صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقش اول‘‘ کی تقریب رونمائی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جگرگوشہ صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقش اول‘‘ کی تقریب رونمائی مورخہ یکم اکتوبر کو مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوئی۔ اس پروگرام کا اہتمام تحریک منہاج القرآن کی نظامت میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز نے کیا تھا۔ ملک کے نامور ماہر تعلیم اور محقق و دانشور ڈاکٹر سلیم اختر نے اس تقریب کی صدارت کی۔ ان کے ساتھ عالمی مجلس ادب کے چیئرمین ڈاکٹر شبیہہ الحسن ہاشمی، پنجاب آرٹس کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر و نامور کالم نویس اور صحافی صوفیہ بیدار، معروف شاعر، ماہر تعلیم اور ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر عبدالکریم، گورنمنٹ کالج ٹاون شپ صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر حسن نواز، معروف کالم نگار پروفیسر وحید عزیز، پاکستان ٹیلی ویڑن کے سینئر پروڈیوسر علی رضا، ریڈیو پاکستان لاہور کے پروڈیوسر و محقق و سکالر حمید صابری، فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شعبہ ادبیات کے صدر ممتاز شاعر ضیاء نیر، صحافی حسنین جاوید اور دیگر دانشور شخصیات بھی معزز مہمانوں میں شامل تھیں۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین میں سے صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی، ناظم اعلٰی ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، نائب ناظم اعلٰی شیخ زاہد فیاض، کرنل (ر) محمد احمد، ڈاکٹر علی اکبر الازہری اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ اس موقع پر ملک کے نامور محقق، دانشور، ادیب اور عالمی مجلس ادب کے چیئرمین ڈاکٹر شبیہہ الحسن نے اس پروگرام کی کپمیئرنگ کی ذمہ داری سنبھالی۔ پی ٹی وی لاہور کے سینئر پروڈیوسر علی رضانے تقریب میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صاحبزادہ حسین محی الدین نے اپنے پہلے شعری مجموعہ میں کہیں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک کم عمر شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ہر طبقہ فکر کے لیے ایک خاص پیغام انقلاب ہے جس کی اس دور میں ضرورت ہے۔

ریڈیو پاکستان لاہور کے پروڈیوسر حمید صابری نے کہا کہ صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے اپنی شاعری میں جدید رجحانات کے ساتھ ساتھ قدیم شعراء کے انداز کو بھی پیش کیا ہے جس سے ان کے اندر کے ایک بڑے شاعر کا وصف صاف ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس پہلے شعری مجموعہ میں فکرنو کی جولانی کے ساتھ ساتھ جذبوں کی روانی کو جمع کر کے ہر عمر کے قارئین کے لیے اس کتاب کو مزین کر دیا ہے۔

نامور محقق و ادیب اور شاعر ڈاکٹر عبدالکریم نے کہا کہ نقش اول کا مطالعہ کر کے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ یہ ایک ایسے نوجوان کی کاوش ہے جس نے یہ شعری مجوعہ 13 برس کی عمر میں مکمل کیا۔ بلاشبہ وہ اس لحاظ سے دنیا کے کم عمر شاعر ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر نورالحسن زیدی نے کہا کہ صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی شاعری میں تصوف کے جو رموز پوشیدہ ہیں وہ ان کا ہی خاصا ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک عظیم باپ کے ہونہار فرزند ہیں جن کا ثبوت ان کے اس پہلے شعری مجموعہ میں جھلکتا ہے۔

پروفیسر وحید عزیز نے اپنے مقالہ میں کہا کہ آج کے دور میں ہر شعر کہنے والا خود کو شاعر کہتا ہے لیکن حسین محی الدین نے جس کم عمری میں شعر گوئی میں جو ملکہ حاصل کیا وہ صرف انہی کا ہی اعجاز ہے۔ دعا ہے کہ نقش اول کے بعد ان کے نقش ثانی اور پھر ان کے شعری ذوق کا یہ تسلسل برقرار رہے۔

ممتاز صحافی و کالم نویسہ صوفیہ بیدار نے کہا کہ میں نے زندگی میں بہت سے شعراء کو دیکھا اور ان کو پڑھا لیکن جو اعجاز نظر صاحبزاہ حسین محی الدین کا ہے وہ کسی اور میں نہیں پایا۔ حسین بلاشبہ ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں اور ان کا پہلا شعری مجموعہ اس بات کی بین دلیل ہے۔ ان کو اس کم عمری میں جو فیض ملا ہے وہ یقیناً حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سادات سے محبت کا نتیجہ ہے۔

تقریب کے صدر معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے کہا کہ حسین محی الدین قادری نے اپنی شاعری کا آغاز صرف 13 سال کی عمر میں کیا اس وقت یہ حالت اعتکاف میں تھے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نوجوان شاعر آج بھی حالت اعتکاف میں ہے کیونکہ ان کی شاعری روایتی تصنع سے پاک اور صرف حقیقی عشق کے گرد گھومتی ہے۔ آج کے نوجوان کو دنیا کی آلائشوں سے ہی فرصت نہیں لیکن حسین محی الدین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آداب فرزندی جانتے ہیں۔ نقش اول وہ کلام ہے جس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوا کہ حسین محی الدین نے شیخ الاسلام کے فرزند ہونے کا حق ادا کیا ہے۔

تقریب سے نوجوان سکالر محترم حسنین جاوید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب نقشِ اول کا پہلا نسخہ مجھے ملا تو بے ساختہ میرے منہ سے یہ جذبات نکلے۔

فیض فرید سے تیرے ہر حرف کو نسبت
زہے قسمت تیری تحریر نے منہاج امن بخشا

اس شعر میں فرید اور ان کے فیض سے مراد حسین بھائی کے جد امجد، شیخ الاسلام کے والد گرامی کا ذکر محترم ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بلاشبہ نقشِ اول تصوف، معرفت، محبتِ الہٰی اور ہجرو جنوں کی کیفیات کا حسین امتزاج ہے۔

تقریب سے معروف ادیب و شاعر ضیاء نیّر نے بھی منظوم انداز میں اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ شکیل احمد طاہر نے کلام شاعر پیش کیا۔

آخر میں صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو شعری مجموعہ لکھا اس کو میں نے 13 سال کی عمر میں شروع کیا اور اس کے بعد میں نے اپنے اساتذہ محترم سید الطاف حسین گیلانی، محترم ریاض حسین چوہدری اور محترم ضیاء نیر صاحب سے تصحیح کروائی جس کے بعد یہ اشاعت کے قابل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نقش اول میں ایک ایک حرف عشق حقیقی کے تناظر میں لکھا ہے۔ اس میں کہیں بھی عشق مجازی کی طرف اشارہ نہیں۔ اس کے علاوہ میرے کلام کا سارا مطمع نظر شیخ الاسلام کی فکر کو منظوم انداز میں پیش کرنا تھا لہذا اس میں اس فکر نو کے سوا میرا اپنا ایک تخیل بھی شامل نہیں ہے۔ انہوں نے اس تقریب میں شرکت کرنے والے معزز مہمانوں کے علاوہ اہل علم اور شرکاء کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا۔

تقریب کا اختتام دعا سے ہوا اس سے قبل نظامت میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد محمود نے معزز مہمان گرامی قدر اور حاضرین کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔