القرآن : تعلیمات تصوف و طریقت اور اصلاح احوال

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

امام سلمی کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی، تربیتی اور روحانی خطاب

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

اعتکاف 2007ء کی دوسری نشست میں شیخ الاسلام نے امام ابوعبدالرحمن محمد بن حسین السلمی کی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روحانی اور تربیتی خصوصی گفتگو کی۔ جسے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔

أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO

(یونس، 10 : 62)

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘

اولیاء اللہ میں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کا مکمل نام ابوالفیض ثوبان بن ابراہیم ہے اور بعض احباب نے ان کا نام فیض بن ابراہیم الذنون المصری لکھا ہے۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ صرف طبقہ اولیاء و صوفیاء میں سے ہی نہ تھے بلکہ قرون اولیٰ کے تمام اکابر اولیاء اور ائمہ تصوف و ولایت کی طرح آپ جلیل القدر محدث، صاحب اسانید متصلہ اور علم میں حجت تھے۔ آپ نے کثیر ائمہ سے علم حدیث حاصل کیا۔ ان ائمہ میں امام مالک، امام لیث بن سعد، امام سفیان بن عیینہ، امام فضیل بن عیاض، امام ابن لحیہ رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر ائمہ حدیث شامل ہیں جو اپنے اپنے دور میں حجت تھے اور جن سے امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام ترمذی رحمہم اللہ تعالیٰ سمیت کل آئمہ حدیث اپنی اسناد لیتے ہیں۔ بعد ازاں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے اکابر ائمہ اور اجل علماء نے علوم حاصل کئے۔ اس سے ان کا حدیث، فقہ اور علوم شریعت میں مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کی حالات زندگی کو سب سے پہلے روایت کرنے والے امام الحافظ دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ (جلیل القدر امام حدیث/ صاحب سنن دار قطنی) فرماتے ہیں کہ میں نے امام حسین بن احمد بن الماذرائی سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں نے امام علی ابوعمر الکندی کی کتاب ’’اعیان الموالی‘‘ میں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات پڑھے۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ آپ کو اس بات کا اندازہ ہو کہ امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم امام حدیث اپنی سند کے ساتھ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

امام ابن جلاح رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو امام ابن الجوزی صفۃ الصفواء میں نقل کیا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں 600 اکابر ائمہ و شیوخ سے ملاقات کی اور ان سے سماع کیا مگر ان میں سے 4 امام ایسے پائے کہ ان کی مثل کوئی دنیا میں نہ تھا اور ان چاروں میں ایک حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔

آیئے! امام سلمی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی احادیث مبارکہ اور ان کے اقوال سے اپنی علمی و روحانی تربیت کا سامان کرتے ہیں :

دنیا، مومن و کافر کے نزدیک

٭ حضرت ذوالنون مصری حضرت امام لیث بن سعد (اہل مصر کے فقہ کے امام تھے) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے حضرت نافع (حدیث میں اہل مدینہ کے امام، امام مالک کی جو سند حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تک جاتی ہے اس میں سب سے معتبر سند وہ ہے جو حضرت نافع کے طریق سے ہے) سے روایت کیا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلدُّنْيا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْکَافِرِ.

’’یہ دنیا مرد مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے‘‘۔

مراد یہ ہے کہ مومنوں کی راحت اس دنیا میں نہیں رکھی گئی بلکہ کافروں کی راحت کی جگہ دنیا ہے۔ مومنوں کی راحت کی جگہ آخرت ہے۔ یہاں مومنوں کو راحت بقدر ضرورت دی گئی ہے جبکہ کافروں کو راحت زائد از ضرورت دی گئی ہے اس لئے کہ مومن کا نصیب آخرت میں زیادہ ہے اور کافر کا نصیب آخرت میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں اور کافروں دونوں کا رب ہے، وہ ناانصافی کسی سے نہیں کرتا، جو آخرت کے حصے کا اہل نہیں بن سکا اس کو زیادہ حصہ یہاں (دنیا) دے دیتا ہے اور جو آخرت کے حصے کا اہل بن گیا ہے اس کو آخرت میں بے حساب اجر دینے والا ہے جبکہ دنیا میں ضرورت کے مطابق دے دیتا ہے۔

یہ حدیث اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ مومن دنیا کی زندگی صبر و شکر کے ساتھ بسر کرے اس لئے کہ موت کے بعد اس کے لئے بڑی راحت کی دنیا آنے والی ہے۔ مومن اس دنیا کو دارالقرار نہیں سمجھتا، کافر اسے دارالقرار سمجھتا ہے۔ مومن کے لئے دنیا ایک سفر کی منزل ہے جبکہ کافر کے لئے دنیا ایک دائمی مقام ہے۔ اس لئے جو لوگ حالت سفر میں ہوتے ہیں وہ یہ باور کرلیتے ہیں کہ سفر میں کبھی راحت ملتی ہے اور کبھی تکلیف ملتی ہے اور جو لوگ اپنے گھر میں رہتے ہیں وہ اہتمام کرتے ہیں کہ گھر میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے اور جو سفر میں ہوتے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ حالت سفر میں ہیں لہذا کبھی راحت مل جائے گی اور کبھی تنگی و تکلیف مل جائے گی۔

مذکورہ حدیث مبارکہ میں دنیا کو مومن کا قید خانہ قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح کوئی قیدی، قید خانے میں اپنا وقت گزارتا ہے اور شکوہ نہیں کرتا اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ تو قید خانہ ہے پس شکوہ کس چیز کا کرے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ مومن کی موت اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی زندگی کا انتقال ہوتی ہے، اس کے سفرِ زندگی کا ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا ہوتا ہے، اس لئے مومن بے قرار رہتا ہے، اس دنیا کو قرار گاہ نہیں جانتا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کی لذت بھی وہاں (آخرت) ہے اس کی راحت بھی وہاں ہے، اس کا سکون بھی وہاں ہے، اس کا اطمینان بھی وہاں ( آخرت) ہے۔

علم شریعت کا صرف ظاہری علم رکھنے والے حضرت ذوالنون مصری پر کافر، زندیق، ملحد کے فتوے لگاتے رہے، حکام وقت سے ان کی شکایات کرکے ان کو سزائیں دلواتے، ان کو قید میں ڈالا گیا، آیئے ان کے چند اقوال سے اپنے قلب و باطن کو سنوارتے ہیں۔

محبت کیا ہے؟

٭ امام خوارزمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ذوالنون مصری سے پوچھا گیا کہ

سُئِلَ عَنِ الْمَحَبَّة؟

’’محبت کسے کہتے ہیں؟‘‘۔

قَالَ اَنْ تُحِبَّ مَااَحَبَّ اللّٰه.

’’بندہ ہر اس شے سے محبت کرے جس سے اللہ محبت کرتا ہے‘‘۔

گویا اگر اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس بندے سے محبت کرنامحبت الہٰی ہے، اگر اللہ کسی عمل سے محبت کرتا ہے اور کسی عمل کو اچھا جانتا ہے تو اس عمل سے محبت کرنا محبت الہٰی ہے، اگر کسی حال میں رہنا اللہ کو اچھا لگتا ہے تو اس حال کو چاہنا محبت الہٰی ہے، پھر فرمایا :

وَتَبْغَضَ مَا اَبْغَضَ اللّٰهُ.

’’اور جس چیز کو اللہ ناپسند کرتا ہے اس سے بغض رکھنا، اس کو ناپسند کرنا محبت الہٰی ہے‘‘۔ پھر فرمایا

وَتَفْعَلَ الْخَيْرَ کُلَّه.

’’اور جس جس شے کو اللہ نے خیر قرار دیا ہے ساری زندگی اسی خیر کو اپنائے رکھنا محبت الہٰی ہے‘‘۔

وَتَرْفَضَ کُلَّ مَا يشْغَلُ عَنِ اللّٰه.

’’اور ہر اس عمل کو چھوڑ دینا/ اس راستے اور طور طریقے کو ترک کردینا جو اللہ سے دور کردینے والا ہو‘‘۔

ہر اس شے کو رد کردینا جو اللہ کی محبت سے دور کردینے والی ہو، اللہ کے قرب سے محروم کرنے والی ہو، جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والی ہو، اس شے کو اس لئے چھوڑ دینا کہ یہ عمل، یہ مجلس، یہ دوستی، یہ تعلق اللہ سے دورکردینے والا ہے۔

پس محبت یہ ہے کہ بندہ زندگی میں اپنے ہر عمل، فعل، چاہت، خواہش، طور طریقے اور شعار زندگی کا یہ معیار بنالے کہ وہ کرے جو اسے اللہ کے قریب کردے اور وہ نہ کرے جو اسے اللہ سے دورکردے۔

محبت۔ ۔ راہِ خدا میں ملامت برداشت کرنے کا نام

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ محبت کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

اَلَّا تَخَافَ فِی اللّٰه لَوْمَةَ لَائم.

’’محبت یہ ہے کہ بندے جب تو اللہ کا کام کررہا ہو تو لوگوں کی لعنت ملامت سے دکھی نہ ہو‘‘۔

یہ بات کارکنان و رفقاء تحریک منہاج القرآن اور دین کے خدمت گذاروں کے لئے توجہ طلب ہے کہ جو لوگ دین کی خدمت میں ہیں، جو اللہ کے دین کی اقامت میں مصروف ہیں۔ ۔ ۔ اللہ کے دین کی اشاعت و فروغ کا کام کررہے ہیں۔ ۔ ۔ اللہ کے دین کے احیاء، تجدید، دعوت، تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ ۔ ۔ اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری میں ہیں اُن کے لئے کہا گیا کہ جب تم اللہ کے دین کی خدمت اور فروغ کا مشن لے کر نکلو گے تو دین کے دشمن تم پر لعن و طعن کریں گے۔ ۔ ۔ تنقید کریں گے، مذاق کریں گے۔ ۔ ۔ برا بھلا کہا جائے گا۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کے دین کا زمین پر تمکن نہیں چاہتے۔ ۔ ۔ جو لوگ یہ نہیں چاہتے کہ لوگوں کی زندگیوں میں اللہ کا دین جگہ پائے۔ ۔ ۔ جو لوگ زمین پر دین کی حکومت نہیں چاہتے۔ ۔ ۔ جو لوگ طبعاً بے دین ہیں، دین دشمن ہیں۔ ۔ ۔ جن کی طبیعتیں دین سے بیزار ہیں۔ ۔ ۔ جو دین کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ کبھی بھی دین کے کام کو پسند نہیں کریں گے اور جب دین کی خدمت کرنے والے اللہ کی راہ میں اس دین کی اقامت کے لئے نکلیں گے تو وہ بے دین طبقہ رکاوٹ بھی کھڑی کرے گا۔ ۔ ۔ مشکلات پید اکرے گا۔ ۔ ۔ طعن و تشنیع بھی کرے گا۔ ۔ ۔ لعنت و ملامت بھی کریں گے۔ ۔ ۔ تو فرمایا کہ محبت یہ ہے کہ جب اللہ کے لئے اور اللہ کے دین کے لئے تم پر لعنت ملامت کی جائے تو اس لعنت ملامت سے تمہیں دکھ نہ ہو۔ ۔ ۔ بلکہ لذت ملے، تمہیں کیف و سرور ملے۔ ۔ ۔ اس لئے کہ محبوب کے نام کی وجہ سے تم پر لعنت ملامت ہوئی ہے۔ ۔ ۔ محبوب کے کام کی خاطر تم پر طعن و تشنیع کے تیر برس رہے ہیں۔ ۔ ۔ جس کے دل میں محبت ہے وہ چاہے گا کہ مزید طعن و تشنیع کا نشانہ بنوں، اس لئے کہ وہ محبوب کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کررہا ہے۔

محبت۔ ۔ پیکرِ شفقت و الفت بننے کا نام

محبت کے مفہوم کو مزید وسعت دیتے ہوئے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مَعَ الْعَطْفِ لِلمؤمِنين.

’’محبت یہ ہے کہ مومنین سے ہر حال میں تیری محبت و شفقت قائم رہے‘‘۔

یہ کیسی خدمت دین اور محبت ہے کہ ہم اللہ کی محبت، دین کی محبت و خدمت کا نام بھی لیں اور اللہ کے بندوں سے محبت نہ کریں اور اللہ کے بندوں پر شفیق نہ ہوں۔ ۔ ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ اللہ کے بندوں کے لئے ہمارے چہرے سخت اور ہمارے معاملات کراہت والے ہوں۔ ۔ ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم اللہ کے بندوں کو حقیر جانیں، ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہوں، ان سے پیار نہ کریں۔ ۔ ۔ فرمایا یہ محبت نہیں، اللہ کی محبت پوچھتے ہو تو اللہ کی خلق سے بھی محبت کرو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلْخَلْقُ عَيَالُ اللّٰه اَحَبُّهُمْ اليه اَنْفَئُهُمْ.

(طبرانی، المعجم الاوسط، ج 5، ص 356، حدیث 5541)

’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو اس سے پیار ہے جو اس کے کنبہ کی بھلائی کرتا اور بھلائی چاہتا ہے‘‘۔

حقیقت تصوف۔ ۔ ۔ مخلوق خدا سے محبت

اللہ کی محبت ایک وسیع تصور ہے اور یہی حقیقی تصوف ہے۔ ہم نے تو صرف تسبیح ہاتھ میں پکڑنے کو اللہ کی محبت بنالیا ہے۔ ہم نے چھومنتر اور کرتبوں کو تصوف بنالیا ہے۔ بعض TV چینلز پر تصوف کے نام نہاد علمبردار تصوف کو غلط رنگ میں پیش کررہے ہیں۔ یہ تصوف نہیں بلکہ مکاری، عیاری، بے ایمانی، دھوکہ بازی اور دین سے دشمنی ہے۔ ۔ ۔ نہ یہ تصوف ہے، نہ پیری ہے، نہ فقیری ہے۔ ۔ ۔ نہ دین ہے، نہ ایمان ہے۔ TV چینلز، روپے پیسے اور وسائل کے حصول کے لئے ایسے پروگرامز نشر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کا مقصد پیسوں کا حصول ہے خواہ ناچ گانے سے حاصل کریں۔ ۔ ۔ خواہ کوئی صوفی، بابا بن کر دین کی تذلیل کرلے۔ ۔ ۔ اس سے TV چینلز کے مالکان کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ ان کا مقصد تو پیسہ ہے۔ ۔ ۔ کوئی گانے والا آ کر گانا گالے یا کوئی تصوف کے نام پر لوگوں کے ایمان کو غارت کردے۔ ۔ ۔ لوگوں کی جہالت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مذاق اڑالے، ان کو کوئی غرض نہیں کیونکہ یہ ان کا کاروبار ہے۔ ۔ ۔ انہوں نے تو وقت کے پیسے لینے ہیں، انہوں نے تو ٹیلی فون کالز کے پیسے لینے ہیں۔ ۔ ۔ مگر افسوس اور حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے فقیروں، پیروں اور صوفیوں کی وضع قطع بنا رکھی ہے۔ ۔ ۔ ٹائٹل صوفی، پیر اور بابے کا لگا رکھا ہے اور دین کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ۔ ۔ خدا جانے کتنے بابے وجود میں آگئے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث اور اولیاء کے بے شمار اقوال سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کو دنیا کے نام پر کمانے والا عذاب میں نہ جائے گا اس لئے کہ دنیا، دنیا کے نام پر کمائی ہے۔ ۔ ۔ ہلاکت تباہی اور بربادی تو اس شخص کی ہے جو دین کے نام پر دھوکہ دے کر دنیا کما رہا ہے۔ ۔ ۔ امت کی جہالت کی انتہا ہے کہ ان لوگوں کی اندھا دھند تقلید کئے جارہے ہیں۔ کیا ایسے کرتب حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کئے تھے؟۔ ۔ ۔ کیا کبھی ایسے کرتب خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ نے کئے تھے؟۔ ۔ ۔ کیا کبھی ایسے کرتب قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیاء، جنید بغدادی، سیدنا غوث الاعظم جیلانی اور شاہ نقشبند رحمہم اللہ نے کئے؟۔ ۔ یہ لوگ صحیح معنوں میں صوفی تھے، بابا تھے، پیر اور فقیر تھے، اہل اللہ تھے، اولیاء تھے۔ ۔ ۔ وہ کرتب تو دور کی بات، کرامت سے بھی گریز کرتے تھے۔ ۔ ۔ اور آج تباہی کا یہ عالم ہے کہ کافرانہ کرتب، گمراہانہ کرتب، ایمان و دین کو تباہ کرنے والے کرتب معاشرے میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

ہائے افسوس! اس امت کا کیا حال ہوگا۔ ۔ ۔ ؟

تصوف حقیقت میں حسن اخلاق، حسن سیرت، حسن کردار، تقویٰ، توکل، اللہ کے حضور گریہ و بکا، اللہ کی مخلوق سے شفقت و محبت، رزق حلال کمانے، حرام سے بچنے اور سادگی کا نام ہے۔ ۔ ۔ تصوف مکاری سے بچنے کا نام ہے۔

محبت۔ ۔ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام

محبت کے مفاہیم سے مزید آگاہی دیتے ہوئے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

واتِّبَاع رسولِ اللّٰهُ فی الدِّين.

محبت ’’دین میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کا نام ہے‘‘

اور یہی تصوف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرنا اور اتباع نہ کرنے کا جو تضاد ہے، قیامت کے دن اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

بندہ، ولی اللہ کیسے بنتا ہے؟

٭ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں۔

قَالَ اللّٰهُ تعالیٰ مَنْ کَانَ لِیْ مُطِيعًا کُنْتُ لَه وَلِيًّا فلْيتِق بِیْ وَلْيَحْکُمْ علّی.

(ابونعيم، حلية الاولياء، ج 9، ص 394)

’’اللہ نے فرمایا جو شخص اپنی پوری زندگی میں میرا مطیع ہوجائے، میں اس کا ولی بن جاتا ہوں‘‘۔

پھر وہ مجھ پر اعتماد رکھے، توہم نہ کرے۔ ۔ ۔ تصوف کے نام پر دنیا میں جو کچھ تماشا ہورہا ہے، پیری، فقیری کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور TV چینلز نشر کررہے ہیں یہ اصل میں توہم پرستی ہے اور ہندو مذہب کا کرتب ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ ہندوؤں کی میراث ہے۔ فرمایا جو اپنے عمل، قال، حال اور اعمال میں میرا (اللہ) کامل مطیع ہوجائے میں اسکا ولی بن جاتا ہوں، پس وہ مجھ پر وثوق اور اعتماد کرے پھر اللہ نے فرمایا۔

فَوَعزتّی لَوْ سَأَ لَنِیْ زَوَلَ الدُّنْيا لازلْنُها لَه.

’’اگر وہ قسم کھا کر مجھ سے یہ کہہ دے کہ باری تعالیٰ کہ ساری دنیا کو مٹا دے، تو اس کی خاطر دنیا کو بھی مٹادوں گا‘‘۔

مگر جو میرا ہو جاتا ہے وہ مجھ سے ایسی باتیں نہیں کیا کرتا، ایسے سوال نہیں کرتا بلکہ اگر 72 تن کربلا میں شہید بھی ہوجائیں۔ ۔ ۔ سروں کو نیزوں پر چڑھا دیا جائے۔ ۔ ۔ لاشوں پر گھوڑے دوڑ پڑیں مگر پھر بھی یہ نہیں کہتا کہ مولا ان یزیدیوں کو مٹا دے بلکہ وہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

صفائے قلب اور توجہ الی اللہ کیسے ممکن ہے؟

٭ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں :

اَلْاُنْسُ باللّٰه مِنْ صَفَاءِ الْقَلْبِ مَعَ اللّٰه والتفَرُّد بِاللّٰه.

(ابونعیم، حلیۃ الاولیاء، ج 9، ص 394)

جس شخص کی طبیعت اللہ سے مانوس ہوجائے اسے انسان کہتے ہیں، انسان کا معنی ہی یہ ہے کہ جس کو اُنس ہوجائے، جسے اُنس نہیں ہوا وہ انسان نہیں بنا۔

سوال یہ ہے کہ انس کس کے ساتھ ہو؟ فرمایا کہ ’’اللہ کے ساتھ اُنس ہوجائے‘‘۔

پھر یہ اُنس اللہ کے ساتھ بندے کو جوڑ دیتا ہے اور اس کا فیض یہ ہوتا ہے کہ ’’اس کا دل کدورتوں، غلاظتوں، کینہ، بغض، حسد، عناد سے اور اس تمام گورکھ دھندے سے صاف ہوجاتا ہے جس میں ہم 24 گھنٹے الجھے رہتے ہیں اور وہ دنیاوی گورکھ دھندے جو ہمیں پریشان رکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں یہ کردیا۔ ۔ ۔ ہمارے ساتھ یہ برتاؤ کیا۔ ۔ ۔ میں اسے کیسے چھوڑ دوں۔ ۔ ۔ میں کسیے معاف کردوں۔ ۔ ۔ آپ کو نہیں پتہ کہ اس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ ۔ ۔ اس نے فلاں موقعہ پر یہ کہا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ہماری پوری زندگی اسی گورکھ دھندے میں گزرتی ہے مگر جب بندہ کا دل اللہ کے اُنس کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو ان تمام چیزوں سے اس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔

’’اور وہ اللہ کے ساتھ تعلق میں متفرد ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ یکسو ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ اور جب دھیان یکسو ہوجائے تو درمیان میں کچھ بھی نہیں سوجھتا۔ ۔ ۔ مثلاً آپ اگر کسی گہرے دھیان، کسی گہری سوچ میں بیٹھے ہوں اور آپ کا دھیان گہرائی کے ساتھ کسی ایک خیال میں لگا ہو اور دائیں بائیں کوئی آپ سے بات بھی کررہا ہو تو آپ کی سمجھ میں اس کی بات نہیں آئے گی اور جب اس گہری سوچ و خیال سے باہر نکلیں گے تو دوبارہ ان احباب سے پوچھیں گے کہ میں کسی اور دھیان میں تھا، دوبارہ بات بتانا، میں نے تمہاری بات نہیں سنی، یہ تجربہ ہر شخص کو ہوتا ہے۔

پس جب بندہ اللہ کے دھیان میں متفرد ہوجاتا ہے، اسی کے دھیان میں یکسو ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ تو اس کو اردگرد کی باتوں کا دھیان نہیں رہتا۔ پس انسان کے دو معنی ہیں :

  1. جسے اُنس ہوجائے
  2. جو بھول جائے

لفظ انسان ’’اَنَسُ‘‘ سے بھی ہے اور ’’نَسِیَ‘‘ سے بھی ہے۔ گویا انسان، اُنس سے بھی تشکیل پایا ہے اور انسان ’’نسیان‘‘ سے بھی تعبیر ہے۔ اُنس اور نسیان کا تعلق یہ ہے کہ جب کسی کو کسی سے اُنس ہوجاتا ہے تو بہت سی ادھر اُدھر کی باتیں وہ بھول جاتا ہے۔ ۔ ۔ یہ اُنس کا اپنا کام ہے کہ وہ غیر باتیں بھلا دیتا ہے اور جو ساری باتیں یاد رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ابھی اُنس نہیں ہوا۔ فرمایا جب اُنس ہوجائے تو انسان اللہ کے دھیان میں متفرد ہوجاتا ہے، یکسو ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا

الانقطاع مِنْ کل شیء سوی اللّٰه.

’’ہر وہ چیز جو اللہ کی غیر ہے وہ اپنے دل کو اس سے منقطع کرلیتا ہے‘‘۔

پیر کامل کی پہچان

درج بالا اقوال پر عمل اصل محبت ہے، جسے یہ محبت نصیب ہوجائے وہ صوفی ہے۔ آج ہمارے دور میں صوفی کون ہے۔ ۔ ۔ ؟ وہ جس کا پورا دھیان مرید کی جیب اور اس کے مال پر ہے۔ ۔ ۔ اچھے مال والا ہے تو اسے کہے کہ آگے آ کر بیٹھ، کمزور، غریب اور مزدور ہے تو اسے اپنے قریب جگہ ہی نہ دے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا تھا :

’’غریب مسکین لوگوں سے آنکھیں نہیں ہٹانی، انہیں قریب رکھنا ہے‘‘۔

ایک دفعہ نیویارک امریکہ میں میرے ایک خطاب کے بعد سوال و جواب کی نشست میں ایک شخص نے سوال کیا کہ پیر کامل کی پہچان کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کی ضرورت آپ کو کیوں پڑ گئی۔ ۔ ۔ ؟ اس نے کہا کہ اس وقت بے حساب پیر پورے نیو یارک پر حملہ آور ہیں اور ہر پیر نے اپنے ساتھ Promoters رکھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ مارکیٹنگ منیجر، پلانرز رکھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ یہ ان پیروں کی کرامتیں بناتے ہیں اور پھر صبح سناتے ہیں اور پھر آگے ان کے ایجنٹس ہیں جو لوگوں کو گھیرتے ہیں۔ ۔ ۔ پوچھتے ہیں کہ کسی کے مرید ہو یا نہیں اگر نہیں تو آؤ پیر صاحب تشریف لائے ہیں، قطب وقت ہیں، غوث وقت ہیں، بیعت کرلو۔ ۔ ۔ تمام لوگ ایسا کررہے ہیں۔ پس ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کامل کون ہے؟۔ ۔ ۔ کس کی بیعت کریں اور کس کی نہ کریں؟۔ ۔ ۔ میں نے اس کی گفتگو سن کر کہا کہ میں تو خود ابھی مرید بھی ناقص ہوں، میں کیا پیر کامل کی پہچان بتاؤں گا، مگر جو کاملوں سے پڑھا، سنا اور سمجھا ہے وہ بتادیتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ جس پیر کو مریدوں کی تلاش نہ ہو وہ پیر کامل ہے۔ ۔ ۔ پیر تو اسے کہتے ہیں جسے صرف حق کی تلاش ہو، صرف مولا کی تلاش ہو۔ ۔ ۔ اورجو خود مریدوں کی تلاش میں پھرتا ہے وہ تو خود مریدوں کا مرید ہے پیر کہاں بنے گا۔ ۔ ۔ مرید کا مطلب ہے ’’ارادہ کرنے والا‘‘، وہ تو لوگوں کا ارادہ کرتا پھرتا ہے، رب کا ارادہ کب کرے گا۔ ۔ ۔ اس لئے پیر اور شیخ وہ ہے کہ مرید جس کی تلاش کرتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ مریدوں کو تلاش نہیں کرتے۔

زمانہ میں آج بھی صحیح اہل اللہ اور پیر موجود ہیں۔ جو صحیح صاحبان طریقت ہیں، زمانہ کبھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہوتا، مگر وہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اہل صدق و صفا نمک سے بھی کم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اور جتنا آٹا ہوتا ہے وہ اہل دنیا ہوتے ہیں جو تصوف، دین اور شریعت کے نام پر کماتے ہیں۔

سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے غنیۃ الطالبین میں فرمایا کہ مرید وہ ہے ’’جو اللہ کا ارادہ کرے‘‘۔ اللہ پاک نے فرمایا :

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ.

(الکہف، 18 : 28)

’’ (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) ‘‘

گویا جو دیدار الہیٰ کا ارادہ کرے، جنہیں رب کے دیدار کے سوا کوئی شے مقصود نہ ہو۔ دنیا کا مطلب ہے ’’گھٹیا‘‘ اور آخرت کا معنی ہے جو بعد میں آئے گی‘‘۔ ۔ ۔ پس مرید وہ ہے جو نہ گھٹیا کو چاہے نہ بعد والی کو چاہے۔ ۔ ۔ نہ دنیا کا طالب ہو نہ آخرت کی منزلوں اور رتبوں کا طالب ہو۔ ۔ ۔ پس يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ’’رب کے مکھڑے کا طالب ہو‘‘۔ ۔ ۔ اس کی خواہش، اور طلب فقط مولا کے دیدار تک رہے۔ ۔ ۔ اللہ کی رضا کی رہے اور اسی لئے اللہ کی اطاعت کرے۔

حضرت رابعہ بصری سے پوچھیے کہ مرید کون ہے؟ ایک روز انہوں نے ہاتھ میں پانی کا برتن اٹھایا۔ ایک ہاتھ میں آگ اٹھالی، ان کے اوپر حالت وجد، کیف، سرور، مستی اور بے خودی طاری تھی۔ ۔ ۔ کسی نے پوچھا کہ ایک ہاتھ میں آگ اور ایک میں پانی لے کر جارہی ہیں کیا ارادہ ہے؟ فرمانے لگی کہ چاہتی ہوں کہ جو لوگ دوزخ کی آگ سے ڈر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں میں پانی سے آگ کو بجھا دوں تاکہ کوئی دوزخ سے بچنے کی خاطر مولیٰ کی عبادت نہ کرے۔ ۔ ۔ اور جو لوگ جنت کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں چاہتی ہوں کہ جنت کو جلادوں تاکہ کوئی جنت کے لالچ میں اللہ کی عبادت نہ کرے۔ ۔ ۔ نہ جنت رہے نہ دوزخ۔ ۔ ۔ جو سجدہ ریز ہو محبوب کے دیدار کے لئے سجدہ ریز ہو۔

پس پیر کامل وہ ہے جسے مریدوں کی تلاش نہ ہو اور جو بیچارہ خود مریدوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اسے تو ابھی مریدوں کی تلاش ہے رب کی تلاش کب ہوگی۔ تصوف کی جمیع کتب کا مطالعہ کریں، عرب و عجم کے کبار اولیاء کے احوال پڑھیں، کسی ایک بھی کتاب میں کسی ایک بھی ولی کا عمل ایسا نہیں کہ اسے کبھی زندگی میں مریدوں کی تلاش رہی ہو۔ لوگ پیر کامل کی تلاش میں طویل سفر کرتے اور مرید بنتے۔ کبار اولیاء مرید ہونے کے لئے سفر کرتے کہ کوئی رب سے ملادے۔ ۔ ۔ کوئی ارادہ حق عطا کردے۔ ۔ ۔ کوئی اُنس باللہ عطا کردے۔ ۔ ۔ کوئی رب کی معرفت عطا کردے۔ ۔ ۔ کوئی سوجھ بوجھ دے دے۔ ۔ ۔ کوئی وصال الی اللہ کا طریق بتا دے۔ ۔ ۔ جو خدا کی قربت کا کوئی طریقہ سکھا دے۔ ۔ ۔ جو خدا کے دیدار کا کوئی سلیقہ سکھا دے۔ ۔ ۔ کوئی خدا کو منانے کا کوئی حال بتا دے۔ ۔ ۔ پس ان کا سفر مرید بنانے کے لئے نہ ہوتا بلکہ مرید بننے کے لئے ہوتا۔

المیہ

افسوس کہ اب ہر چیز کاروبار کے طور پر لی جارہی ہے، دین کے نام پر بھی کاروبار ہے۔ ۔ ۔ تبلیغ کے نام پر بھی کاروبار ہے۔ ۔ ۔ پیری فقیری کے نام پر بھی کاروبار ہے۔ ۔ ۔ گدی نشینی کے نام پر کاروبار ہے۔ ۔ ۔ تقویٰ، فتویٰ، علم، مولویت کے نام پر کاروبار ہے۔ ۔ ۔ حکمران، خدام تھے مگر اب وہ لٹیرے بن گئے اور اقتدار کو کاروبار بنالیا۔ ۔ ۔ سیاست کو کاروبار بنالیا گیا ہے۔ ۔ ۔ حاکم، محکوم، عالم، معلوم، طالب، مطلوب سب کاروبار میں ہیں۔ ہمیں اس صورت حال میں اپنے حال کی طرف غور کرنا ہوگا۔

بیعت۔ ۔ ایک ضروری وضاحت

یہاں ایک ضروری مسئلہ کی وضاحت کرتا چلوں کہ مرید ہونے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ دینا واجب نہیں ہے، ہاتھ میں ہاتھ دینا سنت اور مستحب ہے، برکت کا ایک طریقہ ہے۔ اکابر و اسلاف کے طریقوں میں سے ہے، مگر مرید ہونے کی شرط نہیں ہے کہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیں گے تب مرید بنیں گے ورنہ نہیں بنیں گے۔ ۔ ۔ ایسی کوئی شرط کتب تصوف و سلوک اور طریقت میں نہیں ہے، جس کی طرف ارادہ کرلیا پس مرید ہوگئے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیا مگر اس کا دل نہیں مانا تو کیا وہ مرید رہا؟ نہیں۔ ۔ ۔ تو اس ہاتھ دینے کا فائدہ کیا۔ ۔ ۔ جب دل پھر گیا تو مرید نہ رہا۔ معلوم ہوا کہ مرید ہونے کا تعلق ہاتھ سے نہیں بلکہ دل کے ارادے سے ہے۔ ۔ ۔ ایسی بات ہر گز نہیں کہ اگر ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا تو بندہ مرید ہی نہیں ہوا، بیعت ہی نہ ہوئی۔ ۔ ۔ بیعت کے لئے ہاتھ میں ہاتھ دینا واجب نہیں، بیعت کا مطلب ہے ’’عہد کرنا‘‘ زبان سے اقرار کرنا، دل سے ارادہ کرنا بیعت ہے۔ ۔ ۔ مرید کا لفظ ارادہ سے ہے اور ارادہ، دل کا عمل ہے، ہاتھ کا عمل نہیں۔ بہت سے اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جو ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس طریقے سے بیعت نہیں کرتے تھے مگر پھر بھی کہتے تھے کہ فلاں میرا شیخ ہے۔

ارادہ کس غرض سے کیا۔ ۔ ۔ ؟ کس سمت جانے کے لئے ارادہ کیا۔ ۔ ۔ ؟ اگر بندہ اپنا ارادہ کروائے تو نہ اپنے پاس کچھ رہا اور نہ جس کو ارادہ کروایا اس کے پاس کچھ رہا۔ ۔ ۔ ارادہ تو یہ ہے کہ بندہ مولیٰ کا ارادہ کرے اور کروائے۔ ۔ ۔ مدینہ کا ارادہ کروائے، عرش کا ارادہ کروائے۔ ۔ ۔ ارادہ گنبد خضری کا ہو یا عرش اولیٰ کا ہو۔ ۔ ۔ اہل اللہ اور اولیاء دنیا کے ارادوں کو اسی سمت لگانے کے لئے تشریف لائے۔

٭ اس لئے حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ

مَنْ اَرَادَ التَّوَاضُعَ فَلْيوَجِّهْ نَفْسَه اِلٰی عَظْمَةِ اللّٰه.

’’جو شخص تواضع کا ارادہ کرے پس وہ اپنے نفس کو اللہ کی عظمت کی جانب متوجہ کرلے‘‘۔

جب مرید اللہ کی عظمت کی جانب متوجہ ہوجائے گا تو اس کا دل پگھل جائے گا، نرم ہوجائے گا۔

دین کی خدمت کرنے والے لوگوں سے عوام الناس کو اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ دل کے سخت ہوتے ہیں، مجھے رونا آتا ہے، وہ کیسا دین کا خادم ہے کہ جس کا دل سخت ہے۔ ۔ ۔ وہ کیسا دین کا خادم ہے جس کے چہرہ سے دوسرے کو لطف و اطمینان نصیب نہ ہو۔ ۔ ۔ جس کے چہرے پر تبسم نہ ہو۔ ۔ ۔ جس کی زبان میں مٹھاس نہ ہو۔ ۔ ۔ جس کے کردار میں لطف و شفقت نہ ہو۔ ۔ ۔ دوسرے کے ساتھ معاملات میں محبت نہ ہو۔ ۔ ۔ جو اللہ کی عظمت کو نگاہ میں رکھتا ہے اس کا دل نرم ہوجاتا ہے۔ پس پگھلے ہوئے دل والے بن جاؤ، نرم دل بنو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ باری تعالیٰ تو کہاں رہتا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا میں ٹوٹے دلوں میں رہتا ہوں۔

اسی طرح حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے الہامی قلبی میں اللہ سے پوچھا کہ تجھے ڈھونڈنا ہو تو کہاں سے ڈھونڈوں؟ اللہ پاک نے القاء کیا کہ میرے بندے مجھے ڈھونڈنا ہو تو شکستہ دلوں میں ڈھونڈا کر، میں ٹوٹے دلوں میں رہتا ہوں۔

آپ کے الہامات قلبی اور مکشوفات قلبی میں ایک اور مقام پر آیا کہ سیدنا غوث الاعظم نے عرض کیا باری تعالیٰ اگر کبھی تیری دعوت کرنے کو جی چاہے تو اس کی سبیل کیا ہوسکتی ہے؟ فرمایا ہاں میری دعوت بھی ممکن ہے۔ غربت اور فقرو فاقہ کی آگ میں جو لوگ جل چکے ہیں میں ان کا مہمان رہتا ہوں، ان کی دعوت کیا کرو میں خود بخود تمھارے دستر خوان پر ہوا کروں گا۔ اگر صوفی بننا ہے تو اللہ کی دعوت کیا کرو۔ پس یہی تصوف ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کے حامل بنو، اقبال فرماتے ہیں :

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جب سفر پرنکلے تو راستے میں انہوں نے ایک کشتی میں سفر کیا۔ ۔ ۔ وہ غریب لوگوں کی کشتی تھی انہوں نے عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا، پار لگایا۔ ۔ ۔ خضر علیہ السلام نے اترنے سے پہلے اپنی لاٹھی سے کشتی کو دوچار جگہوں سے توڑ دیا۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ ان غریبوں کی کشتی تو ان کا وسیلہ روزگار تھا، آپ نے توڑ دی۔ ۔ ۔ بعد ازاں حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے اس سوال کا جواب دیا کہ ایک جابر بادشاہ آرہا تھا وہ جن کشتیوں کو نیا دیکھتا ہے، خوبصورت سنورا ہوا دیکھتا ہے ان کو قبضے میں لے لیتا ہے اور جن کو شکستہ، ٹوٹا ہوا دیکھتا ہے ان کو چھوڑ دیتا ہے۔ ۔ ۔ میں نے چاہا کہ غریب لوگ ہیں، ان کے روزگار کا ذریعہ یہی کشتی ہے، اس کو توڑ دوں تاکہ جابر بادشاہ اس کو ٹوٹا ہوا دیکھے تو اس پر قبضہ نہ کرے، یہ تو بعد میں مرمت کروالیں گے مگر کشتی غصب ہونے سے بچ جائے گی۔

اس واقعہ کی ایک عارفانہ تفسیر بھی ہے، اس کو تفسیر اشاری و تفسیر عرفانی کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کشتی سے مراد قلب/ نفس ہے۔ ۔ ۔ توڑنے سے مراد شکستہ دل کرنا ہے۔ ۔ ۔ جابر بادشاہ سے مراد شیطان ہے۔ ۔ ۔ خضر علیہ السلام سے مراد مرشد کامل ہے۔ ۔ ۔ شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کس کے نفس سنورے ہوئے ہیں، کھانے اور پینے سے خوب موٹے تازے ہیں، کس کے نفس اور دل خواہشات دنیا سے سجے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ پس جس کے دل سجے دھجے نظر آئیں وہ شیطان اس نفس اور قلب پر قبضہ کرلیتا ہے اور وہ نفس و قلب شیطان کا ہو جاتا ہے، رحمٰن کا نہیں رہتا۔ ۔ ۔ قلب و نفس کو شکستہ کرنے والا مرشد ہوتا ہے۔ جب نفس و قلب شکستہ ہوجائیں تو شیطان بھی شکستہ دلوں پر قبضہ نہیں کرتا۔ ۔ ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ٹوٹے دل ہیں ان پر کیا قبضہ کرنا، شیطان چھوڑ دیتا ہے اور رحمن لے لیتا ہے۔

شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

اللہ تعالیٰ ہمیں ٹوٹے ہوئے دل کا حامل بنائے اور ان اولیاء و صوفیاء کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی سیرت و کردار کو سنوارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم