الفقہ : قرآن وسنت کی روشنی میں فلسفہ قربانی

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

القربان مايتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسماً للنسيکة التی هی الذبيحة.

’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے‘‘۔

(المفردات للراغب ص 408 طبع مصر)

قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوتے ہیں۔

1۔ قربانی : اذقربا قربانا۔ جب دونوں نے قربانی کی۔

2۔ منسک : وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ.

(الحج، 22 : 34)

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔

3۔ نحر : إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO

(الکوثر، 108 : 1 - 3)

’’اے محبوب! بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربان کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی ہر بھلائی سے محروم ہے‘‘۔

ان المراد هوانحر البدن.

(تفسیر کبیر، 32 : 129)

’’مراد جانور کی قربانی ہے‘‘۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مٰنی اِهْرَاقِ الدَّمِواِنَّه لَيَاْتِيْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

(مشکوٰۃ ص 128 باب الاضحیہ)

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

ضَحیّٰ رَسُوْلُ اللّٰه صَليَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ اَمْلَحَيْنِ اَقْرَنَيْنِ زَبَحَهُمَا بِيَدِه وَسَمّٰی وَکَبَّر قَالَ رَأَيْتُه وَاضِعًا قَدَمَه عَلٰی صَفَا حِهِمَا وَيَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوؤں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔

(بخاری، مسلم، مشکوۃ ص 127)

٭ امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا۔ جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا۔ فرمایا عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرو میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا، اسے ذبح کیا پھر فرمایا۔

بِسْمِ اللّٰه اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ

’’الہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما‘‘۔

(مشکوۃ ص 127)

٭ امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔

کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰه عليه وَسَلَّمَ يَذْبَحُ وَيَنْحَرُبِالْمُصْلَّی.

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے‘‘۔

(مشکوۃ ص 127)

٭ امام مسلم و ابوداؤد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

اَلْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْجُرُوْز عن سبعة.

’’گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف جائز ہے‘‘۔ (ایضاً)

مذکورہ بالا روایت جس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے، اس میں احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے ان الفاظ کا مزید اضافہ کیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّيْ وَعَمَّنْ لَّمْ يُضَحِّ مِن اُمَّتِيْ.

’’الٰہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے‘‘۔

(مشکوۃ ص 128)

سبحان اللہ! اغنیائے امت کو ان کی قربانیاں مبارک ہوں۔ خدا کرے وہ حلال کمائی سے ہوں۔ خلوص سے ہوں عمدہ ہوں اور قبول ہوں۔ فقرائے امت کی خوش نصیبی دیکھئے ان کے احساس محرومی کا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے قربانی دیکر ہمیشہ کے لئے ازالہ فرما دیا۔ تاکہ کوئی غریب مسلمان یہ سوچ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو کہ اہل ثروت نے قربانی کا سارا ثواب حاصل کرلیا اور ہم محروم رہے۔

جو نہ بھولا ہم غریبوں کی رضا
ذکر اس کا اپنی عادت کیجئے

اے فقرائے امت کبھی نہ سوچنا کہ ہم قربانی کے اجرو ثواب سے محروم ہیں۔ ہر گز نہیں تمہاری قربانیاں قبول ہیں۔ اغنیاء کی قربانیاں قبول و ردّ دونوں احتمال رکھتی ہیں۔ کمائی مشکوک ہوسکتی ہے۔ دولت ناجائز ہوسکتی ہے۔ خلوص نیت میں فرق ہوسکتا ہے لیکن غربائے امت کی قربانی جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیدی ہے اس میں قبول ہی قبول ہے رد کا شائبہ تک نہیں۔

فطُوْبٰی لِلْغُرَبَآءِ.

غریبوں کو مبارک ہو۔

٭ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے جانوروں کو لٹا کر یہ پڑھا۔

اِنِّی وجَّهْتُ وَجَهْيَ لِلَّذِيْ فَطَرَالسَّمٰوْاتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّةِ اِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ اِنَّ صَلٰوتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لاَ شَرِيْکَ لَه وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّاُمّتِه بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.

’’بے شک میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ملت ابراہیم پر یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز اور قربانی میری زندگی اور موت اللہ پروردگار عالمیاں کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ الہی تجھ سے اور تیرے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی امت کی طرف سے اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ پھر ذبح فرمایا‘‘۔

(احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ دارمی، مشکوٰۃ ص 128)

٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا

اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِيْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ. فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔

(ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ ص 128)

سبحان اللہ، کیسے سعادت مند ہیں وہ اہل خیر، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آج بھی عمدہ قربانی دیتے ہیں یقیناً آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح خوش ہوگی اور یقیناً اس کے طفیل ان کی اپنی قربانی بھی شرف قبول پائے گی۔ اللہ توفیق دے۔

٭ حضرت برا کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا۔

اِنَّ اَوَّلَ مَاَنْبدٌ أُبِه فِيْ يَوْمِنَا هٰذَا اَنْ نُّصَلِّيْ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَحْرَ فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ اَنْ نُّصَلِّيْ فَاِنَّمَا هُوْ شَاةُ لَحْمٍ عَجَّلَه لِاَهْلِه لَيْسَ مِنَ النُّسُکِ فِيْ شئی.

’’آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت کی بکری تھی جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

(بخاری ومسلم، مشکوۃ ص 126)

مَنْ کَانَ ذبَحَ قَبْلَ اَنْ يصَلَّی فَلْيَدْبَحْ اُخْرٰی مَکَانَهَا.

’’جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

٭ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔

اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِيْنَةِ عَشْرَ سِنِيْنَ يُضَحِّيی.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)

٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِيْ قَالَ سُنَّةُ اَبِيْکُمْ اِبْرَاهِيْمَ عِليه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِيْهَا يَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَالصُّوْفِ حَسَنَةٌ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

اُمِرْتُ بِيَوْمِ الْاَضْحٰی عِيْداً حَوَلَهُ اللّٰه لِهٰذِهِ الْاُمَّة، قَالَ لَه رَجُلٌ يَارَسُوْلَ اللّٰهِ، اَرَاَيْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلاَّ مَنْيِحَةَ اُنْثٰی اَفَاضَحِیّ بِهَا قَالَ لاَ وَلٰکِنْ خُدْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصَّ شَارِبَکَ وَتَحَلْقَ عَانَنَکَ فَذٰلِکَ تَمَامُ اُضْحِبْتُکَ عِنْدَاللّٰهِ.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کی ہے۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ! یہ بتائیں کہ اگر میرے پاس منیجہ مؤنث (وہ جانور جو کوئی شخص دوسرے کو دودھ، اون وغیرہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے دے، بعد میں واپس کرلے) کے سوا کچھ نہ ہو، کیا اسی کی قربانی کردوں؟ فرمایا نہیں، تم اپنے بال اور ناخن تراشواؤ، مونچھیں ترشواؤ (نہ کہ مونڈھواؤ) زیر ناف بال مونڈھو۔ اللہ کے ہاں تمہاری یہی مکمل قربانی ہے‘‘۔ (ابوداؤد، نسائی، مشکوۃ ص 129)

سبحان! قربانی کا مفہوم کتنا عام فرما دیا، کہ اہل ثروت بھی عمل کرسکیں اور عام مفلس مسلمان بھی۔ خیروبرکت کا دریا بہہ رہا ہے، کہ ہر پیاسا سیراب ہو۔

٭حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

من ذبح قبل الصلوٰة فانما يذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلوة فقد تم نسکه واصاب سنته المسلمين.

’’جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا۔ اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا‘‘۔

( متفق علیہ، مشکوۃ ص 126)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان لوگوں کے کھیل کود کے دو دن مقرر تھے۔ آپ نے فرمایا یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے کہا ان دو دنوں میں، ہم لوگ عہد جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

قد ابدلکم اللّه بهما خير منهما، يوم الاضحٰی ويوم الفطر.

(ابوداؤد، مشکوۃ ص 126)

’’اللہ نے تمہیں ان کے بدلے، ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عید قربان اور عید الفطر‘‘۔

آداب قربانی

٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جب عشرہ ذوالحجہ داخل ہو اور تم میں سے کوئی قربانی کا اردہ کرے۔

فلا يمس شعره وبشره شيئاوفی رواية فلا ياخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا.

’’وہ ہرگز اپنے چہرے اور سر کے بالوں کو نہ ترشوائے اور ہر گز اپنے ناخن نہ کاٹے‘‘۔ (مسلم مشکوٰۃ ص 127)

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا۔

نتشرف العين والاذن وان لا فضحی بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء.

’’کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھ، کان اچھی طرح دیکھیں اور ایسا جانور ذبح نہ کریں، جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو، نہ کان کٹا نہ جس کے کان میں سوراخ ہو‘‘۔

(ترمذی، ابوداؤد، نسائی دارمی، ابن ماجہ، مشکوۃ 128)

٭ انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا۔

ان نضح باعضب القرن والاذن. (ابن ماجه)

’’سینگ ٹوٹے، کان کٹے کی قربانی کریں‘‘۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کن جانوروں کی قربانی نہیں کرنی چاہئے فرمایا کہ چار قسم کے۔

العرجاء البين طلعها.

ایسا کمزور جو چلنے پھرنے سے معذور ہو۔

العورالبين عورها.

کانا، جس کا کانا پن ظاہر ہو۔

والمريضة البين مرضها.

بیمار، جس کی بیماری ظاہر ہو۔

العجفاء التی لاتنقی.

ایسا کمزور جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔

(احمد، مالک ترمذی ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ مشکوۃ ص 128)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلنا.

’’جو طاقت رکھتا ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘۔

(مسند احمد، ابن ماجہ)

قربانی کا جانور : قربانی کاجانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔ بکری، 2۔ اونٹ، 3۔ گائے۔ ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مؤنث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری کی جنس میں اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ کسی وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں۔

جانوروں کی عمریں : اونٹ پانچ سال کا۔ ۔ ۔ گائے، بھینس دو سال کی۔ ۔ ۔ بکری، بھیڑ ایک سال کی۔ ۔ ۔ یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ زیادہ عمر ہو تو بہتر ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ (درمختار، ہدایہ، : 4494۔ عالمگیری، : 2975)

جانوروں کی صفت

قربانی ایک ہدیہ ہے جو بندہ اپنے رب کے حضور پیش کرتا ہے۔ لہذا درج ذیل امور کو پیش نظر رکھے۔

  1. ادائیگی نہایت خلوص و محبت سے ہو۔ خوشدلی اور جذبات محبت و اطاعت کے ساتھ ہو، جبرو کراہت کا شائبہ تک نہ ہو۔
  2. جانور صحت مند خوبصورت اور قیمتی ہوں۔
  3. ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہوں۔ کانے، اندھے، لنگڑے، کمزور کان کٹے اور عیب دار نہ ہوں تاکہ رزق کریم والطیبات من الرزق۔ باعزت اور عمدہ رزق دینے والے مالک کے نام پر عمدہ جانور قربان ہوں۔ مخلوق خدا کو عمدہ کھانا میسر ہو۔ مال کی قربانی ہو۔ مالک کی رضا مندی حاصل ہو، یہی نیکی ہے۔ یہی تقوی ہے۔ جو قربانی کا مقصود اصلی ہے۔

(عالمگیری، : 2975 ہدایہ، : 4474)

حلال جانوروں کے حرام اجزاء

مايحرم اکله من اجزاء الحيوان سبعة. الدم المسفوح، والذکرو، الانثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرأدة.

حلال جانور کے حرام اجزاء (اعضاء) سات ہیں۔ بہتا خون، آلہ تناسل، دونوں خصیے (کپورے) مؤنث کی آگے والی پیشاب گاہ، غدود یعنی گلٹی، مثانہ، پتا۔ ( عالمگیری، 5 : 290)

صلائے عام : چٹ پٹے گردے کپورے کھانے والے حضرات حلال و حرام میں تمیز کیا کریں۔

قربانی کی حکمتیں اور فوائد

  1. خدا داد نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے حکم پر خلق خدا کے لئے بہترین کھانے کا بندوبست کریں۔
  2. قربانی دینے والے ہی حق کی حمایت اور ظلم کی بیخ کنی کے لئے وقت آنے پر تن من دھن وطن اولاد سب کچھ قربان کرسکتے ہیں اور یہی جذبہ قوموں کی باوقار زندگی کا ضامن ہے۔
  3. مغرب نے جو ظالمانہ استحصالی نظام ہم پر مسلط کر رکھا ہے، اس نے غریب کو باعزت زندگی سے محروم کررکھا ہے۔ اشیاء خورد و نوش اتنی مہنگی کردی گئیں کہ اللہ کی نعمتوں کے دروازے عوام پر بند ہیں۔ اسلام کا نام لینے والے حکمرانوں نے اپنے عوام کے منہ سے آخری لقمہ بھی چھین لیاہے۔ رب العالمین کی ربوبیت اور رحمۃ اللعالمین کی رحمت کو امراء نے غصب کر رکھا ہے۔ اس کو رب کائنات کے بجائے رب اغیاء اور رحمت عالمیاں کے بجائے رحمت سرمایہ دار ان تک محدود کر چھوڑا ہے حالانکہ قرآن کاحکم ہے۔ ولا تفسدوا فی الارض۔ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

یہ لوگ اللہ کا پیدا کیا ہوا وافر رزق ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ سٹاک کرتے اور کھلے بازار میں آنے سے روکتے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے آئے دن بھاؤ بڑھاتے رہتے ہیں۔ جس سے عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جاتے ہیں اور بڑے لوگ اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ قربانی کا شرعی حکم ان انسان نمادرندوں کو مذموم حرکت سے باز رکھنے کا سبق دیتا ہے تاکہ غریب آدمی بھی اللہ کی نعمت (گوشت) کھاسکے۔ پس اسلامی نظام کو جہاں بھی نافذ العمل کرو گے، ظلم کے اندھیروں میں تمہیں روشنی کی کرن وہیں نظر آنے لگے گی۔ ایک قربانی پر عمل درآمد نے کم از کم تین دن، کروڑ محروم لوگوں کو اعلیٰ کھانا کھلادیا۔

  1. قربانی کی کھالوں سے بیشمار رفاہی خیراتی ادارے چلتے ہیں۔ غریبوں یتیموں اور بیواؤں کی مالی پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔
  2. سرمایہ داروں کے دل سے دولت کی محبت کم اور خالق کی محبت اور خلق پر شفقت کے جذبات بڑھتے ہیں اور یہی انسانیت کا اصل جوہر ہے۔
  3. قربانی کی نیت سے ہزاروں لوگ مال مویشی پالتے اور وقت آنے پر اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں۔ اس سے ان کی سال بھر کی روزی کا سامان ہوجاتا اس کی کھال بال اور ہڈیاں قومی آمدنی میں اضافے کا سبب ہیں۔ الغرض جس پہلو سے دیکھا جائے قربانی اپنے اندر دنیا و آخرت کے بیشمار فوائد و فضائل رکھتی ہے۔