مقصدِ تربیت : انسان میں صفتِ ملکوتیت کا غلبہ

پروفیسر محمد رفیق

تربیت کثیر المعانی لفظ ہے جو ظاہری اور باطنی جملہ اعمال و احوال کی اصلاح اور تہذیب کو اپنے مفہوم میں سموئے ہوئے ہے۔ تربیت سے مراد فکر و عمل، قلب و نظر، اعمال و اقوال، خواہشات و معاملات غرضیکہ انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کی اصلاح ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی اولین سورۃ میں اپنی پہچان جس صفت کے حوالے سے کروائی وہ صفت ربوبیت ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُO

(الملک، 67 : 2)

سلسلہ موت و حیات انسان کی آزمائش کے لئے قائم کیا گیا (تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، ) اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمان ایزدی ہے کہ

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ.

(البقره، 2 : 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔

اور ایک طرف نفس کے اندر فجور اور تقویٰ الہام کرکے ملکوتیت اور بہیمیت کی دونوں صفات ودیعت کر دیں تو دوسری جانب ان ترغیبات (چار محبتوں) کا ذکر بھی فرما دیا جو ابتلاء کا بنیادی سبب ہیں۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِO

(آل عمران، 3 : 14)

’’لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔

لہذا تربیت کا معنی صفت ملکوتیت کو طاقتور بنانے اور صفت بہیمیت کو مغلوب کرنے کا طریق کار بتانا ہے تاکہ کسی آزمائش کے موقع پر پاؤں پھسلنے نہ پائیں۔

لغت کے اعتبار سے لفظ تربیت کا مطلب ہے پرورش کرنا۔ پالنا اور مہذب بنانا۔ اس سے لفظ ’’ر ب‘‘ ہے جس کا مطلب ہے پالنے والا، پرورش کرنے والا گویا رب وہ ذات ہے جو بندے کی لمحہ بہ لمحہ ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور بتدریج نشوونما دے کر درجہ کمال تک پہنچاتی ہے۔

مقصد تربیت

گویا اسلامی نکتہ نظر سے تربیت کا یہ مقصد ٹھہرا کہ ایک ایک فرد کو اس طرح اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنایا جائے کہ وہ دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکے اور جادہ حق پر سفر کرتے ہوئے کسی بھی موڑ پر نہ تو وہ ٹھوکر کھائے اور نہ اس کے پائے ثبات میں لغزش آسکے بلکہ ابتلاء و آزمائش کے سارے مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کے قابل ہوجائے، چار نفسانی داعیے جو انسانی فطرت میں بالفعل ودیعت کردیئے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔

  1. شہوت کی محبت
  2. اولاد کی محبت
  3. مال کی محبت
  4. جاہ و منصب کی محبت

مقصود تربیت ان فطری داعیوں کا جڑ سے اکھاڑ پھینکنا نہیں بلکہ ان کی تہذیب ہے ورنہ داعیے اپنے اندر بے پناہ حکمتیں اور مصلحتیں لئے ہوئے ہیں، ان کی عدم موجودگی میں زندگی درندگی کا نمونہ بن جائے۔ ان داعیوں سے انسانی زندگی کے سماجی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کی تشکیل و تزئین ہوتی ہے اس لئے خود قدرت ان کو ختم کرنے کے راستے میں مزاحم ہوتی ہے یہی وجہ ہے اسلام میں رہبانیت کو پسند نہیں کیا گیا۔

ان چار نفسانی داعیوں کو خارج سے کنٹرول کرنے کی بجائے چار اندرونی روحانی داعیوں سے قابو کرنے کا طریق کار وضع کرکے فطرت بالقوہ (Potential Nature) کی تشکیل کی گئی جو یہ ہیں۔

  1. اقرار ربوبیت
  2. فجور و تقویٰ کا امتیاز
  3. بصیرت نفس
  4. امانت کی ذمہ داری کا احساس

یہ چاروں احساسات بھی ہر انسان کے اندر خلقی طور پر موجود ہوتے ہیں جن کے مجموعے کا نام فطرہ بالقوہ ہے اسی کا اشارہ اس حدیث میں ہے کہ

کل مولود يولد علی الفطرة. (مسند امام احمد)

’’ہر بچہ فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے‘‘۔

اسے فطرت سلیمہ بھی کہتے ہیں۔ اسی کی نشوونما مقصود تربیت ہے۔

فرض اور خواہش کا تضاد

انسان کی فطرت بالفعل ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ctual Nature) بلا روک ٹوک اپنے تقاضوں کی تکمیل چاہتی ہے جبکہ اوامر و نواہی اس پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں۔ اس مقام پر خواہش اور فرض میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ فطرت بالقوہ حرکت میں آکر احساس فرض کو اجاگر کرتی ہے۔ فرض اور خواہش کی اس مسلسل کشمکش میں انسان جس قدر احکام الہٰی کو بجا لائے گا فطرت بالقوہ کو جِلا ملے گی کیونکہ فطرت بالقوہ تعلق باللہ کی مضبوطی سے نشوونما پاتی ہے۔ اس نشوونما کے تین مراحل ہیں۔

  1. نفس امارہ : اس مرحلہ میں نفس برائی کی طرف مائل رہتا ہے لہذا فطرت بالفعل کا غلبہ رہتا ہے۔
  2. نفس لوامہ : اس مرحلہ میں دونوں فطرتیں قریب قریب مساوی ہوتی ہیں۔ کبھی انسان بدی کا مرتکب ہوتا ہے، اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے کبھی نیکی غالب آتی ہے تو کبھی بدی کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
  3. نفس مطمئنہ : جب فطرت بالقوہ مستقلاً غالب آجائے اور نفس نیکی سے اطمینان اور برائی سے نفرت کی کیفیت محسوس کرے تو اسے نفس مطمئنہ کا مرحلہ کہیں گے جس میں انسان منزل مراد کو پالیتا ہے اور بارگاہ ربوبیت سے اسے استقبالیہ کلمات سے نوازا جاتا ہے۔

نفس امارہ سے نفس مطمئنہ، مرضیہ اور صافیہ و کاملہ تک کا سارا سفر دور آزمائش ہوتا ہے یہ سفر بہت کٹھن ہے۔ تزکیہ و تصفیہ کے جاں گسل مراحل سے گزرے بغیر اس تک رسائی ممکن نہیں۔ تزکیہ نفس کی کیا اہمیت ہے اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جملہ اسلامی تعلیمات کے عنوان کے طور پر اگر کوئی لفظ موزوں ہوسکتا ہے تو وہ تزکیہ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو کامیابی کی کلید ہے اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے صرف اسی ایک عمل پر کامیابی و نجات کا اعلان فرمادیا۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا.

(الشمس، 91 : 9)

’’یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کرلیا‘‘۔

استفادہ و افادہ کی خلقی صلاحیت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے شاہکارِ ربوبیت ’’انسان‘‘ کی کتاب تربیت کے اندر استفادہ اور افادہ کی صلاحیت ودیعت کردی تاکہ اس کی زندگی دوسروں کے لئے مینارہ نور بن جائے لیکن اس منزل تک رسائی سے قبل فکرو عمل کے چراغ روشن کرنے کے لئے شبستان وجود کے ایک ایک ذرے پر غور کرنا پڑتا ہے، سونا آگ کی بھٹیوں سے نکل کر ہی کندن بنتا ہے

اک عمر چاہئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج ہی لذت سوز جگر کہاں

لہذا خالق و مالک کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تربیت کا سامان فراہم کرنے کے لئے نبوت و رسالت کا ایک سلسلہ شروع کیا، یہ نفوس قدسیہ ہر دور میں تزکیہ نفس کا فریضہ سرانجام دیتے رہے، سیکھنے سکھانے کا یہ عمل صدیوں جاری رہا تاآنکہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کے خاتمے کے بعد یہ ذمہ داری علماء کے کندھوں پر ڈال دی گئی تاکہ وہ تعلیم و تربیت کے فریضہ کو سرانجام دیں۔

انسان کے اندر بیک وقت روحانی اور شہوانی جذبات کارفرما رہتے ہیں ان متضاد جذبات کا براہ راست تعلق انسان کے قلب سے ہوتا ہے لہذا صحیح نہج پر تربیت کرنے کے لئے سب سے زیادہ توجہ دل پر دینی چاہئے۔

تربیت کا نبوی منہاج

دل شہوات کا مرکز بنا رہے تو انسان فتنہ و فساد کا منبع بن جاتا ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلب انسانی کی اصلاح اور تربیت پر جتنا زور دیا کسی اور پہلو پر نہیں دیا۔ نیکی اور بھلائی کا تخم اس وقت تک جڑ نہیں پکڑ سکتا جب تک کہ دل آلائشوں سے پاک نہ ہوجائے، صحیح بخاری میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

’’انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو پورے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے دل بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار وہ گوشت کا لوتھڑا قلب ہے‘‘۔

فکرو نظر اور علم و عمل کی اصلاح

عقیدہ کسی بھی نظام فکر ونظر اور علم و عمل کی بنیاد ہوتا ہے لہذا عقائد کی اصلاح کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی توجہ کی۔ تمام نامعقول اعتقادات اور فرسودہ توہمات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس حکمت و بصیرت سے کام لیتے ہوئے بڑی سرعت کے ساتھ ایک مشرک معاشرے میں لوگوں کی توجہات کثرت الہ سے وحدت الہ کی جانب مبذول کردیں اس پر عرب کے بڑے بڑے دانشور انگشت بدنداں رہ گئے۔ دعوت توحید کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشاہداتی اور عقلی دلائل دینے کی بجائے عملی دلیل فراہم کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ظاہر ہے کسی کو انگلی دراز کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ مطالعہ سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو یا خندق کی کھودائی، طویل سفر ہوں یا احد کا میدان کارزار، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ شانہ بشانہ مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ کارکنوں (صحابہ کرام) کو کسی مقام پر تنہا نہیں چھوڑا۔ قدم بہ قدم ساتھ دیا اور لمحہ بہ لمحہ راہنمائی کی۔ فکر ونظر اور علم و عمل کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہا کہ جس کے بارے میں عملی راہنمائی نہ ملتی ہو اس لئے آپ کی زندگی اسوہ حسنہ بن گئی۔

تربیت کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ زیر تربیت افراد کی نفسیات اور اردگرد کے احوال وظروف کا لحاظ فرمایا کرتے تھے بعض اوقات ایک ہی سوال کے جواب میں مختلف افراد کو مختلف جواب ارشاد فرمائے جو ان کے حسب حال تھے۔

ذہنی تربیت

عظیم تر مقاصد کے حصول کے لئے افراد کی تربیت از بس ضروری ہے۔ تربیت کی کئی قسمیں ہیں، ہم سردست ذہنی تربیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

تربیت کے مواقع سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت کرنے والا، ذہن کے ترقی کرنے اور نشوونما پانے کے عمل سے واقف ہو۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ انسان کبھی ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوتا ہے کبھی اس کے چہرے پر مایوسیوں اور اداسیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوتے ہیں، کبھی خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور کبھی منہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں ایسا ہمارے ذہن کی مختلف حالتوں کے باعث ہوتا ہے۔

ذہن کی ابتدائی حالتیں

ذہن کے اظہار کی ابتدائی تین حالتیں ہیں۔

  1. وقوف (Cognition)
  2. تاثر (Feeling)
  3. ارادہ (Will)

وقوف کے ذریعے ذہن واقفیت حاصل کرتا ہے دوسری حالت میں رنج و راحت کی مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں اور ارادہ ایسی قوت ہے جس سے خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ تینوں حالتیں بیک وقت مصروف عمل ہوتی ہیں البتہ ماہیت اور معانی کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں لہذا دوران تربیت دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے حسب موقع فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ معاشرہ وقوف یا ارادے میں سے کس کو زیادہ نمایاں (Project) کرتا ہے تاکہ بالآخر قوت ارادی کو تحریک ملے۔

اصل میں چاروں طرف پھیلے ہوئے بہت سے اسباب ہماری تربیت کررہے ہوتے ہیں لباس، غذا، آب وہوا، گھریلو ماحول، میل جول، کتابیں، استاد اور معاشرے کے دیگر عوامل تربیت انسانی میں حصہ لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ فطرت (Nature)

ایک ہی جیسے حالات میں رہنے والے دو افراد کا اگر مقابلہ کیا جائے تو دونوں مختلف حالتوں میں پائے جاسکتے ہیں، ایک تیز طرار ہوگا اور دوسرا غبی اور سست، ایک ضدی اور چڑچڑا ہے جبکہ دوسرے میں بردباری اور تعاون کی صفات پائی جاتی ہیں، ایسا طرز عمل دراصل موروثی میلانات اور فطری عوامل کا نتیجہ ہے طبیعت کے ایسے خواص اکتسابی نہیں بلکہ جبلی ہوتے ہیں فرمان ایزدی ہے۔

وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO

(الاحزاب، 33 : 62)

’’اور تو اللہ کی سنت میں تبدیل نہیں پائے گا‘‘۔

گویا فطرت تبدیل نہیں ہوتی، تربیت سے اس کی تہذیب کرسکتے ہیں۔ بعض اوقات ایک جیسی فطرت کے حامل لوگ تربیت کے باعث آگے چل کر ایک دوسرے کے متضاد نظر آنے لگ جاتے ہیں، یہ دراصل ماحول اور تعلیم کا اثر ہوتا ہے۔

2۔ تعلیم (Education)

فطرت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ تربیت کا سبب بنتا ہے، اس کا تعلق انسانی کاوش اور کسب سے ہے۔ ایک فرد میں موجودہ بالقوہ (Potential) صلاحیت کو ممکن سے وجود میں لانے کے لئے تعلیم درکار ہے۔ گویا ممکنات کا دارومدار فطرت پر ہے اور انہیں بالفعل موجود ہونے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

تربیت ذہن کی اقسام

ذہن کی تربیت کی بھی دو قسمیں ہیں۔

1۔ تربیت عقلی

تربیت عقلی سے مراد جملہ قوائے عقلیہ یعنی مدرکہ (Perception) حافظہ (Memory) اور متخیلہ (Imagination) کو اس طرح سدھانا ہے کہ ہر قوت اپنا اپنا عمل بہترین طریق پر کرے۔ جسمانی اور ذہنی تعلق کا آپس میں گہرا تعلق ہے جبکہ یہ ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں بیمار آدمی قوائے عقلیہ سے مناسب کام نہیں لے سکتا اور ذہن پژمردہ ہو تو اس کا اثر جسم پر بھی پڑتا ہے، سیکھنے کا عمل حواس کے ذریعے ہوتا ہے، عقل کی ابتدائی حالت کو تجسس کہتے ہیں۔ جب کسی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اس کے بعد تبدیلی کو اصل شے کے ساتھ منسوب کرنے کی صلاحیت یعنی ادراک ہوتا ہے۔

تربیت حواس : حالیہ تحقیقات نے پانچ سے زائد حواس کا پتہ چلایا ہے، بہر حال ان میں سے باصرہ، سامعہ اور لامسہ کا تعلق عقل سے ہے۔ حواس کی تربیت کے لئے بار بار مشق اور تدریج کی ضرورت ہوتی ہے اور اعادہ و تکرار سے چیزیں ذہن نشین ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں حافظے کی بہت اہمیت ہے۔ خیالات میں تعلق معلوم کرنے، توجہ، واقعات کو اسباب اور نتائج سے ملحق کرنے، واقعات کی قدرتی اور منطقی تربیت برقرار رکھنے سے حافظہ تیز ہوتا ہے۔

2۔ اخلاقی تربیت

انسان کی خصلت اس کی عادات پر، عادات افعال پر، افعال خواہشات اور اثرات پر منحصر ہوتے ہیں، انسانی ذہن کے ہر کام میں تعلیم، تاثر اور ارادت پائی جاتی ہے۔ تعلیم یعنی قوائے عقلیہ کو ترقی دینے سے عقلی تربیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل کے ساتھ تاثرات بھی دئیے ہیں جن پر خوشی اور غم کا انحصار ہوتا ہے، تاثرات ہی کام میں جان ڈالتے ہیں، انسان دوسروں کے کام آتا ہے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ تاثرات کے بغیر انسان کے سارے کام روکھے روکھے اور لاپرواہی کا مظہر نظر آتے ہیں۔ لہذا نیک تاثرات پیدا کرنے اور قوت ارادہ کو مضبوط کرنے کے لئے اخلاقی تربیت ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کی عقلی تربیت ہوئی ہو اور اخلاقی تربیت نہ ہوئی ہو تو وہ اچھے اور برے میں تمیز کے باوجود اچھائی پر عمل نہیں کرے گا اس کا عمل نیکی کے برعکس ہوگا۔ چونکہ عمدہ اخلاق کی بنیاد عقل پر ہوتی ہے اس سے عقلی تربیت بھی ضروری ہے دونوں مل کر ہی انسان کو انسان بناتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی اور جسمانی تربیت کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے ورنہ برے کاموں میں پڑنے کا خدشہ باقی رہے گا جسمانی طور پر کمزور آدمی بزدل اور چڑچڑا ہوجائے گا۔

تربیت کے ذریعے انسان کو اس سطح پر لانا مقصود ہوتا ہے کہ اسے صداقت، امانت اور احترام جیسے الفاظ روکھے پھیکے معلوم نہ ہوں اور نہ ہی ان میں ذاتی فائدہ دیکھ کر عمل کرے بلکہ وہ اخلاقی تعلیمات کی معراج تک جاپہنچے کہ تعصب اور ذاتی مفاد کے تنگ دائروں سے نکل کر ضمیر کی ہدایت پر عمل کرنا شروع کردے۔ قوت ارادی میں اس درجہ زور اور استحکام آجائے کہ اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے اسے روحانی خوشی حاصل ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ نیک افعال کے ساتھ خوشی کا رشتہ جوڑا جائے اور برے اعمال کے ساتھ افسوس اور رنج کا علاقہ قائم کیا جائے۔ ضروری ہے کہ تربیت کرنے والا خود اچھے اخلاق کا مالک ہو اور زیر تربیت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔ تدریج کا خیال رہے، اعتدال کا پہلو نہ چھوٹنے پائے۔ یاد رکھئے تاثرات دل میں ہوں لیکن ان کے مطابق کام کرنے کا موقعہ نہ ملے تو کمزور ہوکر بالآخر زائل ہوجاتے ہیں۔

عادات میں میانہ روی

کسی کام کے بار بار کرنے سے اس میں آسانی کا احساس اور انجام دہی کا میلان عادت کہلاتا ہے کیونکہ اس طرح وہ کام خود بخود ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور کام شروع کرنے سے پیشتر ہر دفعہ غور نہیں کرنا پڑتا لہذا قوت ارادی پر زور نہیں پڑتا۔ شروع شروع میں ارادے اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، عادت بن جائے تو ذہن کی محنت بچ جاتی ہے اس لئے نیک عادتوں کا پختہ ہونا ضروری ہے۔

احتیاط : لیکن اس امر سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے کہ انسان کو صرف مشین ہی نہیں بن جانا چاہئے کیونکہ انسان کی عظمت انسان بننے میں ہے مشین بننے میں نہیں۔ عادت کا اتنا غلبہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اس کے سامنے بے بس نظر آئے، ہم نے عادتوں کا غلام نہیں بننا بلکہ میانہ روی ہی بہتر ہے۔ نیک عادتیں ضرور اختیار کرنی چاہیں لیکن کام مکینیکل انداز اور لاشعوری طریقے سے سرانجام دینا مناسب نہیں بلکہ ہر فعل شعوری ہو تاکہ اس میں دل لگے اور توجہ بھی برقرار رہے اس طرح دلچسپی برقرار رہے گی اور ہمارے اعمال روکھے پھیکے نظر نہیں آئیں گے۔

محرکات (Motives)

محرکات سے مراد ایسی خواہشات یعنی نفسانی کیفیات ہیں جو انسان کو اشتعال دے کر یعنی Motive کرکے افعال کے صدور کا باعث بنتی ہیں۔ محرکات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی تربیت کا ایک مقصد اچھے محرکات کو مستحکم کرنا ہوتا ہے ہم اپنے روزمرہ کے معمولات کا جائزہ لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہمارا کردار مختلف قسم کے تقاضوں اور ہیجانوں سے عبارت ہوتا ہے، یہ محرکات نہ صرف کام پر اکساتے ہیں بلکہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا باعث بھی بنتے ہیں، کھانے کا محرک بھوک ہوتی ہے لہذا جب تک کھانا کھا نہ لیا جائے بھوک برقرار رہے گی۔ بھوک شدت کی ہو تو کھانے کا تقاضا بھی شدید ہوگا۔ معلوم ہوا کہ کوئی محرک جتنا قوی اور طاقتور ہوگا کسی فعل کے سر زد ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہونگے۔ قوی محرک کمزور محرک کو دبا دیتا ہے۔

محرکات کا براہ راست مشاہدہ تو ممکن نہیں البتہ قرائن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے البتہ انسان کے ہر فعل کی وجہ معلوم کرنا آسان کام نہیں بعض پیچیدہ قسم کے نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں ان کو سمجھنے اور جاننے کے لئے دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو حرکت میں لانے والے ہزارہا محرکات ہیں داخلی بھی اور خارجی بھی، شعوری اور لاشعوری بھی، کسی چیز کی طلب اور ضرورت انسان کو متحرک رکھتی ہے۔ بہر حال تربیت کے ذریعے ذیل میں دئیے گئے کچھ محرکات مستحکم کرنے چاہئیں۔

  1. انعام کا لالچ
  2. سزا کا خوف
  3. آگے نکلنے کا جذبہ
  4. محنت سے محبت
  5. دوسروں کی رائے کا احترام
  6. مثالوں کی تقلید
  7. بیکاری سے نفرت
  8. خوف خدا
  9. بزرگوں کا احترام

اچھی عادات کیسے اختیار کروائی جائیں

1۔ محرکات پر توجہ : اچھی عادات کو اختیار کرانے اور پختہ کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی محرکات پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جملہ خواہشات اور حرکات و سکنات ظاہر کرتی ہیں کہ اندر کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک طاقت موجود ہے جسے روبہ عمل لانا ہے بس اصل کام یہ ہے کہ اس طاقت کو مقصد مطلوبہ کا محرک بنادیا جائے۔ بیرونی محرکات بھی کافی مفید ہوتے ہیں ان سے ضرور کام لیا جائے لیکن خیال رکھا جائے کہ اصل محرکات یعنی اندرونی نظر انداز نہ ہونے پائیں۔ اندرونی محرکات کی عدم موجودگی میں خارجی محرکات مثلاً جزا اور سزا زیادہ دیر تک مفید ثابت نہیں ہوتے اور موقعہ پاتے ہی انسان اس کے برعکس عمل کرلیتا ہے۔

2۔ تکرار : عادت چند دن کے عمل سے پیدا نہیں ہوجاتی بلکہ بار بار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اگرچہ شروع میں احساس نہیں ہوتا لیکن کوئی کام بار بار کرنے سے عادت پڑجاتی ہے۔ یہ عمل اکثر غیر محسوس ہوتا ہے جیسے سخت جگہ پر پانی کے قطرے گرتے رہیں تو ایک دن وہاں گہرا نشان پڑا ہوا نظر آئے گا حالانکہ آپ پتھر پر کتنی دیر تک قطرے گراتے جائیں کوئی نشان نہیں پڑے گا، اصل میں یہ وقت صرف کرنے والا (Time Consuming) ایک طویل عمل ہوتاہے، اثر تو اول وقت سے شروع ہوجاتا ہے لیکن وہ نظر نہیں آتا، اعادہ اور تکرار سے بالآخر ایک دن نتیجہ سامنے آجاتا ہے، اسی طرح ہمارا کردار روزمرہ کے کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

3۔ تواتر : اس سلسلہ میں کسی کام کی مسلسل سرانجام دہی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ذرا سا استثناء بھی گہرے منفی اثرات مرتکب کردیتا ہے، اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مشاہدہ سے پتہ چلا ہے کہ جس کام کی عادت ہوجائے شروع میں خواہ وہ ناگوار ہی کیوں نہ لگتا ہو بعد میں طبیعت پر بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور انسان اسے بخوشی سرانجام دیتا رہتا ہے لیکن خلل واقع ہوجائے تو اس کی اہمیت برقرار نہیں رہتی اور انسان سستی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔

4۔ محاسبہ : غفلت سستی اور کم چوری کی طرف بھی طبیعت کا میلان پایا جاتا ہے، جب تک کوئی سر پر کھڑا رہے کام کی رفتار ٹھیک رہتی ہے ورنہ لاپرواہی کا عنصر غالب ہونے لگتا ہے۔ اس لئے محاسبہ کا نظام قائم کرنا ضروری ہے تاکہ چیک کیا جائے کہ جو کچھ مطلوب ہے مناسب انداز سے ہورہا ہے کہ نہیں اگر نہیں تو پھر بروقت پوچھ گچھ کرکے کمزوری کو رفع کردیا جائے ورنہ یہی غفلت اور کم چوری ہی عادت ثانیہ بن جائے گی۔ محاسبہ کے عمل میں سزا دینا مقصود ہو تو پہلے غلطی کا محرک اور سبب ضرور معلوم کرلیں ورنہ نفرت اور ضد پیدا ہوجائے گی۔

راہنمائی کی ضرورت

لغوی اعتبار سے راہنمائی کا مطلب راستہ دکھانا ہے لیکن یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتا ہے، جس کے ذریعے کسی فرد کو اس کی ذات اور صلاحیتوں کے بارے میں ایسی معلومات بہم پہنچانا ہوتا ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے کام لے کر روزمرہ کی مشکلات سے نبرد آزما ہوسکے۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک کم یا زیادہ راہنمائی کی ضرورت بہر حال پیش آتی رہتی ہے۔ راہنمائی کا مقصد کسی فرد کو صحیح انتخاب اور صحیح فیصلے کے لئے ایسی امداد بہم پہنچانا ہے جو اس کی صلاحیتوں، دلچسپیوں اور مواقع زندگی سے مطابقت رکھتی ہو اور مسلم معاشرتی اقدار سے ہم آھنگ ہو۔ چیزوں کے انتخاب، معاشی و معاشرتی الجھنوں کے حل، وفاداریوں کی صحیح ترتیب قائم رکھنے کے لئے، صحیح فیصلے پر پہنچنے کے لئے، علم کے حصول کے لئے، صحت کو قائم رکھنے کے لئے اور دوسروں کے ساتھ معاملات کے لئے غرضیکہ قدم قدم پر راہنمائی درکار ہے۔ راہنمائی کے بغیر چونکہ تکمیل ذات ممکن نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انبیائے علیہم السلام اور مقدس کتابوں کے ذریعے ہدایت اور راہنمائی کا ایک سلسلہ قائم فرمادیا۔

راہنمائی کی نوعیت

اسلامی نکتہ نگاہ سے انقلابی کارکنوں کو ایسی راہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ان کے اندر اخوت و محبت، بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا ہوسکے اور اس طرح وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق بنیان مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) بن جائیں۔ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات رکھیں اور اتنا قریب آجائیں کہ یک جان دو قالب نظر آئیں چونکہ سب کی منزل ایک ہی ہے اس لئے کامل یک رنگی اور ہم آہنگی درکار ہے۔ انتشار و افتراق کے سارے راستے بند کردئیے جائیں، سارے کام باہمی مشاورت اور خوشگوار ماحول میں سرانجام پائیں۔ اراکین کے ساتھ رابطہ بذات خود ایک اہم تنظیمی عمل ہے لیکن رابطوں کو زیادہ بامقصد بنانے کے لئے کارکنوں کو ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ضمن میں راہنمائی کرنی چاہئے۔ انسان بہت جلد نسیان کا شکار ہوجاتا ہے اس طرح یاد دہانی کا عمل بھی جاری ہوجائے گا۔ اس معاملہ میں سختی سے اجتناب اور حکمت کو پیش نظر رکھنا خود حکمت کا تقاضا ہے۔ لوگوں کے میلانات، رجحانات اور صلاحیت کا لحاظ بھی رکھا جائے۔ دور اول میں مسلمان جس نئے علاقے میں جاتے وہاں سب سے پہلے مسجد اور مدرسہ قائم کرنے پر توجہ دیتے تاکہ رابطے کا ایک مرکز بن جائے، آج اس سنت کے تتبع میں تحریکی کام کرنے کے لئے دفتر کے قیام پر زور دینا چاہئے کیونکہ مسجدیں پہلے ہی بہت بن چکی ہیں لیکن فرقہ واریت کی نظر ہوگئیں۔

تربیت ایک دقت طلب، صبر طلب اور وقت طلب کام ہے۔ مایوسی اور اکتاہٹ قریب نہیں پھٹکنے دینا چاہئے۔ زیر نگرانی افراد کے ساتھ مسلسل محنت جاری رہنی چاہئے تاکہ کارکن خود کام کرنے کے قابل ہوجائیں۔ ایک ورکر کو صرف تحریکی کام کے لئے ہی راہنمائی کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ اس کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے دیگر مسائل کا علم بھی حاصل کرنا پڑے گا کیونکہ دیگر عوامل کسی مخصوص میدان میں کارکردگی کے اظہار کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک ہی نسخہ ہر جگہ استعمال کرنا حماقت ہے، یکسانیت کے باوجود افراد اپنے اندر انفرادیت کا پہلو بھی لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ وقفے وقفے سے جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ پیش رفت کا کیا عالم ہے۔

راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والے فرد کے لئے لازم ہے کہ وہ کارکن کے ماحول اور زندگی متاثر کرنے والے عوامل پر خصوصی توجہ دے، کسی جماعت کا سرمایہ اس کے کارکن ہی ہوتے ہیں اگر کارکن کو فائدہ پہنچتا ہے تو اس کا مطلب ہے جماعت بھی مضبوط ہورہی ہے۔

تربیت کے مقاصد

تربیت کا اصل مقصد تو ذات میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے، کون سے طریقے استعمال کئے جائیں اور کتنا وقت درکار ہوگا ان امور کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، ہر اعتبار سے ایک کامیاب کارکن بنانے کے لئے تربیت کے درج ذیل مقاصد ہوسکتے ہیں۔

  1. مشکلات اور مسائل کے حل کے قابل بنانا۔
  2. کامیاب زندگی کے لائحہ عمل کی تدوین میں مدد دینا۔
  3. معاشرے کے ساتھ ربط قائم کرنا۔
  4. سستی، غفلت، لاپرواہی اور کم چوری کی عادتوں کی اصلاح کرنا۔
  5. اچھے مسلمان، اچھے شہری اور اچھے کارکن بنانا۔
  6. احساس ذمہ داری اور احساس فرمانبرداری پیدا کرنا۔
  7. قوت فیصلہ اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی پرکھ پید اکرنا۔
  8. جذبہ رواداری، وسعت نظر اور اخوت کے جذبات پیدا کرنا۔
  9. اخلاقی، مذہبی اور تحریکی تقاضوں کا احساس پیدا کرنا۔

تربیت کی نوعیت

چونکہ تربیت کا مقصود کسی نصب العین کے حصول کے حوالے سے تیار کرنا ہوتا ہے اس لئے تربیت کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ ایک استاد اور ایک فوجی سپاہی تیار کرنے کے لئے تربیت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے مصطفوی انقلاب اور ایک سیاسی یا معاشی انقلاب لانے کے لئے بھی تیاری کے مراحل یکساں نہیں ہوسکتے۔ مصطفوی انقلاب کے سپاہیوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ایمان میں پختگی اور عمل میں باقاعدگی پائی جائے۔ ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعے نفوس کو آلائشوں سے پاک کرلیں۔ ذکر و اذکار، شب بیداریاں اور گریہ و زاریاں ان کا شعار بن جائیں۔ ان کے دل عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بحر اور آنکھیں اشک رواں کی نہر کا سماں پیش کریں۔ مصطفوی کارکن بننے کے لئے تزکیہ نفوس کے ان جاں گسل مراحل کو طے کرنا از بس ضروری ہے۔ اخلاقی و روحانی تربیت کے بغیر کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا۔

ایک انقلابی کارکن بننے کے لئے تہجد کی ادائیگی کو تربیتی کورس کے لئے لازمی قرار دیا جائے۔ اجتہادی صلاحیتوں کو نکھارا جائے، معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے جہادی روح بیدار کی جائے اور جذبہ انفاق کو ابھارا جائے، یاد رکھئے حدیث نبوی ہے جس دین میں نماز نہیں اس میں کوئی بندگی نہیں۔