بچوں سے محبت انہیں پراعتماد بناتی ہے

مسز فریدہ سجاد

سوال: بچوں کی نفسیاتی تربیت سے کیا مراد ہے؟

جواب: بچوں کی نفسیاتی تربیت کے متعدد معانی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  1. نفسیاتی تربیت سے مراد زندگی کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بچے کی تربیت اس انداز میں کرنا ہے کہ اس میں ہمدردی، اچھے روابط اور محبت کے جذبات فروغ پائیں۔
  2. بچے میں موجود مثبت اور خیر وبھلائی کی صفات کو اس طرح نکھارنا کہ وہ ممکن حد تک کمال کا درجہ حاصل کر لیں۔
  3. بچے کی کامل شخصیت کی تعمیر کے لیے اس کے عمل اور کردار کی مسلسل اصلاح کرتے رہنا۔
  4. بچے کے قدرتی اور فطرتی اوصاف کی نگہداشت کرنا اور اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے جدوجہد کرنا۔
  5. بچے کو فرائض کی عمدہ طریقے سے ادائیگی کے لیے ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط کا عادی بنانا جو اس کی تربیت اور پرورش میں ممد و معاون ثابت ہوں۔
  6. کائنات، زندگی اور دنیوی اُمور سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بچے کے ذہنی و نفسیاتی رحجانات و میلانات کی تعمیر کرنا۔ اس کے اندر وہ شعور اور احساس پیدا کرنا جو اسے حق و باطل، درست و غلط اور پسندیدہ و ناپسندیدہ کے مابین امتیاز اور فرق سے آشنا کر دے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.

(الأنفال، 8: 29)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔

  1. نیکی اور بھلائی کے اُمور میں پیش قدمی کے لیے بچے کو جرات اور ہمت کی ترغیب دینا اور اس سلسلے میں انعام کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنا۔
  2. بچے کی قدرتی اور فطرتی عادات کو اسلامی اصولوں کے مطابق اس طرح نکھارنا کہ ان عادات کو نہ تو بالکل کچل دیا جائے اور نہ ہی اسے مطلق آزادی دی جائے۔

الغرض بچے کی نفسیاتی تربیت سے مراد اس کی شخصیت کی تعمیراور اس کے ذاتی و نفسیاتی اوصاف کی تکمیل ہے جو کہ ترقی، رہنمائی اور ہدایت کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

سوال : بچوں کی نفسیاتی تربیت کا دار و مدار کن چیزوں پر ہے؟

جواب: بچوں کی نفسیاتی تربیت کا دار و مدار ان کی ضروریات اور حاجات کو ملحوظ رکھنے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اچھی پرورش اور بہتر نگہداشت کے عمل کو شروع کرتے وقت درج ذیل ضروریات اور حاجات کو اہمیت دی جائے۔

1۔ سکون و اطمینان کی ضرورت:

بچے کی اہم ترین ضرورت جس کا نفسیاتی تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے وہ سکون و اطمینان ہے۔ یہی ضرورت اس کے اندر وہ جذبہ اور رحجان پیدا کر دیتی ہے جسے بچے کے اقدامات اور ترجیحات میں ایک قائدانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا بچے کو سکون مہیا کرنے اور اس کے اندر اسی جذبہ کو بیدار کرنے کے لیے والدین کے کردار کو بنیادی درجہ حاصل ہے۔

2۔ دو طرفہ محبت کی ضرورت:

محبت کا شعور بچے کی بنیادی ضرورت ہے جو بچے کو امن و سکون اور اطمینان مہیا کرتی ہے اور اس کی قدرتی و فطرتی ضروریات کو پورا کرتی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اس کے اندر رکھ دی ہیں۔ والدین کی محبت ہی بچے کو محبت کرنے کا انداز سکھاتی ہے اور پھر محبت کا یہ میلان اس کی نشو و نما کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ عمدہ برتاؤ اور حسنِ سلوک سے دو طرفہ محبت اور نفسیاتی اطمینان میسر آتا ہے اور یہی چیز بچے کے لیے والدین کی محبت کی حقیقی اور مثالی تعبیر ہے۔ اسی کے ذریعے بچہ اپنے ساتھ محبت کرنے والے افراد کی اُلفت کا ہمہ جہتی جائزہ لیتا ہے۔

3۔ میل جول پر مبنی مشترکہ زندگی اور خاندان کے تعلق کی ضرورت:

بچے کی نفسیاتی تربیت کا میل جول پر مبنی مشترکہ زندگی اور خاندان کے تعلق کی ضرورت سے گہرا تعلق ہے۔ بچے کو باشعور ہوتے ہی اپنے خاندان کے ساتھ تعلق اور نسبت کا شعور آ جاتا ہے اور یہ انسانیت کا اولین جذبہ ہے جو اس کے لیے نسبت کے حق کو ثابت کرتا ہے۔ اس کی تکمیل اس کے ساتھ محبت کے اظہار اور خاندان کے اندر اس کے لیے امن و سکون کی فضا مہیا کرنے کے ذریعے سے ہوتی ہے۔بچہ ہمیشہ اپنے خاندان کی گرم جوشی اور شفقت و پیار کے ذریعے ہی سے محبت کا جوہر حاصل کرتا ہے۔ والدین اور خاندان کے دیگر افراد کی بچے کے ساتھ محبت ہی اسے محبت کا انداز سکھاتی اور اس کے محبت کے جذبہ کو بیدار کرتی ہے اور بچے کے اندر ربط و تعلق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

4۔ احترام و تکریم کی ضرورت:

بچے کو احترام و تکریم کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نفسیاتی تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ احترام و تکریم کا شعور بچے کے اندر ایک پس منظر کھڑا کر دیتا ہے جو بچے کو اصولوں پر قائم رہنے کی ترغیب دلانے کا باعث بنتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ پوری عزت اور فخر کے ساتھ ان کا دفاع کرنے والا بن جاتا ہے۔ عزت و تکریم بچے کو بے راہ روی کے افکار و نظریات کے سامنے حرفِ انکار کہنے کی جرات سے ہمکنار کرتی ہے۔

5۔ آزادی:

بچے کی ذہانت اور سمجھداری کو پروان چڑھانے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے اسے آزادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو اپنی آزادی و خود مختاری اور اس سلسلے میں ماحول کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کا جس قدر زیادہ شعور حاصل ہوتا ہے اسی قدر اسے اپنے پسندیدہ ہونے کا شعور نصیب ہوتا ہے۔

6۔ دوسروں میں مقبول ہونے کی ضرورت:

دوسروں کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہونے کی خواہش بچے کی ذاتی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو پورا کرنے سے بچے کی مثبت صفات کو فروغ ملتا ہے اور وہ بہت سے ایسے منفی رویوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے جو اسے اپنے آپ کو پسندیدہ بنانے کی راہ میں لاحق ہوتے ہیں۔ ان منفی رویوں سے بچے کو محفوظ رکھنا والدین کی طرف سے مخصوص تربیتی کردار کا تقاضا کرتا ہے تاکہ بچے کی دوسروں کے ہاں قبولیت اور پسندیدگی کی ذاتی ضرورت مستحکم ہو۔

7۔ کامیابی کی ضرورت:

کامیابی بچے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے ساتھ زندگی کی مشکلات اور مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ بچے کی استعداد خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو وہ اس کے ذریعے اپنی ذاتی حیثیت اور نشو و نما کے مراحل کے مطابق کامیابی حاصل کرتا ہے۔ بڑے افراد کی نظر میں جو چیز معمولی ہوتی ہے وہ بچوں کی سمجھ کے مطابق کامیابی کہلاتی ہے۔ لہٰذا جب بچے کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جائے تو اس سے اسے بہت خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا بچے کو کامیابی کے مواقع اور لمحات فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

الغرض یہ تمام ضروریات بچے کے لیے ضروری ہیں تاکہ اسے معاشرے میں گھل مل جانے کی تربیت حاصل ہوتی رہے اور بچہ بے چینی سے آزاد، مطمئن اور بھرپور شخصیت کا حامل بن سکے۔ ان ضروریات کا تقاضا یہ ہے کہ والدین میں خاطر خواہ اصلاح اور ان کو بروئے کار لانے کی حد درجہ مہارت ہو اس کے بعد ہی وہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں اور مکمل توازن کے ساتھ ان ضروریات کے ذریعے بچے کی شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

سوال: والدین بچوں کی نفسیات کیسے سمجھیں؟

جواب: والدین بچوں کے انداز و اطوار کے اسباب و محرکات اور ان کی ذاتی و بنیادی ضروریات کو سمجھ کر ہی ان کی نفسیات سمجھ سکتے ہیں۔ ان اُمور کو سمجھے بغیر سرسری و سطحی انداز میں معاملہکرنا بالعموم بچوں کے طرزِ زندگی کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیتا ہے۔ خواہ وہ بچپن کے مرحلہ میں ہوں یا نشو و نما کے دیگر کسی مرحلہ میں۔

یہ حقیقت نفسیاتی و تربیتی تحقیقات کی رو سے ثابت ہے، اور اس سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہمارے دین اسلام نے اس کی توثیق فرمائی ہے کہ ہر طرزِ عمل کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوٰی.

’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي، 1: 3، رقم:1
  2. مسلم، الصحیح، 3: 1515، رقم: 1907
  3. أبوداؤد، السنن، کتاب الطلاق تفریع أبواب الطلاق، باب فیما عني به الطلاق والنیات، 2: 262، رقم: 2201

بچوں کی ذاتی اور بنیادی ضروریات اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ہر بچہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ ان کی ضرورت محسوس کرتا ہے اگر بچے کی ان بنیادی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے اور لاپرواہی برتی جائے تو پھر بچہ اپنی حاجات کو اکثر غلط اور ناپسندیدہ طریقوں سے پورا کرنے کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔

بچے کی بنیادی ضروریات سے لاپرواہی اور عدم توجہی کے نتیجے میں بچے کو درج ذیل صورتیں لاحق ہو سکتی ہیں:

  1. بچہ حد سے زیادہ حساسیت کی وجہ سے ذمہ داریوں سے گریز، پہلوتہی اور اپنی ذات میں سمٹائو جیسے عوارض کا شکار ہو جائے گا اور یہ عوارض اس کی مستقبل کی شخصیت کو بے جان کر دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔
  2. بچہ اپنی ضروریات کو حاصل کرنے کے لیے تشدد اور جارحیت کا راستہ اپنا سکتا ہے۔ بچے کا اپنے خاندانی حلقے اور اپنے والدین کے خلاف اختیار کردہ ردِ عمل انتقام کی کئی شکلیں اختیار کر سکتا ہے اور اس کی مختلف علامات ہو سکتی ہیں مثلاً بغض و عناد اور تشدد و جارحیت کے طریقوں کو اپنانا وغیرہ۔

لہٰذا والدین کو اپنے بچے کی نشو و نما کے طریقوں اور اس کی ذاتی ضروریات کی جس قدر معرفت حاصل ہو گی اُسی قدر وہ بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچے کی صحیح اور محفوظ رہنمائی کر سکیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بچہ اپنے انداز و اطوار اور روزمرہ کے رویوں میں بہت حد تک اپنے گھر اور قرب و جوار کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ جو اس کی نشو و نما اور پرورش میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، تاہم بچے کے انداز و اطور میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا اکثر تعلق خود اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ جب والدین کو بچے کی ذاتی ضروریات اور اس کی نشو و نما کے مختلف مراحل کی خصوصیات کی پہچان ہو جاتی ہے تو انہیں بچے کے خاموش کلام کی سمجھ آجاتی ہے اور بچے کے طرزِ عمل میں پیدا ہو جانے والے بگاڑ پر بھی انہیں کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔

بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے والدین کا وہ خوف بھی ختم ہو جاتا ہے جو اچھی تربیت اور عمدہ رہنمائی کے سلسلے میں انہیں لاحق رہتا ہے اور وہ بچے کے ساتھ تناؤ سے لبریز رویے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ معرفت والدین کو اپنے بچوں کی مہارت اور ان کی صلاحیتوں کو کچلنے کی بجائے ترقی اور فروغ دینے پر آمادہ کرتی ہے اور بچے کی قدرتی اور فطری صلاحیتوں کے ظاہر ہونے اور پھر انہیں ترقی دینے کی راہوں کو آسان کرتی ہے۔

سوال: بچوں کی نفسیات نہ سمجھنے پر والدین کو کن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جواب: ہر بچے کی کوئی نہ کوئی ذاتی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی شخصیت اور اس کے کردار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بچے کے ساتھ برتاؤ کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی بہتر رہنمائی اور عمدہ نشو و نما کی خاطر اس کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

بچہ جس وقت روحانی اور جسمانی نشو و نما کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اس وقت اس کی اولین ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی حیثیت و اہمیت منوائے اور اس کااظہار بھی کرے۔ یہ اس کی خود مختاری، خود اعتمادی اور ذاتی صلاحیتوں کے شعور و ادراک پر مبنی رحجان کا پہلا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے لیے بچہ مختلف قسم کے رویے اپنانے پر مجبور ہو تاہے۔ بعض اوقات اس کے یہ رویے والدین کی بے قراری اور پریشانی کا موجب بنتے ہیں جبکہ بچے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کے والدین اسے نظر انداز نہ کریں۔ بلکہ ایک مستقل شخصیت کے طور پر اس کا اعتراف کریں اور اس کے نمایاں وجود کو تسلیم کریں۔ جب والدین بچے کی نفسیات کو سمجھ نہیں پاتے تو انہیں بچے کے درج ذیل رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے:

1۔ ضد و عناد

بچہ ضد اور انکار کے ذریعے والدین کی خواہش و آرزو کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ والدین کی بات کو توجہ سے نہیں سنتا اور بیماری کے بہانے بھی بنانے لگتا ہے۔

2۔ توڑ پھوڑ

جب والدین بچے کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ارد گرد کی اشیاء کو توڑنے پھوڑنے لگتا ہے۔

3۔ کھانے سے انکار

بچہ کھانا کھانے سے انکار کر کے والدین کو بے چین کر کے ان کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

4۔شور و غل

بچہ روزمرہ کے معمولات میں اپنی بات منوانے کے لیے شور و غل کا سہارا لیتا ہے۔

5۔ چیخنا چلانا

بچہ والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے گھر آئے ہوئے مہمانوں کا بھی لحاظ یا خیال نہیں کرتا بلکہ ان کے سامنے چیختا چلاتا ہے۔ پھر والدین بھی مہمانوں کے سامنے پریشان کن ردِ عمل اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

6۔ خود ساختہ جھوٹ

بچہ اپنی حیثیت منوانے کے لیے جھوٹ بول کر ایسے کارناموں کو سر انجام دینے کا دعویٰ کرتا ہے جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہوتا۔

الغرض بچہ والدین کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف پریشان کن رویے اختیار کرتا ہے۔ بچے کے اس طرح کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہی والدین کے متنبہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے بچے کے ان رویوں کا جائزہ لے کر ان کے نفسیاتی اسباب و محرکات کا سدِ باب کیا جائے تاکہ بچے کے ان منفی رویوں میں زیادہ شدت پیدا نہ ہو۔