غلبہ دین کی جدوجہد میں جدید ذرائع ابلاغ کا کردار

پروفیسر محمد رفیق

یہ دور پراپیگنڈہ کا دور ہے اور ذرائع تشہیر اتنے طاقتور (Powerful) ہوگئے ہیں کہ انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گذشتہ ادوار تاریخ کے برعکس اس وقت قوموں کو فتح کرنے کے لئے فوج اور اسلحہ کی بجائے ذرائع ابلاغ موثر ترین ہتھیار بن چکے ہیں۔ پراپیگنڈہ کے زور پر جھوٹے افسانے اور سکینڈل تراشے جاتے ہیں۔ غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں تاکہ اکابرین اور ذمہ دار اشخاص سے اعتماد اٹھ جائے اور قوم کٹی پتنگ بن جائے۔ ریموٹ کنٹرول سے ذہنوں کو مفلوج کردیا جاتا ہے۔۔۔ جسد ملت بظاہر تو سلامت نظر آتا ہے لیکن ذہنی موت واقع ہوجانے سے اس کی حیثیت ایک زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ کمتر کوالٹی کی مصنوعات بھی اشتہارات کی دلکشی کے باعث مارکیٹ میں اپنا مقام بنالیتی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے زور سے انسانی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی جاتی ہے۔ ہٹلر کے اطلاعات ونشریات کے وزیر گونبلز نے ایک بار کہا تھا کہ جھوٹ کو بار بار اور اتنے یقین کے ساتھ بولو کہ لوگ سچ سمجھنے لگ جائیں۔ موجودہ دور میں پبلسٹی کے موثر ترین ذرائع جس طرح جھوٹ کو سچ ثابت کر دکھاتے ہیں ان حالات میں سچ اگر پبلسٹی اور پراپیگنڈہ کے جدید ذرائع کا سہارا نہ لے گا تو وہ جھوٹ محسوس ہونے لگے گا۔

تغیر احوال سے تغیر احکام کالزوم

بعض امور عام حالات میں ناپسندیدہ، مکروہ یا ناجائز ہوتے ہیں لیکن تغیر احوال اور بعض استثنائی حالات میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوجاتے ہیں۔

Exceptions are always there ایک مسلمہ اصول ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی مستحضر رہنی چاہئے کہ ہیئت اصلیہ کو برقرار رکھنے کے لئے ہیئت کذائیہ تبدیل کرنا ضرور ہوجاتا ہے کیونکہ تغیر احوال سے تغیر احکام لازم آتا ہے بعض مخصوص حالات میں ناجائز امور کو بھی سند جواز مل جاتا ہے مثلاً

  1. ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ولا تجسسوا (الحجرات، :1249) یعنی جاسوسی نہ کیا کرو لیکن اس کے باوجود قومی مصالح اور جنگی حکمت عملی کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صحابہ کرام پر مشتمل جاسوسی مشن بھیجے۔
  2. اکڑ کر چلنا عام حالات میں ناپسندیدہ فعل ہے لیکن دوران طواف دشمن کو مرعوب کرنے کے لئے یہی فعل مطلوب اور مرغوب بن جاتا ہے۔
  3. رزمیہ شاعری تعلی، غلو، خودستائی اور مبالغہ آرائی کے باوجود جائز قرار پاتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی موجودگی میں ایسے اشعار پڑھے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے منع نہیں فرمایا بلکہ بعض اوقات فرمائش تک کرنا بھی ثابت ہے۔

قرون اولیٰ میں ذرائع ابلاغ کا استعمال

  1. ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کلمہ پڑھ لے گا وہ جنت میں جائے گا‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ فرمان سن کر بہت خوش ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اجازت چاہی کہ وہ اس امر کا اعلان کردیں۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اجازت مرحمت فرما دی اور ساتھ ہی اپنے نعلین مبارک بھی دیئے تاکہ اس نشانی کے باعث سننے والوں کو کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے، کسی خاص امر کی تشہیر اور تصدیق کا یہ بھی ایک ذریعہ تھا۔
  2. جھنڈے کے استعمال میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں لیکن اس میں تشہیر کا ایک پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ جھنڈا شان و شوکت اور قوت کی علامت بھی ہوتا ہے۔ غزوات کے دوران جھنڈے کا عام استعمال ہوتا تھا۔ علمبرداروں کا تعین پہلے سے کردیا جاتا تھا، یہ بھی ایک قسم کا اعزاز ہوتا۔ کسی کو عَلم دے کر روانہ کرنا اس کے مامور کئے جانے کی نشانی ہوتا۔ جھنڈا قومی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سفید جھنڈا لہرانا صلح کی نشانی ہوتا ہے۔
  3. ایک دور ایسا تھا جب مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے یوم میلاد کی مناسبت سے مسلسل پانچ دن تک 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تاکہ ذہنوں میں ان کی عظمت اور تمکنت کا تصور جاگزیں ہوجائے۔
  4. کافی عرصہ یہ رواج بھی رہا کہ عیدین کے موقع پر جب امام کعبہ آئے تو توپ کا گولہ چلا کر ان کی آمد کا اعلان کیا جاتا۔ امیر مکہ، امام صاحب کو خصوصی قیمتی جبہ پہناتا۔ یہ سب کچھ دین کے وقار کیلئے کیا جاتا۔
  5. خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی عمارات کی آرائش پر صرف ہونے والی اربوں روپے کی رقم شان و شوکت اسلام کیلئے ہے۔

بادی النظر میں یہ امور محض دکھاوے کے لئے محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں نمود ونمائش اور شہرت کے ان امور کے ساتھ دین کا وقار، عظمت، تمکنت اور دبدبہ وابستہ ہے۔ لہذا محض بدعت کا لیبل لگا کر ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی بدعت کے مفہوم کے تعین میں بڑے مغالطے پیدا کردیئے گئے ہیں۔ جس امر کی دین میں اصل نہ ہو، وہی بدعت ہے اور یہی بدعت کی حقیقت ہے اس کے علاوہ سب کچھ رطب و یابس ہے جو لائق اعتناء نہیں۔

دور مابعد میں تغیر احکام کی چند مثالیں

  1. دور اول میں مسجد نبوی کچی عمارت پر مشتمل تھی۔ چٹائیوں کی چھت تھی جو بارش ہونے پر ٹپکنے لگ جاتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پختہ گھر بنانے کو ناپسند فرماتے۔ دور مابعد میں بلند و بالا پختہ عمارتیں بننے لگیں تو علماء نے محسوس کیا اللہ کے گھر یعنی مساجد کی شان و شوکت رہائشی گھروں سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں عالم اسلام میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار مسجد تعمیر کی گئی ہے، کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
  2. لباس فاخرہ زیب تن کرنا عام حالات میں تو پسندیدہ فعل نہیں لیکن مرور زمانہ سے خوشحالی عام ہوئی تو سادہ لباس میں ملبوس علماء کو کمتر سمجھا جانے لگا۔ لہذا ضرورت محسوس ہوئی کہ اہل علم بھی قیمتی لباس پہنا کریں بلکہ مخصوص جبہ اور دستار زیب تن کیا کریں اس کا مقصد ذاتی وقار کی نمائش نہ تھی بلکہ ان کی وساطت سے دین کی تحقیر کی روک تھام مقصود تھی۔ پھٹے پرانے کپڑے امراء کے لئے حصول علم دین کے راستے میں رکاوٹ بنتے جارہے تھے لہذا علماء میں شاندار لباس کو فروغ ملا۔
  3. اولیائے کرام کے مدفن اللہ تعالیٰ کے خصوصی انوار وتجلیات کا مرکز ہوتے ہیں، لوگ اپنی جہالت کے باعث بے ادبی کرنے لگے تو ایسے مقابر کو نمایاں کرنے کے لئے گنبدوں کا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ قرون اولیٰ میں ایسا کرنا ممنوع تھا جیسے مساجد پکی کرنا ممنوع تھا۔ الغرض ہر دور کی نفسیات اور حالات کے مقتضیات کا خیال رکھنا پڑتا ہے دین کی بقاء اس کے تحرک میں ہے۔

مقبول بندوں کی شہرت کے تذکرے

انسان فطرتاً شہرت اور ناموری کا بھوکا ہے۔ جاہ ومنصب اس کی کمزوری ہے کیونکہ یہ حصول شہرت کا ایک ذریعہ ہے۔ مشہور ہونے کے لئے انسان کیا کیا جتن کرتا ہے اور کتنے بڑے بڑے خطرات (Risk) مول لے لیتا ہے۔ اس کا تصور ہی حیرت میں ڈوب جانے کے لئے کافی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ذاتی شہرت کی خواہش ناپسندیدہ امر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو شہرت دوام بخشنے کے لئے مختلف انتظام کئے تاکہ ان کی عظمت کا نقش دلوں پر بیٹھ جائے۔

  1. حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری کا کھلے عام مظاہرہ کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ تاکہ جھکنے کے بارے میں دل میں انقباض باقی نہ رہے۔ اس اہتمام سے چہار سو ان کی خلافت کا اعلان بھی مقصود تھا۔
  2. نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ظہور تاریخ انسانی کا اتنا مہتمم بالشان واقعہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء اور رسل بڑی کثرت اور چاہت کے ساتھ اس کی تشہیر کرتے رہے جس کے باعث ہر ایک کو معلوم تھا کہ آخری زمانے میں انبیاء اور رسولوں کے سردار تشریف لانے والے ہیں، جملہ آسمانی کتب اور صحیفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی آمد کے تذکرے موجود تھے۔
  3. اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کردیا گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھولیا۔ جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہاں ساتھ ہی اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ذکر آتا ہے۔ دن ہو یا رات کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ذکر کہیں نہ ہو رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا مستقل انتظام کردیا کہ کسی کے مٹانے سے یہ ذکر مٹ نہیں سکتا۔
  4. جب اللہ اپنے کسی بندے پر راضی ہوجاتا ہے تو جبریل کے ذریعے فرشتوں میں منا دی کرا دیتا ہے کہ فلاں بندہ میرا حبیب ہے تم بھی اس سے محبت کرو، فرشتے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں، پھر فرشتے زمیں میں پھیل کر انسانوں کے دلوں میں اس محبوب بندے کی محبت ڈال دیتے ہیں، اس طرح انسانوں کے دل اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
  5. اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کا بار بار ذکر کیا۔ قرآن مجید میں ان کی خصلتوں اور اداؤں کا تذکرہ کیا۔ اپنے بندوں کی بعض ادائیں اتنی پسند آئیں کہ انہیں عبادات کا حصہ بنا دیا تاکہ رہتی دنیا تک ان کی شہرت کے ڈنکے بجتے رہیں۔ مناسک حج ایسی ہی اداؤں کا مجموعہ ہیں۔

ایک خاص نکتہ

خیر پر مبنی امور کی پبلسٹی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود باری تعالیٰ خوبصورت اذان کے ساتھ اپنی کبریائی کا اعلان دن میں پانچ بار کرواتا ہے۔ نماز اور فلاح کی یاد دہانی اسی لئے بار بار کروائی جاتی ہے۔

قیادت اور مشن کو جدا نہیں کیا جاسکتا

اس مر پر تو کسی کا اعتراض نہیں ہوسکتا کہ مشن کی ترویج اور انقلابی نظریہ کے فروغ کیلئے جملہ ذرائع کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اس کی تشہیر کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر عوامی تائید حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن گڑ بڑ اس وقت ہوتی ہے جب قیادت کو مشن سے جدا سمجھا جائے حالانکہ دونوں لازم وملزوم ہیں بیک دیگر اس طرح باہم پیوست ہیں کہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ کوئی حد فاصل کھینچ سکے۔ جب خط امتیاز (Parting line) کھینچنا ممکن ہی نہیں تو قیادت کی شہرت، مشن کی شہرت اور مشن کی تشہیر، قائد کی تشہیر ہوگی، اسے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ کو یوں بلا تشبیہ و بلامثال سمجھا جاسکتا ہے۔

1۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا معاملہ ایک لحاظ سے جدا ہے لیکن ایک لحاظ سے یکجا۔ وہ خالق ہے یہ مخلوق، وہ مالک ہے یہ مملوک، وہ آقا ہے یہ بندہ لیکن اسکے باوجود قرآن اٹھا کر دیکھیں تو جابجا ایسی آیات ملیں گی جو برملا بیان کرتی ہیں کہ دونوں کی ذاتیں اگرچہ جدا ہیں لیکن ایک اطاعت، ایک محبت، ایک حکم، ایک رضا اور نہ جانے کتنے ہی اعمال میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب اس طرح منسوب کرلیا کہ دوئی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اب کوئی شخص مغفرت کا طالب ہے تو در رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر حاضری دے، خوشحالی کا متمنی ہے تو اس در کا سوالی بنے پھر اللہ کو متوجہ پائے گا، کوئی شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی نہیں کرسکتا۔

معلوم ہوا نظریہ اور شخصیت، قیادت اور مشن لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ قیادت کی بدنامی مشن کی بدنامی ہوتی ہے اور مشن کا نقص، قائد کا نقص متصور ہوتا ہے، اسی طرح قیادت کی مقبولیت اور شہرت مشن کی مقبولیت اور شہرت کا باعث ہوگی۔

2۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پیکر عجزو انکسار تھے بایں ہمہ مشن کے تقاضوں کے پیش نظر بزبان خود اپنی فضیلتوں کا اظہار بھی کرنا پڑتا تھا۔ غزوہ حنین کے موقعہ پر جب لشکر اسلام بھاگ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنی سواری کو لے کر تنہا دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے اور زبان سے بآواز بلند بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کروا رہے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں نعتیہ کلام پڑھا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سماعت فرماتے اور خوش ہوتے۔ مختلف مواقع پر ذاتی حوالوں سے اس قسم کا طرز عمل اسلامی تحریک کے فروغ کے لئے ہوتا تھا۔

ذاتی شہرت کی تمنا باعث ہلاکت ہے

اس میں شک نہیں کہ اپنی بڑائی اور ناموری کی خواہش تکبر کی علامت ہے لہذا مذموم ہے۔ صالحین نے ہمیشہ اس سے بچنے کی کوشش کی۔ اہل تصوف کا تو قول ہے ’’در شہرت آفت است‘‘ مقبولیت کی تمنا سالکین کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا گمنامی میں عافیت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اکثر فرمایا کرتی تھیں کاش میں نَسْیًا مَّنْسِیًا ہوتی مجھے کوئی نہ پہچانتا۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ایک بار سفر حج سے بہت دیر بعد اپنے شہر واپس لوٹے تو پورا شہر استقبال کیلئے باہر نکل آیا، رمضان کا مہینہ تھا آپ نے تھیلے سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور سب کے سامنے کھانا شروع کردیا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ہجوم چھٹ گیا چند مخلصین رہ گئے۔ انہوں نے پوچھا حضور آپ نے یہ کیا کیا، لوگ بدگمان ہوگئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا میں مسافر ہوں روزہ نہیں رکھا تھا، سب کے سامنے اس لئے کھانا شروع کیا کہیں اتنا بڑا استقبال کا منظر دیکھ کر میرا نفس غرور میں نہ آجائے۔ بزرگان دین تو ذاتی تشہیر سے خود کو بچانے کے لئے اس حد تک بھی چلے جاتے تھے۔ اصل چیز نیت ہے اور نیت کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں بدظنی اور بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہئے اور تعلقات کی بنیاد حسن ظن پر رکھنی چاہئے۔ جیسے مرید کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے شیخ پر سب کچھ قربان کرے اور دوسری طرف شیخ کے لئے حکم ہے کہ وہ مرید کے جان ومال میں ذرہ برابر بھی طمع نہ رکھے۔ دونوں کی نیت کا اعتبار ہوگا اور اسی پر انجام کار فیصلہ ہوگا۔

اگر قائد کی شہرت سے مشن کو تقویت ملتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ محض اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں ذاتی تشہیر مقصود نہ ہو یہ بدگمانی کرنا مشن کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ معاندین اور مخالفین کی بات الگ ہے وہ تو ہر بات میں کیڑے نکال لیتے ہیں۔

جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا کہ یہ دور ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ جن کے استعمال سے دل ودماغ کو مسخر کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے اہم ترین مراکز پر اس میدان میں یہودیوں کا کنٹرول ہے اور بڑے منظم طریقہ سے عالم اسلام کے خلاف معاندانہ اور شر انگیز پراپیگنڈہ جاری ہے۔ بنیاد پرستی، دہشت گردی کے الزامات کے پیچھے عالمی ذرائع ابلاغ کی قوت ہے۔ آخر اس مذموم مہم کا توڑ کون کرے گا۔ ظاہر ہے اسلامی انقلاب کے علمبردار براہ راست جوابدہ ہیں۔ اس کار زار میں احکامات شرعیہ کی ہیئت اصلیہ کو برقرار رکھتے ہوئے دور جدید کے جملہ ذرائع کو استعمال کئے بغیر اس پراپیگنڈہ کا توڑ ممکن نہیں۔ تصاویر نے عریانی اور فحاشی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کا مقابلہ محض وعظ و نصیحت سے نہیں بلکہ اس کا متبادل تبلیغی مقاصد کیلئے پوسٹرز، اشتہارات اور بینرز، آڈیو کیسٹس، شخصی نعرے، جلسے، جلوس، استقبال، اجتماعات، ریلیاں، جرائد و رسائل، اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور کمپیوٹر و انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال اور قوت کے دیگر مظاہر یہ سب ذرائع (Tacts) ہیں جن سے مشن فروغ پاتا ہے۔ اس قسم کے مظاہر (Demonstrations) سے اچھا تاثر (Image) بنتا ہے ورنہ لوگ سمجھتے ہیں شاید تحریک کا زوال (Downfall) شروع ہوگیا ہے، قوت باقی نہیں رہی۔ عوام کا ایک مزاج بن گیا ہے وہ کارکردگی کا اندازہ انہیں مظاہر سے لگاتے ہیں، ویسے بھی بڑے بڑے اجتماعات سے جہاں شان و شوکت اور دبدبہ ظاہر ہوتا ہو وہاں ورکرز کے حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں ورنہ مخالفانہ پراپیگنڈہ مایوسیوں کا سبب بنتا ہے۔ منفی اور مثبت قسم کے ایسے نفسیاتی اثرات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لہذا تشہیر کرنا لازمی ہوجاتا ہے کوئی بدبخت یہ مظاہرے دیکھ کر قیادت پر شہرت طلبی کا الزام لگاتا پھرے تو اس کی زبان تو نہیں پکڑی جاسکتی۔ زیب و زینت اور زیبائش و آرائش کا اہتمام بھی اسی ذیل میں آتا ہے تاکہ مشن اور اس سے وابستہ افراد کو کوئی حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور اہل ثروت طبقہ کے مشن کے ساتھ وابستہ ہونے میں کہیں یہ امر مانع نہ ہو۔ ورنہ کام تو چٹائیوں پر بیٹھ کر بھی ہوسکتا ہے لیکن دور حاضر کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ جس طرح اسلام محض غریبوں کا دین نہیں بعینہ ہمارا مشن بھی امیر و غریب سب کے لئے ہے لہذا ہر طرح کے ذوق کی جائز تسکین کا سامان کرنا حکمت عملی کا تقاضا ہے۔ کسی نے ایک بزرگ کے پاس اسباب زینت دیکھ کر کہا اللہ والے زیادہ سامان نہیں رکھتے انہوں نے برجستہ کہا ’’اگر دارند برائے دیگراں دارند‘‘ یعنی اگر رکھتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے رکھتے ہیں۔ انقلاب مخالف قوتوں پر رعب دبدبہ اور ہیبت قائم کرنے کے لئے تشہیر کے جملہ ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔

یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہئے کہ مصنوعی طریقوں سے اپنی شان و شوکت کا اظہار جھوٹ اور فریب کے ضمن میں آجائے گا لیکن ہم نے یہ کب کہا کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ اصل حقیقت کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی پبلسٹی کے بغیر چارہ کار نہیں ورنہ لوگ کم تر (Under Estimate) کرنے لگ جاتے ہیں۔ جھوٹ، دجل اور فریب کے شور میں سچائی دب جاتی ہے اسے اجاگر کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے ہوں گے۔ جب پہلے دور میں بھی ذرائع تشہیر کی ضرورت پڑتی تھی تو علی سبیل التزل موجودہ دور میں تو اس کا زیادہ اہتمام کرنا ہوگا اور اس ضمن میں قیادت اور مشن کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں کی بھرپور تشہیر کا سامان کرنا ہوگا۔

دور نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں منفی پراپیگنڈہ

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف مشرکین نے گمراہ کن پراپیگنڈہ کی مہم چلائی تھی اور دشنام طرازیوں، بدگمانیوں اور الزام تراشیوں کے گردو غبار میں حق کا چہرہ پہچاننا دشوار ہورہا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کے جواب میں ایسے انداز اپنائے کہ جس سے اس ہاہو اور شور و غوغا کے باوجود لوگ اس دعوت کی جانب توجہ مبذول کرنے پر مجبور ہوگئے جوابی حکمت عملی کا آہنگ اور اسلوب اس قدر جچا تلا تھا کہ اس منفی تشہیر کا مرکز اعصاب خود ہی معطل ہو کر رہ گیا۔ دار ارقم (اسلامی پارلیمنٹ) کے فہم و بصیرت کے سامنے دارالندوہ (مشرکانہ پارلیمنٹ) کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔

پراپیگنڈہ کا توڑ

1۔ اس مخالفانہ مہم کا ایک بہت بڑا توڑ اسلام کا انقلابی نعرہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھاجو تین طرح سے موثر ثابت ہو رہا تھا۔

اول: یہ مختصر، جامع اور موثر نوعیت کا حامل ہے کہ اسلام کے پورے نظام فکروعمل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کلمہ سنتے ہی پورا تصور پوری واضحیت (Clarity) کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔

دوم: مخالفوں کے اساسی نظریات پر کاری ضرب لگاتا ہے۔

سوم: صوتی آہنگ نہایت دلکش ہے اس لئے جلد زبان زد عام ہو جاتا ہے۔

2۔ دوسرا بڑا ذریعہ اللہ کا کلام تھا جو حسب موقعہ تدریجاً نازل ہورہا تھا۔ ایک طرف اسلوب بیان اور ندرت اظہار کے باعث اور دوسری جانب پر زور استدلال اور دلنشیں مضامین کے باعث دلوں کو مسخر کر رہا تھا۔ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔

3۔ تیسری اہم چیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات گرامی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولولہ انگیز شخصیت اور دل موہ لینے والے اخلاق لوگوں کو مسحور کردیتے تھے۔ بعض اوقات لوگ مخالفانہ باتیں سن سن کر حقیقت حال سے آگاہ ہونے کے لئے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا حسن اخلاق دیکھ کر آپ کے گرویدہ ہوجاتے۔ تبلیغ کا انداز اس قدر دلنشیں ہوتا کہ تجسس اور سوال کی حس بیدار ہوجاتی، سوچ و بچار کے کئی نئے دروازے وا ہوجاتے یہی تو پراپیگنڈہ کا کمال ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تشہیر کے جملہ مروجہ ذرائع سے کام لیا لیکن ساتھ ساتھ ناپسندیدہ پہلوؤں کی اصلاح کرکے ان میں جدت و ندرت پیدا کی مثلاً فصاحت و بلاغت کا استعمال قبائل کے افتخار اور حسب ونسب پر ناز کے لئے استعمال کیا جاتا تھا آپ نے اس سے دعوت دین کا کام لیا۔

ایک وضاحت

بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آج کل فقط پراپیگنڈہ کے ساتھ اردو زبان میں صرف منفی مفہوم ہی چسپاں ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم نے اسے اس کے اصلی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ انگریزی زبان کے لفظ Propagate سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی تشہیر کرنا ہے۔

لہذا ہم نے اسے مثبت معنوں میں لیا ہے عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید صرف جھوٹ بولنا اور ساری قوت استدلال صرف کرکے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا نام پراپیگنڈہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زور بیان اور جدید ذرائع کو استعمال کرکے ایسا بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔

مخالفین کے اوچھے ہتھکنڈے

دلائل کی قوت سے عاجز آ کر مخالفین نے داعی حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شخصیت کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے تشکیک کی گرد اڑانی شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے والضحٰی جیسی سورتیں نازل کرکے اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جواب ایسا ہونا چاہئے کہ جو مقابل کے مفہوم ومدعا پر کاری ضرب لگانے میں رواں ہو اور زبان زد عام ہوجائے بلکہ الٹا مخالفوں کی چڑ بن جائے اور اس سے ذہن کسی خوشگوار چیز کی طرف بھی منتقل ہو۔ لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کے لئے حسب موقع تھوڑی تھوڑی بات بیان کی جائے۔ یہی اسباق ہمیں سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے حاصل ہوتے ہیں لہذا دعوت کو کامیاب بنانے کے لئے جملہ جدید ذرائع کو استعمال کرنا چاہئے۔