اختر محمد مکی

گذشتہ سے پیوستہ

جن حالات سے آج ہم گذر رہے ہیں وہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہیں اور آنے والا کل اس سے زیادہ خطرناک ہوگا، اسی کو سفرِ زوال کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے انقلاب کا خواہشمند تو ہر کوئی ہے لیکن اکثر لوگ ایسے ہیں جو اپنے علاوہ سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں اور جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ دنیا جگۂ امتحان ہے اور اس دنیا میں انسان برائے امتحان ہے، ان کے لئے اپنے آپ کو بدلنے اور خود اپنے اندر انقلاب لانے میں دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ مشکل بھی نہیں ہے۔ صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے سفر کا رخ زوال کی سمت میں نہیں بلکہ عروج کی سمت میں ہونا چاہئے اور عروج یہ ہے کہ ہمارا آج کا دن گذشتہ کل کی نسبت بہتر ہو۔

بہتری کے میادین

اس بہتری کے تین میدان ہوں ہیں۔

  1. اپنی زندگی کے بارے میں لاعلمی اور مغالطوں سے علمی وسعت کی طرف سفر
  2. کمزوری سے داخلی اورخارجی طاقت کی سمت میں سفر
  3. خود ساختہ اور عارضی مجبوریوں سے وسعت اختیارات کے لئے سفر

1۔ علمی میدان

ہر شخص کو قدرت کی طرف سے قوت تجسس دی گئی ہے۔ اسے استعمال کرتے ہوئے ہمیں درج ذیل معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

  1. پڑھنے لکھنے کا فن
  2. علم کے قابل اعتماد اور مشکوک ذرائع میں فرق
  3. انسانی زندگی کیا ہے اور اس کے بڑے شعبہ جات کیا ہیں؟
  4. زندگی کے شعبہ جات کا باہمی تعلق، تناسب، ترتیب، ترجیح اور نظم
  5. بدنظمی کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟
  6. زندگی کا مقصد اعلیٰ کیا ہے اور حصول کس طرح ممکن ہے؟
  7. انسان کا مرتبہ اور مقام کیا ہے؟
  8. زندگی کے بنیادی تقاضے کیا ہیں اور ان کا حصول
  9. زندگی کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل کیا ہیں؟
  10. اپنے خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
  11. نظام نبوت و رسالت اور اس سے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
  12. انسان کے اختیارات اور مجبوریوں کی نوعیت اور مقصد
  13. زندگی کے تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹیں اور ان کا تدارک
  14. خرابیوں کی نوعیت اور مقصد کیا ہے؟
  15. دور حاضر کی مشکلات، خطرات، بیماریوں اور خرابیوں سے حفاظت کس طرح ممکن ہے؟
  16. طاقت اور قابلیت کہاں اور کیسے پیدا ہوتی ہے؟
  17. انسان بحیثیت مسلمان اپنی عظمت، انسانیت اور دین کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے؟
  18. وقت کی اہمیت اور قیمت کیا ہے؟ وقت کی قیمت کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟
  19. ہر انسان کا کائنات اور دوسرے انسانوں سے تعلق کیا ہے؟
  20. صحت اور امن و سکون کا حصول کس طرح ممکن ہے
  21. انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

جس طرح اپنی زندگی کی بقاء کے لئے غذا و ہوا کی ضرورت ہے اسی طرح مذکورہ معلومات بھی ہر انسان کی ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں ہے :

’’علم کی مفلسی سے بڑھ کر اور کوئی مفلسی نہیں اور علم و دانائی میں اضافہ سے زیادہ کوئی منافع نہیں‘‘۔

(ان تمام معلومات کے لئے راقم کی کتاب ’’حسن زندگی‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہوگا)

2۔ طاقت اور قابلیت کا میدان

طاقت و قابلیت کے ذرائع اور وسائل میں سے خون کی طاقت اور دیگر خارجی مادی قوتوں سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن ہر انسان کو دل و دماغ کے کارخانے میں جو غیر مادی طاقت کا غیر محدود خزانہ دیا گیا ہے اس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اپنے عروج کے سفر کے لئے ہم خون کی طاقت اور دیگر مادی قوتوں کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کی ان غیر مادی طاقتوں میں اضافہ کرکے اس میدان میں کامیابی کو حاصل کرسکتے ہیں۔

  1. احساس کی طاقت : اس وقت کو یاد کریں جب ارواح کا اجلاس بلایا گیا اور سب ارواح سے پوچھا گیا ’’الست بربکم‘‘ اور ہم میں سے ہر ایک نے کہا ’’بلیٰ‘‘ یہ اقرار ایک ایگریمنٹ تھا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ہماری روح اپنے رب سے قربت کے لئے تڑپ رہی ہے۔ یہ قربت ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ جس دن اس دنیا میں امتحان کے لئے ہمارا داخلہ ہوا اسی دن ہمارے کانوں کے راستے اذان اور اقامت کے الفاظ سے ہمارے ایگریمنٹ کو دل و دماغ میں ریکارڈ کرا دیا گیا۔ پھر ساری زندگی ہر روز پانچ دفعہ اذان اور اقامت کے ذریعہ اس ایگریمنٹ کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ اتنے بڑے اہتمام کی صورت میں ہمارے پاس اس ایگریمنٹ سے غفلت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم میں سے جن لوگوں نے منہاج القرآن کی رفاقت کی سعادت حاصل کی انہوں نے اس کے فارم میں بھی اقرار کیا کہ

اِنَّ الصَّلوٰةِ وَنُسُکِیْ وَمَحْيَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن.

اگر ہمیں احساس ہو اور ہمارا ضمیر زندہ و بیدار ہو تو اس ایگریمنٹ کے احساس کی طاقت قدم قدم پر ہماری مدد کرے گی۔

  1. ایمان کی طاقت : ایمان نام ہے اس یقین کا کہ ہمارے مشاہدات، نظریات، سوچ اور فکر سب ناقص ہیں ہم خود کمزور ہیں۔ ہماری زندگی کے بہتری کے سفر کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا بتایا ہوا راستہ ہی سب سے زیادہ محفوظ اور اطمینان بخش ہے۔ ہم نے یہ سفر اسی کی مدد سے طے کرنا ہے جو رحمن اور رحیم ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم نے فقط اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ باقی سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے ہمیں دن میں بار بار صراط مستقیم کی درخواست پیش کرنے کا طریقہ سکھایا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خلوص کے ساتھ یہ درخواست پیش کریں اور قبول نہ ہو۔
  2.  محبت کی طاقت : ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ محبت بڑے بڑے مشکل کاموں کو آسان بنا دیتی ہے اور بڑے خطرات سے ٹکرانے کا ہمت و حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ ہم اپنے عروج کے سفر میں اس طاقت سے بھرپور استفادہ کرکے زوال کو عروج میں بدل سکتے ہیں۔ اس محبت کے تین میدان ہیں :
  1. خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت
  2. مخلوق خدا سے محبت
  3. اپنے آپ سے محبت

اصل میں یہ ایک ہی محبت کے تین رخ ہیں اور یہ تینوں رخ ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک کی عدم موجودگی کلی محبت کی نفی کرتی ہے اور اس محبت کی موجودگی میں کوئی طاقت انسان کو بہتری کے سفر سے نہیں روک سکتی۔

  1. ضمیر کی طاقت : ضمیر کی طاقت قطب نما کی طرح انسان کو بہتری کے سفر کے لئے درست سمت بتاتی رہتی ہے اور قدم قدم پر راہنمائی کرتی ہے۔ جوں جوں ہم اس کی راہنمائی میں سفر طے کرتے ہیں اس کی طاقت بھی بڑھتی رہتی ہے۔
  2. اعتماد کی طاقت : سب سے پہلے اس بات کا اعتماد کہ اللہ اور اس کے انعام یافتہ لوگ ہمارے اس سفر میں ہماری قدم قدم پر راہنمائی اور مدد کریں گے۔ اس کے بعد خود اعتمادی کہ ہم اپنے آپ کو ان کی مدد کا مستحق بنائیں گے اور بعد ازاں ہم سفر لوگوں کا باہمی اعتماد، جب یہ تینوں قسم کے اعتماد میسر ہوں تو پھر خطرہ کس بات کا۔ دل و دماغ کی ان قوتوں کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ ان سے استفادہ کی صورت میں بہتری کے سفر میں مایوسی یا ہمت ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

3۔ وسعت اختیارات کا میدان

بہتری کے سفر میں بہت سی خود ساختہ اور عارضی مجبوریاں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ان بڑی رکاوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ مادی سہولتوں میں اضافہ کو عالمی سطح پر بہتری کا سفر سمجھا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ غلط بنیادوں پر انسانوں کی اونچ نیچ کی تقسیم ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی مجبوریاں ہیں۔ رسم و رواج، ہماری عادات اور اکثریت کا سفرِ زوال پر راضی رہنے کی مجبوریاں ہیں۔

اپنے اپنے حلقۂ اثر میں ان مجبوریوں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا جائے تو ایک ایک کرکے ان مجبوریوں کے جال کو کمزور کیا جاسکتا ہے اور اپنے اختیارات میں وسعت پیدا کی جاسکتی ہے۔ ایک مجبوری یہ ہے کہ ہماری ظاہری دنیا دل و دماغ کی داخلی دنیا کے ماتحت ہے۔ ہمارے معاشرہ میں ظاہری ضروریات کے بارے میں علم، فکر، محبت اور تبادلہ خیال اتنا زیادہ ہے کہ داخلی دنیا کی ضروریات کے بارے میں علم، فکر، محنت اور توجہ نہ ہونے کے برابر ہے اس سے داخلی دنیا اور ظاہری دنیا دونوں کا نقصان ہے۔ اسی طرح ہماری روحانی ضروریات ظاہری اور داخلی دونوں دنیاؤں سے زیادہ ہیں لیکن ہم روحانی ضروریات سے لاتعلق سے ہوگئے ہیں۔

بہتری کا سفر صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ داخلی دنیا روحانیت کے ماتحت ہو اور ظاہری دنیا داخلی دنیا کے ماتحت ہو اور یہی انقلاب ہے۔ ہم اپنے اندر انقلاب لانے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی ساتھ ملائیں کہ جو اپنے علاوہ سب کچھ بدلنے کی (ناممکن) سوچ میں انقلاب کے منتظر ہیں۔ اس طرح ہم انفرادی انقلاب کو قومی انقلاب میں بدل سکیں گے۔ (مضمون کا حصہ اول اپریل 08 ء کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)