سنگینی حالات کا متوقع انجام

ڈاکٹر علی اکبر قادری

وطن عزیز میں نومنتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل نئی مرکزی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پاچکی ہیں۔ مرکز سے لیکر صوبائی محکموں کے قلمدان نئے وزراء کے ہاتھوں میں سونپے جاچکے ہیں لیکن یہ سارا منظر اتنا حوصلہ افزاء نہیں جتنا تصور کیا جارہا تھا۔ آٹھ سالہ آمریت کے ہاتھوں تنگ عوام نے جن جمہوری قوتوں کے سر پر اقتدار کا تاج سجایا تھا، وہ گذشتہ دو اڑھائی ماہ سے جوڑ توڑ کے بھنور میں اس قدر دھنس گئے ہیں کہ انہیں قوم کے حقیقی مسائل نظر ہی نہیں آرہے۔ انتخابات کے بعد پورا ایک مہینہ تو ’’وزیراعظم‘‘ کی تقرری مہمہ بنی رہی اور پوری قوم کی توجہ اکثریتی پارٹی کے شریک چیئرمین کے اشاروں پر مرکوز رہی۔ پھر خدا خدا کرکے وزارت عظمیٰ کا ھُما محترم یوسف رضا گیلانی کے سر پر بیٹھا تو بے چاری بے بس اور نڈھال عوام نے کسی قدر چین کا سانس لیا۔ انہیں امید تھی کہ تازہ دم وزیراعظم صاحب 5 سالہ قید کاٹ کر آئے ہیں انہیں لوگوں کے دکھوں کا احساس ہوگا اور آتے ہی وہ بہتری کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔ لیکن ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق گیلانی صاحب نے اپنے پہلے 100 روزہ ایجنڈے کا اعلان کیا تو قوم کو کسی خوشخبری کی بجائے پہلے سے مہنگے پٹرول اور آٹے کی قیمت میں مزید اضافے کی خبر بد سننے کو ملی، جس سے ان کی رہی سہی امیدیں خاک میں مل گئیں۔

روزمرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں جس تیزی سے لہر در لہر اضافہ ہورہا ہے وہ واقعتا ایک آفتِ ناگہانی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ گرمی میں اضافے کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کا جنگل پھیل رہا ہے، جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لیکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ محنت کش، مزدور اور ملازم پیشہ لوگ جیتے جی درگور ہورہے ہیں۔ الغرض مشکلات ہیں کہ چاروں طرف سے غریب عوام پر حملے آور ہوچکی ہیں۔ چنانچہ زخموں سے چور چور یہ بدقسمت قوم اس وقت حقیقی طور پر مایوس ہوجاتی ہے جب اسے ملک میں جاری غیر ملکی جارحیت کا ناسور بڑھتا اور خانہ جنگی کے ماحول میں مزید اضافے کا خدشہ پھیلتا نظر آتا ہے۔ جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے میں حائل مشکلات سے لے کر ملکی اور قومی سلامتی کے خطرات ہیں جو روز بہ روز مشکل تر ہورہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے نومنتخب ارکان پارلیمنٹ اور بالخصوص حکومتی اتحاد کے مرکزی قائدین پر پہلے سے کئی گنا زیادہ ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔ داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات کا حل نکالنے کے لئے پوری قوم کو سرجوڑ کر بیٹھنے اور ممکنہ حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک قومی قائدین اور ان کے مشیر، وطن عزیز کی فضاؤں کو حیرتوں، مایوسیوں اور وعدوںکے سوا کچھ نہیں دے سکے۔ ہمارا پورا ماحول عدالتی بحران کی گرفت سے نہیں نکل سکا۔ پورے میڈیا پر نان ایشوز کی بھرپور تشہیر کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کی بحالی، ایٹمی پروگرام کے تحفظ، آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل، خفیہ ایجنسیوں کے سیاسی کردار کے خاتمہ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ، نظام انتخاب کی تبدیلی اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام جیسے اہم معاملات کی طرف توجہ تو دور کی بات ہے، روزگار کے مواقع کی فراہمی، مہنگائی کو کنٹرول کرنے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، آٹے کی عدم دستیابی جیسے بنیادی معاملات پر کوئی بھی ٹھوس پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی۔

قومی خزانہ بھر دینے کے دعوے کرنے والا درآمد شدہ وزیراعظم اگرچہ اپنے دیس سدھار گیا ہے مگر اس کا سرپرست اور آئین شکن جرائم کا مرکزی کردار تو اب بھی صدارتی محل میں مورچہ بند ہے۔ خوراک کے ایک ایک لقمے کو ترستی اس قوم کے یہ ’’ہمدرد‘‘ اور ’’نجات دہندہ‘‘ کمانڈو صدر صاحب شاہ خرچیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کر چھپے رستم ثابت ہوئے ہیں۔ ایک ممبر اسمبلی کے استفسار پر وزیر خارجہ نے ان کے پانچ سالہ بیرونی ملک دوروں کے اخراجات بتا کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ موصوف نے لاحاصل 38 دوروں پر مقروض قوم کے خزانے سے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے پھونکے ہیں جو گذشتہ 50 سالہ حکمرانوں کے بیرون ملک مجموعی دوروں پر ہونے والے اخراجات سے بھی زیادہ ہیں۔ ان شاہی دوروں میں سے بیشتر تو وہ ہیں جو انہوں نے 2007ء میں اپنی مقبولیت کو بیرونی آقاؤں کے سامنے بحال کرنے کے لئے کسی دعوت کے بغیر خود ہی کئے اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں کروڑوں روپے کی پرتکلف رہائشی سہولتوں سے لطف اندوز ہوئے۔ افسوس! غربت کے مسائل اور دین دشمن بیرون خطرات میں گھری اس پاکستانی قوم کا ہر مسیحا پہلے سے بڑھ کر لٹیرا ثابت ہورہا ہے۔

ہمیں نئے سیاسی سیٹ اپ اور حکمران اتحاد سے بھی کسی کرامت کی توقع نہیں کہ یہ بھی چلے ہوئے سکے ہیں۔ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو NRO کے پردوں میں چھپاکر اقتدار حاصل کرنے والے ہوں یا اپنے دور اقتدار میں شہنشاہیت کا خواب دیکھنے والے مطلق العنان سابق حکمران، یہ سب اس قوم کو اقتدارکی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا سرمایہ اب بھی ملک سے باہر ہے، ان کے بچے ملک سے باہر ہیں اور ان کے مفادات بھی ملک سے باہر ہیں۔ اس لئے انہیں اس ملک کی غریب اور مفلوک الحال مخلوق سے کیوں کر دلچسپی ہوسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے اس ملک کا مقدر اس وقت تک نہیں سنور سکتا جب تک یہاں کوئی خدا ترس، مخلص اور غیور قیادت متوسط طبقے سے ابھر کر سامنے نہیں آتی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ طبقاتی کشمکش اور حالات کی آہنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی پاکستانی قوم بہ تدریج کسی خطرناک انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حالیہ تبدیلی اگرچہ خوش آئند ہے لیکن اگر مایوسیوں اور پریشانیوں کا بروقت ازالہ نہ کیا گیا اور اقتدار کی رسہ کشیوں میں وقت اور قومی وسائل حسب سابق برباد ہوتے رہے تو یہی عوام ان قیادتوں کے خلاف بھی بغاوت کا پرچم تھام لے گی۔

تحریک منہاج القرآن تو پہلے ہی ان پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کرچکی ہے اور ان کے حل کا منشور مصطفوی انقلاب کی صورت میں قوم کے سامنے رکھ چکی ہے اب یہ اس کے احساس، شعور اور قوتِ فیصلہ پر منحصر ہے کہ وہ پوری طرح بیدار ہوکر کب اس صدائے انقلاب پر لبیک کہتی ہے۔