مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : قصر نماز کے لئے سفر کی مقدار کتنی ہے؟

جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

فرضيت الصلوة رکعتين ثم هاجر رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ففرضيت اربع وترکت صلوة السفرعلی الفريضة الاولی. (متفق عليه)

’’نماز 2، 2 رکعت فرض ہوئی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی پھر چار رکعت فرض ہوئے اور سفر کی نماز پہلے فرض پر ہی رکھی گئی‘‘۔

قرآن کریم سے

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ.

’’اور جب تم زمین میں سفر کرو، تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذاء دیں گے‘‘۔

(النساء 4 : 101)

اس آیت کریمہ میں کافروں کی ایذاء کا جو ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں سفر میں کفار کی طرف سے مسلمانوں کی ایذاء کا ڈر ہوتا تھا۔ بہر حال یہ بعض نمازوں میں جو قصر یعنی کمی کی رعائت دی گئی ہے وہ سفر کی وجہ سے دی گئی ہے۔ جہاں مطلوبہ سفر وہاں قصر ہوگی۔ دشمن کا ڈر ہو یا نہ ہو چنانچہ حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ اللہ کا فرمان ہے کہ جب سفر میں ہو، تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے‘‘۔

فقد امن الناس

’’اب تو لوگ امن میں ہیں‘‘

(کافروں کی ایذاء کا ڈر نہیں رہا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عجبت فما عجبت منه  ’’مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا جس پر تجھے تعجب ہوا‘‘۔ فسالت النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال صدقة تصدق بها عليکم فاسئلوا صدقته. سو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرمایا ہے، سو تم اللہ کا صدقہ قبول کرو‘‘۔ (مسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف سفر پر نکلے تو آپ (چار رکعات فرض کی جگہ) دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ واپس آئے۔ ان سے کہا گیا آپ نے مکہ مکرمہ میں قیام کیا تھا؟ فرمایا ہاں ہم نے وہاں دس دن قیام کیا تھا‘‘۔ (متفق علیہ)

مقدار سفر

الحنيفة قالوا المسافت مقدرة بالز من وهو ثلاثه ايام من اقصر ايام السنة ولا عبرة بتقديرها بالفراسخ علي المعتمد.

’’حنیفہ نے کہا سفر کی مسافت تین دن ہے۔ سال کے سب سے چھوٹے تین دن قابل اعتماد قول کے مطابق، فراسخ کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔

پس مقدار سفر میں میلوں، فرلانگوں کا اعتبار نہیں۔ تین دن کا اعتبار ہے۔ رفتار درمیانی ہو، مسلسل چلتے رہنا ضروری نہیں، بلکہ راستے میں آرام کرنا، کھانا پینا، قیلولہ کرنا یعنی دوپہر کو کچھ وقت کے لئے سونا۔ قضائے حاجت کرنا بھی ہوتا ہے‘‘۔ (شامی ص 122 ج 2) (البحرالرائق ص 129 / 2)، (ہدایہ مع فتح القدیر ص 4 ج 2)، (عالمگیری ص 138 ج 1)۔ بعض احناف نے تین دن کی مقدار میلوں میں مقرر کی ہے۔ ان میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے پندرہ فراسخ یعنی ہر دن پانچ فرسخ۔ ۔ ۔ بعض نے تین مراحل (منازل)۔ ۔ ۔ امام شافعی کا ایک قول ہے، 46 میل یہ قول ہمارے بعض علماء کے قریب تر ہے‘‘۔ (بدائع الصنائع ص 93 ج 1)

فقہائے اسلام

حنفیہ کے نزدیک مسافر کے لئے چار رکعت فرض نماز میں قصر واجب ہے۔ مالکیہ کے نزدیک قصر سنت موکدہ ہے، شافعیہ کے نزدیک مسافر کے لئے قصر بھی جائز ہے اور مکمل نماز ادا کرنا بھی جائز ہے ہاں اگر سفر کی مسافت تین مراحل ہو۔ ایک مرحلہ آٹھ فرلانگ، گو قصر افضل ہے، حنابلہ کے ہاں مسافر قصر کرسکتا ہے مگر پوری نماز افضل ہے۔

احناف کے نزدیک سفر کی مقدار وقت ہے۔ یعنی سال کے مختصر ترین تین دن کا سفر ہو۔ پیدل یا اونٹ پر صبح ناشتہ کرکے سفر کرے دوپہر کو قیلولہ بھی کرے، کھانا کھائے، قضائے حاجت کرے۔ مسلسل سارا دن چلنا شرط نہیں۔ ایسا سفر تین دن کا ہو۔ رات کو بھی آرام کرے۔ میلوں کا حساب اس صورت میں نہیں۔ میلوں کا حساب اس وقت ہے جب سفر گاڑی جہاز وغیرہ پر ہو‘‘۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ ص 3۔ 472 ج1)

علامہ شامی

قيل يقدر باحد وعشرين فرسخا، وقيل بثمانية عشر وقيل بخمسة عشر و کل من قدر منها اعتقدانه مسيرة ثلاثه ايام.

’’کہا گیا ہے کہ مقدار اکیس فرسخ ہے اور کہا گیا ہے اٹھارہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پندرہ فرسخ اور ہر ایک نے تین دن کی مقدار مان کر اپنا اپنا ایک اندازہ لگایا ہے۔ علامہ شامی نے 18 فراسخ کو مفتیٰ بہ قرار دیا ہے‘‘۔
(ص 123 ج 2)

ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ اس طرح تین امکان پیدا ہوئے۔ اگر تین دن میں 21 فرسخ طے ہوں تو تریسٹھ میل ہوئے۔ اگر اٹھارہ فرسخ طے ہوں تو 54 میل ہوئے۔ اگر 15 پندرہ فرسخ روزانہ طے ہوں تو 45 میل سفر ہوا۔ بعض محققین نے احتیاطاً 48 میل کہہ دیا۔

خلاصہ کلام

پس جب کوئی شخص سفر میں ہو اور سفر تین دن کا ہو تو وہ شرعاً مسافر کہلائے گا اور احکام شرع میں دی گئی رخصت کا حقدار ہوگا۔ یعنی چار رکعت فرض میں دو ادا کرے گا۔ سنت و وتر میں قصر نہیں۔ پورے پڑھے۔ یونہی روزہ توڑ سکے گا۔ بعد میں قضا نہ کرے۔ اگر مسافر پیدل چل رہا ہے تو تین دن کا اعتبار ہوگا۔ مقدار سفر کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ جسمانی طاقت، صحت اور عمر کے لحاظ سے مقدار سفر مختلف ہوتی ہے یونہی دن چھوٹے بڑے اور موسم کی سختی و نرمی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس صورت میں میلوں کا کوئی حساب نہیں صرف تین دن کا سفر ہو۔ یہ اس وقت ہے جب پیدل سفر ہو یا اونٹ گھوڑے کا۔ مگر آج کل ریل، موٹر گاڑی، ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعے اکثر سفر ہوتے ہیں۔ یوں تین دن کا سفر ایک گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں طے ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں جن مشائخ نے اس سفر کی مقدار میلوں کی صورت میں مقرر فرمائی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے تیز رفتار سفر کا حساب میلوں سے لگایا جاسکتا ہے علامہ شامی نے جو 18 فرسخ یعنی 54 میل کو اختیار فرمایا ہے۔ اس کا ہی فتویٰ دیا گیا ہے۔

مگر جیسا کہ مذکورہ بالا تحقیق سے واضح ہے کہ اعتبار دراصل میلوں وغیرہ کا نہیں، تین دن کے سفر کا ہے اور یہ تین دن بھی سال کے سب سے چھوٹے دن، جیسا کہ اوپر گذرا کہ تمام دن سفر کرنا مراد نہیں۔ لازمی وقفہ بھی ہوگا۔ لہذا کتب فقہ میں سفر کی مقدار میں جو تصریحات دی گئیں، ان سے استفادہ کریں۔ مگر حق اختلاف کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ یہ کوئی قرآن و سنت کی نصوص نہیں، علمائے ملت کی علمی تحقیقات ہیں۔ جن سے دلیل کے ساتھ اختلاف کی ہروقت گنجائش ہوتی ہے۔

سوال : کیا قصر صرف فرائض میں ہوگی یا باقی سنن و نوافل میں بھی؟

جواب : امت مسلمہ پر اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات میں سے ایک احسان نماز میں قصر ہے یعنی آدمی دوران سفر ظہر عصر اور عشاء کے فرائض نصف یعنی دو دو کی تعداد میں ادا کرے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ.

’’جب تم زمین پر سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ تم نمازیں قصر کرو اگر خوف ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈالیں گے‘‘۔ (النساء 4 : 101)

یہ قصر کی اجازت صرف فرائض میں ہے جہاں تک بقیہ نماز کا تعلق ہے اس میں قصر نہیں ہوتی البتہ اس کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں یعنی ’’خوف کی حالت میں بقیہ نماز ادا نہیں کی جائے گی جبکہ حالت امن میں مکمل طور پر ادا کی جائے گی‘‘۔
(فتاوی عالمگیری ج 1 ص 139)

متعدد احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ

قال صليت مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم في الحضر والسفر فصليت معه في الحضر الظهر اربعا وبعدها رکعتين وصليت معه في السفر الظهر رکعتين و بعدها رکعتين والعصر رکعتين ولم يصل بعدها شياء والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلث رکعات ولا ينقص في الحضر ولا في السفر وهي وترالنهار وبعدها رکعتين.

(ترمذي ابواب صلوة السفرج 1 ص 72)

’’فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گھر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں پس میں نے آپ کے ساتھ گھر میں ظہر چار رکعت پڑھی اس کے بعد دو رکعت سنت اور سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ظہر دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت ادا کیں اور عصر کی نماز دو رکعت ادا کی (سفر میں) اور اس کے بعد آپ نے کچھ نہ پڑھا۔ مغرب کی نماز سفر اور حضر میں تین رکعتیں ادا کیں اور آپ سفرو حضر میں تین سے کم نہیں فرماتے تھے۔ مغرب کے تین فرائض دن کے وتر ہیں اور اس کے بعد دو رکعت ادا فرمائیں‘‘۔

٭ ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

صحبت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ثمانيه عشر سفرا فما رايته ترک رکعتين اذا زاغت الشمس قبل الظهر.

’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ سفر کئے۔ میں نے آپ کو نہ دیکھا کہ آپ نے آفتاب ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کے دو نفل چھوڑے ہوں‘‘۔ (ترمذی ابواب صلوۃ السفرج ج ص 72)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں دو رکعتیں (ظہر کی) ادا کیں اور اس کے بعد دو رکعت سنت‘‘۔ (ترمذی ایضاً)

ان احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ ہمیں چند احادیث ایسی بھی ملتی ہیں جن میں ذکر ہے کہ حضور سفر کے دوران فقط 2 رکعت فرض ادا کرتے یعنی صرف فرائض میں قصر کرتے تھے بقیہ نماز ادا نہ فرماتے۔

٭ حفص ابن عاصم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

انی صحبت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم في السفر فلم يزد علي رکعتين حتي قبضه الله.

’’ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں رہا وفات تک آپ سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نہ ادا فرماتے‘‘۔ (مسلم شریف ج 1، صلوۃ المسافر ص 22)

فقہاء کرام نے انہی احادیث کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ

ولا قصر فی السنن کذا في محيط السرخسي وبعضهم جوزا للمسافر ترک السنن والمختار انه لا ياتي بها في حال الخوف وياتي بها في حال القرار والامن.

’’اور سنتوں میں قصر نہیں ہے۔ جیسا محیط سرخسی میں ہے بعض فقہاء سنتیں ترک کرنا جائز قرار دیتے ہیں اور صحیح یہ ہے کہ مسافر خطرہ کی حالت میں سنتیں ادا نہیں کرے گا مگر حالت امن اور سکون میں ادا کرے گا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری ج 2 ص 139)

وياتي المسافر بالسنن ان کان في حال امن و قرار والالا.

’’مسافر اگر امن و سکون کی کیفیت میں ہے تو سنتیں ادا کرے گا اور اگر (امن اور سکون کی کیفیت میسر نہیں) تو نہیں ادا کرے گا‘‘۔ (ردالمختار ج 2 ص 131)