پروفیسر محمد رفیق

زوال امت پر بہت غورو فکر کیا گیا۔ مفکرین نے امت کے زوال کے اسباب کا کھوج لگانے کے لئے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ مرض کی تشخیص بھی کی گئی اور علاج بھی تجویز کئے گئے لیکن

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس وقت ملت اسلامیہ جن بیماریوں میں مبتلا ہے وہ روز بروز نہ صرف پیچیدہ ہورہی ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ جب قوم ایک بار پستیوں کی جانب لڑھکنا شروع ہوجائے تو پھر راستے میں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ زوال جب انتہا کو چھونے لگے تو پھر عروج کا آغاز ہوتا ہے۔ تاریخ کا اصول ہے کہ ہر تہذیب کا ایک نقطہ عروج ہوتا ہے، بلند ترین چوٹی کو سر کرلیا جائے تو آگے نشیب ہی ہوتا ہے۔ زوال کا عمل شروع میں تو غیر محسوس ہوتا ہے لیکن آگے چل کر نمایاں ہوجاتا ہے بالآخر بلندی، پستی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور عروج، زوال میں بدل جاتا ہے۔ عروج و زوال کی داستان بھی تغیر پذیر موسموں کی طرح ہے۔

زوال سے دوچار ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ دور عروج میں جسد ملت کو کچھ بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ ایسا دور ہوتا ہے جس میں فکر کی جگہ بے فکری، یقین کی جگہ بے یقینی، مذہب کی جگہ خرافات، صراط مستقیم کی جگہ بے راہ روی، محنت ومشقت کی جگہ عیش و عشرت اور شمشیر و سنان کی جگہ طاؤس و رباب لے لیتے ہیں۔ جس طرح اندھیری رات کے بعد خوشنما سویرا طلوع ہوتا ہے اور خزاں کی ویرانی میں موسم بہار کی آمد کی نوید بھی شامل ہوتی ہے اسی طرح زوال کو بھی عروج میں بدلا جاسکتا ہے۔ امت کی بقاء اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے وابستہ ہے۔ لہذا اس کی جدوجہد فرض عین ٹھہری۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

امت مسلمہ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جب بھی کوئی بگاڑ پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی شخصیت پیدا کردی جس کی کاوشوں سے امت ایک بار پھر جادہ مستقیم پر گامزن ہوگئی لیکن یہ بگاڑ جزوی نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔ کہیں عقائد ونظریات میں بگاڑ پیدا ہوا، کہیں اخلاق و اعمال، انحطاط کا شکار ہوئے لیکن بحیثیت مجموعی اسلام کے تہذیبی اور عمرانی نظام کا ڈھانچہ بہر صورت برقرار رہا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ شورائیت کی جگہ ملوکیت نے لے لی، لیکن قانونی اور عدالتی نظام شریعت کے مطابق ہی جاری رہا۔ جب اسلامی قدریں زندہ تھیں تو دین کی حفاظت کا انتظام بھی ہوتا رہا۔ علاوہ ازیں اگر سیاسی سطح پر اسلام کو مسائل درپیش ہوئے تھے تو علمی اور روحانی پہلو چونکہ مستحکم ہوتا تھا اس لئے بگاڑ ہمہ جہتی نہیں ہوتا تھا۔ جس کی بڑی مثال تاتاری مظالم کے بعد اسلام کی دوبارہ قوت و سطوت کی بحالی ہے۔ مگر خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ اسلام کو جو ہمہ گیر زوال آیا یہ کئی حوالوں سے مختلف تھا اس بار دنیا کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر غیر مسلموں کے پاس چلی گئی۔ زوال اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا اور ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن گئی۔ مایوسیوں کے سائے گہرے ہونے لگے حالانکہ امت مسلمہ کی تاریخ آغاز سے ربع صدی کے اندر اندر عالم اسلام کی سرحدیں تین براعظموں پر پھیل گئی تھیں۔ سترھویں صدی عیسوی تک کا زمانہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ہے پھر دین کی حقیقی روح مضمحل ہونا شروع ہوئی۔ اخلاق بگڑنے لگے، تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ عیش و عشرت کے طور طریقے بھی در آئے۔ بالآخر خلافتِ عثمانیہ کا دیمک زدہ محل زمین بوس ہوگیا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے کا زمانہ تھا جب مغربی طاقتوں نے مفتوح اقوام اور علاقوں کو آپس میں تقسیم کرلیا اور سلطنت عثمانیہ کو بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔

’’ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اقوام عالم تم پر ٹوٹ پڑیں گی اس طرح دعوت دیں گی جیسے دستر خوان پر مہمانوں کو بلایا جاتا ہے‘‘۔

نظام فطرت ہے کہ خلا کی کیفیت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی اس کے مرکز میں قوت کا خلا پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے سپاہ تازہ کا بندوبست کردیا اور ایسا بھی ہوا کہ

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

بنو عباس کے زوال کے بعد ترکوں نے نظام خلافت کو سنبھال لیا۔ جن کے ہاتھوں بغداد تباہ ہوا تھا ان کی اولاد اسلام کی سپاہی بن گئی، ان کے ذریعے ایک بار پھر دنیا میں اسلام کے ڈنکے بجنے لگے لیکن جیسا کہ ذکر کیا گیا پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر خلافت کا خاتمہ بھی ہوگیا اور مسلمان ایک بار پھر محرومیوں کا شکار ہوگئے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے امت میں آزادی کی تحریکوں کی صورت میں احیائے اسلام کی مساعی کا جائزہ لیتے ہیں تو رفتار کار بہت سست نظر آتی ہے جبکہ برق رفتاری سے کام لیا جائے تو منزل مادور نیست۔

بعض لوگ اسلامی تنظیموں اور جماعتوں کی کثرت دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں کہ یہ وحدت کے خلاف ہے۔ حالانکہ بالواسطہ یہ ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہیں۔ ان کی نوعیت ندی نالوں جیسی ہے جو بالآخر دریا میں اور پھر دریا سمندر میں گم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح دوکانوں اور کارخانوں کی کثرت خوشحالی کا پیغام لاتی ہے۔ بعینہ اسلامی دنیا میں باطل کے خلاف برسرپیکار مختلف گروہ ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہیں کیونکہ ان کی بدولت نیکیوں اور بھلائیوں کو فروغ ملتا ہے۔

مسلمانان پاکستان کی یہ خصوصیت ہے کہ عمل کے اعتبار سے بے شک کم کوش ہوں لیکن اسلام کے ساتھ جذباتی تعلق کے حوالے سے نہایت پرجوش ہیں۔ جذبہ بڑا قابل قدر ہے لیکن چالاک سیاستدانوں نے ہمیشہ اسے غلط استعمال کیا اگر اس جذبے کی صحیح نہج پر تربیت ہوجائے تو ایک بہت بڑے انقلاب کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ سادہ لوح عوام چونکہ چکنی چپڑی باتوں اور محض اعلانات ہی سے Exploit ہو جاتے ہیں اس لئے طاغوتی طاقتوں کے خلاف دباؤ بڑھانا (Pressure Develope) مشکل ہوجاتا ہے۔

زوال کا بنیادی سبب قرآن و صاحب قرآن سے دوری

اصل مرض تو قرآن اور صاحب قرآن سے مہجوری ہے۔ باقی بیماریاں اس کی فروع ہیں۔ جملہ مشکلات کی کنجی تعلق حبی اور نسبت عشقی کا احیاء ہے۔ جس نہج پر اس امت کے اولین کی اصلاح ہوتی تھی اسی طرح آخرین کی اصلاح بھی ہوگی۔ جس منہاج نے ان پر فتح و نصرت اور کامیابیوں کے دروازے کھولے تھے اس پر چل کر آج بھی عظمت رفتہ کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے۔

مسلمان کی فطری سادگی، حسن ظن اور غیر معمولی اعتماد کی عادت سے غیروں نے خوب فائدہ اٹھایا، اپنوں کی غداری کی داستان ناقابل گفتنی ہے۔ رواداری کا مظاہرہ اپنی جگہ بجا لیکن غداروں کے معاملہ میں چشم پوشی نے سازشوں کے دروازے کھول دیئے۔ یہی وجہ ہے مسلمان حکمران بار بار دھوکے کھاتے رہے۔ انہی کی دولت اور انہی کے آدمیوں کے ذریعے تختے الٹائے جاتے رہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ اگر ہم گردو پیش نظر دوڑائیں تو کئی مثالیں ہمارے سامنے آسکتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب تک غیروں کا آلہ کار بنتے رہیں گے؟

ہر شعبہ حیات اور ادارے کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حکمت عملی کو از سر نو متعین کرنا ہوگا کیونکہ ذہنی اور تکنیکی مہارت ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ مذہبی قوتوں کی بدنصیبی رہی ہے کہ انہوں نے معاشرے کے اندر طاقت کے چھوٹے چھوٹے سرچشموں کو نظر انداز کرکے انہیں ظالم و جابر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تاکہ وہ حسب منشا ان کا استحصال کرتے رہیں۔

طرز سیاست میں تبدیلی

حکمران بزعم خویش اس خام خیالی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ قوم و ملت کی بقا ان کے دم سے ہے، وہ منظر سے ہٹے تو نظام کو سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس لئے حکومت و ریاست کو لازم و ملزوم بنا دیا جاتا ہے۔

اک طرفہ تماشہ ہے کہ تاریخ عالم بادشاہت، مطلق العنانیت اور ڈکٹیٹرشپ سے جمہوریت کی جانب محو سفر ہے۔ جبکہ تاریخ مسلمانانِ عالم کے سفر کا رخ خلافت راشدہ اور شورایت سے ملوکیت اور آمریت کی جانب ہوتا چلا گیا حالانکہ یورپ پر جمہوریت کی پرچھائیاں عرب مسلمانوں کے ذریعے پڑیں۔ مسلمان حکمران یہ فطری اصول بھلا بیٹھے کہ جو سب کچھ سمیٹنا چاہتا ہے اس کے ہاتھ سے سب کچھ نکل جاتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا۔

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو ہے جس کا اک ٹوٹا ہوا تارا

نظام تعلیم کی اصلاح

مسلمان قوم کو ان کی عظمت اور سطوت و شوکت کی ایک جھلک دکھائی جانی چاہئے، ہوسکتا ہے ملت کی عروق مردہ میں ایک بار پھر گرم خون گردش کرنے لگے۔ غیر مسلم اقوام کے سیاسی غلبے کے دوران ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت نوجوان نسل کو ان کے عملی ورثے سے ناآشنا رکھنے کے لئے نظام تعلیم وضع کیا گیا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غلبہ اسلام کی تڑپ پھر سے انگڑائیاں لینے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی آزادیاں حاصل ہونے کے باوصف تاہنوز ذہنی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہ کرپائے۔

احساس کے افق پر جمی ہے بے حسی کی دھول
جذبے جو جان گداز تھے برف اب ہوچلے

تجدید و احیائے دین کی مساعی کی بنیاد فکری و نظریاتی اصلاح پر ہونی چاہئے چونکہ ایمانیات کے باب میں واسطہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہی ذات گرامی منبع جوش (Source of Inspiration) ہے لہذا اس نسبت کو کمزور کرنے کی بھرپور سعی کی گئی۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

جب تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق حبی اور عشقی کا تحقق یقینی نہیں ہوجاتا درستی احوال ممکن نہیں۔ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ (آل عمران، 3 : 139) غلبہ ایمان کے ساتھ مشروط ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کی جان ہیں۔

جب قوم پر مادیت کا رنگ غالب آجائے اور فرقہ واریت کا زہر اس کی رگ و پے میں سرایت کرجائے تو پھر اس سے اعلیٰ اخلاقی قدروں کے احترام کی توقع عبث ہے پھر نسلی، لسانی او علاقائی عصبیتوں کا شکار ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ مفادات کی جنگ میں جائز وناجائز کے سارے فرق مٹ جاتے ہیں اندریں حالات مادیت کی بجائے روحانیت کا احیاء ہی امت کے باقیات الصالحات کو ایک رسی میں پرو کر قوت متحرکہ بناسکتا ہے۔

اجتماعی اخلاق سازی کی اشد ضرورت

قوموں کے عروج و زوال کی داستان میں اجتماعی اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قومی استحکام کی بنیاد اخلاق پر ہوتی ہے اور یہ فصیل کا کام بھی دیتا ہے۔ ایمانی قوت کا مقابلہ مادی وسائل سے نہیں کیا جاسکتا۔ قرون اولیٰ کا ایک ایک مسلمان مقابلے میں تیس تیس کافر پر بھاری ہوا کرتا تھا۔ ظاہری اعتبار سے وسائل کی قلت اور عددی قوت کی کمی کے باوجود وہی غالب رہتے۔ اصل میں ایمانی قوت انہیں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پر ابھارتی۔ وہ قیصر و کسریٰ سے جاٹکرائے اور ان کی شان و شوکت کو خاک میں ملادیا۔ ایمان میں ضعف، جذبات کو سرد کردیتا ہے، افواج فرار کے راستے اختیار کرتی ہیں۔ شجاعت وجرات کے پیچھے بھی قوت ایمانی ہی کار فرما ہوتی ہے۔ اخلاقی زوال کے نتیجے میں جو قومی زوال شروع ہوتا ہے اسے علوم و فنون کی ترقی بھی نہیں روک سکتی۔ عقیدے کی لازوال قوت ہی کامیابی کا اصل راز ہے نفس پر حکمرانی کا سلیقہ آجائے تو جہانبانی کوئی مشکل کام نہیں۔

فرعونی اور غلامانہ ذہنیت کا خاتمہ

کمزور پر سوار ہوجانا اور طاقتور کو دیکھ کر اس کے سامنے سرنگوں ہوجانا ایک عام روش بن گئی ہے۔ یہ نتیجہ ہے صدیوں کی غلامی کا۔ کاش صدیقی اسوہ مشعل راہ بن جائے، آپؓ نے بحیثیت خلیفہ جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اس میں کہا ’’تم میں سے کمزور میرے لئے طاقتور ہے جب تک کہ اس کا حق اسے دلانہ دوں اور تم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ حق اس سے وصول نہ کرلوں‘‘ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ فرعونی ذہنیت بھی ہے۔ کسی قوم کا عروج کفر کے ساتھ تو ممکن ہے لیکن ظلم کیساتھ ناممکن۔ فرعونیت اور غلامانہ ذہنیت کا خاتمہ کرکے راہ اعتدال اپنانے کی ضرورت ہے۔

تقلید و اجتہاد کی نسبت امت افراط و تفریط کا شکار ہوگئی۔ تقلید جلد اور بے قید اجتہاد دونوں ہی امت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے نتیجتاً ایک طرف فقہی احکام وحی کا متبادل تصور ہونے لگے تو دوسری طرف من مانی تعبیرات کا سلسلہ چل نکلا۔ جدید عصری تقاضوں سے بے خبر اکثر علماء صدیوں پرانے علمی ڈھانچے کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ جب کہ وقت کے پلوں کے نیچے بہت ساپانی بہ گیا ہے۔ صرف مدافعانہ کاوشوںسے بلندیاں سر نہیں کی جاسکتیں۔ دین کو ایک زندہ اور متحرک قوت کے طور پر منوانا ہوگا۔ آج تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اسی فکر کی علمبردار ہے۔

دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو قانونی و فقہی اعتبار سے تو کافر ہیں لیکن حقیقت کے اعتبار سے نہیں کیونکہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کیا گیا امت مسلمہ اس فریضہ سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نومسلم دینی معاملہ میں بڑی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں ان جذبوں کو اگر متحرک کرلیا جائے تو حیرت انگیز نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ ابتداء میں ولولہ ایمانی جوان اور مضبوط ہوتا ہے۔ فنی مہارت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جذبے صداقت سے خالی ہوں تو پھر فنی اور تکنیکی صلاحیت بھی کام نہیں آتی۔ جی ایچ ویلز کا خیال ہے کہ مسلمان اگر مغرب کی پیروی چھوڑ دیں اور اپنی اسلامی روح زندہ کرلیں تو ایک بار پھر نئی طاقت بن سکتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’زیبائش و آرائش کی دقیقہ سنجیاں، باریک بینیاں اور عیش ونشاط کی نکتہ آفرینیاں زوال کی علامتیں ہیں۔ سادگی میں بڑی عافیت ہے اور محنت و جفاکشی عظمت کا نشان ہے۔ حقیقی اسلام ایک خاص طرز عمل کا نام ہے جس کے گرد زندگی کے جملہ معاملات گھومتے ہیں جن میں ہم آہنگی اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔ گردش ایام کے باعث عقیدہ، عمل، عبادات و معاملات سب نمود و نمائش اور ایک رسم کا روپ دھار لیتے ہیں۔ مستوری کوششیں پژمردگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جب حقیقت مفقود ہوجائے تو پھر بزعم خویش ہمچو مادیگرے نیست کا خبط ہوجاتا ہے۔

برصغیر پاک وہند کے اکثر مفکرین، مصلحین اور دانشور غلبہ اسلام کے لئے اسلامی جمہوری نظام کا قیام ضروری خیال کرتے ہیں۔ سید جمال الدین افغانی بھی ملوکیت کے زیر سایہ جابرانہ نظام کو امت مسلمہ کے زوال کا سبب بتاتے ہیں۔ ابن خلدون کا خیال ہے کہ مطلق العنانی طرز عمل زوال کا سبب بنتا ہے۔

محمد مصطفی المراغی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے غلبہ دین حق کی بحالی کے لئے تمسک بالقرآن پر بڑا زور دیا ہے اور علامہ اقبال نے تو اپنے اشعار میں جابجا مہجوری قرآن کا شکوہ کیا ہے۔

؂ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر

تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جب نظام شخصیات کے گرد گھومنے لگیں، ہر کوئی اپنی ذات کے خول میں بند شخصی بھلائیوں تک محدود ہوکر رہ جائے تو محرومیوں اور ناکامیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی اگرچہ مذموم ہے لیکن شخصیات کی صحیح قدرومنزلت کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لینا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے جہاں کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے وہاں انبیاء کو بھی مبعوث کیا اور قرآن کے ساتھ صاحب قرآن کو بھی دنیا میں بھیجا۔ سلسلہ نبوت ختم ہوا۔ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کو منظر عام پر لائیں۔ جب بھی کوئی انقلابی شخصیت اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کا نعرہ لگاکر میدان میں آئے گی انشاء اللہ! اذا جاء نصراللہ والفتح (النصر، :111) کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

انتہاء پسندی سے گریز

انتہا پسندی بہت سے منفی رویوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ مسلمان جوش میں آئیں تو جاں سے گزر جائیں لیکن ہوش میں آکر سب کچھ بھول جاتے ہیں حتی کہ اپنے مقصد کے خلاف کام کرنے سے بھی کوئی تامل نہیں ہوتا۔ غفلت و لاپرواہی کی اس دلدل سے نکلنے کے لئے اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیمات کا از سر نو احیاء وقت کا اہم تقاضا ہے تاکہ صلاحیتیں منتشر حالت میں ضائع ہونے کی بجائے مثبت کام پر لگ جائیں۔ آج شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمدطاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن ملکی و بین الاقوامی سطح پر علمی، فکری اور نظریاتی سرحدوں پر اسلام کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

قوم کو قعر مذلت سے نکالنے کے لئے بہت سے کام کرنے ہوں گے۔ امراء کو خوشامدیوں سے بچانا، حب جاہ و مال، قول و فعل کے تضاد، بے عملی اور خواہشات نفس سے پرہیز۔ خوف خدا اور اسلامی نظام تعلیم و تربیت کا احیاء وقت کی ضرورت ہیں۔ خودی و خود داری اور غیرت و حمیت قومی زندگی کی جان ہیں ان کے فقدان سے معاشرے کا حسن گہنا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی نے یہی پیغام دیا ہے۔

قرآن میں اقوام ماسبق کے واقعات عبرت آموزی کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں حیرت انگیز طور پر وحدت نتائج کا منطقی ربط پایا جاتا ہے۔ انسانیت کی بقاء اور حقوق کی فراہمی کی جدوجہد کرنے والے سرفراز ہوتے ہیں اور ظلم و ستم کرنے والے خائب و خاسر۔ ہر بار حق کامیاب رہا اور نافرمان ناکام و نامراد ہوگئے۔ دینی غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ آگے بڑھ کر اسلام کی صحیح تعلیمات کو اجاگر کرنے کے لئے علمی و تحقیقی میدان میں اتریں اور بعض ناسمجھ مسلمانوں کے طرز عمل کی بناء پر اسلام کے چہرے پر مختلف اعتراضات اور الزامات کی جو دھول پڑی ہے اسے صاف کردیں کیونکہ قرآن مجید عروج و زوال کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

1۔ لیس للانسان الا ماسعی ’’انسان کو کچھ نہیں ملتا مگر جو وہ کوشش کرتا ہے‘‘۔ (النجم، :2953)

2۔ ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیر واما بانفسھم۔ (الرعد، :1113)

’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو‘‘۔