اداریہ : انتخابی نتائج سے وابستہ قومی توقعات

ڈاکٹر علی اکبر قادری

18 فروری 2008ء کا دن خدا خدا کرکے بالآخر گزر ہی گیا اور (سوائے اکا دکا واقعات کے) کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ قوم کی اکثریت نے اگرچہ اس الیکشن کو بھی مسترد کردیا ہے کیونکہ ہمارا نظام انتخاب اس قدر مہنگا، مشکل اور کرپٹ ہوچکا ہے کہ اس میں شرکت ایک عام اور سفید پوش شخص کے لئے ممکن ہی نہیں رہی۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں آ کر بیٹھنے والے شخص کی ترجیحات میں ملک اور قوم کی خدمت کم اور اپنی خدمت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں ہوں یا فوجی قبضے کی صورت میں بننے والی خوس ساختہ حکومتیں، دونوں غریب عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی لئے بہت سی دوسری جماعتوں کی طرح تحریک نے اس نظام انتخاب کو مسترد کرتے ہوئے متناسب نمائندگی کا جمہوری نظام متعارف کروایا ہے اور موجودہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کو بے معنی مشق قرار دیا ہے۔ موجودہ انتخابات اگرچہ نہایت غیر یقینی، مایوسی اور دہشت گردی کے ماحول میں منعقد ہوئے۔ اس لئے کئی علاقوں میں معمول سے بہت کم تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ تاہم کئی اعتبارات سے اسے ایک منفرد الیکشن قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستانی عوام نے ملک میں در آنے والی لاقانونیت، مہنگائی، قتل و غارت گری، اشیائے ضرورت کی قلت اور سب سے بڑھ کر ملکی سلامتی پر منڈلاتے ہوئے خطرات کا ذمہ دار براہ راست صدر مملکت اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے نظام کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام نے آئندہ حکومت بنانے والی جماعتوں اور ان کے قائدین کو موجودہ حالات سے چھٹکارہ پانے کی امید کے ساتھ ووٹ دیا ہے۔ اس لئے آئندہ حکومت کے سامنے مسائل کے پہاڑ بہت بڑے چیلنج کے طور پر کھڑے ہیں۔ یہ مسائل اگر اسی طرح رہے اور لوگوں کی روزمرہ مشکلات میں خاطر خواہ کمی نہ آ سکی تو عوام کا غصہ آئندہ حکومت کے خلاف بھی سامنے آسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ منتخب ہوکر آنے والے نمائندوں کو عوامی امنگوں کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور حکومت سازی کرتے ہوئے بنیادی مسائل اور عوامی توقعات کو سر فہرست رکھا جائے۔ اس وقت قومی ترجیحات مقرر کرتے ہوئے آئندہ حکومت کو درج ذیل مسائل کا فوری حل نکالنا ہوگا۔ وہ ترجیحات درج ذیل ہیں۔

  • سب سے پہلے ملک میں 1973ء کا متفقہ آئین مکمل طور پر نافذ العمل کیا جائے اور وہ تمام ترامیم جو مختلف ادوار میں فوجی حکمرانوں کی طرف سے کی گئیں انہیں حسب ضابطہ ختم کر دیا جائے۔
  • پارلیمنٹ کی بالاتر قانون ساز حیثیت بحال ہو تاکہ ملک سے پارلیمانی نظام جمہوریت کی طرف لوٹ سکے۔
  • 3 نومبر سے پہلے والی عدلیہ کو آزاد کیا جائے اور معزول ججوں کو باعزت طور پر بحال کیا جائے۔ آئندہ نظریہ ضرورت کے نفاذ سے حلفاً توبہ کی جائے۔
  • انتظامیہ میں موجود ان کالی بھیڑوں کا صفایا کردیا جائے جو اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے بار بار جمہوری قوتوں کا راستہ روک کر اپنی مرضی کے لوگوں کو ملک کی تقدیر پر مسلط کرتے رہے ہیں۔
  • فوج اور دیگر اعلیٰ قومی اداروں کو اپنے اپنے دائروں میں رہ کر ملک و قوم کے لئے پیشہ وارانہ صلاحیتیں استعمال کرنے کا پابند بنایا جائے تاکہ آئندہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے مواقع کم از کم رہ جائیں۔
  • ملک میں عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر غیر ملکی مداخلت بند کی جائے۔ امریکہ، یورپ اور بھارت جیسے ممالک کے ساتھ ہونے والے معاملات کو منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ طے کیا جائے۔
  • قومی ضرورت کے لئے برقی توانائی حاصل کرنے کے لئے طے شدہ قومی منصوبوں کو مکمل کیا جائے اور نئے ذخائر کی منصوبہ بندی بھی کی جائے تاکہ ملک کو پریشان کن اندھیروں سے نکالا جائے۔
  • ملکی معیشت پر غیر ضروری اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لئے صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینٹ اور کابینہ کے وزراء سمیت وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے لئے ایک ضابطہ اخلاق طے کیا جائے تاکہ روزانہ کی شاہ خرچیوں پر اٹھنے والا کروڑوں روپے کا ضیاع بچا کر قومی تعمیر پر لگایا جائے، اس معاملے میں ہمسایہ ملک ایران کے موجودہ صدر احمدی نژاد کا کردار قابل تقلید ہے۔
  • ملک کی عزت وقار اور خود مختاری کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے سب سے ضروری اقدام یہ ہے کہ وطن اور اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے ہم روزمرہ ضروریات کے لئے جھولی پھیلانے سے باز رہیں۔ نیز غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو حتی الامکان کم کیا جائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم فضول خرچیوں سے پرہیز اور قومی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنائیں گے۔
  • قومی سیاستدانوں کو بھی آئندہ یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ ملک میں انتقامی، مفاداتی اور منفی سیاست کو فروغ دینے کی بجائے اصولی، نظریاتی اور قومی رویوں کو پروان چڑھائیں ورنہ گذشتہ ادوار کی طرح کوئی جماعت اور قیادت بھی مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوگی۔
  • پاکستان جو کلمہ طیبہ کی اساس پر وجود میں آیا تھا لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے بعد اس خطہ زمین کو اسلامی نظام سیاست، معیشت اور معاشرت کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا تھا لیکن یہاں کے حکمرانوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پاس نہیں کیا اس لئے آئندہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ نفاذ شریعت کا وعدہ پورا کریں۔
  • ملک میں جاری بدامنی، لاقانونیت، بے روزگاری، کرپشن اور قومی اداروں کی لوٹ مار کو ختم کرنے کے لئے مخلصانہ کاوشیں کی جانی چاہئیں۔
  • تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ امیر اور غریب کو یکساں مواقع میسر آسکیں۔
  • سرحدی علاقوں میں جاری خون خرابے اور فوج کے ساتھ مقامی انتہاء پسندوں کی لڑائی کو ختم کردیا جائے۔ اس حساس معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے۔ جس میں فوجی قیادت سمیت قبائلی عمائدین کو بھی شامل کیا جائے۔
  • احتساب کے لئے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے باہمی اشتراک سے ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا جائے جو قومی مفادات کو سامنے رکھ کر اپنا فعال کردار ادا کرے نہ کہ احتساب کے نام پر مخالفین سے سیاسی انتقام لیا جائے۔
  • نظام انتخاب کو سستا، آسان اور شفاف بنایا جائے تاکہ عام پڑھا لکھا نیک نام شہری بھی اسمبلی ممبر بن سکے۔

مندرجہ بالا اقدامات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ یہی توقعات ہیں جن کے لئے لوگوں نے انتہائی دباؤ اور خطرات کے ماحول میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔