نوجوان نسل اور دیارِ غیر منتقلی

ہانیہ ملک

کسی بھی ملک کی نوجوان نسل اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان طبقہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں نوجوان نسل عدم اعتماد اور انتشار کا شکار ہے۔

پاکستان میں ایک مزدور سے لیکر ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر، بینکر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اکثریت ملک چھوڑنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہمارے نوجوان طبقے میں تیزی سے پروان چڑھنے والی یہ سوچ لمحہ فکریہ ہے۔ نوجوانوں میں اڑتالیس فیصد تعداد پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہتی۔ تحقیق کے مطابق ہر روز ڈھائی ہزار افراد وطن عزیز کو چھوڑ کر دیار غیر منتقل ہورہے ہیں۔ اس طرح ہر سال تقریبا دس لاکھ افراد غیر ملک کے مستقل باسی بن رہے ہیں آئے روز اس شرح میں غیر معمولی اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ ملک میں بے روز گاری اور جائز ذرائع سے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس ملک میں جان و مال کا عدم تحفظ بھی اس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ نوجوانوں کی قابلیت، اہلیت ،ہنر اور ایمانداری کو بے روزگاری کا دیمک کھائے جارہا ہے۔

ملکی حالات نوجوان نسل میں انتشار اور عدم اعتماد کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو جرائم اور مایوسی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے اگر وہ پاکستان کو چھوڑکر دیار غیر منتقل ہوجائیں گے تو وہاں انھیں روز گار کے اچھے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

دیار غیر منتقل ہونے والے افراد میں ایسے افراد کی اکثریت بھی شامل ہے جو باہر منتقل ہونے سے پہلے پاکستان میں ایماندار سرکاری ملازم کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اخراجات زیادہ اور تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے انھیں وطن عزیز کو چھوڑنا پڑا۔ راقم کے ایک قریبی عزیز ایک حساس ادارے میں بھرتی ہوئے۔ کچھ عرصہ بعدنوکری سے استعفیٰ دینے کے بعد جرمنی میں منتقل ہوگئے۔ وہ انتہائی ایماندار اور قابل شخص ہیں۔ دیار غیر منتقل ہونے کی وجہ دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد ان پر بیوہ ماں اور آٹھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہے۔ واحد کفیل ہونے کی وجہ سے قلیل تنخواہ میں ان بھاری ذمہ داریوں کو نبھانا ناممکن ہے۔ ان کامزیدکہناتھا کہ رشوت اور بدیانتی کے راستے کو اپنانے سے بہتر ہے وہ بیرون ملک منتقل ہوجائیں۔ یہ ایک گھر کی مثال ہے پاکستان میں ہمارے اردگرد ہر خاندان میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں بد قسمتی سے اس اہم مسئلے کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں نہ وسائل کی کمی ہے نہ ہی اہلیت کی۔ حکمران اور ذمہ دار طبقہ عوام کے بنیادی مسائل سے غافل ملکی خزانوں کو لوٹنے اور اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی فکر میں ہے۔ اگر ہم ملک میں موجود صنعتوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی بات کریں تو وہی پرانی غیر معیاری، مصنوعات ہیں جو اول روز سے ملک کو وراثت میں ملی ہیں۔ جو اس بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ملکی ضروریا ت کو پوراکرنے اور عوام کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ ان مصنوعات میں اضافے اور ترقی سے بے روزگاری کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ سرکاری ادارے کرپشن اور رشوت کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار کے جائز مواقع دینے سے قاصر ہیں۔ سرکاری وغیر سرکاری ادارے کرپشن و رشوت کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی اور عدم اعتماد پیدا کررہے۔ ایک عام شہری سے لے کر بڑے بڑے سیاستدانوں تک کرپشن اور لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

کارل کراوس آسٹریا کے مشہور دانشور کا قول ہے:

"کرپشن جسم فروشی سے بھی بد ترین ہے۔ جسم فروشی سے ایک انسان کی اخلاقیات بگڑتی ہیں مگر کرپشن پوری قوم کا اخلاق تباہ کردیتی ہیں"

لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ معمولی سی سرکاری ملازمت کے لئے علاقے کے حکومتی نمائندے نوجوانوں سے دس دس لاکھ ملازمت دلوانے کے لئے لیتے ہیں جبکہ روزگار کے جائز مواقع فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے اور عوام کا بنیادی حق ہے۔

دیار غیر منتقل ہونے والے افراد میں ان لوگوں کی کثیر تعداد شامل ہیں جو جان و مال کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ملاوٹ، ناجائز منافع، ڈاکہ زنی ، قتل و غارت گردی ، دہشت گردی اور انتشار پسندی جیسے عوامل نے معاشرے میں عدم تحفظ جیسی فضا قائم کررکھی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر نہ ہونے کے برابر ہے۔ قارئین اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ دوسرے ممالک میں جرائم نہیں ہوتے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہاں ادارے اور قوانین مضبوط ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح پاکستان کی نسبت بہت کم ہے۔ وہاں جرائم کا فوری سدباب کیا جاتا ہے۔ وہاں قانون کا اطلاق ہر ایک پر یکساں ہونے کی وجہ سے دیار غیر منتقل ہوجانے والے پاکستانی وہاں خودکو محفوظ سمجھتے ہیں۔

حکمران طبقے کی بے حسی اور اس نظام کی ستم طریفی کہ بے شمار نوجوان ہمیں روز مرہ زندگی میں سڑکوں ،چوراہوں،فٹ پاتھ اور پارکوں میں اپنی زندگی کے قیمتی دن ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ نوکری کے حصول کے لیے ان کے پاس نہ رشوت ہے اور نہ سفارش۔ یہ باہر جانے کے لیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر وہ باہر جانے میں پر عزم ہیں تو ان کی مجبوری ہے۔ نوجوان طبقہ باہر منتقل ہونے کے لیے مختلف کمپنیوں اور ایجنٹوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائر راستہ اپنانے پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔ باہر منتقل ہونے والے نوجوانوں کی کثیر تعداد آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب سجائے راستے میں ہی سمندر برد ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بچ جانے والے دیار غیر میں مشکل زندگیاں گزارنے اور تھرڈ کلاس شہری بن کے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ناقص منصوبہ بندی اور وسائل بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے ٹیلنٹ اور ہنر دیار غیر منتقل ہونے پر مجبور ہے۔ ناایشوز کی سیاست کا چلن اس قدر عام ہو چکا ہے کہ حقیقی مسائل نظر انداز ہورہے ہیں۔ ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے رشوت ، کرپشن، اور سفارش جیسی لعنت کو اداروں سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ذمہ دار اداروں اور حکمرانوں کو ناایشوز کی سیاست کے بجائے حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ نوجوان نسل ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔ انھیں اعتماد اور تحفظ فراہم کئے بغیر ملک کی ترقی و سا لمیت ناگزیر ہے۔