جشن میلاد النبی (ص) کے مقاصد و اہداف

الشیخ محمد سعید رمضان البوطی

تجدید محبت
تجدید بیعت
حسن خلق

گذشتہ سے پیوستہ

تحریر : الشیخ محمد سعید رمضان البوطی
ترجمہ : ڈاکٹر علی اکبر الازہری

مضمون نگار الشیخ محمد سعید رمضان البوطی کی شخصیت علمی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ نہ صرف عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے نہایت متبحر اور چوٹی کے چند علماء میں سے ایک ہیں۔ طویل عرصہ دمشق یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب دمشق جیسے زرخیز علمی شہر میں سب سے بڑے حلقہ درس کے روح رواں ہیں۔ نہ صرف شام بلکہ مصر، اردن، لبنان اور دیگر عرب و عجم میں اپنے علم و فضل اور درجنوں انتہائی خوبصورت کتب کی وجہ سے عقیدت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں دنیا کے اعلیٰ ترین رسائل و جرائد میں چھپتی ہیں۔ زیر نظر مضمون ترکی سے شائع ہونے والے عربی سہ ماہی ’’حرائ‘‘ کے صفحات کی زینت بنا۔ میں نے جب اسے پڑھا تو مجھے اس کا ایک ایک لفظ محبت و شوق میں گندھا ہوا محسوس ہوا۔ استدلال کا تربیتی انداز اس قدر دل آویز اور خوبصورت ہے کہ قاری کے اندر محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حلاوت خودبخود اترتی چلی جاتی ہے۔ میں نے جذبوں میں ڈوبی ہوئی اس مختصر تحریر کو آپ کے لئے اردو میں منتقل کردیا ہے۔ آپ کو کیسی لگتی ہے اس کا اندازہ تو آپ کو پڑھنے کے بعد ہوگا۔ تاہم نفسِ مضمون کو سمجھنے کے لئے آپ کو یقینا ایک منفرد انداز اور لب و لہجہ ضرور ملے گا۔ نیز یہ احساس بھی ہوگا کہ محبت کی زبان اور اس کی دلیل کا انداز ایک ہی ہوتا ہے زبان خواہ اقبال کی ہو یا امام احمد رضا خان کی ہو یا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہو یا سعید رمضان البوطی کی۔ (مترجم)

2۔ تجدید بیعت

حبیب مکرم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد منانے کی دوسری حکمت و غایت یہ ہے کہ ہم ان سے تجدید بیعت کریں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

(آل عمران : 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ پر غور کریں تو آپ کو یہ دو بڑے حصوں میں تقسیم نظر آئے گی۔ اس کا پہلا حصہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي ہے جس میں اتباع رسول پر زور دیا گیا ہے۔ آیت کا دوسرا حصہ یحببکم اللہ۔۔۔ سے آخر تک ہے جس میں اس اتباع کے دو عظیم انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایک اللہ کی محبت اور دوسری اس کی بخشش و مغفرت۔ اب آیت مبارکہ کے اس پہلے حصے پر ایک مرتبہ پھر غور کریں اور کلمات الہٰیہ کے ربط و نظم میں جھانک کر دیکھیں! ہمارا رب ہم سے مخاطب ہوکر ہم سے سوال پوچھ رہا ہے۔

’’میرے بندو کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘

کیا تم اپنے خالق و مالک سے پیار کرتے ہو؟

بندہ زبان حال سے اقرار کرتا ہے جی میرے رب! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اپنے بندے کا یہ اقرار سن کر اللہ پاک اس سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کی دلیل طلب کرتا ہے۔ دکھاؤ تمہارے پاس اپنے اس دعوے کی کیا دلیل ہے؟ ہاں میرے رب تیری ذات سے دعوے محبت کی دلیل تیرے رسول کی اتباع ہے۔ جی ہاں آپ نے دیکھا؟ اتباع رسول، اللہ پاک کی محبت اور اللہ پاک کی اتباع دونوں کی دلیل ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ.

(النساء : 80)

’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا ‘‘۔

میرے بھائی! یہ اتباع کیا ہے؟ یہ تعلق عمل ہے۔ زندگی کے ہر عمل کی اساس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت پر استوار کرنے کو اتباع کہتے ہیں۔

آؤ! ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس تعلق عمل کو محبت کے جذبوں میں ڈوب کر پختہ کریں اس بیعت کو مضبوط کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ کا ظاہر بھی پاکیزہ ہے اور باطن بھی۔ یہ دیکھنے میں بھی نظر نواز ہے اور اس کے باطنی اثرات بھی پر نورانی ہیں۔ اس منور، روشن اور خوبصورت نمونہ اتباع کو ترک کرنا، اس سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنااور اس سے منہ پھیرنا سراسر ہلاکت اور تباہی ہے۔ سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری اختیار نہ کرو یہ دوری اور بُعد تمہیں دین و دنیا کی سعادتوں سے دور لے جائے گی۔

میں دوبارہ تمہیں اسی (مذکورہ بالا) حدیث مبارکہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے اشتیاق کا اظہار فرمایا۔ حدیث کے کلمات میں یہاں ’’الینا‘‘ (ہماری طرف) کے لفظ پر بطور خاص اس امید پر زور دے رہا ہوں کہ شاید ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں ہوں جن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہت کا اظہار فرمایا۔ اس حدیث مبارکہ کا پہلا حصہ خوشخبری پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ خشیت اور خوف کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أَنَا فَرَطُهُمْ عَلَی الْحَوْضِ!

یعنی میں حوض کوثر پر ان کا خوشی خوشی استقبال کروں گا۔ موقع پر موجود ایک صحابی نے (تعجب سے) عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ انہیں پہچان لیں گے؟ خاص طور پر اس حالت میں کہ آپ نے انہیں دیکھا نہیں ہوگا اور نہ ان سے آپ کی ملاقات ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا :

أَرَيْتَ لَوْکَانَ لِرَجُلٍ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةَ فِی خَيْلٍ بُهْمٍ دُهْمٍ أَلاَ يَعْرِفُ خَيْلَهُ.

(نسائی السنن، کتاب الطهارة، باب حلية الوضوء، 1 : 93، رقم : 150)

’’کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ اگرایک شخص کے پاس بہت سارے گھوڑوں کا ریوڑ ہو ان میں کچھ ایسے ہوں جن کی پیشانی پر سفید نشان واضح ہوں اور کچھ ایسے ہوں جو سیاہ رنگ کے ہوں تو کیا وہ شخص دونوں قسم کے گھوڑوں کی الگ الگ پہچان نہیں کرسکے گا؟‘‘

صحابہ کرام نے اعتراف کیا ہاں اس طرح پہچان مشکل نہیں۔ اب آپ حدیث مبارکہ کے اس دوسرے حصے پر غور کریں خصوصاً یہ کلمات جن میں آپ نے کسی شخص کے نشان زدہ گھوڑوں کے ریوڑ کا اشارہ فرمایا۔ یعنی گھوڑوں کے ریوڑ میں سفید پیشانی والے گھوڑے الگ نظر آئیں گے انہیں سفید رنگ کی پازیب پہنائی گئی ہوگی۔ یہ معنی ہے غر محجلۃ کا۔

اب آیئے دوسرے لفظ بُھْمٍ دُھْمٍ کے معنی کی طرف۔ آپ نے فرمایا اس ریوڑ میں دوسری قسم ان گھوڑوں کی ہے جو سیاہ رنگ کے ہوں تو کیا انہیں پہچاننا مشکل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ پہچان بھی بآسانی ہوجاتی ہے۔ (سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان پہچان اور معرفت کی اس مثال سے صورت حال واضح فرمانے کے بعد) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فانا اعرفهم غرا محجلين من آثار الوضوء.

’’پس میں ہجوم محشر میں اپنے ان نیک امتیوں کو فوراً پہچان لوں گا جن کی پیشانیاں وضو کے آثار سے چمک رہی ہوں گے‘‘۔

بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الا ليذادن رجال عن حوضی.

یعنی بہت سے لوگوں کو اس وقت میرے حوض کی طرف آنے سے اس طرح روکا جائے گا جس طرح کسی کے گمشدہ اونٹ کو لوگ اپنے خول میں شامل ہونے سے روک دیتے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں کہوں گا۔

اَلاَّ، هَلُّم ألا، هَلُمَّ

(آجاؤ آجاؤ) مجھے بتایا جائے گا : آپ کو نہیں معلوم یہ لوگ آپ کے وصال کے بعد کس قدر تبدیل ہوگئے تھے (یعنی اعمال صالحہ اور آپ کی اتباع سے منہ پھیر لیا تھا) تب میں افسوس کے ساتھ بادل نخواستہ کہوں گا ستیا ناس ہو ان کا ستیا ناس ہو ان کا۔

(مراد یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ان گناہگاروں کو بھی بخشوانا چاہے گی لیکن قانون قدرت کی گرفت میں آکر وہ عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے تاوقتیکہ حضور حق شفاعت استعمال کرتے ہوئے بعد ازاں اپنے ان معصیت کار امتیوں کو دوزخ سے نکال نہ لیں گے)۔

لہٰذا آیئے اس شرمندگی، ندامت، ناکامی اور عذاب کی تکلیف سے بچنے کے لئے دل سے عہد کرلیں کہ ہم اپنے حبیب مکرم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع کریں گے۔ ان کے محفوظ راستے اور ان کی سنت کو چھوڑ کر کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔

آپ لوگوں کو آج یکے بعد دیگرے مختلف مذاہب، مختلف افکار اور مختلف راستوں کی طرف بلایا جارہا ہے۔ آج کے مسلمان نوجوانوں کو ترقی ( Advancement) اور جدت ( Modernism) کے نام سے بھی ورغلایا جارہا ہے خبردار! ایسے پرکشش نعروں اور پرتعیش زندگی کے فریب میں پھنسنے سے بچ جائیں۔ قسم بخدا! یہ ابلیسی ہتھکنڈے ہیں، شیطانی جال اور منتر ہیں۔ ان کا اثر ہر گز قبول نہ کریں یہ تو مادیت کا دھوکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے گئے وعدۂ محبت و اتباع پر مضبوطی سے ثابت قدم ہوجاؤ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت پر عمل پیرا ہوجاؤ جو آپ نے اس دن فرمائی جب آپ مرض وصال میں مبتلا تھے۔ آپ نے فرمایا :

تَسْتَلْقَوْنَ بَعْدِيْ أَثْرَةً فَاصْبِرُوْا حَتَّی تَلْقَوْنِيْ عَلَی الْحَوْضِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب المناقب)

’’تم لوگوں کو میرے بعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے میں تمہیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا، یہاں تک کہ تم سب لوگ مجھ سے حوضِ کوثر پر آملو گے‘‘۔

مراد یہ کہ مشکلات پر صبر کرو اگرچہ وہ شدید ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کی صورت میں آزمائشوں پر بھی صبرو استقامت دکھاؤ۔ یہی تو اخلاق حسنہ کی علامت ہے۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کونسے ایسے وصف سے نواز رکھا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک میں سب سے بڑا اور امتیازی وصف تھا؟ یاد رکھیں یہ امتیازی وصف اعلیٰ ترین انسانی اخلاق کا وصف تھا۔ پھر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کتنی عظیم شان ہے کہ خود خدائے علیم و خبیر نے بھی اپنے حبیب کے اس شرف و امتیاز کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ آپ کے خُلق کو اللہ پاک نے خُلقِ عظیم سے تعبیر فرمایا۔

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.

(القلم : 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

ان کلمات الہٰیہ کی معجزانہ شان اور قدرو منزلت کا اندازہ کرنے کے لئے آپ تھوڑی دیر کے لئے فکرو بصیرت کی جملہ توانائیاں سمیٹ کر یہاں رکیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان اعزاز و اکرام واقعی یہی ہے جس کا تاج اس آیت مبارکہ کی صورت میں اللہ پاک نے خلقِ عظیم کے کلمات تحسین کے ساتھ آپ کے سرِ انور پر سجایا۔ یہ مختصر مگر معجزاتی کلمات گویا معانی کا ایک سمندر ہیں۔ ایک لامتناہی سمندر جو اللہ رب العزت کی اس محبت سے متموج ہے جو اسے اپنے رسول کے ساتھ ہے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی فرمایا :

4. انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق.

(بيهقی، السنن، الکبری، 10 : 191)

’’مجھے تو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ میں لوگوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دوں‘‘۔

یہاں سے ہمیں خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ان کی بعثت و ولادت کے مقاصد کا علم ہورہا ہے اس لئے یوم میلاد منانے کے اہداف اور مقاصد کا ایک اہم ترین مقصد ان اخلاق حسنہ کی تعمیل و تشکیل ہے جنہوں نے ماضی میں انسانیت کے دامن کو سعادتوں سے نوازا۔ یہ وہی اخلاق حسنہ ہیں جن کی بدولت حیوانات کے مقابلے میں انسان کو شرف تکریم کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ ذیل میں ہم میلاد النبی کے تیسرے ہدف کے طور پر اس نکتے کی مزید تفصیلات کو زیر بحث لاتے ہیں۔

3۔ حسنِ خُلق

میں بڑے وثوق اور ایمان کی گہرائیوں سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اگر اللہ رب العزت کے نزدیک انسانی زندگی میں اچھے اخلاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنیادی اسلامی احکام اورایمانی عقائد پر مبنی دستور کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہوتا تو وہ ضرور بالضرور اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دیتا۔ لیکن وہ قادر مطلق جو اشیاء کی حکمتوں اور تقدیروں کو سب سے بہتر جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ انسانی اخلاق فاضلہ کی عمارت صرف اور صرف اسی اعتقادی اور ایمانی اساس پر قائم رہ سکتی ہے۔ پھر خاص طور پر اعلیٰ اسلامی اقدار کی پرورش و حفاظت کے لئے توحید باری تعالیٰ پر مضبوط ایمان از حد ضروری ہے۔ بس یہی اک راستہ ہے جس پر چل کر ایک انسان اپنے اخلاق و کردار کو اعلیٰ صفات سے متصف کرسکتا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مسلمان نہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے؟ کیا ہم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اس بات کا عہد نہیں کیا کہ ہم اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے؟ اس لئے تو اس نے اعلان فرمایا کہ

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

(احزاب : 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے‘‘۔

اگر ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایمانی ضرورت کا احساس ہے تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اخلاق عالیہ کو اپنانے میں کیا چیز مانع ہے؟ وہ اخلاق حسنہ جن کی تعریف و توصیف خالق کون و مکان نے خود فرمائی۔ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ جو خود فرمارہے ہیں۔

لن تسعوا الناس باموالکم فليسعهم منکم بسط وجه وحسن الخلق.

(ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 212، رقم : 25333)

’’تم لوگوں کو اپنے کثرتِ مال کے ذریعے مسخر نہیں کرسکو گے۔ ہاں وہ ان سے مسخر ہوں گے جو ان سے خوشیاں بانٹے گا اور حسنِ خلق کا مظاہرہ کرے گا‘‘۔

یہاں ’’الناس‘‘ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں خواہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔ فرمایا ان لوگوں کو تم اپنے مال و دولت سے اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہو؟ مال و دولت سے تو کبھی بھی لوگوں کے دل نہیں خریدے جاسکتے۔ ہاں دل جیتنے کا ایک طریقہ موجود ہے اس میں کوئی تکلف اور تردد نہیں۔ یہ صرف اور صرف خندہ روئی اور حسن خلق کا طریقہ ہے۔

حسن خلق وہ ہتھیار ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں کے پاس ہمیشہ سے کارگر رہا ہے۔ حسن خلق وہ نسخہ کیمیا ہے جو کسی کو لوگوں کے دلوں میں محبوب بنانے کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہے۔ اسی سے آپ کی گفتگو دوسروں کے ذہنوں میں گھر کرسکتی ہے اور پھر ذہنوں سے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ یہی اعلیٰ انسانی اخلاق شجر اسلام سے حاصل ہونے والا شیریں پھل ہے جس سے مخلوق خدا صدیوں مستفید ہوتی رہی۔

یہی وہ واحد راستہ ہے جسے ہمارے اسلاف نے مشرق و مغرب میں پھلنے پھولنے کے لئے اختیار کئے رکھا۔ یہ دین اسلام جو ابتدائی عرصہ میں ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گیا۔ یہ کیسے شرق سے غرب تک پہنچ گیا؟ کبھی آپ نے غور کیا؟ یہ صرف اور صرف ان اخلاق عالیہ کی بدولت پھیلا جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سچے اور مخلص ساتھیوں کو سکھائے تھے۔ آپ(افریقہ، ایشیاء اور مشرقِ بعید) ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو دیکھیں وہ کس قدر شعائر اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ اسلام کی حرمت پر جان قربان کرتے ہیں۔ مشرق بعید ہند اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں رہنے والی دور دراز ریاستوں کے مسلمانوں کا یہ جذبہ ایمانی دراصل اسی محبت بھری دعوت کی صدائے باز گشت ہے جو بزرگان دین نے آج سے صدیوں پہلے دی تھی۔

اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ یہ عظیم لوگ جب دعوت دین لیکر ان دور افتادہ علاقوں میں پہنچے تو وہاں کے رہنے والوں نے ان کے طرز زندگی اور قول و فعل میں وہ کچھ دیکھا جو دوسروں کے ہاں انہیں کبھی نظر نہیں آیا۔ انہوں نے ان کے ہاں وہ انسانی قدریں دیکھیں جو ان کے لئے باعث کشش تھیں۔ وہ محبتیں اور الطاف و عنایات ملاحظہ کئے جنہیں وہ تصور تک نہیں کرسکتے تھے۔ ان اللہ والوں کے ہاں انہوں نے ایسی بے لوث محبت، اخلاص اور وفا پائی جو انہیں اب تک نہ کسی نے دیا تھا اور نہ بعد میں کوئی دے سکتا ہے۔ ان اسلاف کا یہی کردار اور حسن خلق ان غیر مسلم بستیوں میں اسلام کے انوار و برکات پھیلاتا رہا جو آج تک قائم و دائم ہیں۔ وہ اسلاف یہ سب کچھ کہاں سے لائے تھے؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روشن اسوۂ سے اور اسلام کی ابدی تعلیمات سے۔ آؤ اے مسلمانو! تم بھی اسی اسلام اور پیغمبر اسلام پر دل و جان سے نثار ہوجاؤ جہاں سے یہ اعلیٰ انسانی اخلاق دنیا کو میسر آئے۔ یہی اسلام جب مغرب کی وادیوں میں پہنچا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے آفتاب کی کرنوں نے اسپین کی تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دیا تو خون کے کتنے قطرے تھے جو اس راستے میں بہائے گئے؟ ایک قطرہ بھی نہیں۔ جنگ و جدال کے بغیر علاقے فتح ہوتے چلے گئے۔ اسلام یہاں صرف دس سالوں میں پھیلا اسے صدیاں نہیں لگیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟

اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے اپنے اطوار و عادات پر اسلام کا حقیقی رنگ چڑھا لیا تھا۔ پھر جو بھی انہیں ملتا، انہیں دیکھتا یا ان سے معاملات کرتا وہ بھی ان کے صدق، اخلاص، انسانیت نوازی، محبت اور مودت کے رنگ میں ڈھلتا چلا جاتا اور اس اخلاق حسنہ سے متاثر ہوکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا جاتا۔ یوں ان لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہوتا چلا گیا۔ یہ تو ان باکردار اسلاف پر مشتمل ہراول دستے کا کام تھا اور اس کے مقابلے میں ایک ہم ہیں جو اسی عظیم قافلے کی باقیات ہیں۔ ہم نے اسلام کا چہرہ ہی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ اے نوجوانانِ اسلام! آج پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ تم ان اہل مغرب کا تصور اسلام درست کرو جن کے دل و دماغ میں (Islam Fobia) اسلام کی ڈراؤنی اور خوفناک تصویر بیٹھ چکی ہے۔ آج ہر مسلمان کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام تم کیسے کرسکو گے؟ کیا یہ لچھے دار واعظوں اور علمی تقریروں سے ممکن ہوگا؟ کیا یہ جلاؤ گھیراؤ اور دھمکیوں سے ہوگا؟ کیا یہ مادی ترقی اور سرمائے سے ہوگا؟ نہیں ہر گز نہیں نہ یہاں جوشیلی تقریریں کام آئیں گی نہ دھونس اور دھمکیاں چلیں گی اور نہ سرمایہ و دولت کچھ کام کرسکیں گے۔ اس مرحلے پر صرف اورصرف تمہارے اخلاق، تمہاری سیرت و کردار، تمہارے ظاہر و باطن کا اخلاص، انسانیت دوستی اور تمہارا وہ اچھا سلوک اور برتاؤ کام آئے گا جو تمہارے اسلاف کا نمونہ ہو اور اس سے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک نمایاں نظر آرہی ہو۔ اسی طرح اس تاریخی غلط فہمی کا علاج ممکن ہے۔ یہی غلط فہمی اور مغالطہ جس نے پورے مغرب کو اسلام مخالف کیمپ میں لاکھڑا کیا ہے۔ ان خدشات کا اظہار وہ صرف زبان سے ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے دل بھی اسلام سے باغی اور متنفر ہوگئے ہیں۔ ان کی اس نفرت اور بغاوت کے بہت سے اسباب میں سے بڑا سبب ہمارا غیر معیاری اخلاق ہے۔ ہمارے نامناسب رویے ہیں۔

آج اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام اسی نہج پر کرنے کی ضرورت ہے جس نہج پر ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا۔ اسی طرح اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار کے احترام کے سائے تلے دعوت اسلام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس طرح دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دور صحابہ میں ہوتا رہا۔

محبوب خدا نے بلاتفریق رنگ و نسب لوگوں سے محبت کی حالانکہ آپ کو اجڈ دیہاتی (اعرابی) لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا جو نہایت سنگ دل اور غیر مہذب واقع ہوئے تھے لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ وہی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تواضع، اخلاق اور انسانیت کے لئے حیران کن محبت کے ہتھیار نے زیر کئے اور پھر پوری دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیر بن کر دعوت و تربیت کے منصب پر فائز ہوئے۔

یہ تھا مصطفوی انقلاب کی کامیابی کا اصل راز جس سے مسلمانوں کی اکثریت آج لاعلم ہوچکی ہے۔ آپ اس عرب دیہاتی کا واقعہ چشم تصور میں لائیں جو ایک روز مسجد نبوی میں آگیا اور لاعلمی میں اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں بہت سی نازیبا حرکات کا مظاہرہ کیا جس سے اکثر صحابہ کرام نالاں ہوئے۔ انہوں نے اس کے نامناسب رویے کو بارگاہ رسالت کے لئے بے ادبی پر معمول کیا قریب تھا کہ صحابہ کی طرف سے اس کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل کر خود اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے اپنے ساتھ اپنے پہلو میں بٹھالیا۔ اسے اپنی ذات سے مانوس کیا اس کے ساتھ محبت بھری گفتگو فرمائی۔ چند لمحے گزرے تھے کی رسولِ خدا کے اخلاق حسنہ نے اس کا دل جیت لیا۔ وہ دیہاتی جو چند لمحے قبل صحابہ کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بن رہا تھا اور قریب تھا کہ اسے دھتکار کر باہر نکال دیا جاتا۔ اس پر ابرِ رسالت برسا۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دامن میں سمیٹا اور اس کی قسمت بدل گئی اب فیضان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربتوں سے مستنیر ہوکر ایمان، اخلاق اور تہذیب کے دائرے میں داخل ہوچکا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگا۔

اللهم ارحمنی ومحمدا ولا ترحم معنا احد.

’’اے اللہ تو مجھ پر اور میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت نازل فرما اور ہم دونوں کے علاوہ کسی اور پر نہیں‘‘۔

آپ اس کی یہ دعا سن کر ہنس پڑے اور اسے بڑے ہی پیار سے فرمایا :

لقد حجرت واسعايا اخا العرب.

’’میرے عربی بھائی! تو نے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو ایک چھوٹے سے خانے میں بند کردیا‘‘۔

یہ ہیں ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ان کی پیروی کرو، انہیں اپنا آئیڈیل بناؤ، اسی روشنی کی کرن بن کر جیو، اسی آفتاب ہدایت کے چراغ بن کر زندگی بسر کرو تاکہ تمہاری موجودگی سے دنیا میں پھیلتی تاریکیاں کافور ہوسکیں۔ تم (امامت کا) یہ فریضہ اس وقت تک انجام نہیں دے سکتے جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ انسانی اقدار سے متشکل نہیں ہوپائیں گے۔ محبت اور مودّت سے اپنے اس اعلیٰ اخلاقی معیار کی دلیل پیش کرو۔ یاد رکھو! یہی محبت اور مروت آپس میں بھی ہونی چاہئے تاکہ باہمی اختلافات اور پسماندگی کے عوامل کو کم از کم کیا جاسکے۔ اعلیٰ انسانی قدریں اور اخلاق حسنہ محض مزین الفاظ، خوبصورت گفتگو اور چکنی چپڑی باتوں سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک مستقل طرزعمل اور مکمل اسلوب حیات کا نام ہے۔ جب باہمی نفرتیں اور اختلافات کم ہوجائیں گے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے درمیان سر اٹھاتے رہتے ہیں، جب ان فرقہ بندیوں کی جگہ ایثار محبت اور بھائی چارے کی فضاء عام ہوگی جب لوگ اخوت اسلامی کی بنیادیں فراہم کرنے والا فکری ڈھانچہ تشکیل دیں گے اور علمی فکری اور تحقیقی اجتہادات کے ذریعے باہمی نفاق کا سبب بننے والے اختلافات کا حل نکال لیں گے تو آپ دیکھیں گے اسی لمحے اہل مغرب تمہیں خاطر میں لانا شروع کردیں گے۔ تمہاری ہر بات پر لبیک کہیں گے اور تمہارے قریب ہوجائیں گے۔ پھر وہ تمہاری عزت بھی کریں گے اور تم سے محبت بھی کریں گے۔ حتی کہ آپ خاموش بھی ہوں گے تو وہ تمہاری تقلید کریں گے۔ جب تمہاری یہ خاموشی بھی تقدس مآب اور معتبر ہوجائے گی تو آپ لوگوں کے لئے دین کے سب سے بڑے داعی، موثر مصلح اور روشن چراغ کی حیثیت اختیارکر لیں گے۔ ایسا چراغ جس سے گوشہ ہائے گمنامی میں پڑے ہوئے انسان تاریک راہوں کو چھوڑ کر اسلام کی روشن وادیوں کا رخ کرسکیں گے۔

قارئیں! یہ تھے وہ تین مقاصد جن کے حصول کے لئے ہم محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا تھا، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقاریب فی نفسہ مقصود نہیں ہوتیں بلکہ یہ اصل میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ خلاصۂ کلام کے طور پر میں دوبارہ دہرا رہا ہوں تاکہ آپ ان اہداف کو اچھی طرح دل و دماغ میں بٹھالیں۔

1۔ تقاریب میلاد اور جشن آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق محبت کی تجدید کریں۔ اسے اپنے دل و دماغ، احساس و فکر اور اعضاء وجوارح میں محسوس کریں اور اس محبت کی موجودگی کا ادراک پیدا کریں۔ اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی آماجگاہ بنائیں۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تجدید بیعت کریں۔ اس عہد اور شعور کے ساتھ کہ ہم حتی الامکان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور آپ کی پیروی کریں گے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ہم ہر گز کوئی اور راستہ نہیں اپنائیں گے تاکہ کل جب محشر میں ہمیں اپنے خالق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا جائے تو ہمیں حوض کوثر پر شافع یوم النشور کی محبت اور شفقت نصیب ہوسکے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھنا چاہیں تو اس جان کنی کے عالم میں ہمیں دھتکار نہ دیا جائے۔ ’’افسوس تم اس طرف آنے کے حقدار نہیں‘‘۔

3۔ اپنی طرز حیات اور سیرت و کردار کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے ساتھ زینت بخشیں کیونکہ یہی اخلاق ہمارے خالق و مالک کے پسندیدہ اور محبوب ہیں۔ یہ بھی جان لو کہ شجر اسلام پر لگنے والا میٹھا پھل جس کا کوئی اور بدل نہیں وہ یہی اخلاق حسنہ ہیں جو انسانیت کو تمہاری گفتار و کردار اور سیرت و عمل سے میسر آسکتے ہیں۔ اسلام کے اس حسن خلق کا مظاہرہ صبح و شام اُٹھتے بیٹھتے کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ، خواتین اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ، انسان معاشرے کے ہر اس فرد بشر کے ساتھ کرتا ہے جس کے ساتھ وہ ہر وقت معاملات کرتا رہتا ہے۔ اس حسن خلق کی بہتر شکل محبت، یگانگت اور یکجہتی کا ماحول ہے۔ آپس کا یہ ماحول بعد ازاں پوری روئے زمین پر محبتوں کی خوشبو پھیلادے گا اور یوں ہمارے عظیم ترین اور آخری رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور ولادت کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ