دین کی روح، اخلاقِ حسنہ (آخری قسط)

ترتیب و تدوین: ام حبیبہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام جامع المنہاج بغداد ٹائون لاہور میں امسال شہر اعتکاف 2017ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اخلاق حسنہ کی اہمیت و ضرورت پر سلسلہ وار خطابات فرمائے جن کی اہمیت کے پیش نظر قارئین کے استفادہ کے لیے قسط وار شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ کی پہلی قسط میں شیخ الاسلام نے اخلاق کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جب جسم فرشی اور روح عرشی ہوجائے تو اسے حسن اخلاق کہتے ہیں جبکہ دوسری قسط میں جسم اور روح کا تعلق بیان کرتے ہوئے ارکان اسلام کا تعارف کروایا اور عبادت کا مقصد بیان کیا گیا ہے جس میں نماز اور زکوٰۃ کی روح اخلاق کو سنوارنا ہے۔ اس شمارہ میں اس کی آخری قسط شائع کی جارہی ہے جبکہ مکمل خطاب سننے کے خواہشمند افراد خطاب نمبر Fm-57 ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

روزہ۔۔ اخلاق حسنہ کے حصول کا ذریعہ

ارکان اسلام میں سے چوتھا اور اعمال میں سے تیسرا رکن روزہ ہے، ہم روزے کے جسم کو سارا کچھ سمجھتے ہیں یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم اس کی روح کو بھول گئے ہیں کیونکہ روح نظر جو نہیں آتی اور یہی بدقسمتی جو شے نظر نہیں آتی اُس کی خبر ہی کوئی نہیں لیتا اور یہ خبر نہیں ہے کہ وہی حقیقت ہے۔ اب روزہ آ گیا روزے کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo

اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔

البقرة، 2: 183)

روزہ کا جسم۔۔۔ بھوک و پیاس

ہر رکن کے ساتھ اللہ پاک نے پہلے اُس رکن کا جسم بیان کیا ہے پھر آیت کے اختتام پر اُس کی روح کو بیان کیا ہے۔ ہم سحری کے وقت کھانا پینا چھوڑنا اور غروب آفتاب پر افطار کے عمل کو روزے کا نام دیتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا: نہیں، یہ روزے کا جسم ہے۔ مجھے تمہارے بھوکے رہنے سے کیا حاصل ہونا ہے۔ تم اگر کھا لو سارا دن کھاؤ تو اللہ کے خزانے میں کمی ہو جاتی ہے؟ اور اگر آپ کھانا پینا چھوڑ دیں تو اُس کے ہاں روٹی بچ جاتی ہے؟ اللہ کے ہاں خزانہ رزق کا بچ جاتا ہے؟ استغفروا اللہ العظیم۔ وہ مالک ہے غنی ہے۔ ساری کائنات کو ہمیشہ سے دے رہا ہے، دیتا رہے گا تمہارے بھوکے رہنے سے تو اُسے کوئی غرض نہیں۔ باری تعالیٰ! پھر ہمارا کھانا پینا کیوں چھڑوا دیا؟ فرمایا: اس لیے چھڑوا دیا کہ تم تو سارا سال کھاتے ہو وہ بھی ہیں جن کو کھانا پینا نہیں ملتا کم سے کم ایک مہینہ تمہارے اندر یہ احساس پیدا کر دوں کہ جنہیں کھانا نہیں ملتا اُن کا حال کیا ہوتا ہے۔

روزہ کی روح۔۔۔ تقویٰ کا حصول

روزہ کے ذریعے تقویٰ کا حصول کیسے ممکن ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

روزہ اس لیے فرض کیا کہ تم لوگوں کو نظر انداز کرنے کے گناہ سے بچنے والے بن جاؤ، حاجت مندوں کی حاجت کو نظر انداز کرنے سے بچ جاؤ، محتاج ضرورت مند انسانیت کی ضرورتوں سے بے نیاز رہنے کا جو گناہ ہے اُس سے بچ جاؤ۔ تمہیں اس لیے بھوک اور پیاس کی عادت ڈالی ہے کہ تمہیں بھوکوں اور پیاسوں کا احساس پیدا ہو تاکہ تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کسی ایک عمل کا نام نہیں ہوتا، تقویٰ بڑا جامع ہمہ گیر تصور ہے۔ ہر وہ شے، ہر وہ احساس، ہر وہ رویہ، ہر وہ طرزِ عمل، ہر وہ سوچ، ہر وہ فعل، ہر وہ عمل جو اللہ کو ناپسند ہے اُس سے بچنا تقویٰ ہے یہ کوئی ہاتھوں کی گنتی کے ساتھ 5، 6 برے اعمال سے بچنے کا نام تقویٰ نہیں۔ ہر وہ رویہ، ہر وہ سوچ، ہر وہ فعل جو اللہ کو ناپسند ہے اُس سے بچنا تقویٰ ہے یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرا کے تقویٰ کا نام لیا اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا پوچھا گیا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لم یَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ به، فلیسَ ﷲ حاجَةٌ أن یَدَعَ طعامَه وشرابه.

(کتاب صوم، ص503، حدیث 1903/1، باب من لم یدع قول الزور، والعمل به فی الصوم، صحیح بخاری)

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جو شخص روزہ رکھے اور جھوٹ نہیں چھوڑتا اور جھوٹی طرزِ زندگی نہیں چھوڑتا فرمایا اللہ پاک کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

روزہ۔۔ برائیوں سے اجتناب کا ذریعہ

روزہ برائیوں سے کیسے بچاتا ہے اس کی وضاحت درج ذیل حدیث پاک سے ہوتی ہے۔

لیس الصیام من الأکل والشرب إنما الصیام من اللغو والرفث فإن سابک أحد أو جهل علیک فلتقل إني صائم إني صائم.

صحیح ابن خزیمة

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ’’روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے روزہ ہر برے طرزِ عمل کو چھوڑنے کا نام ہے۔ پس کوئی شخص تمہیں گالی دے یا تم سے جھگڑا کرے تو پس تم اس سے کہو کہ میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ گالی سے روکتا ہے صرف کھانے پینے سے نہیں روکتا۔ روزہ گالی گلوچ سے روکتا ہے، روزہ برے طرزِ عمل سے روکتا ہے، روزہ لغو گفتگو سے روکتا ہے، روزہ سارے برے اخلاق سے روکتا ہے اگر برے اخلاق نہ رکیں تو کھانے پینے سے رک کر کیا لیا، یہ روزہ نہیں۔

حج کی روح۔۔۔اخلاق کو سنوارنا

دین اسلام کا آخری رکن حج ہے جس سے دین کی پوری عمارت مکمل ہوگئی ان سارے ارکان کی روح حسن اخلاق ہے، اخلاق کا بدل جانا، طرزِ زندگی کا بدل جانا۔ حج کے لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌج فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اﷲُط وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِo

حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعدہ اور عشرئہ ذی الحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اﷲ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔

(البقرة، 2: 197)

حج کا معنیٰ یہ ہے کہ پھر اس میں گالی، جھگڑا اور لغو گوئی نہیں ہوگی اور اُس میں آپس میں جہالت کا عمل نہیں ہو گا یہ اگر طرزِ عمل بدل جائے تو اللہ کے گھر آنا یہ حج ہے۔ اگر اللہ کے گھر سو بار جاؤ اور آؤ مگر طرزِ عمل نہ بدلے تو فرمایا یہ حج نہیں ہے یہ چکر لگا کر آئے، ہوائی جہاز کی سیر کر کے آئے، گھوم پھر کے آئے۔

حج یہ ہے:

فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ.

حج اُس کا ہے جس کی زبان بدل جائے۔ حج اُس کا ہے جس کا رویہ بدل جائے، حج اُس کا ہے جس کا طرزِ عمل بدل جائے۔

(البقرة، 2: 197)

ایک جگہ ارشاد فرمایا:

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اﷲُ.

اور جو نیکی اور بھلائی کا کام کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔

(البقرة، 2: 197)

اب نیکی، بھلائی کیا ہے، آپ حج پر گئے کیا کرتے ہیں؟ طواف کرتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، نفل پڑھتے ہیں، صفا مروہ کی سعی کرتے ہیں، یہ سارے اعمال کرتے ہیں نیک ان سارے اعمال کا ذکر اللہ پاک نے ایک لفظ میں کر دیا فرمایا:

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ.

جو بھی نیک کام کرتے ہو اللہ جانتا ہے۔ اللہ پاک نے اُن کا الگ الگ کر کے نام ہی نہیں لیا فرمایا جتنے نیک کام کرتے ہو حج پر آ کر، بھلے طواف کرتے ہو، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہو، صفا مروہ کی سعی کرتے ہو، منیٰ عرفات جاتے ہو جتنے نیک کام کرتے ہو فرمایا:

یَّعْلَمْهُ اﷲُ.

اللہ جانتا ہے۔

خفا کے ساتھ بات کی یَّعْلَمْهُ اﷲُ کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ تمہارے اعمال کے جسموں کو نہیں دیکھتا وہ دیکھتا ہے ان کے پیچھے روح کیا کار فرما ہے۔ تمہارے اعمال میں صدق ہے یا نہیں، اخلاص ہے یا نہیں، تدرع ہے یا نہیں، میری طرف رجوع ہے یا نہیں۔ یَّعْلَمْهُ اﷲُ کا مطلب ہے اُن اعمال کے اندر جو نیتیں اور حال چھپے ہوئے ہیں اللہ اُن کو دیکھتا ہے اور ساتھ ہی ثمربھی۔

تقویٰ۔۔ بہترین زاد سفر

جب باری تعالیٰ ہمارے اعمال ایسے ہو جائیں کہ تو دیکھے تو خوش ہو جائے اور تو قبول کرلے تو کیا کریں؟ فرمایا:

وَتَزَوَّدُوْا.

البقرة، 2: 197

اگر چاہتے ہو کہ تمہارے اعمال حسین بن جائیں، خوبصورت بن جائیں اور میں دیکھوں اور خوش ہوں تمہارے اعمال کو دیکھ کر تو تَزَوَّدُوْا تیاری کر لو، سامان اٹھا لو۔ کیا سامان اٹھالیں؟ فرمایا:

فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی.

البقرة، 2: 197

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ کا سامان کندھوں پر رکھ لو، پرہیزگاری کا سامان کندھوں پر رکھ لو، ایسے طرزِ عمل چھوڑ دو جو مجھے پسند نہیں ہیں، ایسے رویے چھوڑ دو جن سے میں ناراض ہوتا ہوں، ایسے اندازِ زندگی چھوڑ دو جو میری ناراضگی کا باعث بنتے ہیں، اگر ہر قسم کے رویے بدل کر میری رضامندی والے رویے اپنا لو یہ بہترین زادِ سفر ہے مزید فرمایا:

وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ.

اور مجھ سے میرا تقویٰ اختیار کرو اے عقل والو!

البقرة، 2: 197

یا اولی الالباب کہہ کے بتایا کہ عقل کی بات ہے اگر عقل ہو گی تو سمجھ آ جائے گی تو دیکھو حج کو بھی تقویٰ میںمحصور کر دیا اور ظاہری باطنی احوال اور اعمال کے بدلنے میں محصور کر دیا۔ سارے ارکان دین اُن کی روح اخلاق کا سنورنا ہے، زندگی کے رویوں کا سنورنا ہے، حسنِ خلق پیدا کرنا ہے۔

مقصد بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرآن نے بتایا:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ.

وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا۔

الجمعه: 2

آقا علیہ السلام کی بعثت کا ذکر چار جگہ فرمایا اور ان کے فرائض بھی بتائے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

الجمعه، 62: 2

اس آیت مبارکہ میں بعثت کے تین فرائض بیان کئے ہیں۔

  1. تلاوت آیات
  2. تزکیہ
  3. تعلیم

تا کہ تمہارے اخلاق سنور جائیں۔ اور پھر اُس کے بعد فرمایا: اور کتاب و سنت کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت دیتے ہیں۔ مگر تعلیم قرآن سے بھی پہلے اخلاق کا، من کا، عادات کا، خصائل کا، طبیعت کا سنور جانا فرمایا وہ تمہاری طبیعتوں کو سنوارتے ہیں، اندر سے تمہاری غلیظ خصلتوں کو طبیعت سے نکالتے ہیں اور پاکیزہ کر کے مالائے اعلیٰ کی طرح روشن کرتے ہیں۔

آقا علیہ السلام نے اپنی بعثت کے لئے ارشاد فرمایا:

انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق. (موطا امام مالک)

یعنی فرمایا میں تو مبعوث ہی اس لیے ہوا ہوں جو نبی بنا کر انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہوں میری بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ میں تمہارے اخلاق سنوار دوں۔

پورا دین اخلاق سنوارنے کا نام ہے۔ حسن خلق جس کو نصیب ہو گیا اُس نے پورے دین کی روح کو پا لیاسورۃ طہ، آیت نمبر 74 سے 76، 3 آیتوں کا مضمون بڑا قابل توجہ ہے، ارشاد فرمایا:

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَط لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰیo وَمَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓـئِکَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰیo جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاط وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰیo

بے شک جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو بے شک اس کے لیے جہنم ہے، (اور وہ ایسا عذاب ہے کہ) نہ وہ اس میں مرسکے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا۔ اور جو شخص اس کے حضور مومن بن کر آئے گا (مزید یہ کہ) اس نے نیک عمل کیے ہوں گے تو ان ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔ (وہ) سدا بہار باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہ اس شخص کا صلہ ہے جو (کفر و معصیت کی آلودگی سے) پاک ہوگیا۔

طه، 20: 74-76

اس آیت میں فرمایا ’’بے شک جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا‘‘ اب یہاں مجرم کی وضاحت نہیں کی۔ مجرم مجرم ہے جو اللہ کا نا فرمان ہوا وہ مجرم ہوگیا، مزید وضاحت نہیں فرمائی، جو شخص مجرم ہو کر اللہ کے حضور پیش ہو گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے نہ زندہ رہے گا نہ مرے گا ہمیشہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

اب اس کے جواب میں آگے فرمایا:

وَمَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا.

(طه، 20: 75)

مومن کا شیوہ۔۔۔ حسن خلق

اللہ تعالیٰ نے مومن کے بارے میں فرمایا:

وَمَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ.

اور جو مومن بن کر آنا چاہتا ہے وہ اپنا طرزِ عمل سنوار لے۔

(طه: 75)

جو چاہتا ہے کہ میں بطور مومن اللہ کے حضور پیش ہوں وہ اپنی زندگی سنوار لے، وہ اپنی سیرت سنوار لے، وہ اپنے اخلاق سنوار لے، اپنے احوال سنوار لے، گویا ایمان کو عمل صالح اور سیرت کے ساتھ جوڑ دیا فرمایا: وہ کیسا ایمان ہے جس میں تمہاری سیرت کی خوشبو ہی نہ ہو، تمہارے طرزِ عمل ہی ایمان والے نہ ہوں، تمہارا شیوئہ زندگی ہی اُس سے ایمان کی خوشبو نہ آئے، تو کیسا مومن بننا؟ وہ تو مجرم ہے۔ فرمایا:

وَمَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّّٰلِحٰتِ.

(طه: 75)

تو مومن کو نیک سیرت اور نیک اخلاق کے ساتھ جوڑا۔ اور اُس کو فرمایا:

فَاُولٰٓـئِکَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰیo

اُس کے لیے اعلیٰ درجے جنت کے ہیں۔

طه: 75

اور پھر پوچھا باری تعالیٰ! کوئی راز ایک اور بتا دے ایسا مومن اور عمل صالح اور جنت کے اعلیٰ درجات کوئی گُر، کوئی راز بھی بتا دے کہ کیسے پہنچیں؟ فرمایا:

وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰیo

اور یہ اس شخص کا صلہ ہے جو (کفر و معصیت کی آلودگی سے) پاک ہوگیا۔

طه: 76

تزکیہ نفس کی جزاء

یہ جزا اُس شخص کو ملے گی جو تزکیہ کرے گا اپنے من کو میل کچیل سے صاف کرے گا، پلید خصلتوں سے پاک کرے گا، اپنے اندر سے تکبر کو نکالے گا، حرص اور ہوس کو نکالے گا، غیبت اور چغلی کو نکالے گا، منہ مروڑ کر ملنے کی عادت کو نکالے گا، بخیلی کو نکالے گا، کنجوسی کو نکالے گا، کنجوسی نکال کر اپنے اندر سخاوت داخل کرے گا، چہرے کی سختی نکال کر چہرے پر ملاحت نرمی مسکراہٹ داخل کرے گا۔ جبر اور ظلم اور سختی نکال کر نرمی اور ملاطفت داخل کرے گا، تکبر نکال کر تواضع انکساری داخل کرے گا۔ پلید خواہشیں نکال کر ملائے اعلیٰ کی پاکیزگی داخل کرے گا۔ جس کے اخلاق، خصلتیں اور طبیعت بدل جائے گی اور وہ فرش پر رہ کر عرشی طبیعت کا بن جائے گا فرمایا: اُس کے لیے سارے مقاماتِ جنت ہیں۔

کیونکہ جنت عرش پر ہے، آسمانی کائنات میں ہے اور عرشی مقام پر عرشی طبیعت والے ہی جاتے ہیں لہذا اپنی طبیعتوں کو کچھ نا کچھ عرشی بنائیں گے تو عرشی گھروں میں جا کے آباد ہوں گے۔ فرمایا: جو تزکیہ کرے گا اُس کے لیے مقامات ہیں۔

الغرض دین کی روح کیا ہے؟ وہ حسن خلق ہے۔ اگر ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ایک انقلاب ہے جس کی اپنی زندگیوں میں بپا کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حال پہ کرم فرمائے۔ ہمیں اس پورے مضمون کو سمجھ کر اپنی زندگی میں جاری اور ساری کرنے کی توفیق مرہمت فرمائے۔