تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 24 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس

ایم ایس پاکستانی

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد کی خوشی میں تحریک منہاج القرآن کی 24ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس 20 مارچ کو مینار پاکستان اقبال پارک کے وسیع سبزہ زار میں منعقد ہوئی۔ اس عالمی میلاد کانفرنس کو امسال تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس سے منسوب کیا گیا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت منہاج القرآن سپریم کونسل کے صدر صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے کی جبکہ ممبر سپریم کونسل صاحبزادہ حسین محی الدین قادری، مرکزی امیر تحریک صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض اور جملہ نظامتوں و شعبہ جات کے سربراہان نے خصوصی شرکت کی۔

مہمانانِ گرامی

معزز مہمانانِ گرامی میں محترم پیر خلیل الرحمن چشتی، ممبر قومی اسمبلی ملک محمد افضل کھوکھر، سابق صوبائی ہاؤسنگ وزیر سید علی رضا گیلانی، مسلم لیگ ن کے ممبر صوبائی اسمبلی مہر محمد اشتیاق، محترم ڈاکٹر سرفراز نعیمی، تحریک علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید علی غضنفر کراروی، امیر تحریک منہاج القرآن یورپ علامہ حسن میر قادری، آستانہ عالیہ نقیب آباد شریف کے سجادہ نشین پیر نقیب اللہ شاہ، شیخ الحدیث علامہ محمد معراج الاسلام، مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، منہاج علماء کونسل کے صدر علامہ حاجی امداد اللہ خان، سابق ٹیسٹ کرکٹر عطاء الرحمٰن اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے معزز شخصیات شامل تھیں۔ علاوہ ازیں وی وی آئی پی انکلوثر میں براجمان معروف مذہبی و سیاسی قائدین، وکلاء ، ٹیکنو کریٹس، شوبز و سپورٹس سٹار اور ہر طبقہ فکر کے سر کردہ افراد نے بھی اس کانفرنس میں خصوصی شرکت کی۔

پہلی نشست

کانفرنس کی افتتاحی نشست کا باقاعدہ آغاز کالج آف شریعہ کے قاری خالد حمید قادری نے تلاوت کلام سے کیا۔ منہاج نعت کونسل، شہزاد برادران، شہزاد عاشق، شہزاد حنیف مدنی، محمد سرور صدیق، محمد رضا فریدی اور دیگر نعت خوان حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا۔ نعت خوانی کے دوران پنڈال میں لاکھوں حاضرین نے اپنے ہاتھوں میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی جھنڈیاں لہرا کر اور جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پہلی نشست میں سینئر نائب ناظم تربیت علامہ غلام مرتضی علوی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کا تعارف پیش کیا۔ نیز گوشہ درود کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2 سال میں اب تک چار ارب سے زائد درود پاک پڑھا جا چکا ہے جبکہ صرف ماہ فروری اور مارچ میں پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 1 ارب 17 کروڑ، 83 لاکھ، 80 ہزار 947 ہے ۔

لاکھوں افراد کے اس اجتماع میں خواتین کے لیے الگ باپردہ پنڈال بنایا گیا۔ اس پروگرام میں یوتھ لیگ اور MSM کے نوجوانوں نے ’’مصطفوی‘‘ کے نام سے سیکورٹی ڈیوٹی کو نہایت احسن طور پر سرانجام دیا۔ پروگرام کی پہلی نشست میں نائب ناظم دعوت محمد شکیل ثانی، منہاج القرآن انٹرنیشنل دبئی کے ڈائریکٹر محمد محسن کھوکھر اور وقاص علی قادری نے نقابت کے فرائض ادا کیے ۔

دوسری نشست

شب 12 بجے عالمی میلاد کانفرنس کی دوسری نشست شروع ہوئی۔ اس موقع پر نائب ناظم تربیت علامہ غلام مرتضی علوی نے نقابت کے فرائض سنبھالے ۔ پروگرام کا دوسرا مرحلہ RY صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور QTV سے براہ راست پوری دنیا میں پیش کیا گیا۔ لاکھوں حاضرین کے لیے پنڈال کے مختلف حصوں میں 3 بڑی ڈیجیٹل سکرینیں بھی لگائی گئی تھیں۔ پروگرام کی دوسری نشست کا آغاز قاری اللہ بخش نقشبندی کی تلاوت سے ہوا۔ شریعہ کالج کے حافظ عنصر علی قادری نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔

خطبہ استقبالیہ

ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ یورپی ممالک اور بالخصوص ڈنمارک کے اخبارات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کر کے مسلمانوں کی غیرت کو للکارا ہے ۔ یہ عالم اسلام اور دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر حملہ ہے ۔ تحریک منہاج القرآن نے عالمی میلاد کانفرنس کو تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے منعقد کر کے عالم کفر کی اس سازش کا جواب دیا ہے ۔ آج دس لاکھ سے زائد افراد کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ آقا علیہ السلام کی ناموس کا تحفظ ہم ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ سے کریں گے۔ دہشت گردی کی لہر اور موجودہ نازک ملکی حالات میں عالمی میلاد کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہمارے لیے ایک معرکہ سے کم نہ تھا۔ الحمد للہ آج شمع رسالت کے لاکھوں پروانوں نے مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے محبت کا ثبوت دیدیا ہے۔ گزشتہ سال ہونے والی میلاد کانفرنس نے تحریک منہاج القرآن کی 23 سالہ تاریخ کے ریکارڈ توڑ دیئے تھے لیکن آج تحریک کی گزشتہ کانفرنس کا بھی ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔ تحفظ ناموس رسالت کا یہ عظیم الشان اجتماع ناموس رسالت کے محافظوں کا قافلہ ہے ۔ اس قافلہ کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، اسے اپنی منزل پر جا کر دم لینا ہے اور وہ منزل مدینہ ہے ۔ ہمارے دل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور عشق کو کم نہیں کر سکتی۔ اس موقع پر انہوں نے عالمی میلاد کانفرنس کے لیے شاندار انتظامات کرنے پر نائب ناظم اعلیٰ تحریک محترم شیخ زاہد فیاض کو خصوصی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے تمام مرکزی قائدین، جملہ نظامتوں (یوتھ، ویمن لیگ، میڈیا) اور تحریک کی اندرون و بیرون ملک تنظیمات کو خصوصی مبارکباد دی۔

بعد ازاں نامور عالم دین محترم ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم جشنِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم الشان اجتماع میں جمع ہیں اور یہ لاکھوں فرزندان اسلام کا تاریخی اجتماع یہ پیغام دے رہا ہے کہ مسلمان اپنے نبی کی شان میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں کر سکتے ۔ ہم نے تحفظِ ناموسِ رسالت کانفرنس میں شرکت کر کے اپنے جذبہ ایمانی کا ثبوت دیا ہے ۔ آج کا یہ اجتماع کائنات میں تمام لوگوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ خواہ کسی بھی شخص کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب سے ہو لیکن وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی برادشت نہیں کر سکتا۔ میں آج تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہوں کہ توہین آمیز خاکوں کے خلاف عالمی قانون بنایا جائے ۔ تمام ممالک کی حکومتیں آزادی رائے کا ایک پیمانہ مقرر کر کے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کروائیں۔ اگر آئندہ کوئی ملک بھی ایسا کرنے کی جرات کرے تو اس کو بین الاقوامی مجرم قرار دیکر اس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جائے ۔

خطاب محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری

اس کانفرنس سے تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے ممبر صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے "وابستگی رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بقاء تحفظ ناموس رسالت" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس میلاد کانفرنس میں ایک خاص مقصد کے لیے جمع ہیں۔ آج حضور صلی اللہ علیہ والہ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ مینار پاکستان کے سائے تلے عشاقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا لاکھوں افراد کا یہ سمندر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو خود بلند کیا ہے اور دنیا کے کسی کمینے اور بدطینت شخص کی طرف سے کی جانے والی گستاخی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ جو بھی چاند کی طرف منہ کر کے تھوکنے کی کوشش کریگا وہ خود ہی ذلیل و رسوا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب پیدا کیا تو اس کے اندر ایک حیات رکھ دی۔ یہ حیات انسانی جسم میں موجود ایک سو کھرب خلیوں سے چل رہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھ دیئے ۔ پھر ہر خلیے کے اندر ایک نیو کلیس ہے ۔ ہر نیو کلیس کے اندر 30 ہزار سے 80 ہزار کی تعداد میں جینز رکھ دیئے ۔ ان جینز کو اللہ نے 23 کروموسومز کے جوڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس سائنسی تحقیق کا پس منظر انسان کی ایمانی حیات سے بہت ملتا ہے ۔ انسان کی ذات میں ایک سیل خلیہ جسد اسلام ہے ۔ اس کے اندر نیو کلیس ایمان ہے ۔ اس ایمان کے اندر 80 ہزار جینز منبع اور سرچشمہ ایمان ہیں۔ وہ چشمہ اور منبع ایمان رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ جب کسی بھی انسان کو پیدا فرماتا ہے تو وہ اس کے اندر موجود جینز میں اس کی ساری شخصیت کے خصائص جمع کر دیتا ہے کہ اس کا چلنا پھرنا کیسا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا کیسا ہے ، اس کا کھانا پینا کیسا ہے، اس انسان کی ساری شخصیت اللہ نے جینز میں رکھ دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں کروموسومز کی تعداد 23 جوڑوں میں کیوں رکھی۔ اس بات کا جواب سائنس نہیں دی سکتی بلکہ اس کا ایمانی جواب یہ ہے کہ یہ عدد آقا علیہ السلام کی بعثت کے 23 برس ہیں جن میں آقا علیہ السلام نے اپنی امت کی تربیت فرمائی، امت کو اپنی محبت سکھائی اور اللہ رب العزت کا کلام سکھایا۔ اس کی کیا خاص بات تھی کہ اللہ نے ایسا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 23 کے عدد کو انسان میں کروموسومز کی تعداد میں رکھ کر یہ ثابت کیا کہ امت محمدی میں جس شخص کی بھی تخلیق ہو تو وہ آقا علیہ السلام کی بعثت کے 23 برس کی تعلیمات سے باہر نہ ہو۔ پھر جب کوئی امتی کسی خاص انداز کے ساتھ پروان چڑھتا ہے تو پھر وہ اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ آقا علیہ السلام سے محبت نہ کرے ۔ اس شخص کا ایمان اور ساری زندگی آقا علیہ السلام کے مرکز و محور کے گرد گزرتی ہے ۔ اس کے دن رات آقا علیہ السلام کے 23 برس کی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ لوگو اگر تم ایمان کی سلامتی چاہتے ہو تو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق استوار کرلو اور اگر رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بقاء چاہتے ہو تو تحظ ناموس رسالت پر جینا مرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے خود آقا علیہ السلام کے ذکر پاک کو خود بلند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کا ذمہ بھی خود لے لیا۔ قرآن پاک میں باقی انبیاء کو جب مخاطب کیا تو ان کے نام لیے۔ اس کے بر عکس جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو مخاطب کیا تو آپ کا نام نہیں لیا بلکہ یا ایھا النبی، یا ایھا المدثر، یا ایھا المزمل کے القابات سے پکارا۔ اس کا مقصد امت کو ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دینا تھی۔

آقا علیہ السلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اتنا بلند کیا کہ جنت کے دروازوں پر، درختوں کے پتوں پر، ستونوں پر ہر جگہ آپ کا نام لکھ دیا۔ پھر جب کوئی کلمہ پڑھے تو آقا کا اسم پاک پڑھے بغیر وہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اذاں آقا علیہ السلام کے اسم پاک کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہر ہر شے میں اللہ نے آقا علیہ السلام کا ذکر بلند کر دیا۔ جس کا ذکر اللہ نے خود بلند کر دیا تو کائنات کا کوئی بھی شخص اس ذکر کو کم نہیں کرسکتا۔ اس دنیا میں کمینے اور بدطینت لوگ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کے خلاف بات کرتے ہیں تو ان کو اندازا نہیں ہے کہ وہ جس فضا میں سانس لے رہے ہیں وہ بھی صدقہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ وہ جو رزق کھاتے ہیں وہ بھی صدقہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ جس دنیا میں رہتے ہیں وہ بھی صدقہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

اپنے خطاب کے آخر میں صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے کہا کہ توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے میں اس میلاد کانفرنس کے موقع پر دنیا کے تمام ممالک، بڑے عالمی اداروں، یو این، انسانی حقوق کی تنظمیوں اور حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انسانی حقوق کے پلیٹ فارم سے اس کے خلاف قانون سازی کرے ۔ اگر یہودیوں کے دردناک دن ہولو کاسٹ کے لیے بین الاقوامی طاقتیں قانون سازی کر کے اس پر بات کرنے کی پابندی لگا سکتی ہے تو پھر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والوں کے خلاف کیوں بین الاقوامی قانون سازی نہیں ہو سکتی جس سے آقا علیہ السلام کی ناموس کی حفاظت ہو۔ آج دنیا میں شاندار طریقہ احتجاج یہ ہے کہ دنیا والے طعنے دیتے جائیں لیکن ہم دنیا کے سامنے گھر گھر، کوچہ کوچہ اور نگر نگر آقا علیہ السلام کی محبت کا پیغام عام کر دیں۔ یہی تحریک منہاج القرآن اور عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر تحفظ ناموس رسالت کا پیغام ہے ۔

خطاب محترم صاحبزادہ حسن محی الدین قادری

تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے صدر صاحبزادہ حسن محی الدین قادری بھی اس کانفرنس میں خصوصی طور پر شرکت کے لئے آئے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ گستاخوں کی تمام کوششوں کے باوجود عشاق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قافلہ اپنے نبی کی محبت میں اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ تحفظ ناموس رسالت کانفرنس میں لاکھوں افراد کی شرکت اس بات کی واضح گواہی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو کم نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو پیدا فرمایا تو حقیقت محمدی کو اس کی اصل بنا دیا۔ نور محمدی کو اس کائنات کا اصل جوہر بنا دیا۔ نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کائنات کی ابتداء ہوئی تھی اور اس کی انتہاء بھی نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدسہ تمام انسانی روحوں کی اصل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے کائنات کی ابتداء کی۔ پھر اس نور کو اللہ تعالیٰ نے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلا دائرہ، دائرہ کبریٰ بنایا۔ دوسرا دائرہ الوسطیٰ رکھا اور تیسرا دائرہ صغریٰ بنایا اور اسی کو ہی دائرہ خلق کا نام دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان تینوں دائروں کو کائنات میں تقسیم کر دیا۔ ان کے تمام دائروں کے درمیان ایک نقطہ لگا دیا جس کو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام دیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ایسے کام کی خبر دیں جو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا ہو۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو تخلیق کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کائنات کو اس نور سے تقسیم کرتا رہا۔ جب اللہ نے میرے نور سے مخلوق کو پیدا کیا تو اس کے چار حصے کیے ۔ ایک حصے سے لوح، دوسرے سے قلم، تیسرے سے کائنات اور چوتھے کے پھر چار حصے کیے جن کو کائنات میں تقسیم کر دیا۔

قاعدہ ہے کہ کل شی یرجع الی اصلہ ہے ۔ یعنی ہر شے کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے ۔ جدید سائنسی اصطلاح میں یہ جاذبیت کا قاعدہ ہے ۔ اس پر غور کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اصل بنا دی اور پھر اس کی پہچان کروا دی۔ اس طرح ایک اور قانون کشش کا ہے کہ جب کوئی کسی پتھر کو آسمان کی طرف پھینکے گا تو وہ واپس آ جائے گا۔ اس سے مراد کشش مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموس رسالت کی کشش ہے جو کائنات میں ہر شے میں رکھ دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شے کی طرف بھی توجہ دیتے اور دیکھتے تو وہ بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کھنچی چلی آتی۔ کائنات کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ نے جاذبیت کا قانون رکھ دیا۔ کائنات کی ہر شے کے اندر عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت رکھ دی۔ یہی وجہ تھی کہ انسان، فرشتے ، حیوانات، چرند، پرند اور درخت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی طرف کھنچے چلے آتے ۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگلی کے اشارے سے چاند بائیں طرف اور دائیں طرف لوٹ جاتا۔ جانور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مؤدب کھڑے ہو جاتے لیکن یہ بدبخت لوگ عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف انگلی اٹھا رہے ہیں ۔ محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی وہ کشش ہے جس کی طرف تحریک منہاج القرآن بلا رہی ہے ۔ آج جو اس کشش سے دور جا رہے ہیں تحریک منہاج القرآن ان کو بھی قریب لا رہی ہے ۔ آج تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پروانوں کو عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کر کے یہ بتا دیا ہے کہ اے لوگو اس دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ اغیار نے شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کم کرنے کی ناپاک سازش کی لیکن ہم اپنا قافلہ محبت روکیں گے نہیں کیونکہ ہماری منزل مدینہ ہے ۔ ہماری ابتداء اور ہماری انتہاء بھی مدینہ ہے ۔

قرار داد تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کے خطاب کے بعد ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمدعباسی نے تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کی قرار داد پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر امن ہیں۔ آپ کی عزت دنیا کی تمام جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی، خاکے اور گستاخانہ فلموں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ آج ہم عالم مغرب کے میڈیا کی بھی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ ہم عالمی عدالت انصاف، او آئی سی، دنیا کے تمام ممالک اور حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کے خلاف اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھایا جائے ۔ اس کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے ۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلا کر توہین رسالت کے ملزموں کو سزا دی جائے ۔ ان اخبارات کے ڈکلیریشن منسوخ کیے جائیں جن میں توہین آمیز خاکے شائع ہوئے ۔ اس نازک موقع پر ملک میں کسی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا امیج خراب ہو۔ یہ پرامن احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عالمی سطح پر اس کے خلاف قانون سازی نہیں کی جاتی۔

لاکھوں شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں موجود اسم محمد والی جھنڈیاں لہرا کر اور سٹیج پر موجود مہمانوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس قرار داد کی حمایت کی۔ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کے بعد صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے اس قرار داد کو انگلش زبان میں پیش کیا اور اس کے آخر میں ایک بار پھر لاکھوں شرکاء اور معزز مہمانوں نے اس کی حمایت کی۔ شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل بلالی برادران نے مرحبا یا مصطفیٰ مرحبا کے ترانے الاپے۔

خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

رات 2 بجے عالمی میلاد کانفرنس سے بذریعہ ٹی وی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بیرون ملک سے خصوصی خطاب فرمایا۔ آپ نے فرمایا:

اللہ رب العزت کا شکر ہے ، جس نے ہمیں اپنی خلق کی سب سے بڑی نعمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی عطا کی اور ہمیں توفیق مرحمت فرمائی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ اپنا رشتہ محبت، رشتہ اتباع، رشتہ تعظیم اور رشتہ نصرت استوار کر سکیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کی اس نسبت کے پیش نظر یہ عظیم شب جو 12 ربیع الاول کی شب میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، اس شب پوری روئے زمین پر آقا علیہ السلام کی ولادت کی خوشیاں منا سکیں اور میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان خوشیوں کے ساتھ اپنی زندگی ظاہراً اور باطناً حضور علیہ السلام کی غلامی، اطاعت اور اتباع میں دے سکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پلٹ کر اس نسبت کو زندہ کریں تازہ کریں اور جس دنیا میں مرضی رہیں مگر روحیں 14 سو سال قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں چلی جائیں۔۔۔ وہ رنگ و سلیقہ اور قرینۂ ادب وعشق پلٹا کے لے آئیں جو ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ اجمعین نے دنیا کو دکھایا اس عقیدہ کو پھر سے زندہ کردیں جو تابعین، تبع تابعین، ائمہ، اولیاء، صلحاء اور پندرہ صدیوں سے اکابر اسلاف اور اولیاء کا ہے۔ ہر نئی چیز اچھی ہے جدید سے جدید تر اور زندگی کی ہر حلال آسائش کو حلال طریقے سے لے لو مگر عقیدہ اور ایمان پرانا رکھو اور جتنا پرانا رکھوگے اتنا ہی اعلیٰ ہوگا۔ اتنا قیمتی ہوگا اتنا اعلیٰ ہوگا۔۔۔ اس میں اتنا نور، اتنی روشنی۔۔۔ اتنی ہی کشش ہوگی۔ عقیدہ نیا نہ لو، ہر نیا عقیدہ فتنہ ہے۔۔۔ ہر نیا عقیدہ بدعت ہے۔۔۔ ہر نیا عقیدہ گمراہی اور ضلالت ہے آج ہر نیا عقیدہ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور لے جا رہا ہے ۔

ہر شئے کو عقل کے پیمانے سے قبول کرو۔ ہر علم، ہر ٹیکنالوجی، ہر فکر، ہر تحقیق، ہر شئے سے عقل کا تعلق اور رشتہ رکھو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عقل کا چراغ کبھی نہ جلاؤ۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق دل کا رکھو عقل کا نہیں۔ وہاں جھکے رہو، عاشق لوگ محبوب کی باتوں کو عقل کے پیمانے پر نہیں پرکھتے۔۔۔ جہاں عقل کا دخل ہوا وہاں تنقید آئی۔۔۔ جہاں تنقید آئی وہاں ایمان گیا۔ اللہ رب العزت نے پہلا سبق یہ دیا۔ یومنون بالغیب بن دیکھنے والے ایمان دار۔ اور بن دیکھے ماننا عشق کا شیوا ہے عقل کا شیوا نہیں ہے ۔ آقا علیہ السلام سے تعلق اور حضور کی سیرت کی اتباع بغیر عقل کے کرو اور حضور کے عشق میں کرو۔ حضور سے جس جس شے کو نسبت ہے اس کا ادب کرو۔۔۔ صحابہ کرام کا ادب تعظیم واجب ہے، ایمان کا حصہ ہے صرف اس لیے کہ وہ حضور کے جان نثار اصحاب ہیں۔

اہل بیت اطہار کی محبت ایمان ہے اس لیے کہ حضور نے کندھوں پر حسن و حسین علیھما السلام کو اٹھایا ہے اور کھلایا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ ہر شئے کی نسبت حضور سے ہے، حرمین سے محبت ہے تو اس لیے کہ حضور کا وطن ہے، آقا علیہ السلام نے ان نسبتوں کا لحاظ رکھا ہے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب میں اٹھوں گا تو میرے ساتھ سب سے پہلے اہل جنت، بقیع اور مدینہ والے اٹھیں گے ۔ پھر اہل مکہ اٹھیں گے ۔ پھر دنیا اٹھے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’باری تعالیٰ ہمارے لیے مدینے کی محبت مکہ سے بھی زیادہ کر دے‘‘۔ مدینہ کی محبت مکہ سے زیادہ کیوں؟ اس لیے کہ وہاں خدا کا گھر ہے اور یہاں خدا کے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در ہے ۔ گھر خدا کا وہاں ضرور ہے مگر خدا کی محبت کا مرکز و محور بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در ہے ۔ یہ میری بات نہیں بلکہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی دعا کی ’’باری تعالیٰ مدینہ کی برکت کو بڑھا دے اور اتنی بڑھا دے کہ مکہ کی برکت سے بھی دوگنا کر دے‘‘۔ اس فضیلت کا جو فرق رکھا اس کا مدار کیا ہے ؟۔ حج تو مکہ میں ہوتا ہے برکت مدینہ کی زیادہ کیوں؟ سوائے اس کے کوئی اور سبب نہیں کہ مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جاہ ہے۔۔۔ حضور کا مسکن ہے۔۔۔ حضور کا مدفن ہے۔۔۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن ساری دنیا کا ایمان سکڑ کر مدینہ میں آجائے گا۔ جب پوری دنیا پہ ایک وقت آئے گا کفر چھا جائے گا۔ ایمان سکڑ کر مدینہ میں ہوگا۔

مکہ سے محبت بھی اسی کی معتبر ہوگی جس کی کثرت کے ساتھ محبت مدینہ سے ہے ۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھا وہ دوزخ کی آگ میں اس طرح پگھل کے جل جائے گا، جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ۔ یعنی آقا علیہ السلام سمت محبت سکھا رہے ہیں کہ اے میرے امتیو تمہاری محبت کا رخ یہ ہونا چاہیے کہ محبت اور عشق کی سمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم ہوں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ ہو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہو۔ اگر یہ محبت نصیب ہوگئی تو اس کے صدقے کعبہ کی محبت نصیب ہوگئی۔۔۔ اسلام کی محبت بھی مل گئی۔۔۔ دین کی محبت مل گئی۔۔۔ ایمان کی محبت بھی مل گئی۔ اس رشتہ کو دوبارہ زندہ کرلیں، پھر اپنی نسلوں میں اپنی اولادوں کو سکھادیں۔ یہ وراثت ان کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم بہت بڑی غلطی کرتے ہیں کہ ان کے بچپن کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور ایک عمر کے اس حصے میں جا پہنچتے ہیں کہ جب وہ نئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر ہم روتے ہیں۔ اس شیوہ ایمان کو خود اپنائیں اور اپنی اولادوں کے لیے یہ ساری وراثت منتقل کریں۔ تب جا کے ہم اس قابل ہوں گے کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جب قیامت کے دن اٹھیں، پیش ہوں تو چہرہ دیکھا سکیں۔

اللہ تعالیٰ آج کی رات یہ مجلس اور عظیم محفل میلاد قبول کرے اور سب حاضر ہونے والوں،سننے والوں، دور دراز سے آنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خیرات سے مالا مال کرے ۔

شیخ الاسلام کے خصوصی خطاب کے بعد 12 ربیع الاول کی صبح دردو و سلام پڑھا گیا۔ اس دوران میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں آتش بازی کا شاندرا مظاہرہ ہوا نیز آسمان پر غبارے اور کبوتر چھوڑ کر خوشی کا بھرپور اظہار کیا گیا۔ علامہ حسن میر قادری نے اختتامی دعا کروائی۔ پروگرام کے آخر پر ایک ہزار بکروں کے گوشت سے تیار کردہ ہر خاص و عام کے لئے ضیافت میلاد کا بھرپور اہتمام تھا۔