الحدیث : فکرو عمل پر اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مثبت اثرات

علامہ محمد معراج الاسلام

مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يُرِح رائِحَةَ الجنةِ وَاِنَّ رِيْحَهَا لَتوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.

(بخاری، ص : 448)

’’اسلامی سلطنت کی حفاظت و پناہ میں زندگی گزارنے والے کسی شخص کو، جس مسلمان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کردیا، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے‘‘۔

شرح و تفصیل

تعجب اس کیفیت اور حالت کو کہتے ہیں جو انسان پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب وہ کسی حیرت انگیز، انہونے اور انجانے واقعہ کا مشاہدہ کرتا ہے جو دلچسپ بھی ہوتا ہے اور کرشمہ ساز بھی، نادر الوقوع بھی ہوتا ہے اور نایاب بھی۔ جب کوئی آدمی اس کا مشاہدہ کرتا ہے تو ششدر رہ جاتا ہے اور حیراں ہوکر کہتا ہے، یہ کیسے وجود میں آگیا۔

اللہ تعالیٰ ایسی کیفیت اور حالت کے طاری ہونے سے پاک ہے لیکن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک واقعہ کا ذکر فرمایا ہے جس کے بارے میں بتایا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ بھی تعجب فرماتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

عَجِبَ اللّٰهُ مِنْ قَوْمٍ يَّدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ فِی السَّلَاسِلَ.

’’اللہ تعالیٰ اس قوم پر تعجب فرماتا ہے جو زنجیروں میں بندھی ہوئی جنت میں جائے گی‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے تعجب فرمانے کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر بھی وہی کیفیت و حالت طاری ہوتی ہے جو کسی حیرت افزا چیز کی دید سے انسان پر طاری ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے جذبہ حق پرستی کی قدر کرتا ہے اور قبول حق کی طرف ان کے میلان کو پسند فرماتا ہے۔ اس بات کا ایک خاص پس منظر جس کو سمجھنے ہی سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے، اس لئے پہلے اس کا پس منظر بیان کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں نے قوم کفار کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا، میدان جنگ میں جم کرلڑے اور انہیں شکست دی، دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلے، مجاہدین نے ان کا تعاقب کیا اور ان کے ایک بڑے گروہ کو گرفتار کرکے جنگی قیدی بنالیا اور زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ملک میں لے آئے۔

ان لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کی معاشرت، تعلیمات ان کے اخلاق و عادات اور افکار و عقائد کا مطالعہ کیا وہ اس مشاہدہ ومعاشرت کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ یہی دینِ حق ہے، اس کی تعلیمات فطرت کے عین مطابق، انسانیت کی صحیح نمائندہ اور مقام آدمیت کے شایانِ شان ہیں، اس کے نظریات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں، محض فرسودہ مزعومات کا پلندا یا ڈھکوسلہ نہیں اس لئے انہوں نے دین اسلام کو دل و جان سے قبول کرلیا۔ تادم واپسیں اس کے احکام کے پابند رہے اور جنت کے مستحق بن گئے۔

وہ مسلمانوں کے ملک میں ذلیل قیدی کی حیثیت سے زنجیروں میں جکڑے ہوئے آئے تھے، انہیں اس ذلیل ترین حالت میں آنا گوارا نہ تھا، ان کا بس چلتا تو وہ کبھی اس طرح ادھر نہ آتے اور اگر وہ ادھر نہ آتے تو اسی کفرو شرک کی حالت میں مرتے اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن بن جاتے، مگر وہ قیدیوں کی طرح رسیوں میں جکڑ کر ادھر لائے گئے یہاں نور مبین کا مشاہدہ کرکے حق و صداقت کے انوار جذب کرنے کا موقعہ ملا۔ قبولِ اسلام کی طرف مائل ہوئے اور کلمہ پڑھ کر جنت کے مستحق بن گئے۔

اب ان کے ماضی کے آئینے میں ان کے اس درخشاں، قابل رشک اور خوبصورت مستقبل کو دیکھا جائے تو صورت کچھ اس طرح بنتی ہے جیسے وہ زنجیروں سے جکڑ کر جنت میں داخل کئے گئے ہیں اور اس طرح جنت میں جانے کا تصور کیا جائے تو واقعی تعجب انگیز کیفیت طاری ہوتی ہے حدیث پاک میں اسی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حضرت ثمامہ بن اثال کا قبول اسلام

حضرت ثمامہ بن اثال کا واقعہ بھی ایسا ہی تعجب انگیز اور حیرت افزا ہے۔ وہ ایک مجبور و بے بس قیدی کی حیثیت سے لائے گئے اور زنجیروں میں باندھ کر رکھے گئے لیکن اسلام لاکر سعادت و ارجمندی کے اوج کمال تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔

ایک کافر مسلمانوں کے ہتھے چڑھ گیا وہ عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ جارہا تھا مگر راستے میں گرفتار ہوگیا، مسلمان فوجی دستے نے اسے مسجد میں ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ کچھ دیر تک تو اسے وحشت محسوس ہوئی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس کی وحشت کافورہوگئی اور تجسس و مشاہدہ اور بغور مطالعہ کرنے کا جذبہ غالب آگیا، اس نے محسوس کیا کہ ایک بے بس قیدی کی حیثیت سے کسی نے اس کا مذاق اڑانے، لاچار سمجھ کر طعنے دینے اور فقرے چست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، نہ اسے حقارت آمیز نظروں سے دیکھا ہے اور نہ اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ان کی شفقت بھری نظروں میں پیار کے ڈورے ہیں، باتوں میں لوچ اور مٹھاس ہے، ہمدردی اور پیار کے امرت رس میں گندھی ہوئی باتیں روح کے لئے پیغام حیات ہیں جو کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں اترتی چلی جاتی ہیں۔

اسے یوں لگا جیسے اس سادہ مسجد کے کچے صحن میں آسمان سے قدسی مخلوق اتر آئی ہے جو انسانی پیکروں میں تاباں انوار اور ملکوتی اطوار و عادات کے ساتھ چل پھر رہی ہے ان میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو کھردری اور دل کو چبھنے والی ہو، کوئی ایسی حرکت دکھائی نہیں دیتی جو قابل گرفت اور تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی ہو، ہر فرد اعلیٰ اخلاق اور سچی تعلیمات کا عمدہ اور کامل نمونہ ہے جس کی حرکات و سکنات، رفتار و گفتار اور اعمال و اطوار سے انسانیت کا درس لیا جاسکتا ہے، وہ یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نو وارد قیدی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیسے خیالات ہیں؟

وہ بولا : میں قبیلہ بنی حذیفہ کا ایک قابل ذکر فرد ہوں مجھے ثمامہ بن اثال کہتے ہیں، اگر آپ مجھے قتل کردیں گے تو یاد رکھیں، میرا قبیلہ پورا پورا انتقام لے گا، میں بے حیثیت اور معمولی آدمی نہیں ہوں، اسی طرح میں احسان فراموش بھی نہیں، اگر آپ مجھے چھوڑ دیں گے تو زندگی بھر احسان مند رہوں گا، میں دولت مند بھی ہوں، اگر آپ رقم لینا چاہتے ہیں تو بات کریں، میں اس کا بھی انتظام کئے دیتا ہوں۔

حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تینوں باتوں کا کوئی جواب نہ دیا اور تشریف لے گئے۔ ثمامہ نے دوسرے دن تک مسلمانوں کے افعال و احوال کا گہری نظر سے جائزہ لیا، جہاندیدہ تجربہ کار آدمی تھا بہت کچھ سمجھ گیا۔ دوسرے دن پھر حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ثمامہ! کیسے حالات و خیالات ہیں؟ اس نے پھر وہی جواب دیا :

اِنْ تَقْتُلْنِيْ تَقْتُلْ ذَادَمٍ، وَاِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ. وَاِنْ کُنْتَ تُرِيْدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَاشِئْتَ.

’’اگر آپ قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ مال و دولت چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مانگ لیں‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے دن بھی کوئی جواب نہ دیا اور تشریف لے گئے۔ ثمامہ کے مطالعہ و مشاہدہ میں اور گہرائی پیدا ہوگئی، اس کی تجربہ کار اور پیاسی نگاہوں نے احوال و واقعات کو نئے زاویئے سے دیکھنا اور کھنگالنا شروع کردیا۔ جب تیسری صبح کا آفتاب طلوع ہوا تو اس کے قوائے کفرو شرک نے مزید مزاحمت جاری رکھنے اور ہدایت کی چندھیا دینے والی زبردست شعاعوں کا مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔ تین دن سے اس کے اندر جو قیامت خیز کشمکش جاری تھی وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی وہ ایک خاص نتیجے پر پہنچ گیا اور سوچ لیا کہ اسی پر عمل کرے گا۔

تیسرے دن سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر اس کے پاس تشریف لائے، وہی سوال کیا۔ ادھر سے بھی وہی جواب ملا مگر آج اس جواب میں وہ طنطنہ نہیں تھا، اس کے برعکس اس میں احساس شکست نمایاں تھا، وہ تندی اور تیزی نہیں تھی جو انانیت کی پیداوار ہوتی ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، صرف اپنے ساتھیوں سے فرمایا : ثمامہ کو کھول دو۔

اب ثمامہ آزاد تھا، کوئی آنکھ اسے تاڑنے یا تعاقب کرنے والی نہ تھی، وہ جہاں چاہے جاسکتا تھا، مگر نہیں، پہلے اسے زنجیروں نے جکڑا تھا، اب اخلاق عالیہ نے جکڑ لیا تھا۔ وہ نزدیک ترین نخلستان میں گیا اور غسل کرکے مسجد نبوی میں واپس آگیا اور بلند آواز سے پڑھا :

اَشْهَدُاَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ.

صحابہ کرام مسرت سے کھل اٹھے اور اپنے نومسلم بھائی کو سینے سے لگالیا۔ ثمامہ نے عرض کی یارسول اللہ!

وَاللّٰهِ مَاکَانَ عَلَی الْاَرْضِ وَجْهٌ اَبْغَضَ اِلَيَ مِنْ وَجْهِکَ فَقَدْ اَصْبَحَ وَجْهُکَ اَحَبَّ الْوُجُوْهَ اِلَيَ.

’’خدا کی قسم! ساری دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی اور چہرہ مجھے ناپسند نہیں تھا اب وہی چہرہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے‘‘۔

وَاللّٰهِ مَاکَانَ مِنْ دِيْنٍ اَبْغَضَ اِلَيَ مِنْ دِيْنِکَ فَاَصْبَحَ دِيْنُکَ اَحَبَّ الدِّيْنِ اِلَيَ.

’’خدا کی قسم! آپ کے دین سے زیادہ کوئی اور دین ناپسند نہیں تھا اب مجھے وہی دین سب سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے‘‘۔

وَاللّٰهِ مَاکَانَ مِنْ بَلَدٍ اَبْغَضَ اِلَيَ مِنْ بَلَدِکِ فَاَصْبَحُ بَلَدُکَ اَحَبَّ الْبِلَادِ اِلَيَ.

’’خدا کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے زیادہ بھیانک اور برا کوئی شہر نہیں تھا اب وہی شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ پیارا لگنے لگ گیا ہے‘‘۔

ثمامہ نے اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کرنے کے بعد کہا۔ میرے آقا! میں عمرہ کرنے کے لئے جارہا تھا آپ کے فوجی مجھے پکڑ لائے ہیں اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تم خوش ہوجاؤ کہ رحمت رب کریم نے تجھے دین حق قبول کرنے کی توفیق ارزانی فرمائی ہے، اس سے تمہارے سابقہ گناہ بھی مٹ گئے اور نیکیاں جمع کرنے کے لئے راستہ بھی کھل گیا، اب جاؤ عمرہ کرو اور رحمت رب سے جھولیاں بھرو۔

اہل عرب ایک دین سے نکل کر دوسرا دین اختیار کرنے والے کو ’’صابی‘‘ کہا کرتے تھے جب حضرت ثمامہ بن اثال اسلام قبول کرکے اور شرف صحابیت سے بہرہ یاب ہوکر اپنے قبیلے میں پہنچے تو لوگوں نے عادت کے موافق کہا :

’’صَبَوْتَ؟ کیا تم نے اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلیا ہے اور تم صابی بن گئے ہو؟‘‘۔

آپ نے فرمایا نہیں بلکہ میں حضور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں۔

یہ اس طرف اشارہ تھا کہ تمہارا سرے سے کوئی دین ہی نہیں ہے، اس لئے ایک دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ میں ایک برحق دین میں داخل ہوگیا ہوں جو واقعتاً دین ہے اور میں نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اطاعت قبول کرلی ہے جو سچے پیغمبر اور خدا تعالیٰ کے عالی مرتبت رسول ہیں، اس لئے میں صابی یا بے دین نہیں ہوا بلکہ ایک کامل اور سچے دین کا پیروکار بن گیا ہوں۔

اسلامی اقدار کے مثبت اثرات کی وجوہات

فکرو عمل اور قلب و ذہن میں ایسا حیرت انگیز، مثبت اور زبردست انقلاب پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلامی اقدار، عدل وانصاف کے اصولوں پر قائم اور حق و صداقت پر مبنی ہیں، ان میں امیر غریب، حاکم و محکوم، اپنے اور پرائے کی کوئی تمیز نہیں، غیر مسلموں کے حقوق بھی متعین و محفوظ ہیں، کسی بالادست طبقے یا فرد کو یہ اجازت یا حق نہیں کہ وہ کسی زیردست، غریب یا غیر مسلم کے حقوق پامال کرے، یا ان کی ذات کو نقصان پہنچائے، ہر جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے، اس کی سنگینی کے مطابق بعض معاملات میں سزا اتنی ہوش ربا اور دل ہلادینے والی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یقین آجاتا ہے کہ اسلام واقعی سچا اور برحق دین ہے، جس میں ظلم و ناانصافی کا شائبہ تک نہیں، اگر مسلمان بھی قانون شکنی اور اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو اسے بھی قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ اس دعوے کی ایک واضح مثال یہ ہے جسے قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

اسلامی سلطنت میں جو غیر مسلم اقلیتی فرقے آباد ہوتے ہیں انہیں ذمی کہتے ہیں، مسلمان حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اپنے زیر سایہ بسنے والی اس اقلیت کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کرے، اس تحفظ کے بدلے میں حکومت وقت ان سے جو معمولی سی رقم وصول کرتی ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے یہ حکم دیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی نگہبانی اور پاسداری کی جائے اور ان کے مال و جان کی حفاظت کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے جو شخص یہ خیال نہیں رکھے گا اور ذمی لوگوں کو ناحق ستائے گا اسے آخرت میں سخت پشیمانی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے شخص کی سزا بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :

مَن قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يُرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّة وَاِنَّ رِيْحَهَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.

(بخاری، ص : 448)

’’جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے لیکن جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا، جنت میں جانا تو بہت دور کی بات ہے‘‘۔

اتنی کڑی سزا کی وجہ یہ ہے کہ اس بدسلوکی یا غیر ذمہ داری سے صرف اس ایک مسلمان کی بدنامی نہیں ہوتی بلکہ پوری اسلامی حکومت، اسلامی نظام اور اس کے نافذ کرنے والے ادارے اس کی زد میں آتے ہیں اور غیر مسلم لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے دین کی تعلیم اور ان کے خدا اور رسول کا حکم ہی یہی ہے ا س طرح ایک فرد کی غلطی یا کوتاہی پورے نظام کو بدنام کردیتی ہے اور بات آگے بڑھ کر خدا اور رسول تک پہنچ جاتی ہے۔

اس لئے اسلامی سلطنت میں آباد غیر مسلموں کے ساتھ بدعہدی اور ان کو قتل کرنے کی سزا یہ رکھی گئی ہے کہ اس قسم کے غیر ذمہ دار مسلمانوں کو آخرت میں یہ سزا دی جائے گی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکیں گے اور دنیا میں ان کو یہ سزا دی جائے گی وہ دنیاوی دولت و ثروت سے محروم کردیئے جائیں گے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ غیرمسلموں کے دل سے ان کا رعب و دبدبہ نکال دے گا اور وہ جزیہ دینے سے ہاتھ روک لیں گے۔

ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا :

کَيْفَ اَنْتُمْ اِذَا لَمْ تَجْتَبِئُوْا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا.

’’اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب ذمی لوگوں سے ایک دینار اور ایک درہم بھی بطور جزیہ وصول نہ کرسکو گے‘‘۔

تو اس وقت مسلمان یہ بات سن کر حیران رہ گئے وہ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ کوئی ذمی شخص جزیہ کی ادائیگی سے انکار کی جرات بھی کرسکتا ہے اس لئے پوچھا :

وَکَيْفَ تَرٰی ذٰلِکَ کَائِنًا.

آپ کس طرح سمجھتے ہیں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

اِيْ وَالَّذِيْ نَفْسُ اَبِيْ هُرَيْرَةَ بِيَدِه عَنْ قَوْلِ الصَّادِقِ الْمَصْدُوْقِ.

’’ہاں اللہ کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے یہ سچے نبی کا فرمان ہے‘‘۔

وجہ اس نافرمانی اور جرات کی یہ ہے کہ

تُنْتَهَکُ ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُوْلِه فَيَشُدَّ اللّٰهُ قُلُوْبَ اَهْلِ الذِّمَّةِ فَيَمْنَعُوْنَ مَا فِيْ اَيْدِيْهِمْ.

’’اللہ اور اس کے رسول نے ذمیوں کو جو تحفظ دیا ہے اگر اس کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو اس کے نتیجے میں اللہ پاک ذمیوں کے دل سخت کردے گا اور وہ جزیہ دینا بند کردیں گے‘‘۔

لاچار و مجبور اور ضعیف دشمن کا اتنا جری ہوجانا کہ وہ سامنے کھڑا ہوجائے اور جذیہ دینے سے انکار کردے کوئی معمولی سانحہ نہیں، دل و دماغ اور غیرت وحمیت رکھنے والے اس سے بڑی ذلت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح جنت سے محرومی بھی کوئی چھوٹی سی سزا نہیں، اسلام کا دم بھرنے والوں کو یہ بتادیا گیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ بدعہدی کرنے یا انہیں اپنی سلطنت میں قتل و اغواء کرنے کی صورت میں انہیں یہ سزائیں دی جاسکتی ہیں کیونکہ اس سے اس دین حق کی بدنامی ہوتی ہے جو امن و سلامتی کا علم بردار ہے، اس لئے اللہ کے سچے دین کو اس تہمت اور بدنامی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے نام لیوا اپنی شاندار روایات و تعلیمات کے مطابق اور اپنے حسن اخلاق و افعال سے ایک محتاط و باوقار اور شائستہ و ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت دیں اور ایسی اعلیٰ اقدار اور مہذب اطوارکا مظاہرہ کریں کہ غیر بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اسلام، دین محبت و اخوت اور اعلیٰ تہذیبی اقدارکا حامل ہے جس کے پیروکار شرف انسانیت سے بہرہ ور اور امن و سلامتی کے علم بردار ہیں اور یہ ایک ایسا بااصول اور انصاف پسند دین ہے کہ جو اپنی پیروی کرنے والوں کی ایسے پاکیزہ خطوط پر تربیت کرتا ہے کہ وہ چلتے پھرتے فرشتے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے طرز عمل حسن سلوک اور اخلاقی اقدار سے دوسروں کو گرویدہ بنالیتے ہیں۔