عدم برداشت کا قومی و بین الاقوامی رجحان اور تعلیمات نبوی (ص)

ڈاکٹر لیاقت علی خان

محسن انسانیت، قائد تمدن، امن عالم کے نقیب، رہنمائے کاروان انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ وہ واحد منبع ہے جس سے عالم اسلام کی زندگی اور انسانی معاشرے کی سعادت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات پر بے شمار درود و سلام ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حلم، بردباری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن کا خطہ بنادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات عالیہ اور لائے ہوئے نظام میں دنیا کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔ اسی پر چل کر ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًاO

(سورة الاحزاب : 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے‘‘۔

دور جدید میں امن عالم مفقود ہے۔ اخوت، بے مثال ربط و ضبط، ایثار، قربانی اور برداشت و حلم کے جذبے مجروح ہورہے ہیں۔ داغہائے غم اور چراغ سینہ کتنے ہیں۔ فلسطین، بوسنیا، لبنان، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی، فرقہ واریت اور اسلحہ کی دوڑ عدم برداشت کی ہی قبیح شکلیں ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا رجحان لاقانونیت اور انارکی کا سبب بنتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی عسکری مداخلت ان کی بربریت اور عدم برداشت کی مظہر ہے۔ عدم برداشت کے اس رجحان کو ہم تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔

اسلام سے قبل عدم برداشت کا رجحان

طلوع اسلام سے قبل جنگ و جدل، قتل و خون اور عدم برداشت کی کئی مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ بقول زین العابدین میرٹھی ’’ایام العرب کا ایک سلسلہ ہے جو خون کی موجوں کی طرح سارے جزیرہ میں پھیلا ہوا تھا‘‘۔

(پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام امن و سلام، نقوش، جلد سوم، صفحہ نمبر 460)

  • عرب میں عدم برداشت کی یہ حالت تھی کہ معمولی باتوں پر قبائل کے درمیان جھگڑا ہو جاتا۔ قبل از اسلام کی دو خونیں جنگیں ’’البسوس‘‘ اور ’’داحس والغبراء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ الدکتور حسن ابراہیم حسن تاریخ الاسلام السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی، جلد اول کے صفحہ نمبر 53 پر رقمطراز ہیں کہ ’’بسوس کی جنگ چالیس سال تک رہی‘‘۔
  • تاریخِ عالم عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثلاً بقول اسد سلیم ’’شیخ ذونواس نے یمن میں خندق کھدوائی اور تیس ہزار کے قریب ان عیسائیوں کو زندہ جلوادیا جنہوں نے یہودیت اختیار نہ کی‘‘۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خارجی پالیسی صفحہ نمبر 205)۔
  • سید ابوالحسن ندوی اپنے مقالہ ’’بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے‘‘ میں تحریر کرتے ہیں : ’’اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے‘‘۔
    (رسول نمبر، جلد سوم، صفحہ نمبر 109 )
  • یہ تھا حال ہندومت میں عدم برداشت کا! اسی طرح رومی سلطنت کی تاریخ عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔
    انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں درج شدہ مضمون ’’سپین‘‘ کے مطابق 1492ء میں سپین میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 28,540 کو سزائے موت ملی اور 12,000 کو زندہ جلا دیا گیا۔ بقول رابرٹ ہریقو ’’ڈیڑھ لاکھ کے قافلے میں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو سپین میں قتل کردیا گیا‘‘۔ (دی میکنگ آف ہیومینٹی صفحہ نمبر 253)
  • ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی تصنیف ’’یورپ پر اسلام کے احسان‘‘ کے صفحہ 87 پر لکھتے ہیں کہ 1610ء میں تمام مسلمانوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 1630ء میں ایک مسلمان بھی سپین میں باقی نہ رہا حالانکہ مسلمانوں نے قریباً پونے آٹھ سو سال حکومت کی۔
  • عدم برداشت کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں اور خون انسانی کی ارزانی کا اندازہ لگائیں۔
  1. 710 قبل از مسیح (یروشلم) 40 ہزار اشخاص ذبح ہوئے۔
  2. 711 قبل از مسیح (یروشلم) ایک لاکھ 20 ہزار اشخاص مارے گئے۔
  3. 957 قبل از مسیح (یروشلم) 5 لاکھ یہودی مارے گئے۔
  4. 70 قبل از مسیح (یروشلم) 11 لاکھ یہودی مارے گئے۔
  5. 135-36 ق۔ م (یروشلم) 5 لاکھ 80 ہزار یہودی ذبح ہوئے۔
  6. جنگ عظیم اول اور دوم میں عدم برداشت کی وجہ سے
    جنگ عظیم اول : 73 لاکھ 38 ہزار افراد مارے گئے۔
    جنگ عظیم دوم : 4 کروڑ اشخاص لقمہ اجل بنے۔
    (بحوالہ نقوش، رسول نمبر، جلد نمبر 4، صفحہ 313)

اس کے مقابل رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پیکر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہداء اور کفار مقتولین کی تعداد سیرت نگاروں کے مطابق 2 ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ ہے برداشت و حلم کی سنہری مثال!

عدم برداشت کا قومی رجحان

پاکستان آج بے شمار مسائل سے نبرد آزما ہے۔ اس پر بے شمار خطرات منڈلا رہے ہیں۔ فکری انتشار۔۔۔ خدمت الناس کے جذبے سے عاری۔۔۔ اور عدم برداشت کی عادی بیوروکریسی اور کرپٹ ٹیکنوکریسی۔۔۔ مجرمانہ تغافل۔۔۔ ثقافتی کنفیوژن۔۔۔ ثقافتی روایات کی توڑ پھوڑ۔۔۔ محبت، یگانگت، انسیت اور اپنائیت کا فقدان۔۔۔ مختلف قومیتوں کا اندیشہ۔۔۔ لسانی گروہ بندی۔۔۔ علاقائی عصبیتیں۔۔۔ صوبائی تعصب، ذات، برادری، علاقی تفاوت۔۔۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر عدم برداشت اور تعصب۔۔۔ مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں میں عدم برداشت کا رجحان۔۔۔ مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کا رجحان۔۔۔ اتحاد بین المسلمین کا فقدان۔۔۔ اسلام دشمن اور ملک دشمن عناصر اور تنظیموں کا منفی کردار۔۔۔۔ دلوں پر نفرتوں کا بوجھ۔۔۔ دماغوں پر آلودگیوں کا انبوہ۔۔۔ جسم پر موٹے موٹے منافقت کے لبادے۔۔۔ اغوا، قتل، اغوا برائے تاوان، ڈاکے، بھیانک جرائم۔۔۔ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا قتل۔۔۔ عصمت دری، خانہ سوزی، جسم سوزی۔۔۔ گولیوں کی گھن گرج۔۔۔ نت نئے بسائے جانے والے قبرستان۔۔۔ ظلم کی کالی راتیں۔۔۔ الغرض خوشرنگ زمین کو خون رنگین زمین میں بدل دیا گیا۔ یہ سب عدم برداشت کی قباحتیں ہیں۔

پاکستان میں عدم برداشت کا رجحان ملک کی سلامتی، بقا اور ترقی کے لئے رکاوٹ ہے۔ عدم برداشت کا رجحان حسب ذیل شعبوں میں ہے :

  1. قومی سیاست میں عدم برداشت کا رجحان
  2. معاشرتی امور میں عدم برداشت کا رجحان
  3. مذہب میں عدم برداشت کا رجحان

1947-58ء کا دور پاکستان کے لئے ابتلاء کا دور تھا۔ خواجہ ناظم الدین، غلام محمد اور اسکندر مرزا کے دور میں سیاست میں عدم برداشت کا رجحان رہا۔ عدم برداشت کا مظاہرہ آئین ساز اسمبلی توڑنے کی صورت میں کیا گیا۔۔۔ 1969-71ء کے دوران ہم نے مشرقی پاکستان سے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا۔ گو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بین الاقوامی سیاست بھی کارفرما تھی تاہم ہم اپنے آپ کو کسی صورت میں بھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔۔۔ 1973ء میں پہلی بار عوامی آئین بنا۔ اس کے آرٹیکل نمبر 20 کے ذریعے مذہب کی آزادی کا تصور دیا گیا۔ نیز آرٹیکل نمبر 36 کے تحت اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا اور اس کے بعد کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ 1988-99ء کے دوران میں بھی قومی سیاست میں عدم برداشت کا رجحان رہا۔

معاشرتی امور میں عدم برداشت کا رجحان انتہائی مضر ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اخوت کا جذبہ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔۔۔ معیشت تباہی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔۔۔ اس سے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔۔۔ غریب لوگ غربت کو برداشت نہیں کرپاتے اور خودکشی کا سہارہ لیتے ہیں۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو معاف نہیں کرتے۔۔۔ اوروں کی زیادتیوں کو درگزر نہیں کرتے جس سے جھگڑے اور فسادات عام ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی جماعتوں میں بھی عدم برداشت کی وجہ سے فرقہ واریت نے جنم لیا ہے۔

فرقہ واریت۔۔ عدم برداشت کی بدترین شکل

قرآن حکیم نے اتفاق اور اتحاد کا درس دیا۔ ارشاد فرمایا :

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُو.

(اٰل عمران، 3 : 103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ‘‘۔

مذہبی منافرت کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہے :

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ.

(البقره، 2 : 113)

’’اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالاں کہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اتفاق اور برداشت کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں ہے :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : تین باتوں سے خدا خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 462)

دہشت گردی، عدم برداشت کی بھیانک شکل

دہشت گردی دور جدید میں عدم برداشت کی ایک بھیانک اور خوفناک شکل ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی اور لاقانونیت زوروں پر ہے۔ عدم برداشت جب اقوام عالم میں بڑھ جائے تو پھر یہ دہشت گردی کی بدترین شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ آج انسانیت بربادی اور کشت و خون کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اخوت، برداشت، باہمی ہمدردی اور محبت کا فقدان ہے۔

وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کا بین الاقوامی طور پر حل تلاش کیا جائے۔

عدم برداشت کا بین الاقوامی رجحان

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فساد فی البر والبحر کا ذکر کیا ہے۔ یہ فساد عالمی سطح پر ہے اور اس کی اصل وجہ عدم برداشت ہے جو اقوام عالم کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَO

’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کیے ہیں، تاکہ وہ باز آ جائیں‘‘۔

دور جدید بدترین قسم کا فساد پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں دیکھ چکا ہے۔ جانی نقصانات کے علاوہ مالی نقصانات کی ہولناکیوں کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے :

1۔ پہلی جنگ عظیم میں خرچ کا تخمینہ 80 ارب پونڈ

2۔ جنگ عظیم دوم میں 1939ء تا 1944ء روزانہ وہ رقم جو صرف برطانیہ جنگ پر خرچ کرتا رہا۔ ساڑھے 19 کروڑ پونڈ۔

بین الاقوامی سطح پر عدم برداشت کی وجہ سے ہر سو ایک فساد برپا ہے۔ افغانستان، کشمیر، فلسطین، بوسینیا، چیچنیا، ایریٹریا، صومالیہ، الجزائر اور دنیا کے دیگر گوشوں میں امن مفقود رہا ہے۔ عدم برداشت کا رجحان اسلحہ کی دوڑ اور ایٹمی پھیلاؤ کی صورت میں نمودار ہو کر اقوام عالم میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے۔

اس صدی میں عدم برداشت کے رجحان نے اقوام عالم کے امن کو پارہ پارہ کر دیا۔ چین کی خانہ جنگی (1945-49)۔۔۔ کوریا کی جنگ (1950-53)۔۔۔ انڈونیشیا میں فسادات (1958-65)۔۔۔ کانگو میں خانہ جنگی (1960-64)۔۔۔ الجیریا اور مراکش کے مابین جھگڑا (1963ء)۔۔۔ یمن میں خانہ جنگی (1962-69)۔۔۔ ویت نام کی جنگ (1965-72)۔۔۔ نائیجیریا میں خانہ جنگی (1967-70)۔۔۔ مصر اور اسرائیل کی جنگ (1967)۔۔۔ پاکستان اور انڈیا میں جنگیں (1965-71)۔۔۔ انگولا میں خانہ جنگی (1975-76)۔۔۔ کمبوڈیا میں بحران (1978-79)۔۔۔ افغانستان کی جنگ (1978,2002)۔۔۔ اور دیگر ممالک میں جنگیں اقوام کے درمیان عدم برداشت کے رجحان کی وجہ سے ہوئیں۔ اس صدی کے اواخر میں روسی قیصریت کا عظیم الشان قصر آناً فاناً کھوکھلا ہوگیا۔ روسی اشتراکیت نے بدترین عدم برداشت کا مظاہرہ کیا۔ روسی کمیونزم کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اڑھائی کروڑ سے چار کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ آج دنیائے اسلام نئے عالمی نظام کی زد میں ہے۔

چند سال پہلے انڈیا نے عدم برداشت کی ایک بھونڈی مثال قائم کی۔ بابری مسجد پر لاکھوں ہندوؤں نے ہلا بول دیا۔ گنبد شریف کو شہید کردیا۔ مینار مبارک شہید کردیا گیا۔ آناً فاناً مسجد ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ انڈیا نے اپنے متعصبانہ رویے کا اظہار کرکے اپنی ہی ساکھ بین الاقوامی برادری میں برباد کردی ہے۔ اسی سرزمین پاک و ہند سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مذہبی برداشت اور رواداری کے گیت الاپے تھے۔ بانگ درا کی نظم ’’نیا شوالہ‘‘ میں انہوں نے فرمایا تھا :

سوئی پڑی ہوئی ہے، مدت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنالیں

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہوا اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں

ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

اس کے مقابلے میں اسلام میں برداشت اور مذہبی رواداری ہے اور غیر مسلموں کے معبدوں کا احترام ہے۔ مذہبی رواداری اور برداشت کی ایک روشن مثال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نجران کے وفد کی ہے۔ یہ وفد نصاریٰ کا تھا جو مدینہ شریف حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد کی مہمانداری کی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کو جگہ دی بلکہ ان کو اپنے طور طریقے پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت فرمادی۔ (ملاحظہ ہو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، اسلام کی مذہبی رواداری (مضمون)، نقوش، جلد سوم، صفحہ نمبر 666)

مغرب اپنے آپ کو حقوق انسانی کا نقیب کہتا ہے مگر وہاں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان عدم برداشت کا رجحان عروج پر پہنچ چکا ہے۔۔۔ شمالی آئرلینڈ اس عدم برداشت کی وجہ سے جہنم زار بنا ہوا ہے۔۔۔ ایٹمی ہتھیاروں کی صنعت عروج پر ہے۔ خدانخواستہ ان کا استعمال دنیا میں قیامت برپا کرسکتا ہے۔

عدم برداشت کا قومی و بین الاقوامی رجحان اور اس کا حل تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ارباب سیّر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و حلم، دشمنوں سے درگزر اور ہر زیادتی کرنے والے اور ستانے والے سے حسن سلوک اور ان کے مظالم کو برداشت کرنے کے واقعات تحریر کئے ہیں۔

  • ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی ہے : ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، بجز اس کے کہ خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو، پس اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے مواخذہ فرماتے تھے‘‘۔ (البخاری، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 395)
  • اہل طائف نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سلوک کیا مگر 9ھ میں جب ان کا وفد مدینہ شریف پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صحن مسجد میں مہمان ٹھہرایا اور ان سے عزت و حرمت سے پیش آئے۔
  • رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی نے ہمیشہ درپردہ دشمنوں کی حمایت کی۔ وہ واقعہ افک میں براہ راست ملوث تھا۔ بقول علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ و علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ’’دشمنوں کی شماتت، ناموس کی بدنامی۔۔۔ یہ باتیں انسانی صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سماسکتیں۔ تاہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب باتوں کے ساتھ کیا‘‘۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حصہ دوم، صفحہ نمبر 211)
    اس کے باوجود نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کیا بلکہ مرنے کے بعد اسے اپنی قمیض پہنائی اور ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے کا وعدہ فرمایا۔ کئی بار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسے قتل کی اجازت چاہی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔
  • ایک دن ایک بدو آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر اس زور سے کھینچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک سرخ ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا، بولا کہ میرے اونٹوں کو غلہ سے لاد دے۔ اس نے گستاخانہ جملے بھی کہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے اونٹوں پر جَو اور کھجوریں لدوادیں اور کچھ تعرض نہ فرمایا۔ (بحوالہ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ و علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حصہ دوم، صفحہ نمبر 213)
  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا : ’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے‘‘۔ (مسلم، حدیث نمبر 2014)
    ایک مرتبہ ایک شخص نے نصیحت سننے کی خواہش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’غصہ نہ کیا کر اور اسے تین مرتبہ دہرایا‘‘۔ (البخاری، جلد4، صفحہ نمبر 139)
  • ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلمان قبیلے کے قحط دور کرنے کی خاطر ایک یہودی زید بن سعید سے اسّی دینار قرض لیا۔ چنانچہ اس سے قبیلے کو خوراک مہیا کردی گئی۔ ادائیگی کے وقت سے پہلے ہی زید، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور گستاخانہ انداز میں رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گستاخی کو برداشت نہ کرسکے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عمررضی اللہ عنہ! تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے حسن ادا کی تلقین کرتے اور اسے حسن طلب کی‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس کے قرض کی فوری واپسی کا حکم دیا بلکہ بیس صاع (تقریباً دو من) زیادہ کھجوریں دینے کا حکم دیا۔ اس سلوک سے وہ مسلمان ہوگیا۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد19، صفحہ نمبر 129)
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری زندگی حلم و برداشت کا مظاہرہ فرمایا۔ ایک سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چپکے چپکے اشاعت اسلام کی کوشش کرتے رہے جب مسلمانوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور توحید کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سن کر کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ٹوٹ پڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنا شروع کردیا۔ حضرت حارث بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھڑوانے کے لئے آئے تو کفار نے حضرت حارث رضی اللہ عنہ کو اتنی تلواریں ماریں کہ وہ شہید ہوگئے۔ یہ اسلام کی مدافعت کے لئے پہلی شہادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ظلم کو برداشت کیا۔
  • اعلان نبوت کے بعد تین سال بڑی سختی اور آزمائش کے تھے۔ ابوجہل اور کفار مکہ کی کھلم کھلا مخالفت، مزاحمت، تضحیک اور سب و شتم کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ 5 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 10 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یعنی حضرت ابوطالب کی وفات تک کفار مکہ نے تشدد کا مظاہرہ کیا۔۔۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ان کا مالک امیہ دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹاتا۔۔۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا جاتا یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی نکل آتی۔۔۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اتنا مارا جاتا کہ آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوجاتے۔۔۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ پر ظلم۔۔۔ ابوفکیہ رضی اللہ عنہ پر ظلم۔۔۔ مسلمان لونڈیوں لبینہ رضی اللہ عنھا، زنیرہ رضی اللہ عنہ، نہدیہ رضی اللہ عنہ اور ام عبیس رضی اللہ عنہ پر بے پایاں ظلم۔۔۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ پر ظلم اور سفاکی تاریخ اسلام کی کتابوں میں مرقوم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ظلم اور سختی کو برداشت کرتے اور اُف نہ کرتے تھے، نہ کسی پر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتے۔

اسی ظلم کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم دیا۔ نجاشی نے بے پایاں مذہبی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو پناہ دی۔

  • شعب ابی طالب کا واقعہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برداشت اور تحمل کا عظیم واقعہ ہے۔ یہ محاصرہ تین سال تک رہا۔ بنی ہاشم درختوں کے پتے اور طلح گھاس کی پتیاں کھا کھا کر زندگی بسرکرتے تھے اور بچے بھوک سے تمام رات روتے تھے۔ محاصرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بنی ہاشم اتنے کمزور ہوئے کہ کسی کی صورت نہیں پہچانی جاتی تھی مگر سب نے کمال برداشت کا مظاہرہ کیا۔
  • حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبرو تحمل کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی رخصت ہوئیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غم کا پہاڑ ٹوٹا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان مصیبتوں سے نہ گھبرائے اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ 10 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 13 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے لئے انتہائی ابتلاء و مصیبت کا دور تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبرو برداشت سے دین اسلام کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو ان بدبختوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ٹھکرایا بلکہ شہر کے غنڈوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ انہوں نے اس قدر پتھر مارے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہولہان ہوکر زمین پر گر پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باغ میں لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخم دھوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی بددعا نہ دی بلکہ فرمایا : ’’اے اللہ تو ان لوگوں کو ہدایت دے۔ یہ نادان ہیں مجھ کو نہیں پہچانتے‘‘۔

اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے۔ راستے میں ہر تکلیف کو برداشت کیا۔۔۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر میں مزدور بن کر کام کیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو جمع کرکے مواخات کا نظام قائم کیا۔۔۔ یہ ایثار بے مثال تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد بھی کفار کی طرف سے ہر حملے کو برداشت کیا اور اپنے مشن میں ڈٹے رہے۔۔۔ غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق میں صعوبتوں کو برداشت کیا اور دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے۔

یکم جنوری 630ء مطابق 10 رمضان المبارک 8ھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہزار صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر، رواداری اور برداشت کی ایک عظیم الشان روایت چھوڑی۔ بقول ڈاکٹر محمد حمیداللہ ’’اکیس سال کی غیر منقطع کشاکش کے بعد مکے پر اچانک اسلامی فوج کا قبضہ ہوگیا اور یہ جوہری بم سے بھی زیادہ بے بس کر دینے والا واقعہ تھا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ پر اہل شہر کو جمع کرکے کیا کہا تھا؟

لَاتَثْرِيبَ عَلَيْکُمْ الْيَوْم اِذْهَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقاء.

’’یعنی آج تم پر کوئی الزام باقی نہیں۔ جاؤ تم سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔

(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی، صفحہ نمبر 326)

’’کاش کہ کوئی آئزن ہاور، کوئی سٹالن، کوئی میک آرتھر، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت پر عمل کی توفیق پاتا اور محرومین کی آئندہ انتقامی جنگ کے امکان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرکے انسانوں کو امن و چین عطا کرسکتا‘‘۔

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاق مدینہ کے ذریعے مذہبی رواداری اور برداشت کا درس دیا۔ بقول ڈاکٹر محمد حمیداللہ ’’یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا‘‘۔

(عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام حکمرانی، صفحہ نمبر 75)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کو ایک قومیت کی لڑی میں پرو دیا۔ بقول محمد حسین ہیکل ’’معاہدین کی یہ بستی (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کے لئے امن کا گہوارہ بن گئی‘‘۔

(حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صفحہ نمبر 270) :

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں بین الاقوامی امن، رواداری اور برداشت کا درس دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے ایسی ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لئے آج کا دن، اس شہر، اس مہینہ کی حرمت۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو‘‘۔

الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں مسلم امہ کے محرمات کی تعظیم۔۔۔ ان کے باہمی حقوق کا احترام۔۔۔ اور ان پر رحمت اور شفقت کے بارے میں بے شمار ارشادات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حریت کا فرمان ہیں۔۔۔ انصاف کا سرچشمہ ہیں۔۔۔ اور انسانی مساوات و برداشت کا پیکر ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ حلم و بردباری کی تعلیم دی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

عَنْ اَبِیْ هرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم اَوْ صِنِیْ قَالَ لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ ذٰلِکَ مِرَارًا قَالَ لَا تَغْضَبْ. (بخاری)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت! مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ اس شخص نے پھر اپنی وہی درخواست کئی بار دہرائی کہ حضرت مجھے اور وصیت فرمائیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو‘‘۔

اگر ہم ان تعلیمات عالیہ پر عمل کریں تو ہماری زندگیوں میں انقلاب آجائے۔

سیرت طیبہ اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے ہم اپنے طبقاتی، لسانی، علاقائی، معاشی، قومی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس نظام رحمت میں ہماری فلاح، سلامتی اور ترقی کی ضمانت پوشیدہ ہے۔

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری اپنی شہرہ آفاق کتاب سیرت الرحیق المختوم کے صفحہ نمبر 767 پر رقمطراز ہیں :

’’بردباری، قوت برداشت، قدرت پاکر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جن کے ذریعہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کی تھی۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلند کرداری کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا رسانی اور بدمعاشوں کی خودسری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر و حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا‘‘۔

ڈاکٹر نصیر احمد ناصر نے اپنی کتاب پیغمبر اعظم و آخر کے صفحہ نمبر 639 میں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں باہمی تعامل میں دیانت، عزت نفس، رواداری اور مدارات کا درس دیا۔

سید اسعد گیلانی ’’رسول اکرم کی حکمت انقلاب‘‘ کے صفحہ نمبر 79 پر لکھا ہے ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں کو اخلاق کے اسلحہ سے فتح کیا‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

’’کوئی مسلمان بازار سے نیزہ لیکر گزرے تو اس کے ایک حصے کو ہاتھ سے تھام لے تاکہ کسی مسلمان کو اذیت نہ پہنچے‘‘۔ (بخاری)

نعیم صدیقی نے ’’محسن انسانیت‘‘ کے صفحہ نمبر 59 میں درست کہا : ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی حکمت کا مطالعہ ہم پر لازم ہے‘‘۔

ہم تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں عدم برداشت کے مسئلے کو بخوبی حل کرسکتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’من حمل علینا السلاح فلیس منا‘‘۔ اس کے باوجود دوسروں پر اسلحہ سے حملہ آور ہونا عدم برداشت کی ایک صورت ہے۔ دیگر احادیث مبارکہ میں بھی بردباری، تحمل، برداشت اور حلم کا درس دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

وَعَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالَه کُفْرٌ. (متفق عليه)

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں مختلف گروہوں کا ایک دوسرے کو گالی دینا اور پھر مسلمانوں کا آپس میں قتل کفر قرار دیا گیا ہے۔

سورۃ بقرہ کی آیت 256 میں ارشاد ہے :

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔

چنانچہ غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی اجازت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادات مثلاً روزہ، نماز، حج وغیرہ میں بھی تکالیف کو برداشت کرنے کا درس دیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغی مشن میں عقل و حکمت، موعظہ حسنہ، مجادلہ احسن، ذہنی انقلاب، قلبی تبدیلی، دلسوزی، عدم اکراہ اور نرم روی اور برداشت جیسے اصولوں کو سامنے رکھا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اقلیتوں کا خیال رکھا۔۔۔ کئی نامور مستشرقین نے بھی اقلیتوں بارے پالیسی پسند کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقلیتوں کے بارے میں رواداری اور برداشت کا رویہ سراہا۔

  • دی آکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا آف دی ماڈرن اسلامک ورلڈ کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 1.2 بلین سے بھی زیادہ ہے۔ قریباً مسلمانوں کا 1/3 حصہ بطور اقلیت کے دنیا کے دیگر ممالک میں رہتا ہے۔ یہ تعداد 350 ملین سے بھی زیادہ ہے۔ ان پر ہر وقت ملک بدر ہونے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ دنیا عدم برداشت کا شکار ہے۔ اس کے مقابلے میں جزیہ کی معمولی رقم لیکر اسلامی ریاست ذمیوں کے حقوق کی پاسبانی کرتی ہے۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو راہب خانوں اور گرجاؤں کو بھی مالی امداد دیتے تھے۔ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں غیر مسلم بھی آجاتے ہیں۔۔۔ ہارون الرشید کے دور میں برامکہ جو آتش پرست تھے، انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا۔۔۔ ہندوستان میں بھی مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں اور دیگر مذاہب والوں سے رواداری اور نرمی کا سلوک رکھا۔۔۔ سلطنت عثمانیہ میں غیر مسلموں کو اہم عہدے ملے۔۔۔ محمد دوم (الفاتح) نے تو یونانی کلیسا کی مذہبی سربراہی قبول کرلی کیونکہ ان کا سربراہ اس وقت نہیں تھا۔۔۔ اس کے برعکس پنجاب میں رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں بادشاہی مسجد کو اصطبل میں تبدیل کرکے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا۔۔۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر انقلابات میں تشدد اور عدم برداشت کی بھیانک مثالیں موجود ہیں۔

تجاویز

عدم برداشت، تشدد کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر روکنے کے لئے حسب ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں :

  1. مسلم ممالک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے اس پہلو (عفو و درگزر، برداشت وحلم) پر بین الاقوامی سیمینار کروائیں تاکہ نہ صرف مسلم امہ بلکہ مغربی دنیا تعصب سے باہر نکلے۔
  2. عدم برداشت کا مسئلہ بلاشبہ بین الاقوامی ہے۔ سی ٹی بی ٹی (CTBT) طرز کے معاہدات بین الاقوامی سطح پر ہوئے ہیں لیکن دہشت گردی اور فرقہ واریت کو روکنے کے لئے UN کردار ادا کرے اور بین الاقوامی سطح پر کانفرنس کرائے۔
  3. مسلم ممالک سفارتی سطح پر ان مسلم ممالک کو سمجھائیں جو فرقہ واریت کے لئے فنڈ مہیا کرتے ہیں۔ اس کا تدارک لازم ہے۔
  4. عدم برداشت اور تشدد کے پس منظر میں اقتصادی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ مسلم امہ اپنی اقتصادی حالت بہتر بنائے۔ یہ محنت اور سائنسی ترقی ہی کی بدولت ممکن ہے۔ نیز سودی نظام کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔
  5. مسلم علماء فرقہ واریت کو روکنے کے لئے اسوہ حسنہ پر عمل پیر اہونے کی کاوش کریں۔
  6. اتحاد بین المسلمین سے اور مشترکہ دفاع سے ہم امت مسلمہ کے خلاف زیادتیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
  7. جہاں تک قومی سطح پر عدم برداشت کے رجحان کا تعلق ہے، اس مسئلے کا فوری سیاسی حل وقت کی ضرورت ہے۔

الغرض دنیا کے عظیم ترین مفکر اور نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے ہی ہم عدم برداشت جیسے قومی اور بین الاقوامی رجحان کو روک سکتے ہیں۔