اداریہ: صحت کا شعبہ، دعوے، زمینی حقائق

نوراللہ صدیقی

8اکتوبر 2017 ء کے دن قومی اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں ایک مزدور کی بیوی نے رائے ونڈ تحصیل ہسپتال کے باہر بچے کو جنم دیا۔ مزدور کی بیوی کو ہسپتال انتظامیہ نے داخلے کی اجازت نہ دی اور بے عزت کرکے نکال دیا۔ مجبور خاندان کی منت سماجت بھی کام نہ آئی۔ اس افسوسناک اور خلاف انسانیت حرکت پر عوامی حلقوں کی طرف سے مذمتی بیانات کا طوفان ابھی تھمانہیں تھا کہ پنجاب اسمبلی کے سامنے اور لاہور کے قلب میں واقع گنگارام ہسپتال میں بھی وہی واقعہ پیش آگیا جو رائے ونڈ میں پیش آیا یہاں بھی ایک غریب خاندان کی بیٹی نے ایم ایس کے دفتر کے باہر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بچے کو جنم دیا۔ یہ دو واقعات پنجاب پر 9 سال کسی وقفے کے بغیر حکومت کرنے والی اشرافیہ کی کارکردگی، گڈگورننس اور خادمیت کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اکتوبر کے وسط میں پنجاب کے نام نہاد خادم اعلیٰ اور 14 شہریوں کے نامزد قاتل کا بیان آیا کہ قوم کو اورنج انقلاب کی ضرورت ہے، قاتل اعلیٰ کا اورنج انقلاب یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو اورنج لائن، میٹرو بسوں، سٹیل کی پلوں کے عیاشی کے منصوبوں پر خرچ کیاجائے اور قوم کی بیٹیوں کوہسپتالوں کے دروازوں پر دھکے پڑیں اور وہ سڑکوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہوں۔ یہ دونوں واقعات اگر مغرب کے کسی ملک میں رونما ہوئے ہوتے تو وہاں کے عوام ایسے بدقماش حکمرانوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیتے۔ قاتل اعلیٰ پنجاب کا طریقہ واردات رہا ہے کہ جب بھی کوئی انسانی المیہ رونما ہوتا ہے تو وہ ایک دو کو معطل کر کے اور متاثرہ خاندانوں کو چند لاکھ کا چیک دے کر اپنی ناکامی پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کا نظام چلتا رہتا ہے۔ شریف خاندان 35 سال سے پنجاب کی تقدیر کے سیاہ و سفید کا مالک چلا آرہا ہے اور اب مسلسل 9 سال سے نام نہاد خادم اعلیٰ برسراقتدار ہیں، ان کی وسائل اور انتظامی امور پر مکمل گرفت ہے، ان کا دل چاہے تو وہ راتوں رات 300 ارب کا اورنج لائن منصوبہ شروع کرنے کا حکم دے دیں یا بلاضرورت میٹرو بسوں کے ناپسندیدہ منصوبوں کا جال بچھانے کا حکم دے دیں، انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے، 9 سال کے مسلسل عرصہ اقتدار میں نام نہاد خادم کوئی ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکا جس کے دروازے غریب مریضوں پر ہر وقت کھلے رہیں اور انہیں فوراً علاج اور دوائی کی سہولت میسر آسکے، ہم سب روز مرہ کسی نہ کسی شکل میں ہسپتالوں کے اندر سسکنے والی زندگی کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہسپتالوں کی راہداریوں میں غریب اور بے بس مریض رسوا ہورہے ہوتے ہیں، بغیر سفارش انہیں مفت ٹیسٹوں اور مہنگی ادویات کی سہولت میسر نہیں آتی‘ وزیراعلیٰ پنجاب ہر سال بجٹ کے موقع پر مفت ڈائیلسز، ہیپاٹائٹس سی کے علاج مفت ادویات کی فراہمی اور دیگر موذی امراض کے لیے جو کروڑوں روپے کے فنڈز رکھتے ہیں ان کا استعمال بھی وزیراعلیٰ ہاؤس سے آنے والی سفارشی چٹھی سے مشروط ہوتا ہے، زکوۃ اور خیرات کا پیسہ بھی خادم اعلیٰ اور اس کے حواریوں کی سفارش پر غریب مریضوں کو ملتا ہے۔ اگر پنجاب میں صحت کا کوئی شفاف نظام ہوتا اور گڈگورننس نام کی کوئی چیز ہوتی تو غریب اور مجبور خاندانوں کی یہ دو بیٹیاں بے بسی کے عالم میں تماشا نہ بنتیں۔ صوبائی دارالحکومت میں وقوع پذیر ہونے والے یہ دو وہ واقعات ہیں جو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آگئے۔ ذی شعور عوام بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ راجن پور، بہاولپور، ملتان، بہاولنگر، ڈیرہ غازی خان، بھکر کے اضلاع، تحصیلوں اور ٹاؤنز میں کیا حالات ہونگے؟۔ اس نوع کے درجنوں، سینکڑوں واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں جو میڈیا کی آنکھ سے پوشیدہ رہتے ہیں، نام نہاد خادم اعلیٰ نے اورنج لائن، میٹرو بسوں اور پلوں کو ہی انسانی بہبود اور ترقی کا نام دے رکھا ہے، پنجاب میں صحت کے شعبہ کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی شرمناک کہا جائے گا۔ اقرباء پروری، کرپشن، بدانتظامی، بے حسی نے پنجاب کے ہسپتالوں کو موت کی وادیوں میں تبدیل کررکھا ہے،انتہائی غریب مریض باامر مجبوری سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں،معمولی سی مالی حیثیت والا مریض سرکاری ہسپتال کا رخ نہیں کرتا، کرپٹ خاندان کی کرپشن سے صحت کا شعبہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کا ہر دسواں آدمی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔ صرف پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے 2 کروڑ سے زائد مریض ہیں ابھی تک اس ضمن میں کوئی جامع سروے تک نہیں کروایا گیا، پاکستان ساؤتھ ایشیاء کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں ایڈز کے 94 ہزار مریض ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر چوتھا آدمی کسی نہ کسی ٹائپ کی شوگر میں مبتلا ہے۔ ایک سروے کے مطابق شوگر کے مریضوں کی مجموعی تعداد 38 ملین سے زائد ہے اور اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے، پاکستان کی 26 فیصد آبادی شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔ گردوں کے فیل ہونے کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کے پنجاب میں 7 ہزار مراکز ہیں، سب سے زیادہ جعلی ادویات کی تیاری اور ترسیل پنجاب میں ہوتی ہے، صرف پنجاب میں ہر سال کینسر کے 2 لاکھ مریض سامنے آرہے ہیں اور پنجاب کے ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے 208 بیڈ اور 6 کنسلٹنٹ ہیں۔ صحت اور تعلیم کے دو شعبے ایسے ہیں جن کا براہ راست تعلق بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت سے ہے اوران دونوں شعبوں میں مکمل سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں میں حکومتوں کے رویے سفاکیت پر مبنی ہیں، پنجاب میں صورت حال تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے، پنجاب حکومت انسانی خدمت وضرورت کے ہر شعبے کو نجی شعبہ کے حوالے کررہی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب خود کو اورنج لائن ، میٹرو بس منصوبوں کے ایم ڈی تک محدود کر چکے ہیں، اکتوبر کے وسط میں وزیراعلیٰ پنجاب نے فخر سے اعلان کیا کہ انہوں نے 5 ہزار سرکاری سکول پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت نجی شعبہ کے حوالے کر دئیے ہیں جو اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت اپنے بچوں کو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت فراہم کرنے کے قابل بھی نہیں، اسی طرح 8 اپریل 2017ء کو ایک انکشاف سامنے آیا کہ شہباز حکومت نے لاہور سمیت 14 اضلاع کے بنیادی ہیلتھ مراکز کمپنی بنا کر نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے، 9سال تک بلاشرکت غیرے پنجاب پر حکومت کرنے والے ہیلتھ کے شعبے میں اتنا بھی نہ کر سکے کہ دیہات کی سطح پر قائم صحت کے مراکز اس قابل بنا دئیے جائیں جو غریب مریضوں کو بروقت طبی امداد مہیا کر سکیں اور اب صحت کے ان مراکز کو نجی شعبہ کے حوالے کیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے لاہور کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کے ہم پلہ بنا دیا ہے ، 2 خواتین کو لاہور کے ہسپتالوں میں بیڈ نہ دئیے جانے کا المناک واقعہ اپنی جگہ مگر لاہور جیسے شہر میں سرکاری شعبہ کی طرف سے دستیاب صحت کی سہولتوں کے معیار کو جانچنے کیلئے 5 اپریل 2017 ء کو سامنے آنے والی برطانوی ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں اس رپورٹ کے مطابق لاہور کے 37 بنیادی مراکز صحت میں سے 25 میں لیبارٹری ٹیسٹ کی سرے سے کوئی سہولت موجود نہیں، 29 سینٹرز میں ایمبولینس موجود نہیں، 18 میں کسی قسم کی دوائی دستیاب نہیں، 20 سنٹرز میں بجلی کا کوئی متبادل سسٹم موجود نہیں، 15 سنٹرز میں پینے کے صاف پانی کا کوئی بندوبست نہیں، 11سنٹرز میں خواتین کے لیے ٹوائلٹس کا کوئی بندوبست نہیں، 13سنٹرز کی عمارت کی حالت انتہائی مخدوش ہے، ہیلتھ سنٹرز کی بعض عمارات پر قبضے ہیں۔ نام نہاد خادم اعلیٰ جب بھی لاہور کی ترقی کا دعویٰ کریں تو مذکورہ بالا حقائق ضرور اپنے پیش نظر رکھیں۔