مدینہ ہو یا حرم مکہ، کرب و بلا کا تپتا ہوا ریگزار ہو یا کوفہ و شام اور دمشق کے بازار ہر مقام پر آپ رضی اللہ عنہا پیکر صبر و رضا رہیں۔

آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی تمام عمر عبادت و اطاعت الٰہی میں صرف فرمائی، آپ رضی اللہ عنہا کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا الغرض تمام معمولات زندگی عبادت اور بندگی تھے۔ فرائض تو دور کی بات ہے ساری عمر آپ رضی اللہ عنہا کی نمازِ تہجد بھی کبھی قضا نہ ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ میدان کربلا کے سخت مصائب و آلام اور معرکہ کربلاکے بعد سفر شام میں تکالیف کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا نے نمازِ تہجدکا معمول قائم رکھا۔

آپ کے بارے میں تاریخ میں مختلف روایات ملتی ہیں ایک روایت کے مطابق سیدہ زینب رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ پہنچ کر شہدائے کربلا کے مصائب و آلام لوگوں کو سنایا کرتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے امام عالی مقام کے ذکر کو عام کیا۔ اگر آپ رضی اللہ عنہا میدان کربلا میں نہ ہوتیں تو مشن حسین علیہ السلام کی تکمیل نہ ہوتی۔

زندہ وفا کا نام ہے زینب رضی اللہ عنہا کے نام سے

آگاہ اب بھی شام ہے زینب رضی اللہ عنہا کے نام سے

مجلس کا اہتمام ہے زینب رضی اللہ عنہا کے نام سے

یہ کربلا دوام ہے زینب رضی اللہ عنہا کے نام سے

زینب رضی اللہ عنہا کا ہر بیان ہے تفسیر کربل

زینب رضی اللہ عنہا کا امتیاز ہے تشہیر کربل

المختصر سیدہ زینب نے معرکۂ حق و باطل کے پیغام صبر و رضا کو دوام بخشا اور دنیائے عالم کی خواتین کی رہنمائی کے لئے انمٹ نقوش چھوڑے۔ آپ ہی کی بدولت پیغامِ کربلا اپنی تمام تر اثر انگیزیوں کے ساتھ آج بھی زندہ و جاوید ہے۔ اور وقت کے فرعونوں اور ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے اعلائے حق بلند کرنے میں آپ خواتین کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ کی سیرت طیبہ تا قیام قیامت خواتین اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے کربلا کی جانب رخت سفر باندھ کر، صبر و رضائے خدا کو اپنا زیور بنا کر سب کچھ راہِ خدا میں لٹاتے ہوئے رہتی دنیا تک یہ سبق دیا کہ جب دین کی غیرت و حمیت کا سودا ہونے لگے، اسلامی اقدار پامال ہو رہی ہوں اور باطل و طاغوتی قوتیں اسلام کو نقصان پہنچانے کے در پے ہوں تو پھر محافظت و امامت دین کے لیے میدان کار زار میں بلا تفریق و امتیاز مرد و زن آواز حق بلند کرنا ہوتی ہے۔ تاکہ سیرتِ زینب رضی اللہ عنہا و حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے مرد و زن بروزِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں سر خرو ہو سکیں۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپ کی سیرت و کردار کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور اس ادنیٰ سی کاوش کو سیدہ زینب کی خدمت میں قبول فرمائے۔ (آمین)

گر قبول افتد زہے عز و شرف