ڈاکٹر علی اکبر قادری

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قومی تاریخ کے خطرناک ترین چیلنج کا واحد حل

خواہش اور ہوس میں یہی فرق ہے کہ خواہش جائز بھی ہوتی ہے اور ناجائز بھی۔ جبکہ ہوس کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ از اوّل تا آخر ناجائز اور بلا جواز ہوا کرتی ہے۔ نفسِ انسانی کی بے جا خواہشات جب ایک جنون بن کر اس کے دل و دماغ اور حواس پر چھا جائیں تو انسان جائز ناجائز اور درست یا غلط کی تمیز کھودیتا ہے۔ قرآن نے اس انسانی کمزوری کو بڑے لطیف پیرائے میں (سورۃ آل عمران کی آیت 14 میں) بیان فرمایا ہے اور ان چیزوں کے نام بالترتیب گنوائے ہیں جن کے لئے انسان ہوس اور دیوانگی کی حدوں کو چھوسکتا ہے۔ ان میں سرِ فہرست جنسی میلانات ہیں، اولاد کی محبت ہے اور پھر سونے چاندی کے ڈھیر یعنی مال و دولت اور اختیار و اقتدار کے حصول کی خواہش ہے۔ یاد رہے کہ خالق فطرت نے ان خواہشات کے لئے حد سے بڑھ جانے والی انسانی کیفیت کو ’’شہوت‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ لفظ مخصوص اور محدود مفہوم کے لئے مختص کردیا گیا ہے جبکہ جنون، شہوت اور دیوانگی مترادف الفاظ ہیں جو ہوشمندی، سمجھداری اور اعتدال پسندی کے متضاد استعمال کئے جاتے ہیں۔ خواہش اور ہوس کی اس مختصر سی تقابلی بحث کے تناظر میں وطن عزیز کے قومی سیاسی منظر پر نظر ڈالیں تو (الا ماشاء اللہ) اکثر کردار ہوس اقتدار میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔

حکومت کی خواہش جائز حد تک تو قابل فہم ہے اور وہ ہر لیڈر اس کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ لیکن حالات وواقعات اور خطرات و فتن سے آنکھیں بند کرکے صرف اقتدار کا راگ الاپنے والوں پر ساری دنیا اور اہل وطن حیران و پریشان ہیں۔ اس ہوس اقتدار میں حواس باختہ ہوکر اصول و ضوابط اور اخلاقیات سیاست کی حدیں روندنے والوں میں سرِ فہرست تو خود صدر مملکت جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جنرل صاحب نے اب تک تمام حربے، جملہ حکمت عملیاں اور جوڑ توڑ کے سارے نسخے آزمالئے ہیں۔ پوری قوم کے جذبات و احساسات ان کے مخالف پلڑے میں جمع ہوچکے ہیں لیکن وہ اور ان کے کچھ بے دام وزراء کرام ہیں کہ عمائدین اصحاب ’’قاف‘‘ سمیت موجودہ اسمبلیوں سے باوردی صدر کے انتخاب کی ایک ہی رٹ لگائے جارہے ہیں۔ اس خواہش ناتمام میں حیران کن حد تک لپک کر شریک ہونے والا دوسرا فریق پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ہے جو آمریت مخالف طویل جدوجہد کی تلخیاں بھول کر لیلائے اقتدار کا گھونگھٹ اٹھانے کے لئے بے تاب نظر آتی ہے۔

گذشتہ دنوں عروس قیادت کے ان دونوں شیدائیوں کی ملاقات دبئی کے ایک محل میں ہوچکی ہے جس کے تذکروں کی صدائے باز گشت مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ کل کے یہ کھلے دشمن آج اقتدار کے دستر خوان پر اکٹھے بیٹھنے کو تیار ہیں تو اسی ہوس اقتدار کے ہاتھوں مجبور ہوکر، ورنہ محترمہ کے بقول جنرل صاحب تو اس قابل بھی نہیں تھے کہ انہیں وہ اپنا ADC ہی رکھ لیتیں جبکہ جنرل صاحب نے اپنی ’’شہرہ آفاق‘‘ کتاب میں محترم ذوالفقار علی بھٹو کو انکی تمام تر خوبیوں کے باوجود ناپسندیدہ شخص قرار دیا ہے۔ یہ سب فاصلے اب سمٹ رہے ہیں اور کوّے کو سفید قرار دیا جاچکا ہے، صرف اس لئے کہ انہیں امریکہ بہادر نے اپنی چھتری کے نیچے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کھیل میں ایک تیسرا گروہ بھی شامل ہے جو ڈیل والوں کے ساتھ جدی پشتی اختلافات بھول کر شراکت اقتدار کے لئے تیار ہے یہ لوگ موجودہ حکومتی حلیف چوہدری برادران اور ان کے ہمنوا ہیں جو اپنی ’’کمال حکمت عملی‘‘ کے پیش نظر نواز حکومت کے آسمان سے ٹوٹنے کے باوجود اب تک افقِ اقتدار پر جگمگا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آئندہ حکومت کے لئے بھی وہی ناگزیر رہیں۔

قارئین! مخلص سیاسی قیادت کا فقدان ہمارا قومی المیہ بھی ہے اور عالمی سطح پر محرومیوں کا سبب بھی۔ ہم نے گذشتہ دن (14 اگست) پاکستان کا 60 واں یوم آزادی حسب معمول ’’دھوم دھام‘‘ سے منایا۔ سرکاری میڈیا پر قومی نغموں اور تبصروں میں ’’ریکارڈ توڑ ترقی‘‘ کے اعدادو شمار سے سب اچھا کا تاثر دیا گیا۔ نغمہ سرا کہتے رہے ’’ہم بولیں محبت کی زباں‘‘ اور وزرائے کرام کا اتفاق تھا کہ ’’ہم بولیں مشرف کی زباں‘‘۔ نغموں میں محبت کی زباں ہو یا تقریروں میں ’’مشرف کی زباں‘‘ دونوں کاروباری زبانیں ہیں اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وطن عزیز کو داخلی سطح پر انتہاء پسندی اور خارجی سطح پر دین دشمن قوتوں کی سازشوں کا خطرناک ترین چیلنج درپیش ہے۔ جامعہ حفصہ کا معاملہ ہو یا ملک کے طول و عرض میں خودکش دھماکوں کے خونی مناظر، وزیرستان، وانا، باجوڑ اور مہمند ایجنسی اورسوات وغیرہ میں پاکستانی ’’طالبان‘‘ کی فوج کش کاروائیاں ہوں یا القاعدہ قیادت کی پاکستان میں موجودگی کی خبریں اور صدر صاحب کی طرف سے ایسی خبروں کی تصدیق، یہ سب کچھ اس خطرناک امریکی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کئی حصوں میں تقسیم کردینے کا نقشہ تیار کیا ہوا ہے۔ امریکی سینٹ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان تسلسل کے ساتھ پاکستانی علاقوں پر القاعدہ کے بہانے سے حملوں کی باتیں کررہے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار ایک دوسرے پر بازی لے جانے، اسلام دشمن امریکی ووٹرز کو متوجہ کرنے اور ’’جیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرنے کے لئے پاکستانی سرحدوں سمیت حرمین شریفین پر حملوں کی دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں۔ یہ صورت حال پوری امت اور بالخصوص واحد ایٹمی مملکت پاکستان کے لئے بڑی تشویشناک اور قابل توجہ ہے۔ دشمن گھیرا تنگ کئے جارہے ہیں اور قومی سیاستدان عوام الناس کی خواہش اور ملکی وقار کے برعکس اقتدار کی بندر بانٹ پر سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

اس ساٹھ سالہ قومی تاریخ کا ایک پہلو جو ایٹمی قوت کے حصول کے بعد قوم کے لئے قابل اطمینان ہے وہ عدلیہ کا عزم نو ہے۔ محترم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری وکلاء کی ملک گیر بیداری شعور پر مبنی تحریک کے بعد ایک لمبا اور فیصلہ کن موڑ کاٹ کر منصبِ عدالت پر فائز ہوئے ہیں۔ ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پوری قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ ملک پر قابض فوجی حکمرانوں کے چنگل سے مقننہ اور انتظامیہ کو آزاد کروادیں گے۔ عدالتِ عالیہ کے حالیہ فیصلوں سے امید کے چراغ روشن ہوئے ہیں اللہ کرے آزاد اور خود مختار عدلیہ کا دیرینہ خواب سچا ثابت ہو اور اقوام عالم کی قطار میں پاکستان کو باوقار مقام حاصل ہوسکے۔ موجودہ حکومت نے اس سال کو الیکشن کا سال قرار دیا ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے اکثر مسائل کا حل آزادانہ اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والی خودمختار اور محب وطن حکومت کے قیام سے مشروط ہے۔ صرف یہی حل ہے جو خطرناک ترین چیلنج میں گھری پاکستانی قوم کو تاریخ کے اس بھنور سے نکال سکتا ہے۔