رپورٹ : آفتاب بیگ

گذشتہ سال منعقدہ تین روزہ دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے امسال منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے 19 اکتوبر 2007ء تا 21 اکتوبر 2007ء تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سالانہ اجتماعی اعتکاف میں شرکت کرنے کے بعد پاکستان سے واپسی پر برطانیہ میں چند روزہ قیام فرمایا، حسب پروگرام پچیس گھنٹوں سے زائد دورانیہ پر مشتمل پانچ نشستوں میں سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ اس خوبصورت دورہ صحیح مسلم کے انعقاد سے مرکزی جامع مسجد گھمگول شریف برمنگھم کی عظیم تاریخ میں ایک اور سنہری علمی مجلس کے اضافہ کا اعزاز بھی منہاج القرآن کو حاصل ہوا۔ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش سمیت یورپ بھر کے اہل علم حضرات نے ان نشستوں سے استفادہ کیا۔

مہمانانِ گرامی

ان بے مثال علمی، فکری اور تربیتی نشستوں میں برطانیہ کے نامور عالم دین محترم مفتی عبدالرسول منصور، جماعت اہلسنت برطانیہ کے سرپرست محترم پیر سید منور حسین شاہ جماعتی، مفتی اعظم برطانیہ محترم مفتی گل رحمان، محترم علامہ نیاز احمد صدیقی، سنی کنفڈریشن کے روح رواں محترم علامہ بوستان قادری، محترم مفتی ایوب ہزاروی، محترم علامہ غلام رسول چکسواری، نامور اداکار محترم فردوس جمال اور دیگر کئی نامور شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔

پہلی نشست 19 اکتوبر:

دورہ صحیح مسلم کی پہلی نشست میں محترم قاری حسنات احمد نے تلاوت کی سعادت حاصل کی۔ جبکہ حسان منہاج محترم محمد افضل نوشاہی، محترم قاری محمد علی، محترم محمد شکیل، محترم بلال نوشاہی اور محترم اعجاز قادری نے ہدیہ نعت پیش کیا۔ محترم علامہ اشفاق عالم قادری نے نقابت کے فرائض انجام دئیے۔

پہلی نشست میں شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بتایا کہ وہ ان تین روز میں اصول الحدیث، عقائد اور احکام الفقہ پر کتاب الایمان اور کتاب الصلوۃ کے منتخب ابواب کی روشنی میں دروس دیں گے اور صحیح مسلم کی شرح و تفسیر اور روایت و درایت پیش کریں گے۔ شیخ الاسلام نے اصول حدیث کے تعارف میں اس بات کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ احادیث کے علمی و فنی تقاضے پورے کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اہل علم کے ہاں مطالعہ کی قلت اور حصول علم کا کلچر ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اہل علم کے ہاں بعض امور حدیث پر مغالطہ پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اہلسنت سب سے زیادہ علمی کلچر کے خاتمے کا شکار ہیں۔ جو دراصل وارثان علم و معرفت اور سواد اعظم ہیں اور جن کو اس علمی میدان پر حاوی ہونا چاہئے تھا۔ اہلسنت کے جملہ عقائد حقیقت میں 13 / 14 سو سالہ تاریخ سے وابستہ ہیں اور آج اس کو شرک و بدعت کے نام سے متعارف کروانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اس کی مرکزی وجہ علمائے اہلسنت کے ہاں علم و دلیل، مطالعہ و تحقیق اور جدید علم و فنون پر محنت کی کمی ہے۔ آج قرآن و حدیث کی تعلیمات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام نے بعد ازاں تین گھنٹوں سے زائد تاریخ حدیث پر گفتگو کی انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں تقریباً ایک سو کتب مرتب ہوئی ہیں اوراس حوالے سے لکھی جانے والی کتب میں سے سب سے پہلی کتاب ’’الرسالہ‘‘ کے مصنف امام شافعی تھے جو بذات خود فقہ کے امام تھے۔ اصول حدیث کو سب سے پہلے مرتب و مدون امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے 254 احادیث صرف دو واسطوں سے بیان کی ہیں۔ ان میں 219 مرفوعہ اور 35 احادیث موقوف ہیں۔

امام مسلم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا امام مسلم کا احادیث کو جانچنے کا معیار یہ تھا کہ جو حدیث اہلسنت کے واسطوں پر مبنی ہوتی اسے قبول کرتے اور جو اہل بدعت کے واسطوں سے ہوتی اسے قبول نہ کرتے تھے۔ آج میلاد، ذکر اذکار، دورد و سلام، نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء اللہ کی تکریم و احترام کو بدعت کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ انہی امور پر مبنی احادیث کو امام مسلم روایت کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معترضین کے اعتراض کا وار سب سے پہلے امام مسلم پر پڑتا ہے اور ان کے اعتراض کے مطابق امام مسلم کو بدعتی تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پس اگر امت مسلمہ اپنے عقائد کے بانیوں کے فرمودات پر ہی عمل پیرا ہوجائے تو امت سے فرقہ واریت ختم ہوسکتی ہے اور امت اتحاد و یکجہتی کی عظیم مثال بن سکتی ہے۔ اگر ان تمام اعمال کو بدعت گردانا جائے تو یہ اعمال تابعین کے زمانہ میں بھی موجود تھے پس معلوم ہوا کہ بدعت کچھ اور شے ہے جس پر معترضین کی نظر نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا پہلا بدعتی گروہ خارجی تھا اور اس سفر کا آغاز گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ اہلسنت حقیقت میں غلامان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جبکہ گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتی ہیں۔ اسلامی تاریخ کا پہلا بدعتی ذوی الخویصرہ تمیمی تھا۔ جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تنقید کی تھی اور اس مجلس میں موجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں روک دیا تاکہ مسلمانوں کے اندر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو ہوا نہ ملے۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے اہل علم پر علمی محنت اور تحقیق کرنے، اہلسنت کے اندر علمی جمود کے خاتمے کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے علماء کرام سے کہا کچی اور بے بنیاد، بے دلیل باتوں سے امت اور بالخصوص نوجوان نسل کے اندر سے اہل علم کا اعتماد اور وقار ختم ہوجائے گا۔ علم کے احیاء کو ہمیشہ فوقیت دینی چاہیے اور جو بات معلوم نہ ہو اس کو کسی سے پوچھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ پوچھنا آدھا علم ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات کی بھی وضاحت کی کہ بعض طبقات کا صرف اس بات پر زور دینا کہ فلاں فلاں بات صرف فلاں فلاں مخصوص کتب میں لاکر دکھاؤ خود کم علمی اور جاہلیت کی دلیل ہے یہ اہل علم کا کبھی شیوہ نہیں رہا اور گذشتہ صدیوں میں ایسے مطالبے کی کوئی مثال تک نہیں ملتی۔ علم کبھی جمود میں نہیں رہ سکتا، نئی تعلیمات اور تحقیقات سے علم کا ارتقا اور توسیع ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ قوموں کی ہلاکت کی ایک نشانی علم سے کنارہ کشی ہے۔ آج کے دور میں بدقسمتی سے بالخصوص برصغیر میں نئی علمی تحقیق والے عالم پر گستاخ کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے جو سراسر علم و فن سے بے خبری کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد اپنی کم علمی کو محض تحفظ دینا ہوتا ہے۔ علمی بات میں اختلاف رائے سنت ہے لیکن بحث برائے بحث نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ لیکن جب بات مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آتی ہے تو علم کے دیگر تمام چراغ گل ہوجاتے ہیں کیونکہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے سے اختلاف کرتا ہے وہ بے ایمان اور مرتد کہلاتا ہے۔ علم جاننے کا نام ہے جبکہ ایمان ماننے کا نام ہے۔ دنیا کی ہر شے جان کر مانی جاتی ہے ماسوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے جو بغیر جانے مانا جاتا ہے اور اس کو جاننے کا ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا جانے گا وہ اللہ کو اتنا ہی مانے گا۔ توحید میں صرف وہی شخص پختہ ہوگا جو معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پختہ ہوگا۔

دوسری و تیسری نشست 20 اکتوبر:

دورہ صحیح مسلم کے دوسرے روز منعقدہ دوسری اور تیسری نشست کے آغاز میں تلاوت قرآن کے بعد معروف اداکار محترم فردوس جمال نے ہدیہ نعت پیش کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں مدارس کے اندر پڑھائے جانے والے تدریسی نصاب کو جدید علوم و فنون اور تحقیق کے مطابق تبدیل کرنا موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ عرصہ دراز سے زیر مطالعہ نصاب جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے دینی علوم میں بہتری اور اہل علم کے ہاں مطالعہ و تحقیقی عمل میں بھی جمود آ چکا ہے۔

شیخ الاسلام نے اقسام احادیث، سند احادیث، روایت احادیث پر طویل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت احادیث کے اعتبار سے صحیح البخاری کا کوئی ثانی نہیں لیکن ترتیب اور حْسن نظم کے لحاظ سے صحیح المسلم کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔

تربیتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج کے دور میں والدین دن رات کمائی کے چکروں میں پڑ چکے ہیں اور گھروں کا ماحول گانے بجانے اور فحش ٹی وی پروگراموں نے پراگندہ کیا ہوا ہے ان کے بچے جب جوانی کے دور میں پاؤں رکھتے ہیں اور والدین کی نافرمانی شروع کرتے ہیں تب والدین پیروں، فقیروں کے پاس تعویزوں کے لئے اور دعاؤں کے لئے بھاگتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بچپن کے دنوں میں ماحول کی گندگی کا جو تعویز انہوں نے اپنے بچوں کو دے رکھا ہے اس کا توڑ بہت مشکل ہے۔ جب تک ان کے بچے اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نافرمان ہوتے ہیں تو والدین کو کوئی شکایت نہیں ہوتی لیکن جوں ہی والدین کی حکم عدولی شروع ہوتی ہے وہ انہیں نافرمان قرار دے دیتے ہیں۔ اولاد کو نیکی اختیار کرانے کے لئے نیک اور پاک ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو دین مصطفوی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے گھریلو ماحول کو پاکیزہ بنانا ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی مذہب کے نام پر ایسے ’’چھومنتر اور بابا پیروں‘‘ کے پروگرام سے پرہیز کرنا ہوگا۔

چوتھی اورپانچویں نشست 21 اکتوبر:

ان نشستوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اہلسنت کے علماء و مشائخ پر علم اور مطالعہ سے تعلق بحال کرنے پر بے حد زور دیا اور کہا نماز تہجد، شب بیداری اور قلب و باطن کے نور کے بغیر علم کے حصول کا کوئی فائدہ نہیں، صرف عمل صالح ہی کی بدولت علم سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علماء اہلسنت اپنے اخراجات کم کرکے اپنی لائبریریاں قائم کریں۔

آج اسلام کے خلاف اتنی گھناؤنی سازش کی جارہی ہے کہ کچھ عرب ممالک میں اسلامی تاریخی کتابوں کی جدید اشاعت میں ایسے مواد اور ابواب کو سرے سے ہی خارج کر دیا گیا ہے جو اہل سنت کے عقائد کے عین مطابق تھے۔ موجودہ دور میں اہلسنت کا علم صرف اس حد تک ہے کہ میلاد و عرس کے جلوس و اجتماع منعقد کئے جائیں، نذرانے دے دیئے جائیں اور ہاتھ چوم لئے جائیں، اگر علمی جمود قائم رہا تو حقیقی رسوم علوم اسلامیہ کو آگے پہنچائے بغیر کیسے بچایا جائے گا کیونکہ آئندہ دور کی نوجوان نسل بات بات پر دلائل کا تقاضا کرے گی لیکن دینے والوں کے پاس علم نہیں ہو گا۔ ہماری مذہبی دوکانوں کو نعت و قوالی کی کیسٹوں کی خریدو فروخت تک محدود کر دیا ہے اور کسی علمی اور تاریخی کتاب کا نام تک نہیں۔ اہلسنت کے علماء و مشائخ کی اب ذمہ داری ہے کہ وہ کتاب اور مطالعہ سے کٹے ہوئے رشتہ کو بحال کریں جو کہ ان کی میراث ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہایت مدلل انداز میں تصوف کے موضوع پر صحیح مسلم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر تصوف کو بدعت قرار دے دیا گیا تو بخاری اور مسلم سمیت تمام کتب احادیث سے امت کا اعتماد اور اعتبار متزلزل ہو جائے گا کیونکہ احادیث کے آدھے سے زیادہ راوی اولیاء اللہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علم اور ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لازم و ملزوم ہیں۔ بندہ ادب کے بغیر عالم نہیں بن سکتا جبکہ ادب کا قرینہ تمام علوم کے دروازے کھول دیتا ہے۔

علاوہ ازیں شیخ الاسلام نے صحیح بخاری و مسلم کی روشنی میں ہاتھ چومنے، گھٹنوں کو چھونے، کسی کے ادب و احترام میں قیام کرنے، علم غیب اور دیگر کئی علمی و تحقیقی موضوعات پر نہایت عالمانہ سیر حاصل گفتگو کی۔

مہمانانِ گرامی کا اظہار خیال:

دورہ صحیح مسلم شریف کے دوران مختلف مہمانانِ گرامی قدرنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

٭ محترم مفتی عبدالرسول منصور الازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال دورہ صحیح بخاری کے کامیاب انعقاد کے اثرات دنیا کے ہر کونے میں پھیلے اور عوام کو عقائد کی درستگی اور روحانی توانائی کے سلسلہ میں بے حد فوائد حاصل ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ دورہ بخاری نے اہل سنت کی کایا پلٹ دی ہے اور اپنے عقائد صحیحہ کے حوالے سے شیخ الاسلام کی طرف سے دیئے گئے دلائل کے انبار نے ان کے ایمان کو مزید تقویت و استحکام بخشا ہے۔ میں شیخ الاسلام کی ان کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کے توسط سے ایک طویل عرصہ کے بعد علمی مشقوں کا پھر سے آغاز ہوگیا ہے اور دم توڑتی علمی روایات کی بحالی شروع ہوگئی ہے۔ اس پلیٹ فارم سے ہمیشہ علمی جواہر پارے اور قیمتی موتی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وساطت سے اہل علم کی علمی دولت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔

٭ جماعت اہلسنت برطانیہ کے روح رواں پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی خدمات کو زبردست لفظوں میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ عظیم علمی و روحانی شخصیت ہیں جو جدید و قدیم علوم پر زبردست گرفت رکھتے ہیں اور ان کی تحریر و تقریر میں دینی و دنیاوی علوم کا بہترین امتزاج ہوتا ہے۔ آپ نے نہ صرف امت مسلمہ کے مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ ہر قدم پر ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو تحریر و تقریر کی صورت میں عقائد، احادیث اورجدید علوم پر عظیم علمی و فکری ذخیرہ عطا کیا ہے۔ اس موقع پر پیر سید منور جماعتی نے بتایا کہ وہ 80ء کی دہائی سے منہاج القرآن کے ممبر ہیں اور ان کا ممبر شپ نمبر19 ہے جو کہ منہاج القرآن کا ابتدائی دور تھا۔

منتظمہ پروگرام دورہ صحیح مسلم:

منہاج القرآن برمنگھم کے ڈائریکٹر محترم علامہ اشفاق عالم قادری کی سربراہی میں حاجی محمدریاض، حاجی محمد حنیف، اعجاز احمد صدیقی، علامہ بلال اشرفی، محمد اقبال، افتخار انصاری، احمد نواز، برمنگھم ویمن لیگ اور دیگر کارکنوں نے دن رات محنت کرکے پروگرام کے انتظامات کئے۔ نیز اس پروگرام کی ریکارڈنگ کی ذمہ داری منہاج القرآن انٹرنیشنل فرانس کے احباب نے بحسن و خوبی انجام دی۔ شیخ الاسلام نے اس کامیاب دورہ مسلم شریف کے تمام انتظامات احسن انداز میں کرنے پر ان تمام احباب کو خصوصی مبارکباد دی۔ اس تین روزہ مجلس میں جہاں اہل علم حضرات موجود تھے وہاں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک محفل رہی جہاں ان کے لئے الگ پردہ کا انتظام موجود تھا۔ علاوہ ازیں وہ شرکاء جو اردو سے نابلد تھے ان کے لئے پروجیکٹر کے ذریعے شیخ الاسلام کے ارشادات کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا جارہا تھا جن سے بڑی تعداد میں شرکاء نے استفادہ حاصل کیا۔