انقلابی جدوجہد میں کامیابی کی شرائط

پروفیسر محمد رفیق

نصب العین خواہ کتنا ہی بلند اور قیادت کتنی ہی لائق کیوں نہ ہو جب تک اراکین جماعت نصب العین کے حوالے سے اپنے اندر مطلوبہ اوصاف پید انہ کرلیں اور مخصوص تقاضے پورے نہ کریں کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ امت کے ظاہری حالات کو سامنے رکھیں تو مایوسی اور بد دلی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا لیکن ایک بات خوش آئند ہے کہ بحیثیت مجموعی اسلامی معاشرہ کے قیام کی خواہش ابھی تک دلوں سے محو نہیں ہوئی۔ بس یہی حقیقت امید کی کرن بن کر چمکتی ہے اور مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں ذیل میں کامیابی کی چند شرائط کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1۔ تحرک

کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے جذبہ عمل کو متحرک کیا جائے۔ اس خواہش کو روبہ عمل لانے کے لئے دلسوزی اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ جب ہاتھ ہلائے بغیر ایک لقمہ بھی منہ میں نہیں جاتا، راستے کا ایک پتھر بھی نہیں ہٹایا جاسکتا تو کیسے ممکن ہے کہ صدیوں پرانا نظام صرف نیک تمناؤں اور خواہشوں کے ذریعے جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ جتنی بڑی رکاوٹ ہوگی اسے ہٹانے کے لئے اتنی بڑی قوت درکار ہوگی۔ قوت کا راز اتحاد، اتفاق اور باہمی محبت میں ہے۔ یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جس نصب العین کو لے کر میدان میں اترے ہیں خود اپنی زندگی اس سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے رخصت نہیں عزیمت کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے اور کسی شارٹ کٹ کی طرف مائل ہونے سے اپنے آپ کو بچاتے رہئے۔ بے کار مشغلوں، خام کاریوں اور بے نتیجہ کاموں میں اوقات اور توانائیاں صرف نہ کی جائیں۔ غلط کاموں کو دیکھ کر محض غصے اور نفرت کے جذبات پر کنٹرول کیا جائے۔ اصلاح اور خیر خواہی بھی پیش نظر ہونی چاہئے، کاٹ پھینکنے کی بیتابی نہ ہو بلکہ سنوارنے کی فکر غالب ہو۔ کیونکہ علاج کے دوران کچھ نجاستیں ڈاکٹر کو بھی لگ جاتی ہیں پھر بھی وہ نفرت نہیں کرتا۔ اس راہ میں ناکامی نام کی کوئی چیز نہیں، اول قدم پر بھی کامیابی ہے اور آخری قدم پر بھی کامیابی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی سماعت، بصارت، بصیرت سب کچھ اس راہ کے لئے وقف ہو۔ پاؤں کام کرنا چھوڑ دیں۔ ۔ ۔ آنکھیں تو ہیں۔ ۔ ۔ یہ بھی چھن جائیں۔ ۔ ۔ بصیرت تو ہے۔ ۔ ۔ سفر جاری رہنا چاہئے۔ کامیابی کے امکانات اور وسائل کی نسبت تناسب کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے جذبے سلامت رہنے چاہئیں۔

راہ طلب میں جذبہ کامل ہو جس کے ہاتھ
خود ڈھونڈ لیتی ہے اسے منزل کبھی کبھی

جو جتنا چل لے گا انعام یافتہ ہوگا۔ اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا اصل چیز حسن نیت ہے۔

عدمِ تحرک کے اسباب

تحریک اور عدم تحرک کے کیا اسباب ہیں اور کارکنوں کو کیسے متحرک رکھا جاسکتا ہے اس حوالے سے محرکات کی تشریح اور تجزیہ مناسب ہوگا۔

1۔ طلب اور انگیخت

کسی شخص کو اس کی کسی ضرورت سے محروم کردیا جائے تو طلب کی ایک کیفیت پیدا ہوگی یہ طلب جس تحریکی کیفیت کو جنم دیتی ہے اسے انگیزش کہتے ہیں۔ جب تک طلب باقی ہے وہ انسان کو مطلوب کے لئے اکساتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی حاجت کسی سوسائٹی کے محروم طبقوں کو ہوا کرتی ہے اور ہمیشہ یہی طبقے انقلاب کا ایندھن بنتے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقوں میں طلب پیدا ہی نہیں ہوسکتی، انقلاب کبھی ان کی ضرورت ہی نہیں رہا اس لئے تحرک کہاں سے آئے گا؟

بعض اوقات دیگر عوامل کے باعث کسی ضرورت اور طلب کا احساس نہیںہوتا مثال کے طور پر کوئی شخص کسی اہم کام میں لگا ہوا ہے اور اس پر دھوپ آگئی ہے لیکن اس کی پرواہ کئے بغیر وہ کام جاری رکھے ہوئے ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اسے سائے اور ٹھنڈک کی ضرورت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محویت کے عالم نے وقتی طور پر گرمی کا احساس نہ ہونے دیا، متوجہ کرنے پر وہ اٹھ کر سائے میں آگیا۔ انقلاب کی طلب بڑھانے کے لئے کارکنوں کو اس کی ضرورت کا احساس دلانے پر محنت درکار ہوتی ہے۔

قابل توجہ نکتہ: یہ بات قابل توجہ ہے کہ طلب بڑھتے بڑھتے ایک خاص سطح پر جاکر رک جاتی ہے کیونکہ جب تسکین کا سامان فراہم نہ ہو تو اس کے بعد آدمی کا ارادہ کمزور پڑجاتا ہے اور فعالیت جاری رکھنے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ مایوسیوں کے سائے جذبوں کو کم کرتے چلے جاتے ہیں لہذا صرف طلب بڑھانے پر زور دیتے رہنا اور مایوسی کا شکار ہونے سے بچانے کی فکر نہ کرنا ایک بہت بڑی تحریکی غلطی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے جسمانی توانائی کے لئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لہذا انسان اس کے حصول کے لئے تگ و دو کرتا ہے، معاشی مصروفیات کا زیادہ تر حصہ اسی طلب کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص بھوک سے نڈھال ہوجائے تو کھانے کی طلب زیادہ ہونے کے باوجود انگیخت کم ہوجائے گی کیونکہ اب اس میں ہاتھ پاؤں مارنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اس وقت پاکستانی قوم کی مایوسی کی یہی حالت انقلاب کی طلب رکھنے کے باوجود تحرک کے راستے کی رکاوٹ ہے جو کچھ کرنے سے باز رکھتی ہیں۔

2۔ ترغیبات (Incentives)

بعض اوقات کسی چیز کی حاجت نہ ہونے کے باوجود خارجی ماحول میں موجود ترغیبات توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتی ہیں۔ تاجر اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لئے تشہیری مہم چلاتے ہیں اور ان کی یہ پرکشش ترغیبات گاہکوں کو خواہ مخواہ اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہیں اور ان ترغیبات کے باعث کسی حقیقی ضرورت کے بغیر بھی لوگ چیزیں خرید لیتے ہیں۔ ایک اور مثال پر غور کیجئے ایک شخص کھانا کھا کر سیر ہوچکا ہے اسے مزید کھانے کی حاجت نہیں لیکن اگر اسے کوئی من پسند مزیدار چیز پیش کی جائے تو انکار نہیں کرے گا۔ پیٹ بہت ہی بھرا ہوا ہو تب بھی چکھنے میں تو کوئی مضائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ بعض اوقات آدمی مزہ لینے کی خاطر کسی کھانے والی چیز کے لئے حرکت میں آجاتا ہے حالانکہ وہ حقیقی ضرورت کو پورا نہیں کرتی۔ مثلاً آئس کریم بھوک تو نہیں مٹاسکتی لیکن اس کے کھانے میں ایک قسم کا لطف پایا جاتا ہے، چائے نوشی سے بھی بھوک نہیں مٹتی لیکن اس سے تازہ دم ہونے کا احساس ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ لہذا کارکنوں کو متحرک کرنے کے لئے طلب میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ماحول میں مطلوبہ محرک (Incentive) بھی فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک متحرک کردار وجود میں لانے کے لیے طلب اور ترغیب دونوں لازم و ملزوم ہیں بلکہ دونوں بیک وقت اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس طرح اچھی صحت کے لئے اچھی خوراک کھانا ضروری ہے اسی طرح اچھی خوراک وہی شخص کھا سکتا ہے جس کی صحت اچھی ہو، یا بھوک شدید ہو تو عام کھانا بھی مزیدار لگتا ہے اور کھانا مزیدار ہو تو طلب میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے بعینہ اچھا ماحول کارکنوں کو متحرک کرتا ہے اور اچھا ماحول فراہم کرنے کے لئے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو اس کے پیدا کرنے کی دل میں تڑپ رکھتے ہوں۔

3۔ محرک اور جبلت

بہت سے محرکات جبلی اور فطری ہوتے ہیں۔ انسان خلقی اور پیدائشی اعتبار سے انہیں اپنے اندر موجود پاتا ہے اور کوئی خارجی محرک میسر آئے تو ان کا ظہور شروع ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک جیسے حالات میسر آنے پر لوگ عام طور پر ایک جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہ چیزیں نسل در نسل موروثی طور پر آگے منتقل ہوتی رہتی ہیں جیسے محبت، نفرت اور غیض و غضب پر مبنی افعال وغیرہ۔ اللہ ہی کے لئے نفرت اور اللہ ہی کے لئے محبت کے نکتے پر لاکر ان جذبوں کو سیل رواں اور آتش فشاں میں بدلا جاسکتا ہے۔ یہ فطری جذبے جلا پاکر شعلہ جوالا بن جاتے ہیں۔

لیکن اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ تحرک کے ضمن میں کارکن ایک خاص سطح سے آگے نہیں جاسکتے، ہر ایک کے حالات اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں مثال کے طور پر ایک بیکار آدمی کے لئے کسی پارٹی میں شرکت حرکت کا باعث ہوسکتی ہے لیکن ایک مصروف آدمی پر شرکت ناگوار گزرے گی لہذا سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے تناسبی جائزہ لینا مفید ہوگا۔ جہاں محرک کی سطح کم نظر آئے اسے بلند کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جہاں یہ سطح بلند نظر آئے اسے اعتدال پر لانا چاہئے کیونکہ تیز بھاگنے والا شخص زیادہ دیر سفر جاری نہیں رکھ سکتا، جس طرح انسان جبلی طور پر اپنے دفاع کے لئے دوسروں پر حملہ آور ہوتا ہے اگر یہ بات اس کی سمجھ میں آجائے کہ اپنے ایمان، اخلاق اور کردار کو بچانے کے لئے طاغوت اور باطل سے ٹکرانا از بس ضروری ہے تو ایک انقلابی قوت معرض وجود میں آسکتی ہے۔ سائنس دانوں نے مشاہدات اور تجربات سے یہ بات معلوم کی ہے کہ انڈے سے نکلتے ہی بچہ جس متحرک شے کو دیکھتا ہے اس کے پیچھے لگ جاتا ہے حتی کہ اپنی ماں تک کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اس لئے تحریکی اور انقلابی کام کے حوالے سے بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔

4۔ لاشعوری محرکات

کچھ محرکات لاشعوری ہوتے ہیں جن کا آدمی کو پتہ نہیں ہوتا۔ اس سے کچھ افعال سر زد ہوتے ہیں بعض اوقات ایک خاص طرز عمل ظہور پذیر ہوتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ کیا ہے، کبھی آدمی گہری سوچوں میں ڈوبا رہتا ہے، کبھی چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے کبھی بار بار بھول جاتا ہے جو یاد کرنا چاہتا ہے بار بار ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہیں آتا اس طرز عمل کے کئی اسباب ہوتے ہیں یا تو اسے معلوم نہیں ہوتے یا پھر معاشرے کے خوف کے باعث اپنے اندر اظہار کی جرات نہیں پاتا اور بیان کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ کئی دلی خواہشیں اور محرومیاں لاشعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ علم نفسیات کے ماہر سگمنڈ فرائڈ نے اپنے شیطانی ذہن کو کام میں لاتے ہوئے بڑی مہارت سے انسانی افعال کے جملہ محرکات کو جنسی معاملات تک محدود کردیا۔

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

ڈارون اور فرائڈ مغربی فکر کے دو ایسے انسانی عجوبے ہیں جن کی فکر پر حیوانیت غالب تھی ان کے نظریات سے متاثر ہوکر مغربی دنیا نے حیوانی سطح سے نیچے اتر کر ’’اسفل السافلین‘‘ کا منظر پیش کردیا حالانکہ فرائڈ کا سارا فکر اس کے ذہنی مریض ہونے کی علامت تھا تاہم لاشعوری محرکات سے انکار ممکن نہیں کیونکہ بعض اوقات دیانتداری کے ساتھ ہم اپنے کسی فعل کی وجہ معلوم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ معاشی الجھنیں اور پریشانیاں انسانی فکر اور طرز عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ کارکنوں کی عدم فعالیت اور عدم تحرک کا رونا رونے والوں کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

5۔ محرکات کی سیڑھی

ایک امریکی مفکر میسلو (Maslow) نے محرکات کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے جسے زینے کی شکل میں دکھایا جاسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ابتدائی حاجات سادہ ہوتی ہیں۔ جوں جوں سیڑھی پر چڑھتے جائیں محرکات پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی تشکیل کا سامان قدم بہ قدم اور مرحلہ وار درکار ہوتا ہے اور اگلے مرحلے کی ضروریات متحرک نہیں ہوتیں۔ ایک مرحلے کی ضروریات کی کسی حد تک تو قربانی دی جاسکتی ہے لیکن مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاقوں کی حالت میں رہ کر کچھ دیر تو سرگرمی دکھائی جاسکتی ہے لیکن اس عمل کو مسلسل جاری نہیں رکھا جاسکتا، ادنیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچنے کے لئے ہر درجے کی ضرورت ہے جس قدر تسلی بخش تسکین ہوگی اگلے مراحل اتنی آسانی کے ساتھ اور معیاری انداز سے طے ہوں گے۔

اس نقشہ سے پتہ چلتا ہے کہ آخری درجہ تکمیل ذات کا ہے جس تک کسی کسی کو رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ بھرپور اور کامیابی زندگی بسر کرتے ہیں، حقوق و فرائض کے نظام پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں زندگی کی حقیقتوں اور تجربات سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے ماڈل بن جاتے ہیں ان کے پاس بھی دوسروں جتنا وقت ہی ہوتا ہے لیکن آدمی یہ دیکھ کر حیرتوں میں ڈوب جاتا ہے کہ ان کے اندر موجود شدید محرکات مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کس قدر قوت اور شدت سے کارفرما رہتے ہیں یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو آدمی ایک فعال کارکن بن جاتا ہے۔

2۔ مطلوبہ اوصاف

شعور مقصد، انتھک جدوجہد، بے غرضی، نفع بخشی، اخلاق حسنہ، اعمال صالحہ، نظم و ضبط، سخت کوشی، جانفشانی، ایثار و قربانی، اخلاص و وفاداری، سرفروشی اور مشکلات میں صبر جیسی صفات پیدا ہوجائیں تو غلبہ و کامرانی یقینی ہوجاتی ہے۔ دوران جدوجہد اس آسمان کے نیچے اور اس زمین پر سب سے زیادہ بھروسہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ تحریک کی کامیابی کے لئے اولین شرط کامیابی کا سو فیصد یقین اور اس کے لئے مسلسل جدوجہد ہے اور جدوجہد ایک منظم گروہ کے بغیر ممکن نہیں۔

عشق بڑھتا رہا سوئے دارو رسن زخم کھاتا ہوا مسکراتا ہوا
راستہ روکتے روکتے تھک گئے زندگی کے بدلتے ہوئے زاویے

جب تک مشن کی صداقت، قیادت کی امانت و اہلیت اور جدوجہد پر کامیابی کا پختہ یقین نہ ہو کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ تشکیک سے پاک غیر متزلزل یقین اور کامل وفاداری درکار ہوتی ہے۔ جس کارکن کو مشن کی حقانیت اور قیادت کی صلاحیت پر شرح صدر ہی حاصل نہ ہو وہ جوش و جذبے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا لہذا کوئی نمایاں کارنامہ بھی سرانجام نہ دے سکے گا، وہ ایک ناکارہ پرزہ کی مانند ہے، جو دوسرے پرزوں کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے، شکوک و شبہات کا شکار فرد وسوسوں میں گھرا رہتا ہے لہذا اس کی وفاداری بھی ناقص رہتی ہے، کسی وقت بھی قدم جادہ حق سے ہٹ سکتے ہیں۔ مشن کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کے لئے جانثاری درکار ہوتی ہے اور جانثاری وفاداری سے پیدا ہوتی ہے، جبکہ وفاداری کا سرچشمہ یقین کامل سے پھوٹتا ہے ورنہ ریاکاری ہی ریاکاری ہوگی اور مخالف ہوا کا ایک ہی جھونکا پاؤں کو ڈگمگا دے گا۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ تمام تر سختیاں برداشت کرکے بھی احد احد کا نعرہ لگاتے رہے۔ ۔ ۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے چند ساتھیوں کے ہمراہ باطل سے ٹکرا کر جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔ ۔ ۔ حالانکہ انجام معلوم تھا اسی لئے راستے ہی میں اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی تھی، یہ الگ بات ہے کوئی بھی آپ کا ساتھ چھوڑ کر واپس نہ گیا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوجاتا تھا؟۔ ۔ ۔ اس کے سوا اور کیا سبب ہوسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کو اسلام کی حقانیت، اللہ کے وعدوں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی سچائی پر اس قدر گہرا اور پختہ یقین تھا کہ ہر ظلم برداشت کرلیا، کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا، ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ ظالم اور جابر حکمرانوں سے ٹکرا کر تن، من، دھن، حتی کہ سب کچھ لٹا کر قربانیوں کی تاریخ میں نئے باب رقم کردیئے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

وہ اپنا سب کچھ لٹا دینا تقاضائے ایمان سمجھتے تھے۔ ایمان و یقین کا ایسا بلند درجہ نصیب ہوجائے تو منزل مقصود قریب آجاتی ہے۔ کسی مشن کو صدق دل سے قبول کرلینا اور بات ہے جبکہ ناموافق حالات میں بھی ثابت قدم رہنا بالکل دوسری بات ہے۔ استقامت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ورنہ کمزور یقین کے باعث ملازمت، کاروبار، گھر بار اور رشتہ داروں کی پریشانیاں اثر انداز ہوکر ڈانواں ڈول کردیتی ہیں، سفر کا آغاز تو نیک نیتی سے ہوا لیکن آگے چل کر مفادات پر زد پڑی تو جم نہ سکے، رکاوٹوں اور مصائب کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ پایا تو کم ہمتی اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔

کسی غیر معمولی کام کو سرانجام دینے کے لئے اس کے پیچھے کسی زبردست محرک کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ طبعی سستی اور غفلت آڑے آجائے گی۔ ذرا غور کریں کسی پیارے دوست سے دیر بعد ملاقات ہو، حج پر جانے کی تیاری ہو، کوئی خوشی یا غمی کا موقع ہو یا موت کا خوف طاری ہوجائے تو نیند اڑ جائے گی، ساری رات آنکھوں میں بسر ہوجاتی ہے۔ جس طرح درد و سوز، ہجر و وصال اور انتظار نیند کو کافور کردیتے ہیں اسی طرح تحریکی زندگی میں ثابت قدم رہنے کے لئے غیر معمولی محرک (Motive) مشن کی حقانیت کا پختہ یقین ہوتا ہے۔

یقین پیدا کر اے ناداں یقین سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے آگے جھکتی ہے فغفوری

تندی باد مخالف سے قدم انہی کے لڑ کھڑاتے ہیں جو یقین کامل کی دولت سے محروم ہوتے ہیں ورنہ اہل یقین تو سب کچھ لٹانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ آندھیاں اور طوفان نہ آئیں تو آزمائش کیسے ہوگی۔ ۔ ۔ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کا معیار کیا ہوگا۔ ۔ ۔ یہ کیسے پتہ چلے گا اپنے قول میں کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ ۔ ۔ ایسے ہی ناخوشگوار حالات ایمان و یقین کی پہچان کا معیار اور پختگی کردار کا باعث ہوتے ہیں۔

اصل چیز مشن ہے اور مشن کا تقاضا قیادت ہے تاکہ کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکے اس لئے مشن اور قیادت کو جدا نہیں کیا جاسکتا، دونوں لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں، قیادت پر اعتماد متزلزل ہوجائے تو مشن کا اعتبار بھی باقی نہیں رہتا، قیادت پر یقین، مشن پر یقین ہی کا دوسرا نام ہے جو جنونی کیفیات کوجنم دیتا ہے۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

یقین کی کمزوری سے وسوسہ اندازیان جنم لیتی ہے، کسی پالیسی یا معاملے سے اختلاف ہو تو تبادلہ خیال کرکے ذہن کو فوری طور پر صاف کرلینا چاہئے۔ بعض لوگ سامنے تو اظہار نہیں کرتے البتہ پیٹھ پیچھے چہ میگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ اختلاف بیان کرنے کا سب کو حق ہے لیکن سامنے بیان کرے، پشت پیچھے اظہار خیال کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن نے اس طرز عمل کو ’’نجویٰ‘‘ کہا، یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اس سے منع کردیا گیا کیونکہ اس سے یقین و اعتماد کے قلعے میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ بعض اوقات کوئی شخص کسی بات پر اختلاف کرتا ہے، اپنے موقف پر دلائل دیتا ہے لیکن ہاؤس کسی دوسری رائے پر متفق ہوجاتا ہے یا ادارے کی مختلف باڈیز کی اکثریت کوئی دوسرا موقف اختیار کرلیتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ شخص ناراض ہوجائے کہ میری بات نہیں مانی گئی، ہاؤس کے اندر جو اختلاف رائے ہو اسے کارکنوں کے سامنے نہ بیان کیا جائے کیونکہ اس طرح بد دلی پھیلے گی، قیادت منصوبہ بندی کرتی ہے، لڑنے والے صاحب جنون کارکن ہوتے ہیں، تشکیک سے جنون کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے لہذا اس کے سارے راستے بند کردینے چاہئیں۔

3۔ قوت کی فراہمی

غلبہ دین کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے حسب ضرورت وسائل اور قوت کی فراہمی بھی از بس ضروری ہے۔

ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

قوت کو صرف مادی وسائل میں ہی محصور نہ سمجھا جائے بلکہ ایمانی قوت اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کے سامنے بڑی بڑی طاقتیں سرنگوں ہوجاتی ہیں لہذا تجدید ایمان کی ایک شعوری تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایمان کا کمال یہ ہے کہ

جب وقت شہادت آتا ہے
دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

ایمان پختہ ہوجائے تو خوف باقی نہیں رہتا پھر انسان سمندر کی موجوں میں گھس جاتا ہے۔ ۔ ۔ آسماں کے برجوں سے جا ٹکراتا ہے۔ ۔ ۔ طاغوتی طاقتوں سے پنجہ آزمائی میں لطف محسوس کرتا ہے۔ آپس میں جُڑیں۔ ۔ ۔ نفاق کو قریب نہ پھٹکنے دیں کیونکہ تو برائے وصل کردن آمدی

اللہ نے منافقوں کو بھی یایھا الکافرون امنوا کے تحت رکھا ہے یا ایھاالکافرون نافقوا نہیں کہا۔ لہذا جملہ مکاتب فکر کے ساتھ مشترک امور کے ضمن میں اتحاد کی فضا پیدا کی جائے۔ ورنہ دشمن کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا کمزوری ناکامی کا سبب بن جاتی ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اس سفر میں جوش و جذبے کی بڑی اہمیت ہے۔ جذبے سرد پڑ جائیں تو قدم رک جاتے ہیں، وسائل کی کثرت بھی کام نہیں دیتی۔ کامیابی کے لئے قیادت، کارکن، وسائل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ان سب میں جو روح کار فرما ہوتی ہے وہ قوت طاقت ہوتی ہے۔

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد

اس ضمن میں کارکنوں کو تربیت دے کر ان کی سوچ، فکر اور عمل میں پختگی پیدا کردینا بہت اہم ہے کیونکہ تندی باد مخالف کا ایک جھونکا ریت کی دیوار کو اڑا کر لے جائے گا۔ مضبوط کردار کی حامل ایک جماعت تیار ہوجائے تو بڑی سے بڑی طاقت کے ساتھ بھی ٹکر لی جاسکتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی دیوار دیکھنا چاہتا ہے پھر

جوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن

خام ہے جب تک تو مٹی کااک انبار تو
اور پختہ ہو تو ہے شمشیر بے زنہار تو

کردار میں پختگی مصائب و آلام کی بھٹیوں سے گزر کر کندن بننے سے پیدا ہوتی ہے حدیث ہے کہ طاقتور مسلمان کمزور مسلمان پر فضیلت رکھتا ہے۔ طاقت جسمانی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی۔ سست، کاہل، لاغر اور نحیف رہنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔

اذاں مومن خدا کارے ندارد
کہ در تن جاں بیدارے ندارد

ایک ایسی قیادت مطلوب ہے جو شکست ناآشنا ہو، نالائق ہاتھوں میں تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ کارکنوں کی ایک ایسی جمعیت جو اپنا تن من دھن ہر وقت لٹادینے کے لئے تیار ہو اور اتنے وسائل کی فراہمی جو فتح تک ساتھ دے سکیں، کامیابی کے لوازمات ہیں لیکن حقیقی ایمان کی عدم موجودگی سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔

4۔ د عا مومن کا ہتھیا ر ہے

مانا کہ محض آرزؤں، تمناؤں اور دعاؤں سے حالات نہیں بدلا کرتے لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعا کی اہمیت ہی سے انکار کردیا جائے، آرزو عمل کا محرک بن سکتی ہے۔ یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ محض عمل کامیابی کی ضمانت نہیں اللہ کا فضل بھی درکار ہے۔ اپنے آپ کو فضل کا مستحق بنانے کے لئے اللہ سے درخواست ضروریک ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سراپا دعا تھے۔ معمولی سے معمولی کام سے لے کر مہتمم بالشان مہمات کے لئے آپ نے صرف وسائل پر بھروسہ نہیں کیا ہمیشہ گڑا گڑا کر کامیابی کی دعائیں بھی کیں۔ غزوہ بدر کی کامیابی میں خیمہ کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر سوز اور رقت آمیز دعا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایک انسانی جنبش اور ایک ایک حرکت کے لئے دعا سکھائی ہے۔ اللہ کے حضور ہمیشہ گڑ گڑاتے رہنا چاہئے چونکہ دعا ہی عبادت ہے لہذا نماز کو کسی حال میں ترک نہ کیا جائے مذہبی تاریخ میں قوموں کے زوال کا نکتہ آغاز نمازوں کا ضیاع ہے۔ دعا تو تقدیر کو بھی بدل ڈالتی ہے۔

5۔ جلد بازی سے اجتناب

عجلت ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ مکمل تیاری اور پختگی کے بعد اقدام کرنا چاہئے کیونکہ قبل از وقت تصادم سے پوری تحریک کچلی جاتی ہے۔ پر جوش کارکنوں کو اس ضمن میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی جگہ اشتعال کا ماحول پیدا کرکے تصادم کی صورت نکالی جاسکے اور اس طرح آغاز ہی میں تحریک کو کچلنے کا جواز فراہم ہوجائے۔ عارضی اسباب و ذرائع کی طرف توجہ نہ کی جائے ایک ہی جست میں منزل تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ کمزوری، خوف اور شکست خوردگی کو قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ صبر و تحمل سے سفر جاری رکھا جائے اور مرکزی قیادت کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے۔

اپنے آپ کو روحانی اور نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ عملی مشکلات کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رکھیں۔ رکاوٹیں ہی قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں۔ دشمن کو کمتر اور حقیر نہ سمجھا جائے بلکہ داخلی محاذ کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل کوشش جاری رکھی جائے۔ اس راہ کی آزمائشیں ہی ایمان کی مضبوطی اور انقلابی تربیت کا موثر ذریعہ ہیں۔ مرحلہ طویل اور صبر آزما بھی ہوسکتا ہے لیکن داخلی محاذ مضبوط ہوجائے تو خارجی حملوں کا منہ پھیرنا آسان ہوجاتا ہے۔

اک عمر چاہئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج ہی لذت سوز جگر کہاں؟