راہِ نوردِ شوق (انٹرویو ڈاکٹر شاہدہ نعمانی)

انٹرویو پینل: ام حبیبہ، نازیہ عبدالستار

ڈاکٹر شاہدہ نعمانی منہاج القرآن ویمن لیگ کی ابتدائی رہنماؤں میں سے ہیں۔ آپ منہاج القرآن ویمن لیگ کے 29 سالہ سفر میں شریک رہی ہیں سوشل ورکر کی حیثیت سے بھی سوسائٹی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور یونیورسٹی آف ویٹنری سائنسز میں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے یوم تاسیس کی مناسبت سے اس ماہ راہ نورد شوق میں آپ کا انٹرویو شائع کیا جارہا ہے۔

س: منہاج القرآن ویمن لیگ سے منسلک ہونے کی وجہ کیا تھی؟

ج: میں بنیادی طور پر ایک سوشل ورکر ہوں بچپن سے اپنی حساس طبیعت کی بناء پر معاشرے کا کرب، انسانوں کے دکھ اور نظام کا استحصال قلب و ذہن کو متاثر کرتا تھا بہت چھوٹی عمر میں میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ میں نے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا ہے پھر قائد محترم کی فکرو نظریہ سے آگاہی ہوئی ان کے فلسفہ انقلاب نے زندگی کو ایک نئی جہت دی۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی زندگی میں سوشل ورک کے ذریعے کتنے لوگوں کی مدد کرسکوں گی چند، سو یا ہزار؟ اگر نظام کی تبدیلی کے لیے کام کیا جائے تو ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے یہ نقطہ فکر تحریک سے وابستگی کی بنیاد بنا خواتین کا کردار تحریک میں روز اول سے بڑا کلیدی رہا۔ قائد محترم نے جتنی توجہ اور سرپرستی اس فورم کو دی دینی جماعتوں میں اس کی مثال ناپید ہے اسی بناء پر ویمن لیگ سے وابستگی جو قائم ہوئی سو قائم ہے۔

س: کراچی شہر میں کام کے حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا، مشکل یا آسان؟

ج: کراچی سے کام کا آغاز کیا۔ ابتداء میں کالجز میں کام کیا کرتے تھے پھر علاقوں میں کام شروع کیا پھر اس کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کا موقع ملا ہر شہر میں کام کا مزاج کچھ نہ کچھ مختلف ہوتا ہے اسی طرح ہر شہر میں مشکلات بھی منفرد ہوتی ہیں۔ کراچی سے مزاج شناس ہونے کی وجہ سے وہاں کے کام میں بہتر نتائج پیدا کرسکی بلکہ راز کی بات تو یہ ہے قائد محترم کی ایک بات پلے سے باندھی کہ تصوف کے بغیر تحریک تخریب بن جاتی ہے۔ اپنی ٹیم کی تشکیل بنیاد تصوف کے اصول پر رکھی ذات کی نفی سے آغاز سفر اور تحریکی کام کو ان وظائف کا درجہ دیا جس کا انجام وصل کی منزل ہے یوں مشکل بھی راحت ہوگئی۔

س: منہاج القرآن ویمن لیگ کے آغاز کے وقت ابتدائی مشکلات کیا تھی؟

ج: چونکہ میں نے کام کی ابتداء کراچی سے کی اس دور میں قتل و غارت گری عروج پر تھی اکثر علاقے میں کرفیو لگا ہوتا لیکن میرا جنون مجھے ایک دن بھی گھر بیٹھنے کی اجازت نہ دیتا تھا اکثر فائرنگ میں بھی گذرنا پڑتا۔ شہر بند ہونے کی صورت میں اسٹاپ پر گھنٹوں پھنس جاتے ان اسباب کی بناء پر خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا پھر وسائل کی کمی،لٹریچر کی کمی، ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا سب سے بڑھ کر خواتین کے کام کو ایک انقلابی مزاج دینے کے لیے مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔

س: اپنے Ph.D کے مقالے کے حوالے سے بتائیں؟

ج: میرے مقالے کا موضوع ’’عالمی مذاہب میں پیشہ وارانہ سماجی بہبود کے تصور کا تقابلی جائزہ اور عصر حاضر میں اس کا اطلاق‘‘ ہے۔ اس میں الہامی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت اور غیر الہامی مذاہب ہندومت اور بدھ مت میں سماجی و فلاحی تصور کا جائزہ لیا ہے کہ مذاہب سماجی بہبود کے حوالے سے کیا نظریہ رکھتے اور عصر حاضر سماجی فلاحی اور سماجی تغیر کے اطلاق کے لیے کن اوصاف کا تعین کرتے ہیں اس موضوع کے انتخاب کا سبب بھی یہی تھا کہ ان عوامل کو تحقیق کے ذریعے تلاش کیا جائے جو اقوام عالم میں پائیدار مثبت تبدیلی کا باعث بنیں ان کی روشنی میں ایک سماجی تحریک کی بنیاد ڈالی جائے۔

س: Woice کے مقاصد اور پروجیکٹس کیا ہیں؟

ج: Woice ویمن لیگ کی ایک نئی جہت ہے جس کا مقصد خواتین کو سماجی شعبہ میں خدمات فراہم کرنا ہے اور معاشرے کو کامیاب و ہنر مند خواتین دینا ہے جو تعمیر پاکستان میں اپنا کردار اداکریں اس کے پروجیکٹس میں کفالت، خود کفالت خواتین کو چھوٹے روزگار فراہم کرنا، یتیم بچیوں کے لیے بیت الزہرہ کا قیام اور Skill develope سینٹر کے منصوبے شامل ہیں۔

س: معاشرے میں خواتین کے مقام کو مستحکم کرنے کے لیے آپ کیا تجاویز دیتی ہیں؟

ج: معاشرے میں خواتین کو اپنے مقام کو مستحکم کرنے کے لیے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا ساتھ ہی ساتھ کردار کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ علم اور کردار اعتماد دیتا ہے جس کے ذریعے خواتین اپنے مقام کو مستحکم کرکے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

س: قائد محترم کی وہ خوبی جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو؟

ج: قائد محترم نے ہماری جو فکری نظریاتی سمت متعین فرمائی ہے۔ اس نے ہماری زندگیاں سنوار دی ہیں۔

س: آپ اپنی دیگر NGO's کے بارے میں بتائیں؟

ج: اپنی Ph. D کی تکمیل کے بعد لاہور کالج یونیورسٹی میں ایک سال اور اب یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی ذمہ داریاں ادا کررہی ہوں یونیورسٹی میں چائلڈ ایجوکیشن پروجیکٹ اور ہیلپنگ ہینڈ کے نام سے فلاحی پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے تاکہ طلباء کو علم کے ساتھ ساتھ سماجی کام کی تربیت بھی دی جاسکے اس کے علاوہ شعور کے نام سے ایک NGOچلارہی ہوں جو بیداری شعور، غربت، چائلڈ لیبر، کفالت روزگار کی فراہمی، ناگہانی آفات میں امداد اور دیگر شعبوں پہ کام کررہی ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں اس کا نیٹ ورک ہے اب لاہور میں کئی یونیورسٹیز کے تقریباً 50 سے زائد طلباء میرے ساتھ ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے علاوہ وسیلہ ویلفیئر فاؤنڈیشن میں بطور صدر خدمات دے رہی ہیں جس کا فوکس دیہی علاقے ہیں اور 100 سے زیادہ دیہی علاقوں میں اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کرچکی ہے اس استحصالی نظام میں جو قوم کا حشر کردیا ہے جتنا بھی کام کیا جائے کم ہے حل صرف اور صرف نظام میں تبدیلی ہے۔

س: آپ مشن میں کن شخصیات سے متاثر رہیں؟

ج: میں بڑے بھائی شمس المصامی کا میری تربیت میں بڑا ہاتھ ہے انہوں نے سب سے پہلے قائد محترم کی کیسٹس مجھے سنوائی مشن کی راہ میں آنے والی مشکلات میں سہارا دیا اس کے علاوہ تنویر قریشی شہید، پروین مصطفوی، مسز مہاجر تحریکی بہنوں اور بھائیوں کا ساتھ رہا جو میرا خاندان ہیں جنہوں نے مجھے طویل بیماری میں استقامت سے کھڑے رہنے کا حوصلہ دیا۔

س: کامیاب زندگی کا راز کس چیز میں ہے؟

ج: اخلاص آپ کی زندگی کو کامیاب کرتا ہے ورنہ سب مایا ہے۔

س: کوئی ایسا واقعہ بتائیں جو مشن سے وابستہ دیگر بہنوں کے لیے سبق آموز ہو؟

ج: مشن کی حقانیت پر زندگی کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ جب ہم خدمت دین میں لگ جاتے ہیں تو رب کیسے ہمارے کام سنوارتا ہے جب ہم دنیا کی دولت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں تو وہ کیسے ہمارے قدموں میں آگرتی ہے جب آپ خواہشات نفس چھوڑتے چلے جاتے ہیں تو آپ کی روح کی پرواز کیا ہوجاتی ہے آپ کا اخلاص آپ کو سربلند کرتا ہے۔ سن 2000ء میں مجھے multiple Sclerosis کا پہلا اٹیک ہوا ایک کان کی سماعت ختم ہوگئی جسم کا بیلنس ختم ہوگیا چند سالوں میں دوسرا اٹیک Diplopia ہوا طبیعت انتہائی خراب ہوگئی اور علاج مرض کے بعد خدا سے صرف یہ التجا کی بستر پر نہ مارنا جب مروں تو مشن کا کام کرتے ہوئے مروں۔

اپنی راہوں میں مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گرد سفر ہوجاؤں

مشن کا صدقہ ہے کہ زندہ بھی ہوں Ph.D بھی کرلی، یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہوگئی، اس بیماری کے ساتھ ڈاکٹرز کے مطابق یہ ناممکنات میں سے تھا، میری کیا اوقات قبلہ قائد محترم کی نگاہ التفات ہے۔

س: ویمن لیگ کے ابتداء سے اب تک کے سفر کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

ج: ویمن لیگ کا قافلہ اپنے جذبوں، عزم و ہمت کے ساتھ سوئے منزل رواں دواں ہے۔ ویمن لیگ کا کام نہ صرف خواتین میں خدمت دین کرنا ہے بلکہ اس قافلہ میں شامل ہوکر اس کی رفتار کو بڑھانا اور تحریک کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا بھی ہے۔ اپنے تمام عیب و ہنر کے ساتھ مجموعی طور پر ویمن لیگ اپنا یہ کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ تحفظ ناموس نسواں کنونشن ویمن لیگ کی ابتداء میں ایک بڑی کامیابی یہ بھی جس کے بعد کام کو ایک نئی جہت ملی۔ ہماری تحریکی بہنیں مال سے لے کر جان تک ہر قربانی کے امتحان میں پوری اتری ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے مقاصد، نوعیت اور نتائج کے اعتبار سے یہ خواتین کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ ہماری تحریکی بہنوں کی وابستگی اور قربانیوں کی ایسی ایسی داستانیں ہیں جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ رب تعالیٰ اس قافلے کو روز افزوں ترقی عطا فرمائے۔ منزل انقلاب کا ہر اول دستہ بنائے۔ قائد کے سامنے سرخرو کرے۔ آمین

س: دختران اسلام کی خواتین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں

ج: دختران اسلام کی قارئین کے لیے یہی پیغام ہوسکتا ہے دختران اسلام ہوجائیں زندگی میں اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں کوئی عہدہ کوئی ڈگری اس سے بڑھ کر نہیں، خدمت دین اور خدمت انسانیت کو اپنا مشن بنالیں اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر للہیت کے ساتھ رسول پاک کے دین کی سربلندی کے لیے اپنا آپ وقف کردیں مستحکم ارادہ بہتر منصوبہ بندی اور جہد مسلسل منزل کا یقین یہی زاد سفر ہے اپنے ظاہرو باطن کو حضوری کی کیفیت میں رکھیں حضرت بی بی فاطمہ کے فقر کو مشعل راہ بنائیں۔