ریاض حسین چودھری

افلاک کی ہیں وسعتیں آنگن حضور (ص) کا مرکز نگاہ کا ہے نشیمن حضور (ص) کا محشر کا دن ہے، رہنا مرے دوست مطمئن برسے گا آج بھی یہاں ساون حضور (ص) کا نقشِ قدوم ڈھونڈتی ہے اس لئے دھنک ہر حسنِ کائنات ہے دھوون حضور (ص) کا شاہد، خلا نورد بھی ہیں آسمان پر ہر نقشِ پا ہے آج بھی روشن حضور (ص) کا کرنوں کے پھول چومتے رہتے تھے نقش پا اک عہدِ بے مثال تھا بچپن حضور (ص) کا خیرالبشر (ص) کی نعتِ مقدس کے فیض سے میرا بھی دل ہے دامن و مسکن حضور (ص) کا خوشبو کی بھیک مانگ، عروسِ شبِ بہار بہکا ہوا ازل سے ہے گلشن حضور (ص) کا ہر وقت آرہی ہیں کرم کی سفارتیں ہر وقت ہے کھلا ہوا روزن حضور (ص) کا جگنو تلاش کرنے کا کچھ فائدہ نہیں روشن افق افق پہ ہے درپن حضور (ص) کا الحاد و کفر و شرک کے گردو غبار میں صد شکر ہاتھ میں رہا دامن حضور (ص) کا آیات جس کی حکمت و دانش کی سلسبیل وہ آخری کتاب ہے مخزن حضور (ص) کا آقا (ص) ہمارے نورِ مجسم ہیں، ہر طرف خالق کے بعد صرف ہے چانن حضور (ص) کا یارب! حصارِ رحمتِ آقا (ص) میں رکھ مجھے سرچشمۂ حیات ہے بندھن حضور (ص) کا پابند جس کے حکم کی ہر چیز ہے ریاض اس نے کیا نصاب مدّون حضور (ص) کا