اختر محمد مکی

انقلاب کب آئے گا؟ یہ سوال کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں۔۔۔ ایک طبقہ وہ ہے جو وقت کے اعتبار سے کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے۔ جب وقت گزر جاتا ہے تو پھر وہ جاننا چاہتا ہے کہ مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ لوگ اپنے علاوہ باقی سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسے انقلاب کے تو شاید دور تک کوئی آثار نہیں۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو جاننا چاہتا ہے کی کیا شرائط ہیں؟ جن کے پورا ہونے پر انقلاب کی امید کی جاسکتی ہے اور وہ خود انقلاب کے لئے کیا کرسکتا ہے؟

پہلا طبقہ اکثریت میں ہے اور دوسرا طبقہ اقلیت میں ہے۔ دوسرے طبقہ کے سوال کا جواب اس طرح دینے کی ضرورت ہے جس سے سوال کے تقاضے پورے ہوں نیز ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسرا طبقہ اکثریت میں ہوجائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے موجودہ صورت حال کا ذکر کیا جاتا ہے پھر انفرادی انقلاب اور جو انقلاب آچکا اس کا ذکر ہوگا اور بعد ازیں انفرادی انقلاب کے سفر کو جاری رکھنے اور اسے قومی انقلاب میں بدلنے کی بات ہوگی۔

موجودہ صورت حال : سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ قوانین فطرت اٹل ہیں اور ہم ان کے تابع ہیں، وہ ہمارے تابع نہیں ہوسکتے۔ ساری دنیا مل کر بھی انہیں تبدیل نہیں کرسکی۔ قوانین فطرت میں ایک یہ ہے کہ اقوال و افعال، حالات و واقعات اور چیزوں کو اپنے اپنے مفات اور انجام کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ اس لئے ہر قول و فعل سے پہلے اس کے انجام کو دیکھ لینا چاہئے۔ کائنات کے نظام میں ’’مقابلے‘‘ کا کردار مرکزی ہے، مقابلے کے نتیجہ میں ہار جیت، مؤثر متاثر اور غالب مغلوب کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ موثر اور غالب ہونا طاقت کے بل بوتے پر ہوتا ہے۔ موثر ہونے اور غلبے سے مزید طاقت پیدا ہوتی ہے۔ مغلوب اور متاثر ہونا کمزوری کے باعث ہوتا ہے۔ مزید کمزوری کا باعث بھی ہے۔ مادی وسائل انسان کی ضرورت ہیں۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا کہ انسان کی قدرو قیمت مادی وسائل کی نسبت زیادہ ہونی چاہئے لیکن مادی وسائل کی صفات و کمالات معلوم کرنے کے لئے جو محنت ہورہی ہے وہ غالب ہے اور خود انسان پر جو محنت ہورہی ہے وہ مغلوب ہے۔ نتیجتاً مادی وسائل کی قدرو قیمت زیادہ ہوگئی ہے اور خود انسان کی قدرو قیمت کم ہوگئی۔ اگر انسان کی قدرو قیمت زیادہ ہوتی تو یوں مادی وسائل کے لئے انسانی خون کی ندیاں نہ بہتیں۔ گویا موجودہ ترقی مادی ترقی تو ہوسکتی ہے لیکن اس کو انسان ترقی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ مادی ترقی کی بنیاد پر ’’ترقی یافتہ‘‘ ہونے کا دعویٰ اگرچہ ساری دنیا مان رہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ یہ انسانیت کا زوال ہے۔ نیز اس سے بھی ہر ایک اتفاق ہے کہ انسان کے باطن کی قدرو قیمت ظاہر سے زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ ظاہر ہمیشہ باطن کے تابع ہوتا ہے۔

عقائد، نظریات، سوچ و فکر، عقل و شعور اور ارادہ سب باطن سے تعلق رکھتے ہیں۔ دور حاضر میں ظاہر کو سجانے اور بنانے کی فکر اور محنت غالب ہے۔ باطن کے صفات و کمالات کو جاننے، پہچاننے اور بنانے پر محنت مغلوب ہے۔ اس سے ظاہر کی قدرو قیمت زیادہ ہوگئی اور انسانی صفات و کمالات کم ہوگئے ہیں۔ انسانیت کمزور اور حیوانیت و درندگی طاقتور ہوگئی ہے۔ روحانیت کی قدر و قیمت ظاہر و باطن دونوں سے زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ ظاہر کو موت ہے، روح کو موت نہیں، روح اللہ کے امر سے ہے۔

روحانی ضروریات غیبی وسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ دور حاضر میں ظاہر کے بارے میں فکر اور محنت غالب ہے جبکہ روح کے لئے فکر اور محنت صرف مغلوب ہی نہیں بلکہ متروک اور معدوم ہوگئی ہے۔ ہر کام سے پہلا کام علم ہے۔ علم ہر چیز کی حقیقت جاننے کا نام ہے۔ لاعلمی اور کم علمی سے دو راستے نکلتے ہیں، ان میں ایک راستہ مغالطے یا غلط فہمی کا ہے۔ اس راستے پر جانے والا مطمئن ہوتا ہے کہ اس کے پاس علم ہے۔ دوسرا راستہ علم کا ہے، اس راستے پر جانے والا سوچتا ہے کہ میرے پاس علم کم ہے اس لئے وہ علم میں آگے ہی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ دور حاضر میں لاعلمی، کم علمی، غلط فہمی اور مغالطوں کا غلبہ ہے اور علم مغلوب ہے۔ علم لینے دینے والے کم ہیں۔ غلط فہمیاں اور مغالطے لینے دینے والے زیادہ ہیں۔ علم کے لئے قابل اعتماد ذرائع پر انحصار کرنے والے کم ہیں، مشکوک ذرائع پر انحصار کرنے والے زیادہ ہیں۔ مسلمانوں کے پاس علم کے لئے قرآن و حدیث مکمل اور قابل اعتماد ذریعہ ہے مگر اس قابل اعتماد ذریعہ کے باوجود مسلمان مغلوب ہیں جبکہ غیر مسلم کے پاس علم کا مشکوک اور ناقص ذریعہ عقل اور تجربات ہیں لیکن ناقابل اعتماد ذریعہ کے باوجود وہ غالب ہیں۔

مسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں پہچانتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ شاندار ہے۔ اسلاف کے کارنامے کتابوں میں پڑے ہیں۔ مادی خزانے زیر زمین پڑے ہیں۔ غیر مسلم طاقتیں ’’ترقی یافتہ‘‘ ہونے کا جھوٹا دعویٰ پوری دنیا سے منوانے میں کامیاب ہیں۔ اسلام ایک کامل اور اعلیٰ نظام حیات ہے۔ اس سچے دعویٰ کو منوانے میں مسلمان ناکام ہیں۔ غیر مسلم طاقتوں کا مفاد اس میں ہے کہ مسلمانوں کا علم کے قابل اعتماد ذریعہ سے فاصلہ بڑھتا رہے۔ وہ زندہ رہنے، حصول علم اور ترقی کرنے میں ہمارے محتاج رہیں۔ مسلمان ان کی راہنمائی اور مدد کو اپنی خوش قسمتی تصور کررہے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ہیں جو خودی سے واقف تو نہیں لیکن ان میں خود داری ہے۔ وہ ان طاقتوں کے لئے ترنوالہ نہیں ہیں۔ یوں خود دار لوگوں کو ختم کرنے اور زیر زمین مادی وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر سازشیں اور کاروائیاں ہورہی ہیں۔ صورت حال کچھ اس طرح بن رہی ہے کہ مسلمان اگر ایمان بچاتے ہیں تو جان سے جاتے ہیں۔ اگر جان بچاتے ہیں تو ایمان سے جاتے ہیں۔۔۔ اور اگر دونوں کشتیوں میں سوار رہتے ہیں تو جان اور ایمان دونوں سے جاتے ہیں۔

نہ جائے ماندن نہ یائے رفتن

دل اور دماغ کا تحرک : تحریک! وہ تحریک جو پیٹ میں پیدا ہوتی ہے اسے بھوک کہتے ہیں۔ جب تک کھانا نہ ملے انسان بے چین رہتا ہے اور حالات کچھ بھی ہوں کھانے کا بندوبست کرہی لیتا ہے۔ وہ تحریک جو دل و دماغ میں پیدا ہوتی ہے وہ کچھ جاننے اور کچھ کر گزرنے کی بھوک ہے۔ یہ بھی انسان کو بے چین رکھتی ہے۔ جس کے دل و دماغ میں یہ تحریک نہ ہو اس کا دل و دماغ کا ہاضمہ خراب ہے، اسے اپنے ہاضمے کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ اس تحریک کے نہ ہونے کی صورت میں جان اور ایمان دونوں کو خطرہ ہے۔ یہ تحریک اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی آدمی اپنے آپ کو کم علم اور کمزور سمجھتا ہے۔ کم علمی اور کمزوری کو دور کرنے کا اس کے سامنے راستہ بھی ہوتا ہے۔

قرآنی منہاج : جن لوگوں نے علم کے قابل اعتماد ذریعہ کے بجائے اپنی ناقص عقل پر انحصار کیا ان کے سامنے زندگی کا ظاہری شعبہ تھا۔ ظاہری شعبہ کے لئے مادی وسائل کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مادی وسائل پر محنت کی اور سائنسی، صنعتی اور معاشی انقلاب لے آئے اس طرح وہ دنیا میں غالب ہوگئے۔ ہر شخص فطری طور پر ترقی کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کردیا۔ مسلمانوں نے بھی ترقی کے لئے ان کی اتباع شروع کردی۔ غیر مسلم طاقتوں کی تعریفیں غالب آگئیں اور مسلمانوں کی زبان پر اس کی تعریف مغلوب ہوگئی جس نے جہاں بنایا اور جس کے لئے جہاں بنایا۔

انسان مادی وسائل کی صفات و کمالات کی تعریف میں لگ گیا۔ اگر انسان اپنی صفات و کمالات کی فکر کرتا تو پھر دیکھتا کہ انسانی صفات و کمالات میں کون سب سے اعلیٰ ہے تو پھر اسے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے۔ قرآنی منہاج یا قرآنی راستہ یہی ہے کہ اس چمکتے ہوئے سورج کی سمت میں سفر شروع کردو۔

انقلاب جو ابھی آسکتا ہے : انقلاب اقوام سے نہیں افراد سے شروع ہوتا ہے۔ ہم میں سے جو کوئی بھی انقلاب کا خواہشمند ہے وہ ابھی اور اسی وقت انقلاب لاسکتا ہے۔

پہلی چیز یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہمارا سفر زوال کی سمت میں جاری ہے۔ اگر ذرا بھی دیر ہوگئی تو اصل منزل سے مزید دوری ہوگی نیز یہ معلوم نہیں کہ زندگی کی مہلت کتنی باقی ہے۔

دوسری چیز یہ کہ زوال سے رخ پھیر کر عروج کی طرف اپنا رخ پھیر لینا ہے اور پھر دیکھنا ہے کہ کون کون سے ایسے معاملات ہیں جن میں بہتری لانا آسان اور ممکن ہے۔ بہتری کے اس سفر کو جاری رکھنا ترقی اور عروج ہے اور یہی انقلاب ہے۔

انقلاب جو آچکا : سائنسی، صنعتی اور معاشی انقلاب آنے سے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے۔ مسلمانوں اور اسلام کے لئے جدید دور میں نئے تقاضے اور نئے چیلنجز ہیں لیکن ان نئے تقاضوں اور چیلنجز کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا تھا۔ اس خلا کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پُر کردیا ہے۔ یہ بہت بڑا انقلاب ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ افراد کا یہ انقلاب کس طرح جاری رہ سکتا ہے اورپھر اس کو قومی انقلاب میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ (جاری ہے)