شہادت امام حسین علیہ السلام کا پیغام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شبِ عاشور پر خصوصی خطاب

رپورٹ: محمد اقبال چشتی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہورمیں 9 محرم الـحرام (1439ھ) مؤرخہ 30 ستمبربروز ہفتہ کو منعقد ہونیوالی ’’پیغام امام حسین علیہ السلام ‘‘ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ؟ امام عالی مقام کی شہادت کا فلسفہ کیا ہے ؟ امام عالی مقام کی شہادت نے عالم اسلام اور عالم انسانیت کو کیا دیا؟ کیا فکر و سوچ عطا کی؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو واقعہ کربلا اور خانوادئہ رسول کی مقدس ہستیوں کی شہادت اور سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے گرد گھومتے ہیں۔ واقعہ کربلا کے اندر دو قسم کے فلسفے اور سوچ آپس میں ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ دو فلسفے اور دو سوچیں کیا تھیں، انہیں سمجھنے کی اَشد ضرورت ہے تاکہ واقعہ کربلا صرف واقعہ کربلا نہ رہے بلکہ ایک اَبدی حقیقت کے طور پر سمجھ میں آجائے۔ حسین حسینیت کا روپ دھار چکے ہیں، اسی طرح یزید یزیدیت کا روپ دھار چکا ہے، واقعہ کربلا انہی دو سوچوں کا ٹکرائو تھا ایک سوچ جو یزیدیت کے روپ میں تھی وہ آج بھی موجود ہے۔ وہ سوچ یہ تھی کہ طاقت ہی حق ہے، یعنی جس کے پاس طاقت ہے، اُسی کی پیروی کی جائے، اُسی کا ساتھ دیا جائے، اُس سے ہر صورت سمجھوتہ کیا جائے، اس سے بنائی جائے، بگاڑی نہ جائے، اُس کی تابعداری کی جائے، اُس کی معاونت کی جائے اور یوں اس کی تائید کر کے اور اس کی تائید لے کر زندہ رہا جائے۔

اس سوچ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی سوچ کا ٹکرائو تھا۔ اُن کی سوچ تھی کہ طاقت ہی حق نہیں ہے بلکہ حق ہی طاقت ہے، یعنی طاقت کی پرستش نہ کی جائے، طاقت کا ساتھ نہ دیا جائے، حق کا ساتھ دیا جائے ، حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر طاقت آپ کو کچل بھی دے تو آپ پھر بھی زندہ و جاوید ہیں۔

ان دوفلسفوں کے ٹکرائو نے یہ بات امت مسلمہ کو اور عالم انسانیت کو سمجھائی کہ واقعہ کربلا کے نتیجے میں سیدنا امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے، اور یزید نے اپنا تخت بچا لیا، حالانکہ ابھی کوئی مسلّح جنگ نہیں تھی، کوئی بغاوت کی صورت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی، یہ تو پرامن قافلہ تھا جو کوفہ کی طرف رواں تھا، اور صرف خاندان کے لوگ تھے۔ مگر واقعہ کربلا کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام اور خانوادئہ رسول s سب شہید ہوگئے، یزید کا تخت بچ گیا، کربلا کا فلسفہ یہ ہے کہ حسین علیہ السلام شہید ہو کر بھی زندہ ہوگئے اور یزید تخت بچا کر بھی مردہ ہوگیا، حسین علیہ السلام نیزے کی نوک پر چڑھ کے بھی جیت گئے اور یزید تخت پر براجمان ہو کر بھی ہار گیا۔ گویا امام حسین علیہ السلام نے جیت اور ہار کا مفہوم بدل دیا۔

یزید ظلم وبریت کا نام تھا، اور حسین علیہ السلام انسانیت کا استعارہ تھے، یزید خیانت تھا، حسین علیہ السلام امانت تھے، یزید ظلم تھا، سیدنا حسین علیہ السلام عدل تھے، یزید جبر تھا، سیدنا حسین علیہ السلام صبر تھے، یہ ظلم وعدل اور صبر کا مقابلہ تھا، یزید سراسر جفا تھا، حسین علیہ السلام سراسر وفا تھے، یزید مطلق العنانی کا نام تھا، حسین علیہ السلام مساوات ایمانی کا نام ہے۔ یہ دوکردار تھے، یزید باطل کردار کا نام ہے، حسین حق کے کردار کا نام ہے۔ اس لیے جبروظلم، خیانت، کرپشن، بربریت، دہشتگردیاور خونریزی کی طاقت یزیدیت بنی اور صبر، جرأت، عدل کا کردار، امن کی خوشبو حسینیت انسانیت کا زیور بنی۔ یزید سراسر بے حیائی اور لوٹ مار کا نام تھا، حسین علیہ السلام سراسر تقوی اور ایثار کا نام تھا۔

یہ ذہن میں رکھ لیں کہ یزید سراسر کرپشن ہے اور اُس کی کرپشن کی تین Dimentions تھیں: یزید سیاسی، مالی، اوراَخلاقی کرپشن کا بانی بنا۔ اسلامی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے اُس نے سیاسی کرپشن کی بنیاد رکھی۔ اُس نے نظامِ خلافت اور خلافتِ راشدہ جو کہ سیرتِ مصطفی کا عملی نظام تھا اس کی اَقدار کو پامال کیا۔ اگر آپ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں تک کہ قرآن وسنت کو عملی نظام کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو خلافتِ راشدہ کو دیکھ لیں، یزید نے اُس خلافتِ راشدہ کی قدروں کو پامال کیا اور اُسے بدترین ملوکیت، انتہائی سفاک، کرپٹ آمریت اور ریاستی دہشتگردی سے بدل دیا۔ جہاں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو دریائے دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والے بکری کے بچے کی بھی فکر تھی وہاں خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نفوس کچل دیئے گئے۔

امام حسین علیہ السلام خلافتِ راشدہ کی سوچ کے وارث تھے، اُن اقدار کے محافظ تھے، اُن اقدار کو Re-enforce کرنا چاہتے تھے، اُن کو تمکّن دینا چاہتے تھے اور اُس سوچ پر مبنی امت کا مستقبل سنوارنا چاہتے تھے۔ یزید نے خلافت راشدہ اور نظام رسالت کی تمام قدروں کو پامال کر کے بدترین کرپٹ اور سفاک آمریت کے نظام کو رائج کیا، جس کے نتیجے میں اُس نے اوپر سے لے کر نیچے تک خاندانی بادشاہت قائم کی۔ یزید کا وطیرہ تھاکہ اس نے جتنے بزرگ، باکردار، پختہ، اچھی سیرت والے، عمر رسیدہ و تجربہ کار، دیانت دار، ایماندار افراد جن جن مناصب پر فائز تھے اُن سب کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا اور اپنے خاندان کے لونڈوں کو اُن کے مناصب پر بٹھا دیااور اپناحلقہء احباب ہر جگہ پر قائم کیا۔ یعنی آقا علیہ السلام نے جو سیاست اپنی امت کواپنی سنت اور ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کی صورت میں عطا کی تھی اُس نے اُس سیاست کا کلچر بدل دیا حالانکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المهدیین.

میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا ہے، یزید نے آپsکی سنت پر قائم خلافت کو بدل کر کرپٹ بادشاہت وآمریت کی بنیاد رکھی۔ یہ اس کی سیاست تھی۔ اُس نے اپنی کرپٹ سیاست کے دوران لوگوں سے اختلافِ رائے کا حق چھین لیاحالانکہ اپنے حق کی خاطر احتجاج کرنا معاشروں میں ایک جمہوری طریقہ ہے، اُس نے احتجاج کا حق بھی چھین لیا۔

یہاں تک کہ واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد اہلِ مدینہ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر احتجاج کیا اور یزید نے افواج بھیج کر مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کر دیا اور نہ صرف مدینہ منورہ پر قبضہ کیا بلکہ مسجد نبوی پر بھی قبضہ کر لیااور اپنے گھوڑے، اونٹ اور خچر باندھ دیئے۔ تین دن تک مسجد نبوی میں اذان، جماعت اور نماز معطّل ہوگئی۔ اس واقعہ پر مؤرخین، محدثین اور اسلام کی پوری تاریخ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ کسی غیر معتبر اور چھوٹے درجے کے مؤرخ اور امام کا بھی اس واقعہ پر اختلاف نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جب اُس نے اپنی افواج کو بھیجا تو اُنہیں کہہ کر بھیجا کہ تین دن تک مدینہ تمہارے اوپر حلال ہے، مباح ہے تم جو چاہو کرو، قتل عام کردو، لاشیں گرا دو، خون کے دریا بہا دو، عزتیں لوٹ لو، جو چاہو کرو میں تم پر مباح کرتا ہوں۔ اس واقعہ میں بہت سے صحابہ، تابعین اور صحابیات شہید ہوئے اور تمام شہداء کا پورا ایک خطہ جنت البقیع میں ہے۔

شہرِ مدینہ کی حرمت پامال کرنے کے بعد اس نے اہل مکہ کی طرف رُخ کیا اوروہاں کے باسیوں پر اپنی افواج دوڑائیں اور مکہ معظمہ کو تاخت و تاراج کیا۔ کعبۃ اللہ کی بے حرمتی کی اور منجنیق کے ذریعے کعبۃ اللہ پر تیر برسائے اور آگ لگائی۔ اس نتیجہ میں کعبۃ اللہ کا نہ صرف غلاف جلا بلکہ کعبۃ اللہ کا بہت سارا حصہ جل گیا۔ جب کعبۃ اللہ جل رہا تھا تو اُس وقت یزید دمشق سے ہدایات دے رہا تھا، اس کی فوج جب کعبۃ اللہ جلا رہی تھی اُسی دوران اس کی فوج کے کمانڈر کو درد اٹھا اور اسی دوران مرکر واصل جہنم ہوا۔ اسی دوران یزید نے نئے کمانڈر کی تعیناتی کی۔۔

بعض لوگوں کا خیال اور مغالطہ ہے کہ شاید یزید نے توبہ کر لی ہو، ایسے گمان کا احتمال بھی ناممکن ہے، وہ تو کعبۃ اللہ کو آگ لگوا رہا تھا، ایسے بدبخت کو اللہ کبھی توبہ کی توفیق نہیں دیتا اور اس کی توبہ قبول ہی نہیں ہوتی۔ یہ اس کی سیاسی کرپشن اور سفاک ملوکیت تھی جس کے سبب اُس نے پہلی صدی کے آخری حصہ میں اسلامی کلچر کو تبدیل کر دیا تھا اور اس تبدیلی کا ذکر آقا علیہ السلام نے اپنی احادیث کے اندر فرمادیاتھا۔

ییزید کی دوسری کرپشن اس کی مالی کرپشن تھی جس کی اس نے بنیاد رکھی۔ خلافت راشدہ کے دوران تو ایک عام آدمی بھی کھڑا ہو کر پوچھ سکتا تھا کہ آپ نے یہ نئے کپڑے کہاں سے لئے ہیں؟ اس وقت تو یہودی مقدمہ دائر کر سکتا تھا کہ یہ زرہ میری ہے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ وقت کے امیر المؤمنین ہونے کے باوجود جج کی عدالت میں پیش ہوتے تھے اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے خلاف آیا۔ جہاں عدل و انصاف کا نظام آقا علیہ السلام نے اپنی امت کو عطا فرمایا تھا اور اس پر عمل درآمدکو یقینی بنایا، وہاں یزید کے دور میں قومی اور سرکاری خزانہ ذاتی عیاشیوں کی نذر ہوگیا تھا۔ شہنشاہانہ انداز سلطنت تھا، عیاشی کی زندگی تھی۔ اُس نے قومی خزانے کواپنی عیاشی، امارت، شہنشاہیت اور بادشاہت کی خاطربے دریغ لوٹایا۔

اس کی تیسری کرپشن اخلاقی کرپشن تھی کہ اس نے دینی واسلامی اقدار کو مٹا دیا اور بے حیائی کو عام کیا۔ اپنے محل میں بے حیائی اور حدودِ الہیہ کو توڑنے کا رواج یزید نے دیا۔ یزید وہ پہلا شخص تھا جس نے بدکاری اور بے حیائی کو رواج دیا۔

اِن تین اَقسام پر مشتمل کرپشن اور پورے نظام کے مجموعے کا نام یزیدیت ہے۔ یہ پورا نظام یزیدیت کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ جس کی طرزِ زندگی، طرزِ حکمرانی اور طرز سلطنت میں اِن چیزوں کی جھلک نظر آئے وہ اپنے دور کا یزید ہے اور جو اِن پلیدیوں سے ٹکرائے وہ اپنے دور کا غلامِ حسین ہے۔ وہ اپنے دور کا حسینیت کا پیروکار، حسین کا وفا دار اور حسین کے لشکر کا ایک سپاہی ہے جو اپنے دور کے یزید اور اپنے دور کی یزیدیت کو للکارے اور ٹکرائے۔ یزید نے انسانی حقوق کا قتل عام کیا، انسانی آزادیوں، اَخلاق وشرافت کی اقدار، دین اور اَحکام شرع، نظام احتساب اور عدل وانصاف کا قتل عام کیا، سارے نظام کو اپنی حرص اور ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یزید نے ساری سلطنت کا نظام اپنی ذاتی خواہش کے نام کردیا۔ یہ باقیاتِ یزیدیہ ہیں۔

یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا:

مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْةُ بِیَدِةٖ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، وَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِکَ أَضْعَفُ اْلإِیْمَانِ.

فرمایاکہ تم میں سے جو شخص برائی کو( ظلم، بے حیائی، لوٹ مار، کرپشن، دینی حدود کی خلاف ورزی)کو دیکھے تو اُس پر فرض ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اس کو روکے اور اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرے، (وہ نظام جو بدی، بے حیائی، لوٹ مار ، حرام پر قائم ہے اُس کو بدل دے۔

اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے تین معیار قائم فرمائے، اُن میں سے یہ پہلا معیار ہے۔ یہ معیار آئیڈیل ہے اور یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے جس کے من میں حسینیت ہو۔ جب حسینیت کسی کے مَن میں داخل ہو جائے تو اس میں بزدلی، بے حسی، بے ضمیری، بے غیرتی ، ڈر خوف اور مصلحت نہیں رہتی۔ پھر وہ کمزور بھی ہو تو دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے، کیونکہ اس کی طاقت اپنی نہیں ہوتی ، اس کی طاقت حسین علیہ السلام اور فکرِ حسین سے ہوتی ہے۔

پھر آقا علیہ السلام نے اپنی امت کے کمزور لوگوں کو جانتے ہوئے خیال فرمایا کہ ہر کوئی یزیدیت سے ٹکرا نہیں سکتا توفرمایا:

فإن لم یستطع فبلسانه.

دوسرا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی ٹکرانے کی ہمت و جرأت نہ رکھے تو زبان سے للکارے، یا منع کر دے۔ یہ دو پیمانے دیئے۔ یا زبان سے اُس کی مذمت کرے، اور اس کا ساتھ نہ دے۔

آقا علیہ السلام نے اپنی امت میں سے ہر زمانے کے لوگوں کی کثیر تعداد کی رعایت فرمائی جو یزیدی طاقت کے ساتھ ٹکرانے کا کلیجہ نہیں رکھتے اور اُن کا بھی خیال کیا۔ پھر تیسرا درجہ اور تیسرا پیمانہ آقا علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ کئی اس سے بھی کمزور دل لوگ ہوں گے، ان کی زندگی میں مفاد زیادہ طاقتور ہوگا اور حق کہنے سے ڈریں گے ، آقا علیہ السلام نے سوچا وہ بھی تو میری امت میں ہی ہوں گے، اُن کا خیال کرتے ہوئے فرمایا: فبقلبہ: اگرزبان سے بھی للکار نہ سکو، مذمت نہ کرسکو اور ڈر ہو کہ کہیں کوئی مصیبت نہ پڑ جائے، اور زباں سے بھی کلمہ حق ادا نہ کرسکو تو تیسری گنجائش دے دی کہ پھر دل سے نفرت کرے مگرکسی حال میں ان کا ساتھ نہ دے۔ نفرت کرے، اُن کی نوکری و غلامی کرے، اُن کی وفاداری وتابعداری نہ کرے۔ میری نظر میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ظاہر میں بڑے دیندار اور متقی پرہیز گار معلوم ہوتے ہیں، ان کے لئے آقا علیہ السلام نے فرمایا اگر تم زبان سے کچھ کہہ نہیں سکتے تو ٹھیک ہے مگر دل سے نفرت کرو ان کی پارٹی نہ بنو، اُن سے اَلائنس نہ کرو، اور دل سے نفرت کرنے کو فرمایا:

ذلک أضعفُ الإیمان.

یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے اس تیسرے معیار کو ایمان کا کمزور ترین درجہ قرار دیا مگر ایمان کے دائرے میں رکھا اور ایمان سے خارج نہیں کیا۔

اس سے اگلا Step کیا ہے؟یعنی چوتھا سٹیپ یہ ہے کہ اُن کے ساتھ مل جانا، یہ ایمان سے خارج ہونیوالا عمل ہے ، یعنی ظلم و جبر کا ساتھ دینا یہأضعف الإیمان سے بھی نیچے ہے۔ اب میری سمجھ میں نہیں کہ کمزور ترین ایمان کی حالت کے بعدایمان کی کونسی قسم باقی رہ جاتی ہے جس کو داخلِ ایمان سمجھیں گے۔ شرعی، اعتقادی، اصولی اور فنی بحث وتمحیص سے قطع نظر عملی ایمان کی شکل میری سمجھ میں نہیں آتی۔ دورِ یزید میں کچھ لوگ یزید اور یزیدیت کے نظام سے خوفزدہ ہو کراُس کے مؤید بنے، وہ کوفہ اور دمشق میں تھے، مفاد کے لیے یا خوفزدہ ہوکر یزید کے ساتھ ہوگئے۔ اس کے علاوہ بھاری اکثریت دو پوزیشنز میں رہی فبلسانہ یا فبقلبہ۔ بھاری اکثریت یا تو زبان سے برا جانتی تھی یا دل سے برا جانتی تھی۔

امام حسین علیہ السلام کی انفرادیت کیا ہے؟امام حسین علیہ السلام نے کونسا انوکھا کام کیا کہ اپنا پورا خانوادہ دین کے لیے قربان کروا دیا، ایک درجہ مظلومیت کا ہے جس میں شہادتیں ہوئیں، یہ سارے Aspects اپنی اپنی جگہ مگر ان سارے حقائق سے ہٹ کر ایک دوسری انفرادیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ امت کی بھاری اکثریت فبلسانہ (اپنی زبان کے ساتھ) کے درجے میں گئی یا فبقلبہ (اپنے دل کے ساتھ)کے درجے میں گئی مگر سیدنا امام حسین علیہ السلام فلیِغیِّرْهُ بیدهٖ (اپنے ہاتھ سے تبدیل کرے)کے مقام پر فائز ہوئے۔

کئی لوگ اس عمل کی تائید کر کے فبلسانہ کے درجے میں آگئے اور بہت سے لوگوں نے رخصت، مصلحت اور خاموشی کا راستہ اختیار کیا اور فبقلبہ کے درجے میں آگئے مگر امام حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ جو بات میں سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ رخصت کا راستہ امام حسین کے لیے جائز تھا مگر عزیمت کا راستہ افضل تھا۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام جائز کرنیوالوں میں نہیں بلکہ افضل کرنیوالوں میں ہیں۔ جائز عمل میں کوئی فضیلت نہیں ہوتی، جائز جائز ہوتا ہے اُس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا مگر اُس پر عمل کرنیوالے کے لیے فضیلت نہیں ہوتی، جبکہ امام حسین علیہ السلام ساری فضیلتیں سمیٹ گئے۔ قرآنِ مجید نے بھی اضطرار کی حالت میں رخصت و خاموشی کی اجازت دی ہے ارشاد فرمایا:

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْه.

پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔ اضطرار کی حالت میں اجازت ہوتی ہے مگر امام حسین علیہ السلام صاحبِ اجازت نہیں بلکہ صاحبِ فضیلت ہیں۔ اجازت کا طریقہ بہت سے لوگوں نے اپنایامگر فضیلت کا طریق صرف امام حسین علیہ السلام کے حصے میں آیا۔ یہ راہِ عزیمت تھی جو امام حسین نے اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کی یہ اہمیت ہے۔ اس معاملے میں بڑی بڑی شخصیات رخصت واجازت پر رہی ہیں، اُن کی شہادتوں اور اُن کی تاریخ کا کسی کو علم نہیں ہے، اُن کے مراتب اپنی اپنی جگہ پر بلند ہیں، مگر سیدنا امام عالی مقام کی شہادت اتنی معروف ہے جیسا کہ سیرت رسولs معروف ہے۔ یہ ذکر قیامت تک مٹ نہیں سکتا۔ اس کی نشاندہی آقا علیہ السلام نے خود فرمائی، صحیح بخاری میں روایت ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَعَاءَیْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هٰذَا الْبُلْعُومُ.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو تھیلے علم حاصل کیا ہے۔ ایک کو میں نے لوگوں کو پھیلا دیا ہے جب کہ دوسرے کو اگر میں ظاہر کروں تو یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔

یعنی دو اَقسام کے علم میں نے آقا علیہ السلام سے حاصل کئے، ان علوم میں سے ایک قسم کا علم وہ ہے جو میں لوگوں کو بیان کرتا ہوں اور بیان کر دیا ہے، جن میں شریعت کے احکامات اور مسائل شریعہ ہیں اور ایک دوسری قسم کا علم ہے جسے اگر میں بیان کر دوں تو میرا سرقلم کردیا جائے گا، یعنی دوسری قسم کا علم میں نے پبلک میں بیان نہیں کیا۔ علامہ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ اس دوسری قسم کے علم میں یہ علم بھی شامل ہے کہ آپ sکے دور کے بعد آنیوالے وقت میں بڑے بڑے بدترین آمر حکمران آنیوالے تھے، اُن کے نام بھی حضور علیہ السلام نے سیدنا ابو ہریرہ کو بتا دیئے تھے کہ آنیوالے زمانوں میں کتنے بدترین اور بدکردار آمر اور مطلق العنان، جابر اور قاتل حکمران آئیں گے اُن امرائے سوء کے نام بھی بتا دیئے تھے۔

امام عسقلانی لکھتے ہیں کہ اِسی علم میں سے یہ بھی تھا کہ حضرت ابو ہریرہ یہ کہا کرتے تھے:

أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ رَأْسِ السِّتِّیْنَ وَإِمَارَةِ الصِّبْیَانِ.

’’میں ساٹھ ہجری کے شروع ہونے اور نَو عمر چھوکروں اور لونڈوں کی حکمرانی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘۔

61 ہجری کا سن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سن ہے اور ساٹھ ہجری میں یزید تخت حکومت پر بیٹھا اور اس کی حکومت و سلطنت ساٹھ ہجری میں شروع ہوئی اور وہ جوان تھا، آقا علیہ السلام کی اس حدیث کے تحت سیدنا ابو ہریرہ نے ساٹھ ہجری کے شروع ہونے سے پناہ مانگی۔ امام عسقلانی کہتے ہیں:

ویشیر إلی خلافة یزید بن معاویة.

’’یعنی سیدنا ابو ہریرہ ساٹھ ہجری میں یزید کی حکومت کی ابتداء سے پناہ مانگتے تھے‘‘۔

جب یزید تخت نشین ہوا تو ساٹھ ہجری کا سن تھا اور اللہ تعالی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا کو قبول کیا اوریزید کی حکومت شروع ہونے سے ایک سال قبل اُن کی وفات ہوگئی۔

آج کا دور بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب دینِ اسلام پر حملہ ہو اور اِسلام کی اَقدار کو پامال کیا جارہا ہو تو ایک مسلم پر یہ بات فرض ہوتی ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے راہِ عزیمت اختیار کرے اور اگراسلامی اَقدار کو بچانے کی خاطر اپنی جان، مال وزر اور اولاد کی قربانی بھی دینا پڑے تو بلا خوف وخطر ان چیزوں کی قربانی دے۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صحیح مفہوم کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی پیروی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین