ذکر اور جدید سائنس (حصہ اول)

ایس ایم نور

ارشاد ربانی ہے :

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ.

(الحديد : 16)

’’کیا ایمان والوں کے لیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم، رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’احسان‘‘ یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان 1 : 27)

یعنی آپ اپنی عبادت اور بندگی اور ذکر و فکر کے دوران اپنا خیال اس طرح لگائے رکھیں کہ ’’جیسے آپ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں، وگرنہ اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ ہی رہا ہے اور جب آپ اپنی توجہ اس نکتے پر مرکوز کردیتے ہیں تو اس ارتکازِ توجہ کی بدولت آپ کو بے شمار ظاہری و باطنی اور روحانی و جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ عبادت الہٰیہ میں اس کی ایک بہترین مثال نماز ہے۔

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO

(طه : 14)

’’اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔

نماز آپ جس قدر اہتمام اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھیں گے اسی قدر یہ آپ کے لئے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد و ثمرات کی بھی ضامن ہے، نماز میں اسی ارتکاز توجہ اور ذوق و شوق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

ارتکاز توجہ اور علم نفسیات

عام اندازہ ہے کہ ساٹھ سیکنڈ (ایک منٹ) میں واضح خیالات کی تقریباً ایک سو بیس (120) لہریں ذہن کی سطح سے گزرتی ہیں، ارتکاز توجہ کا مطلب یہ ہے کہ ان ایک سو بیس (120) خیالات کے انبار میں سے کسی ایک خیال کو چن کر اپنی تمام تر توجہ اس خیال پر مرکوز کردی جائے اور یہ کام انتہائی مشکل ہے کیونکہ ہم جیسے ہی کسی ایک خیال پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ذہن فوراً جوابی حملہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں لاشعوری مزاحمت شروع ہوجاتی ہے اور توجہ منتشر ہوجاتی ہے۔ لہذا شعوری کوشش کی بدولت ہم دوبارہ پہلے والے خیال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے، کچھ عرصے کی مسلسل محنت کے بعد رفتہ رفتہ لاشعوری مزاحمت کمزور پڑنے لگتی ہے اور انسان ایک نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہونے لگتا ہے، علم نفسیات کی رو سے اس کو ارتکاز توجہ یا تنظیم خیال کی مشق کہا جاتا ہے جو ہمارے جسم، روح اور نفس پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ان مثبت اثرات کو سمجھنے کے لئے دو اعصابی نظام کا مطالعہ ضروری ہے۔

  1. دماغ نخاعی نظام
  2. تائیدی عصبی نظام

1۔ دماغی نخاعی نظام (Cerbro Spinal System)

یہ نظام انسانی ارادے کے تحت چلتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لکھنے کے لئے قلم پکڑنا، قلم میں روشنائی بھرنا، کاغذ لینا، لکھنا وغیرہ ہر وہ کام جسے ہم اپنی مرضی سے کریں یا دوسرے لفظوں میں ارادے کی وہ قوت جس سے ہم مختلف امور سرانجام دیتے ہیں یہ سب دماغی نخاعی نظام کے زیر اثر ہوتا ہے جبکہ علم نفسیات کی رو سے ارتکاز توجہ یا تنظیم خیال کی مشق کا ایک اہم مقصد انسان کی اسی قوت ارادی کو اجاگر کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ انسان کی عظمت اس کی قوت ارادی میں پوشیدہ ہے۔ انسانی ارادہ فاتح کائنات بھی ہے اور معمار حیات بھی۔ اس لئے کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے :

"Man is not the creation of circumstances, But the circumstances are the creation of man"

’’انسان حالات کی پیداوار نہیں ہے بلکہ حالات انسان کی تخلیق ہیں‘‘۔

یعنی انسان اگر چاہے تو اپنی قوت ارادی کی بدولت ایک حد تک حالات کا دھارا بدل سکتا ہے اور اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہماری اکثر ذہنی الجھنوں، پریشانیوں اور روحانی گتھیوں کی تہہ میں صرف ارادے کی کمزوری کار فرما ہوتی ہے، ہم اپنے وحشی بے روک اور پرشور جذبات پر صرف قوت ارادی کی بدولت قابو پا سکتے ہیں۔ ارتکاز توجہ کی مشق ’’دماغی نخاعی نظام‘‘ کے تحت اسی قوت ارادی کو مضبوط کرتی ہے جس کی بدولت ہم اچھائی کو اپنانے اور برائی سے بچنے میں عملی طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی نقطہ نظر سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ارتکاز توجہ‘‘ کی مشق ’’نفس امارہ‘‘ (جو ہمیں برائی کی دعوت دیتا ہے) کے خلاف جہاد کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا ہے :

وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌO

(يوسف : 53)

’’ اور میں (یوسف علیہ السلام) اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo‘‘۔

یاد رہے کہ مراقبہ، تفکر، استغراق وغیرہ بھی ’’ارتکاز توجہ‘‘ ہی کی مختلف صورتیں ہیں اور یہی ’’ارتکاز توجہ‘‘ عبادات کی مختلف صورتوں میں لازم قرار دی گئی ہے۔

2۔ تائیدی عصبی نظام (Sympathetic Nervous System)

اس نظام کو ’’خود مختار نظام عصبی‘‘ بھی کہتے ہیں جو ہمارے ارادے کی گرفت سے آزاد ہے۔ پچھلی مثال کو ہی سامنے رکھیں تو کچھ تحریر کرتے وقت ہمارا دماغ اور دوسرا اندرونی اعصابی نظام خود کار سسٹم کی طرح (Automatically) چلتا رہا کہ جس کا ہمیں احساس بھی نہ ہوا مثلاً دل دھڑکتا رہا، رگوں میں خون گردش کرتا رہا، نبض جاری رہی، لاشعوری طور پر پہلو بھی بدلتے رہے، پلکیں جھپکتے رہے وغیرہ، یعنی دوران تحریر یہ سارے کام دماغ اور اعصاب کے ایک ’’خود مختار اعصابی سسٹم‘‘ نے انجام دیئے۔ ارتکاز توجہ کی مشق کی مستقل عادت بنالینے والے رفتہ رفتہ اپنے اس ’’خود مختار نظام عصبی‘‘ پر بھی حاوی ہونے لگتے ہیں اور نتیجتاً سردی، گرمی، بھوک، پیاس، خوشبو اور بدبو وغیرہ کی شدت انہیں زیادہ پریشان نہیں کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ جذبات، تخیلات، تاثرات، محسوسات، خیال، توجہ، حافظہ اور تصور وغیرہ سب پر انسانی ارادہ حکمران ہونے لگتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

1. فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَـذَا بَشَرًا إِنْ هَـذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌO

(يوسف : 31)

’’پس جب اس (زلیخا) نے ان کی مکارانہ باتیں سنیں (تو) انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی (پھر ان کے سامنے پھل رکھ دیئے) اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دے دی اور (یوسف علیہ السلام سے) درخواست کی کہ ذرا ان کے سامنے سے (ہوکر) نکل جاؤ (تاکہ انہیں بھی میری کیفیت کا سبب معلوم ہو جائے)، سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوہ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں: اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہےo‘‘۔

2۔ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل تھا کہ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو ہم سے ایسے لاتعلق ہوجاتے کہ جیسے کوئی شناسائی نہ ہو۔

جیسا کہ قرآن پاک میں حکم ربانی ہے :

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًاO

(المزمل : 8)

’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں‘‘۔

3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک متوّرم ہوجاتے تھے۔

4۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ران میں ایک تیر لگا اور آر پار ہوگیا جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ کو بہت تکلیف محسوس ہوئی، کسی صحابی نے مشورہ دیا کہ تیر اس وقت نکالا جائے جب آپ رضی اللہ عنہ نماز میں مشغول ہوں۔ چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے نماز کی نیت باندھی اور اس قدر یکسو ہوگئے کہ گردو پیش کی کوئی خبر نہ رہی تو تیر کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال کر مرہم پٹی کردی گئی اور آپ رضی اللہ عنہ کو قطعاً تکلیف کا احساس نہ ہوا۔

5۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ خانہ کعبہ کے نزدیک نماز ادا فرمارہے تھے جب آپ سجدے میں گئے تو کسی دشمن نے پاؤں کی انگلیاں کاٹ دیں (اور آپ کو خبر بھی نہ ہوئی) سلام پھیرا تو خون پڑا ہوا دیکھا اور پاؤں میں تکلیف محسوس کی تو پھر معلوم ہوا کہ کسی نے پاؤں کی انگلیاں کاٹ دی ہیں۔

بالکل اسی طرح یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ شدید غصے کے عالم میں بعض اوقات بھوک اور پیاس ہونے کے باوجود احساس نہیں رہتا۔ معلوم یہ ہوا کہ خواہ کیسی ہی جسمانی تکلیف یا ذہنی اذیت ہو ارتکاز توجہ کی مستقل عادت بنالینے والے اپنی مضبوط قوت ارادی کے تحت اپنے تمام ارادی و غیر ارادی افعال کو اپنی مرضی سے جب اور جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں اور یوں انسان جذباتی دباؤ کا شکار ہونے سے بچ سکتا ہے کیونکہ یہ جذباتی دباؤ ہی ہے جو ’’عصبی خلل‘‘ (نیوراسزیا نیورائیت Neurosis) کی بنیاد بنتا ہے جس کی وجہ سے بے شمار جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور انسان وقت سے پہلے بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ (جاری ہے)