حکیم محمد طارق محمود چغتائی

آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔

آیئے اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے۔

روزہ کا نظام ہضم پر اثر

نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لئے پہرے پر کھڑا ہو۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کے لئے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہئے۔

جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ ’’مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو‘‘۔

جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کرسکتا ہے۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔

انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے۔

روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔

روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات

دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید براں، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔

خلیہ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر

روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔

روزے کا اعصابی نظام پر اثر

اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔

روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے۔

انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔

خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں

خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔

روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کے لئے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔

اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں۔

روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہوگی۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔

مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے۔ ان نقائص و امراض کے لئے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کرکے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کرسکے۔

علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کے لئے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔ ضبط نفس، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔

اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کے لئے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔

روسی ماہر الابدان پروفیسر وی۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنالئے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول خوب محنت کیا کرو۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہئے۔

دوئم۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہئے۔

سوئم۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی۔

کھجور سے افطار اور جدید سائنس

جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے۔ (النسائی)

روزے کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لئے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہئے جو زود ہضم اور مقوی ہو۔

کھجور کا کیمیائی تجزیہ

  1. پروٹین 2.4
  2. نشاشتہ 2.0
  3. کاربوہائیڈریٹس 24.0
  4. کیلوریز 2.0
  5. سوڈیم 4.7
  6. پوٹاشیم 754.0
  7. کیلشیم 67.9
  8. میگنیشیم 58.9
  9. کاپر 0.21
  10. آئرن 1.61
  11. فاسفورس 638.0
  12. سلفر 51.6
  13. کلورین 290.0

اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔

لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ۔

غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کے لئے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے۔

بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے۔

گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے۔