موجودہ نظامِ انتخابات کو مسترد کرنے کا اعلان

جنرل کونسل پاکستان عوامی تحریک سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل کا اجلاس مورخہ 25 نومبر تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں عام انتخابات 2008ء سے متعلق پارٹی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں تمام مرکزی، صوبائی، ڈویژنل، ضلعی اور تحصیلی سطح کے عہدیداران نے شرکت کی۔ نقابت کے فرائض محترم جی ایم ملک نے سرانجام دیئے۔

تحریک کے نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے جنرل کونسل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک سب سے زیادہ نیٹ ورک رکھنے والی جماعت ہے اور اس کا منہ بولتا ثبوت جنرل کونسل کا یہ اجلاس ہے جس میں صرف عہدیداران آئے ہیں۔ انہوں نے اجلاس کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے آئندہ آنے والے دنوں میں اپنی توانائیاں کس سمت خرچ کرنی ہیں؟ اور آئندہ دو ماہ کی سرگرمیوں بارے شرکاء کو آگاہ کیا۔

اجلاس سے محترم انوار اختر ایڈووکیٹ نے پارٹی پالیسی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک جمہوریت اور انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے لیکن موجودہ بدعنوان اور مہنگا نظام انتخاب جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ موجودہ نظام ملک وقوم کو حقیقی جمہوریت کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لیکر جا رہا ہے۔ موجودہ نظام انتخاب میں کامیابی کیلئے لیاقت، قابلیت، جذبہ، خدمت اور صلاحیت کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ سرمایہ و دولت، غنڈہ گردی، دھونس و دھاندلی اور سیاسی مفادات کیلئے ڈیل ہی کامیابی کی بنیادیں ہیں۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک بحیثیت جماعت جنرل الیکشن 2008ء میں اپنے امیدوار نامزد نہیں کرے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کسی انتخابی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی اور پاکستان عوامی تحریک نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں رائج کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی انتخابی نظام رائج کیا جائے۔

اس موقع پر انہوں نے متناسب نمائندگی کے نظام کا تعارف بھی کروایا۔ بعد ازاں انہوں نے جنرل کونسل میں عام انتخابات 2008ء کی پالیسی پر مبنی قرارداد پیش کی۔ جسکی جنرل کونسل نے منظوری دی۔

تحریک کے ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے جنرل کونسل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عوام چہرے بدلنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے نظام کی تبدیلی کے لئے پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دیں۔ پاکستان عوامی تحریک نظام کی تبدیلی کے لیے جمہوری اور پرامن انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ہماری منزل مصطفوی انقلاب، اقامتِ دین، غلبۂ دینِ حق کی بحالی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم کو سربلند کرنا ہے۔ اسی منزل کے حصول کے لئے تحریک کو برپا کیا گیا اور ہم اس کے حصول کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ تحریک اور PAT کے کارکنان کے لئے مصطفوی انقلاب کا نعرہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو حیثیت مسلمان کے لئے کلمہ طیبہ میں ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس راستے سے نہیں ہٹاسکتی۔ موجودہ نظام انتخاب قوم کے خلاف سازش ہے ہماری منزل انقلاب ہے، ہم کسی کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ ہمارے نزدیک موجودہ نظام انتخاب ملک و قوم سے کھلا دھوکا ہے۔ ہمارے کارکنان اس عمل میں پڑے بغیر اس طرح گزر جائیں جس طرح مرد مومن گناہ کے قریب سے گزر جاتا ہے اور اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو افتراق و انتشار سے بچانا ہے۔ ہمارے کارکنان آئندہ آنے والے دنوں میں دعوت و تربیت، CD ایکسچینج اور تنظیم سازی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

تحریک کی سپریم کونسل کے ممبر محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے جنرل کونسل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کی نجات اسی میں ہے کہ سستا اور شفاف نظام انتخاب اپنایا جائے۔ آج ملک میں سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین و اقلیتوں کی نشستوں کی حد تک جزوی طور پر اگرچہ متناسب نمائندگی کا بالواسطہ نظام بھی نافذ ہے لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لئے اور ملک و قوم کو شفاف نظام انتخاب عطا کرنے کے لئے ملک میں مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام انتخاب نافذ کیا جانا ضروری ہے۔ اس موقع پر صاحبزادہ صاحب نے روحانی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں ایمان کی معرفت حاصل ہوجائے، معرفتِ حق اور اس پر یقین کی دولت مل جائے، پابندی شریعت اور صحیح عقائد کے پیکر ہوجائیں، کوئی عمل سنت سے خالی نہ ہو، ہر عمل لوجہ اللہ ہو اور حلال رزق کھائیں اور اسی کے لئے کوشش کریں تو ہمارے تمام امور میں اخلاص کی نعمت آجائے گی۔

پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی چیئرمین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی ٹیلی فونک خطاب کیا۔

خطاب شیخ الاسلام

ملک کی موجودہ صورت حال، سیاسی حالات اور جنوری 2008ء میں ہونے والے تماشۂ انتخاب کے حوالے سے آپ احباب نے اس نظام انتخابات کو مسترد کرنے کا جو فیصلہ کیا میں آپ تمام احباب کے جذبات، اپنی سوچ، تجزیہ اور نتیجہ فکر کے پیش نظر آپ کے فیصلے کی توثیق کرتا ہوں اور اس فیصلے پر آپ کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست نام کی کوئی شے بچ گئی ہے نہ جمہوریت اور انتخابات کا کوئی حقیقی تصور موجود ہے۔ اب یہ الفاظ صرف باہر کی دنیا کو دکھانے اور بتانے کے لئے ہیں۔ پاکستانی سیاست کلیتاً سازش میں بدل گئی ہے۔ ۔ ۔ جمہوریت مکمل طور پر آمریت میں بدل گئی ہے اور انتخابات مکمل طور پر نامزدگی اور تقرریوں میں بدل گئے ہیں۔ یہ دل خوش کرنے کا کھیل ہے اور اس کھیل کے پیچھے بین الاقوامی نوعیت کے مقاصد ہیں اور باہر کی بیرونی طاغوتی طاقتیں اور ان کے عزائم ہیں۔ ان کی انجام دہی کے لئے ان کے ایجنٹ یہاں موجود ہیں اور وہ ان عملی مقاصد کو پورا کرنے، ان کا کھیل کھیلنے، ان کی جنگ لڑنے اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے رات دن مصروف عمل ہیں۔ اس میں شریک ہونے والے سارے لوگ پتلیاں ہیں، گویا یہ پتلیوں کا تماشہ ہے اور قوم کو اس کے ذریعے بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ قوم خود بھی بے وقوف بننے کی خواہش مند ہے۔ قوم کے اپنے اعمال بے حسی کا شکار ہیں۔ قوم کی اکثریت بے حمیت ہوچکی ہے اور اسے خیرو شر، اپنے پرائے اور حق و باطل کا شعور تک نہیں رہا۔ ان کے فیصلوں پر ان کے مفادات چھاگئے ہیں۔ قوم کی مفاد پرستانہ، خود غرضانہ سوچ اور منفی طرز فکرو عمل کے نتیجے میں حکمران طبقہ سیاسی چکروں کے ذریعے فائدہ اٹھاتا ہے۔ میری دانست میں ہونے والے انتخاب کے نام پر جو کھیل رچا رکھا ہے یہ تماشہ بیس پچیس سال کی تاریخ کے تمام انتخابی تماشوں سے بڑھ جائے گا، جتنے تماشے ہوئے ہیں وہ سارے تماشے اس تماشے سے ہار جائیں گے اور اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ ساری باہر کی طاغوتی، دجالی طاقتوں کے اشاروں، ان کی نشاندہی، ان کے حکم، ان کی منظوری بلکہ ان کے دیئے گئے پلان کے مطابق ہورہا ہے۔ باقی جو کچھ وہ بیانات جاری کرتے ہیں ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بیرونی طاقتوں نے اپنی پالیسی کو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔

ایک ان کی میڈیا پالیسی ہے جو صرف Face Saving کے لئے ہے۔ اس کا تعلق صرف بیانات جاری کرنے سے ہے۔ وہ باقاعدگی سے اپنے ریگولر بیانات جاری کرتے ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر نشر ہوں اور یہ صرف میڈیا پالیسی ہے ان بیانات کا قومی پالیسی اور قیادت کے فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ درپردہ فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہونگے پاکستان میں بھی یہ رائج ہے اکثر اوقات ٹی وی پر وزارت خارجہ کا ایک نمائندہ یا حکومت کا ایک نمائندہ بریفنگ دیتا ہے۔ اس موقع پر وہ بین الاقوامی معاملات، دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سرگرمیاں، سیاسی امور، عدلیہ اور جمہوریت وغیرہ پر جو کچھ بھی بیان دیتا ہے اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت جھوٹ بولا جارہا ہوتا ہے۔ اس موقع پر جو بات کی جارہی ہوتی ہے وہ صرف میڈیا کے لئے اور دکھانے کے لئے ہے۔ اصل فیصلے اور پالیسی کچھ اور ہوتی ہے۔ بدقسمتی کا عالم یہ ہے پوری دنیا میں یہ ایک ہی نظام رائج الوقت ہے، میڈیا کے لئے ایک قسم کا علیحدہ پیپر تیار ہوتا ہے، یہ صرف بیانات تک محدود ہوتا ہے اخبارات میں بھی یہی شائع ہوتا ہے۔ روزانہ لوگ اس کو پڑھتے ہیں اور بے وقوف بنتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں یہ امر ذہن نشین رہے کہ میڈیا کے لئے جاری کی جانے والی پالیسی کا کوئی تعلق حکومتی پالیسی اور حکومت کے اصل فیصلوں سے نہیں ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر یہ کہا جائے کہ 90 فیصد تا 95 فیصد حکومتی پالیسی سے ان بیانات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تو یہ بھی بے جانہ ہوگا۔

اسی طرح بین الاقوامی طاقتوں کے نمائندے حکومتی پالیسی جاری کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت بحال کی جائے۔ ۔ ۔ کبھی کہتے ہیں عدلیہ کو بحال کیا جائے۔ ۔ ۔ کبھی کہتے ہیں انتخابات جلد کروائے جائیں۔ ۔ ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں اقدام پر دکھ ہوا ہے۔ ۔ ۔ کبھی کہتے ہیں جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے ہمیں اس پر افسوس ہوا ہے۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ محض بیانات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایمرجنسی کی وجہ سے دولت مشترکہ کی رکنیت سے پاکستان کو محروم کردیا گیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دولت مشترکہ ایک کلب کی مانند ہے یہ کلب صرف گپ شپ لگانے اور کھانے پینے کے لئے ہے۔ دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) کے جس اجلاس میں پاکستان کی رکنیت خارج کی گئی ہے اس کا اجلاس یوگنڈا جیسے پسماندہ ملک میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے لئے کسی معقول ملک نے اجازت بھی نہیں دی۔ وہاں جاکے اجلاس بلانے اور فیصلہ سنانے کا مقصد کیا ہے؟ اس فیصلے کی حقیقت، اس فیصلے کی قوت اور اس کی سنجیدگی کچھ بھی نہیں۔ ایسے کلب کے فیصلے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی نہ اس کا کوئی نفع ہے اور نہ نقصان ہے۔ ایسے فیصلے حقیقی فیصلے نہیں ہوتے۔ حقیقی فیصلہ اس ملک میں ہوتا ہے جو مؤثر ملک ہیں جن کا دنیا کے اندر کوئی واضح مقام ہے۔ اس کلب میں وہ کسی اور مقام پر اپنی پالیسی علیحدہ دیتے ہیں، پھر ان کی تائید ہوتی ہے، یہ ساری کاروائی دنیا کو بتانے دکھانے کے لئے ہوتی ہے اصل فیصلے اور اصل پالیسی درپردہ چل رہے ہوتے ہیں جو نہ کسی اخبار میں آتے ہیں اور نہ کسی بیان میں آتے ہیں، نہ کسی ٹی وی پر اور نہ میڈیا پر۔

لہذا یاد رکھ لیں یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ چھوٹی حکومتیں، غلام حکومتیں اور باہر کی سامراجی طاقتوں کی نمائندہ حکومتیں جو کچھ بھی کررہی ہیں، یہ سارا ایک ملی بھگت اور باہمی مشاورت اور بین الاقوامی حکومتوں کے فیصلے کے مطابق ہورہا ہوتا ہے اور عوام سمجھ رہے ہیں کہ انہیں حق دیا جارہا ہے۔ انتخابات کا اعلان ہوجاتا ہے، وہ بے وقوف بن کے اس اعلان کے مطابق بھاگ دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔

اب ملکی صورت کی طرف آیئے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا اور یہ سب سپریم کورٹ کو کلیتاً ختم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ جب ملک میں آزاد عدلیہ نہیں رہے گی، آزاد جج نہیں رہیں گے تو جواب طلبی کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ اگر ان بڑے ملکوں سے پوچھا جائے کہ جو کچھ اس ملک میں عدلیہ کے ساتھ ہوا کیا آپ اپنے ملک میں برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا آپ اپنے ملک میں ایسا کرنے پر تیار ہیں؟ اس پر ان کاجواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا پھر وہ یہ کہیں گے کہ ہمارا ملک ایڈوانس ڈیموکریٹک ہے جبکہ پاکستان میں ابھی جمہوریت پنپ رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کو قائم ہوئے ساٹھ سال ہوگئے کیا ابھی تک یہاں جمہوریت پنپ رہی ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کئی بار پنپی ہے پھر دب گئی۔ ۔ ۔ پھر پنپ گئی پھر دب گئی۔ ۔ ۔ جب پنپ جاتی ہے، جب اس میں آزادی آنے لگتی ہے۔ ۔ ۔ غلط کو غلط کہنے کی طاقت اس میں آنے لگتی ہے۔ ۔ ۔ درست کو درست کہتی ہے۔ ۔ ۔ غلط پر گرفت کرتی ہے۔ ۔ ۔ نوٹس لیتی ہے تو اس وقت اس کو دبا دیا جاتا ہے۔

آج عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین جنگ ہے۔ بعض کہتے ہیں ان میں موافقت پیدا کرنا چاہتے ہیں، موافقت پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو انتظامیہ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور آزادیاں سلب کرنا چاہتے ہیں۔ ریٹائر لوگوں کو نگران حکومت میں لگادیا گیا۔ وکیلوں کو جج بنادیا گیا۔ گویا جج انتظامیہ کا ملازم ہوگیا، اسی طرح سیاست دان بھی ملازم ہوگئے۔ انتظامیہ بھی ملازم ہے سارا کچھ متضاد ہوگیا۔ اب جو الیکشن کروائے جائیں گے اس میں جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کی اپیل نہ ہوسکے گی۔ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے صحیح ہے۔ الیکشن میں جو کچھ ہوا اس میں کوئی اپیل نہ ہوسکے، میڈیا پر پابندی لگانے کا مطلب یہ تھا جو کچھ ہو اسے کوئی منظر عام پر نہ لاسکے، تنقید نہ کرسکے، اگر کوئی اپیل کرنا چاہے تو اپیلوں کی جگہ بھی ان کے کنٹرول میں ہو، کسی کی شنوائی نہ ہوسکے، اپیل خارج ہوتی جائے کیونکہ وہ سارے ان کے موافق ہوچکے ہیں، ایمان لاچکے ہیں، فرمانبردار ہوگئے ہیں، اطاعت گذار ہوگئے ہیں، ان کی تابعداری اور اتباع میں آچکے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ جن کو 8 سال تک نہیں آنے دیا گیا اب خود مذاکرات کرکے بلالیا، آج ان کو بلانے کا مقصد کیا ہے؟ جن کے خلاف آٹھ سال تک کہا جاتا رہا کہ نہیں آنے دیا جائے گا۔ کل جن کو ائیر پورٹ سے دھکے دے کر نکالا اب مذاکرات کرکے ان کو بلالیا گیا ہے۔ مذہبی، سیاسی جماعتوں کو بھی امید لگا دی کہ انہیں بھی حصہ ملے گا۔

یہ سب کیا ہے؟ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ کرنے کے صرف دو مقاصد ہیں۔

1۔ آنے والے الیکشن میں ساری ٹیمیں اور ساری جماعتیں شریک ہوجائیں جب اس میں ساری جماعتیں شریک ہوں، ساری دنیا دیکھے اور اس الیکشن کو جنرل الیکشن کی مہر لگ جائے گی کہ ساری اپوزیشن جماعتیں اس الیکشن میں شریک ہورہی ہیں۔ نتیجتاً دنیا اس الیکشن کو قبول کرلے گی۔ پس ان ساروں کو بلاکر اکھاڑے میں اتارا جارہا ہے۔ فیصلہ ہر حال میں ریفری نے کرنا ہے کہ کس کی کامیابی کا اعلان کرے اور کس کی ناکامی کا اعلان کرے۔ یہ محض کاروائی ہوگی فیصلہ ریفری کرتا ہے اس کے پاس سیٹی ہے۔ یہ تو تمام کو اکھاڑے میں اتروا کر اپنے الیکشن کی پوری دنیا سے تصدیق کروانا چاہتے ہیں کہ ساری پارٹیوں نے چونکہ حصہ لیا لہذا الیکشن درست ہوئے ہیں۔

2۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ آئندہ اسمبلی میں کسی کو بھی واضح اکثریت حاصل نہ ہو تاکہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے، جو زیادہ مضبوط نہ ہو۔ اسے ہر وقت ٹوٹنے کا خطرہ لاحق رہے جو حکومت بنے وہ بھی صدر صاحب کی رضا مندی اور خوشنودی کی محتاج ہو۔ الغرض اس الیکشن کے نتیجے میں گذشتہ 2002ء سے بھی زیادہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی تاکہ ان ممبران کو آپس میں خوب لڑوایا جائے۔ یہ کاروائی بھی ہوجائے گی جس کے ساتھ زیادتی ہوگی وہ سوائے رونے پیٹنے کے اور کچھ نہیں کرسکے گا، رونے پیٹنے کے قابل بھی نہیں ہوگا، سپریم کورٹ میں جائے اب تو سپریم کورٹ رہی ہی نہیں ختم کردی۔ لہذا کیس کی شنوائی نہیں ہوگی، پارلیمنٹ کو دنیا مان چکی ہوگی، الیکشن پر حقیقی ہونے کی مہر ثبت ہوچکی ہوگی، پارٹیاں انتخاب میں حصہ لے چکی ہوں گی، ان کے چہرے پر حصہ لینے کی وجہ سے سیاہی ملی جاچکی ہوگی، الیکشن بائیکاٹ کی دھمکیاں صرف باتوں تک ہیں۔ کسی کا الائنس نہ بن سکے گا، کسی نے نہیں ملایا یا مل نہیں سکا، اپنے آپ کو ننگا کریں یا نہ کریں جن کی یہ حالت رہ جائے گی شاید وہ حصہ نہ لیں، بقایا سب حصہ لیں گے جن کو پتہ ہے دو، چار، پانچ، آٹھ، دس، پندرہ، بیس، پچاس، ستر سیٹیں مل جائیں گی وہ حصہ لیں گے، سب کے ساتھ حصہ دلایا جائے گا کیونکہ ہر ایک کے ساتھ طاقتور لوگ مذاکرات کررہے ہیں، ہر ایک کو امید دے رہے ہیں، ہر کوئی امید میں ہے، ہر کوئی امید کے ساتھ بیٹھا ہے۔ جب منتخب ہوکر اسمبلی میں آجائیں گے تو غلط بھی نہیں کہہ سکتے، الیکشن کا انکار بھی نہیں کرسکتے اور دنیا بھی توثیق کرچکی ہوگی۔ اب طاقتور لوگ اپنی وردی کے ساتھ یا بغیر وردی کے مذاکرات کریں گے پھر نئی گروہ بندی ہوگی، نئی منصوبہ بندی ہوگی، حکومت میں کس کو لینا ہے، پھر حکومت کی معجون تیار کی جائے گی کس کو لینا ہے کس کو نہیں لینا۔

سرحد اور بلوچستان کے حالات کے پیش نظر ان طاقتوں کے لئے مذہبی جماعتوں میں سے کسی ایک کو ساتھ رکھنا مجبوری ہے تاکہ یہ لوگ قبائلی علاقوں میں موجود افراد کے ساتھ مذاکرات کرتے رہیں اور ان کی پارٹی میں دخل اندازی جاری رہے۔ پنجاب، سندھ کے لئے مذہبی جماعتیں درکار نہیں۔ یہاں وڈیرہ شاہی ہی کار آمد ہے۔ سرحد اور بلوچستان کے لئے ایک مضبوط مذہبی دھڑا چاہئے تاکہ ہمارے تعلقات افغانستان کے ساتھ اور علاقائی لوگوں کے ساتھ رہ سکیں۔

الغرض قومی اسمبلی کو معلق بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کو بھی معلق رکھا جائے گا اور پارلیمنٹ میں اس طرح کی فضا کردی جائے گی کہ ہر جماعت اور ہر الائنس اپنی حیثیت میںکمزور ہو اور مجموعی طور پر حکومت بھی کمزور ہو، بنانا چاہیں تب بھی ان کے اختیار میں ہے، گرانا چاہیں تب بھی ان کے اختیار میں ہے کوئی چیخ و پکار کرے گا اس کی شنوائی نہیں ہوگی۔

اس ساری صورت حال کو جان لینے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اب بھی اس الیکشن کو الیکشن سمجھتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے 1۔ جو سمجھتا ہے کہ یہ الیکشن ہیں اس میں ضرور حصہ لینا چاہئے یا تو سیاست ان کا جینا مرنا ہے، سیاست ان کا کھیل تماشہ ہے، سیاست ان کا کاروبار ہے، سیاست ان کی تجارت ہے، ان کی سرمایہ کاری ہے، اسی سے انہوں نے کمانا ہے، اسی سے انہوں نے کھانا ہے، اسی سے انہوں نے خرچہ کرنا ہے، اسی سے انہوں نے الیکشن لڑنا ہے، ان کا سب کچھ یہی ہے۔ کھانا پینا بھی یہ ہے، کاروبار بھی یہی ہے، روزگار بھی یہ ہے، یہ زندگی موت ہے، وہ اس سے باہر رہ ہی نہیں سکتے۔ ان کوپتہ ہے کہ اب سیاست ملک میں نہیں ہے۔ صرف ایک اسمبلی رہ گئی۔ یہ اسمبلی اصل میں Assembled ہے جو مختلف سمتوں سے Assembled کئے گئے پرزوں (ممبران) سے بنی ہوگی۔ ان احباب کا نہ کوئی عمل ہوتا ہے، نہ کردار ہے، نہ عوامی مقاصد اور نہ ملک کی سالمیت پیش نظر ہے۔ کیونکہ پروفیشنل ہیں وہ کہتے ہیں ہم تو سیاسی پرزے ہیں کوئی بھی جوڑ لے ہمارا کام تو چل پڑنا ہے۔ اس لئے انہی کو الیکشن لڑنا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے۔ سلیکشن نہیں بلکہ Appointment ہے۔ اس میں کسی کو مغالطہ نہیں ہے کہ یہ کوئی حقیقی الیکشن ہے سب کو پتہ ہے، میڈیا کو بھی پتہ ہے، دنیا کو پتہ ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے۔ لیکن حصہ لینے والے پرزے ہیں، وہ باہر رہ ہی نہیں سکتے وہ کہتے ہیں وہ پرزہ بیکار ہے جو کسی گاڑی میں فٹ نہ ہو، کسی مشین میں فٹ نہ ہو، ہم تو پرزے ہیں ہمیں تو فٹ ہونا چاہئے۔

دوسرا طبقہ جو اس کو الیکشن کہتا ہے وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے کہ اتنا کچھ دیکھ کر اب بھی سلیکشن کو الیکشن سمجھتا ہے۔ پس دو ہی طبقے ہیں جو اس کو الیکشن سمجھیں گے یا وہ لوگ جن کا کاروبار، جینا مرنا، سارا کچھ الیکشن ہے، ان کی غرض فقط فٹ ہونا ہے۔ دوسرے وہ جو غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ کسی ایماندار آدمی، کسی دیانت دار آدمی، باکردار آدمی، باکردار طبقے کا ان الیکشن میں حصہ لینا ممکن نہیں۔ جو اس ملک کے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں قوم کو کچھ دینا چاہتے ہیں، غریبوں کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں وہ تمام تحریک منہاج القرآن اور PAT کا حصہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تحریک میں ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے شامل ہوئے کھیل تماشے کے لئے نہیں، ذلت و رسوائی کے لئے نہیں، اس لئے شامل ہوئے کہ اچھے کام کریں، ملک مستحکم ہو، مقاصد پورے ہوں، قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہوں، معاشرہ پاکیزہ ہو، اصل جمہوریت بحال ہو، صحیح اسلامی نمائندگی کا تصور ہو، اسلامی اور عوامی حکومت قائم ہو، سب غریبوں کا ان کو حق ملے۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مفاد پرستوں اور ظالم لٹیرے لوگوں کا خاتمہ ہو، مفادات کا تحفظ نہ ہو۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ دھونس اور دھاندلی کا نظام ختم ہو، جو لوگ سمجھتے ہیں کرپٹ مفاد پرست لوگ اوپر نہ آئیں، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں فرقہ واریت ختم ہو۔ ہماری تحریک فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتی ہے، اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ہم اس ملک سے لٹیرا ازم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس ملک کو فحاشی عریانی سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔

حق کو بروئے کار لانے کے لئے دنیا میں صرف ایک تحریک ہے جو صرف تحریک منہاج القرآن ہے۔ دنیا میں ہر برائی کے خلاف جنگ لڑنے والی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے والی، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی، دنیا میں امن کو پسند کرنے والی، امن کا معاشرہ دینے والی، اقلیتوں کو حقوق دلانے والی، دنیا میں محبت کا پیغام پھیلانا، نیکی کو لانا یہ مقاصد صرف اور صرف تحریک منہاج القرآن، عوامی تحریک کے ہیں۔ دوسرے لوگ ان الفاظ کو محض نعروں کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ دہشت گردی ختم ہو انتہا پسندی ختم ہو، تنگ نظری ختم ہو، امن ہو امان ہو، برداشت کا معاشرہ ہو تو اس کے لئے صرف اور صرف تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک ہے۔

اب لیڈر تو شرم کے مارے کرپشن کے خاتمے کا نام بھی نہیں لیتے، کیوں نام لیں، انہوں نے کرپشن کو اپنے اندر ضم کرلیا ہے۔ اگر کرپشن کا مقابلہ ہو تو یہ پتہ کرنا ہوگا کون بڑا کرپٹ ہے۔ سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ ان الیکشنوں کا نتیجہ کمزور حکومتوں کی تشکیل ہے۔ سیاسی نظام میں ہمیشہ عدم استحکام کو قائم رکھنا ان کا مقصد ہے، اس لئے ان انتخابات کا عمل ہورہا ہے۔ عوام کا کوئی دخل نہیں، الیکشن میں ووٹ ڈالے جائیں گے، لوگوں کو گھروں سے نکالیں گے، لوگ نکلیں گے، ووٹ گنے جائیں گے، یہ فیصلہ نہیں ہوتا، فیصلہ اوپر سے ہوتا ہے، بیلٹ نے کوئی فیصلہ نہیں کرنا، فیصلہ اوپر والوں نے کرنا ہے۔

ہم نے بہت پہلے متناسب نمائندگی کا نظام گھنٹوں پر محیط نشستوں میں صدر مملکت کو دے دیا تھا اور صدر مملکت کو بتادیا تھا کہ اگر ملک میں صحیح جمہوریت چاہتے ہیں تو وہ متناسب نمائندگی کے نظام کے بغیر نہیں آئے گی۔ جج حضرات کو بتادیا تھا، جنرل حضرات کو بتادیا تھا، لکھ کر دے دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو بتادیا تھا، لیکن امر واقعہ یہ ہے جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں لوگ مغالطے کا شکار ہیں، خوش فہمیاں ہیں، لوگ جانتے نہیں بین الاقوامی طاغوتی طاقتیں پاکستان جیسے اسلامی ملکوں میں جہاں اسلام کی غیرت و حمیت ہے وہاں وہ ہر گز ہر گز جمہوریت نہیں چاہتے، وہ صرف جمہوریت کا نام چاہتے ہیں کہ کاروائی الیکشن کی ہوتی رہے اور جمہوریت کا نام رہے۔ وہ جمہوریت ہمارے ملکوں میں چاہتے ہی نہیں ہیں۔ وہ ہمارے ملکوں میں استحکام نہیں چاہتے، وہ ہمارے ملکوں میں جمہوریت کے نظام کو مستحکم ہونا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے اور مقاصد ہیں وہ ان ملکوں کو اپنی کالونی کے طور پر لینا چاہتے ہیں، اپنی پالیسی کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں۔ انہیں تو ایسی اسمبلیاں ایسی گورنمنٹ چاہئے جو ان کی نمائندگی کرے، ان کے نوکر ان کے غلام ہوں۔

ایک اور بات ذہن میں رکھ لیں۔ ہم نے 13 سال اس قوم کا بھرپور سیاسی طور جائزہ لیا ہے اور شعور کی بیداری کا عمل اب بھی جاری ہے شعوری طور پر تو کوششیں جاری ہیں۔ بدلنے کا عمل جاری ہے، اپنی منزل کی طرف ہم تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ 13 سال کوشش کی ہے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ اس خطوط پر اس طریق پر جب نتائج پیدا نہیں ہوئے تو ہم نے قربانیاں اور توانائیاں ضائع کرنے، اپنے وسائل ضائع کرنے، افرادی قوت ضائع کرنے، اپنی سوچ کو تقسیم کرنے اور انتشار کا شکار ہونے کی بجائے تحریک کو ایک سمت مصطفوی انقلاب پر لگادیا ہے۔ اتنا کردیا ہے کہ ہماری طبیعتوں میں اتمام حجت ہوچکا ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم کھا کے کہہ رہا ہوں کوئی بوجھ نہیں رہا۔ 13 سالہ سیاسی جدوجہد میں اتنی محنت کی ہے کہ پچاس سال میں کسی لیڈر نے اتنی جان نہیں لڑائی ہوگی برصغیر کی تاریخ پاک و ہند میں اگر انقلابی جدوجہد کو دیکھیں تو قائداعظم کی کوششیں دیکھیں اس وقت کی مسلم لیگ کی محنت دیکھیں، ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش دیکھیں (ان کے مقاصد کیا تھے اس پر بحث نہیں ہے) ان کے بعد ہماری انفرادی کوشش جو میں نے آپ کے سامنے کی ہے یا اس سے قبل کی ہے 27 برس کی ہے اس کوشش کو اگر تاریخ کے پیمانے میں رکھا جائے، ایماندار مؤرخ اگر تجزیہ کرے تو میں اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتا وہ ایماندار مورخ فیصلہ کرے گا۔ الغرض ہم نے اتمام حجت کردیا۔ سنت انبیاء کو پورا کردیا۔

آقا علیہ السلام نے مکہ کی قوم پر 13 سال محنت کی کہ وہاں اسلامی ریاست وجود میں آجائے، اسلامی اسٹیٹ وجود میں آجائے تو 13 برس بعد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ارادہ تبدیل فرمالیا، مدینہ تشریف لے گئے، حالات سازگار نہیں تو آپ نے مکہ چھوڑ دیا، تو اسی بدلنے کے عملہ کو ہجرت کہتے ہیں اور نئی جگہ منتخب کی، مدینہ آگئے، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور ایک وقت تک حکمت کے تحت جنگی حکمت عملی کو موخر کردیا، الائنس بنائے یہاں تک کہ ایک عظیم سلطنت مدینہ طیبہ قائم ہوگئی اور آٹھ سال بعد مکہ فتح ہوا اور پھر بڑھتے بڑھتے پورا عالم اسلام بن گیا۔

ہم نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں 13 سال محنت کی، اس کے بعد ہم نے اپنی جدوجہد کا رخ بدل کر صرف تحریک کی دعوتی، علمی، فکری اور تنظیمی جہتوں کی طرف کرلیا ہے۔ نظریاتی ہجرت کی ہے، عملی ہجرت کی ہے کیونکہ مشن مصطفوی مشن ہے اس لئے اسوہ بھی مصطفوی ہوگا۔ 1989ء تا 2002ء تیرہ سال کی کوشش کے بعد تحریکی ہجرت کی ہے یعنی عملی ہجرت کی ہے اب میدان کو چینج کردیا ہے۔ جملہ انبیاء کرام نے حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل فرمائی اور ہجرتیں کیں۔

الف سے ی تک سارے نتائج دیکھ کر فیصلہ کیا۔

ہمارے بعض دوست سیاسی گہما گہمی دیکھ کر پھر مچلنے لگتے ہیں۔ یہ نفس انسان کو چسکے دلاتا ہے، بار بار چسکے دلاتا ہے، بار بار ذلیل و خوار کرتا ہے، کودنے کا شوق دلاتا ہے، فلاں کود پڑا میں بھی کود پڑوں، صرف اس لئے کہ نفس انسان کو ذلیل کروانا چاہتا ہے۔ لہذا آپ اپنے اجتماعی نفس کی عزت کو بحال رکھیں، جب سے آپ نے مروجہ سیاست کو ٹھوکر ماری ہے۔ دنیا میں آپ کی عزت بڑھی ہے۔ آپ نے تحریکی ہجرت کی، انقلاب ہمیشہ ہجرت کے بعد آئے ہیں۔ نظام ہجرت کے بعد بدلے ہیں، مقاصد اور نظام ہجرت کے بعد کامیاب ہوئے ہیں۔ منزل ہجرت کے بعد ملی۔ جب سے آپ نے تحریکی ہجرت کی دعوت و تنظیم میں فروغ ہوا ہے۔ نتائج تیزی سے حاصل ہورہے ہیں۔ مشن کی عزت آسمانوں تک بڑھتی جارہی ہے۔ فوج در فوج لوگ آپ میں شامل ہورہے ہیں۔ آپ کا وقار بے حد بڑھا ہے، میلاد پاک کا پروگرام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عرفان القرآن کے درس قرآن کے حلقے تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، الغرض لوگ آپ کی طرف بڑھتے جارہے ہیں، رغبتیں بڑھ رہی ہیں، چاہتیں بڑھ رہی ہیں آپ عددی قوت میں بڑھ رہے ہیں آپ کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ آپ منزل کے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ جب آپ منزل کے قریب سے قریب ہوتے جارہے ہیں، آپ کی دشمنیاں ختم ہورہی ہیں، رکاوٹیں ختم ہورہی ہیں، انتشار افتراق ختم ہورہا ہے، آپ کے اندر یکجہتی آرہی ہے۔ جس عمل سے برکت نصیب ہوئی ہو ایسا کام بالکل نہیں کرتے جس سے برکت اٹھ جائے لہذا میری تاکید ہے کہ انہی خطوط پر چلتے ہوئے تحریکی نظم کی پابندی کریں، اصلاح احوال کے لئے دیئے گئے نظام العمل کی پابندی کریں، شریعت کی پابندی کریں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم صرف الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ ہم اس نظام سیاست کو ہی مسترد کررہے ہیں۔ ہم اس نظام کو جمہوریت کے لائق ہی نہیں سمجھتے، بحالی جمہوریت کے لائق نہیں سمجھتے۔ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ہم پر امن طریقہ، تعلیم اور بیداری شعور کے طریقے سے امن بحال کریں گے اور انتہا پسندی کے خلاف شعور بیدار کریں گے۔ ہم شعوری سطح پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ تعلیم کے فرنٹ اور شعور کے فرنٹ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ پوری دنیا مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور یہ جنگ میں ناکام ہوچکے ہیں اور ناکام ہونگے اور ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہونگے، ہماری کاوشوں سے انشاء اللہ دہشت گردی ختم ہوگی۔

اپنی توجہات، کوششیں، تنظیم سازی، رکن سازی، اعتکاف مہم اور میلاد مہم پر صرف کریں۔ جس راستے پر آپ چل رہے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ آپ منزل کے قریب ہوتے جارہے ہیں، یہی راستہ آپ کو منزل تک لے جائے گا۔

ہر ورکر محنت کرے ان شاء اللہ منزل آپ کے قدم چومے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کا حامی وناصر ہو۔ آپ کی مدد فرمائے، منزل مقصود تک پہنچائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کا صدقہ ابدلآباد تک آپ کو کامیاب و کامران کرے۔ ان شاء اللہ آپ کا قافلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام کے قافلے کے ساتھ ہوگا جس میں حق و باطل کی آخری جنگ ہوگی۔ آپ اس کے ہر اول دستہ ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی ہی عظیم نسلیں آئندہ اسلامی انقلابی قافلہ کا حصہ ہیں۔ آپ مصطفوی اور عیسوی قافلے کا حصہ ہیں۔ آپ مصطفوی اور عیسوی کام کے لحاظ سے اس قافلہ کا حصہ ہیں۔ آپ کو وہ کام کرنا چاہئے جو اس قافلے کی شان کے مطابق ہے۔ دجالی اور طاغوتی قوتوں کے خلاف آپ نے جنگ لڑنی ہے اور طاغوت کے جال میں پھنسنے سے ہمیشہ بچیں۔ یہ دجال کے پھیلائے ہوئے جال ہیں ان میں نہ پھنسیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مدد و نصرت عطا فرمائے۔ اے اللہ ان کی مدد و نصرت فرما، کارکنوں کے جذبوں کو اور زیادہ بڑھا۔ ان کے ارادوں میں پختگی عطا فرما۔ استقامت عطا فرما۔ کامیابی و کامرانی عطا فرما۔ اللہ آپ کو شاد باد رکھے، مرکز کو آباد رکھے، آپ سب لوگ سلامت رہیں، آپ کو ان شاء اللہ بڑی خوشخبریاں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملیں گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین کی خیرات ہمیشہ نصیب ہوتی رہے اور اللہ تعالیٰ کو بڑی نعمتوں اور خوشخبریوں کا حق دار ٹھہرائے۔