اداریہ : سول نافرمانی کی طرف بڑھتا ہوا معاشرہ

ڈاکٹر علی اکبر قادری

افراد اور اقوام کی زندگیوں میں مشکل اوقات اور آزمائش کی گھڑیاں یقیناً آتی ہیں۔ یہی لمحات دراصل ان افراد یا اقوام کے بارے میں فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ یا تو تاریخ کا حصہ بنادیتے ہیں یا پھر زمانہ انہیں اپنے پاؤں کے نیچے روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ پاکستانی قوم کا ہر فرد خواہ وہ امیر ہے یا غریب، سرمایہ دار ہے یا مزدور، پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، مرد ہے یا عورت، جواں ہے یا بوڑھا، تاریخ کے اس دوراہے پر مخمصے کے عالم میں حیران و پریشان کھڑا نظر آرہا ہے۔ ایک طرف اسے اپنے وجود، اعزاء اقارب اور بیوی بچوں کی امانتِ حیات کا بوجھ دکھائی دے رہا ہے اور دوسری طرف لاکھوں شہداء کے خون سے سینچا ہوا 60 سالہ وطن عزیز پاکستان، جو بددیانت حکمرانوں کے چنگل میں پھنسا اپنے دشمنوں سے بقاء کی بھیک مانگ رہا ہے۔ مہنگائی کا ایک سیلاب تو وہ ہے جو عالمی سطح پر فتنہ گر یہودی منصوبہ سازوں کی زیرنگرانی کمزور اقوام کو نگلنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے، اس کا شکار تو بلا تمیز رنگ و نسل تیسری دنیا کے بیشتر ممالک اور انکے عوام بن ہی رہے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن ہمیں تو دُوھری مصیبت نے گھیر رکھا ہے۔ ہمارے مہربانوں میں عالمی استعمار بھی ہے اور قومی و ملکی سطح کا بددیانت طبقہ اشرافیہ بھی۔ قدرت نے ہمارے ملک کو دنیا کے نقشے پر جغرافیائی اہمیت کے ساتھ ساتھ خوبصورت موسموں اور دیدہ زیب کوہ و بیاباں سے نواز رکھا ہے جہاں دنیا کی ہر نعمت ہر وقت میسر رہتی ہے لیکن اس خطے کی بدقسمت عوام آج تک سکھ کا سانس نہیں لے سکی۔ وجہ فقط یہ ہے کہ یہاں جو سیاسی لیڈر یا فوجی آمر آیا اس نے اپنی ذات اپنے خاندان اور اپنے ساتھ شریک اقتدار حواریوں کو ہی نوازا اور اسی کو قومی خدمت کا نام دیا۔

بابائے قوم کی بے وقت موت نے لٹے پٹے زخم خوردہ اور نوزائدہ ملک کو درندہ صفت حکمرانوں کی آغوش بے اماں میں ڈال دیا۔ وہ دن اور آج کا دن یہاں اقتدار کے ایوانوں میں چوھے بلی کا یہ کھیل جاری ہے۔ اس دوران کچھ مخلص افراد بھی آتے رہے اور کچھ قومی ادارے بھی پروان چڑھے مگر اعلیٰ قیادت میں ایسے اچھے افراد کی قلت ہی رہی جو اپنی ذات پر قومی اور ملکی مفادات کو ترجیح دیتے اور اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے قومی خزانے بھرنے کی فکر کرتے۔ اس لئے ادارے بھی بنتے بگڑتے رہے۔ حکومت پر زیادہ عرصہ اگرچہ فوجی طالع آزما ہی براجمان رہے لیکن حالیہ آمریت نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیئے ہیں۔ پرویز مشرف نے نادان سیاستدانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر شب خون مارا اور قوم کو ’’سات نکاتی ایجنڈے‘‘ کا دھوکا دے کر طویل شخصی اقتدار کی بنیاد ڈالی۔ سپریم کورٹ نے یقیناً نیک نیتی کی بنیاد پر پرانے سیاسی تجربات کی ناکامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے صدر مشرف کی آمریت کو آئینی تحفظ فراہم کیا اور ہر طرح کی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا لیکن جب کابینہ اور حکومت سازی کا وقت آیا تو پرویز مشرف نے انہی چوروں لٹیروں اور بددیانت لوگوں کے ریوڑ کو اقتدار کا لالچ دیتے ہوئے اپنے پیچھے لگالیا۔ صاف ظاہر ہے ان نیب زدہ وزیروں اور خورد برد کے مقدمات میں گھرے ہوئے مشیروں نے کمانڈو صدر کو کیا کہنا تھا، کرپشن کے حمام میں سب ہی ننگے تھے اس لئے انہوں نے فوج، عدلیہ، انتظامیہ، صحافت، صنعت، صحت اور تعلیم جیسے اساسی اداروں کو بھی معاف نہیں کیا اور دل کھول کر لوٹ مار جاری رکھی۔ اس کی ایک مثال پاکستان سٹیل مل جیسے منافع بخش قومی صنعتی ادارے کی فروخت کا شرمناک منصوبہ تھا جس کی مالیت 300 ارب روپے تھی لیکن اسے امریکہ اور بھارت کا ایک پر اسرار گروپ صرف 21 ارب روپے میں حاصل کررہا تھا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا جس نے جنرل (ر) عبدالقیوم کے بروقت متوجہ کرنے پر اس سودے کے خلاف حکم امتناعی دے کر قوم کا قیمتی اثاثہ بچالیا۔ اسی طرح 570 ارب روپے پر مشتمل حبیب بنک کے شیئرز کو پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے 22 ارب روپے میں نیلام کردیا۔ یہی حالت PTCL کی ہے جو ماہانہ کروڑوں روپے قومی خزانے کے لئے منافع کمارہا تھا مگر سابق حکومت نے اس قومی ادارے کے اثاثہ جات کی فروخت سمیت لاکھوں خاندانوں کو بے روزگار بھی کیا اور اب عجیب و غریب طریقوں سے قوم کو لوٹا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں شوگر، آٹے، چاول اور دیگر روزمرہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرکے بحران پیدا کئے جاتے رہے اور اشیاء مہنگی کرکے مجبور لوگوں میں بیچی جاتی رہیں۔

موجودہ جمہوری حکومت جو نئے عزم اور نئے پروگرام کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئی تھی۔ نئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد سو روزہ ترجیحات کا اعلان کیا، لوگ سمجھے یہ اعلان 100 دنوں میں بنیادی تبدیلیوں کی نوید لائے گا مگر گیلانی صاحب کے جیسے ہاتھ پاؤں بندھے رہے۔ ان سو دنوں میں سوائے ججز کالونی اسلام آباد کی تاریں ہٹنے کے اور کچھ نہیں ہوا۔ قوم کے حصے میں عدالتی بحران سمیت سیاستدانوں کی مسکراہٹیں، جھوٹ اور وعدہ ہائے فردا کے سوا کچھ بھی نہیں آسکا۔ لوگ مایوس ہوکر قانون کو اپنے ہاتھوں لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، جس کی ابتداء کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں سے ہوچکی ہے یہ انتقامی جذبہ اب آہستہ آہستہ عوامی غیظ و غضب میں ڈھلنا شروع ہوگیا ہے۔ حالات اسی ڈگر پر رہے اور حکمران طبقہ عوامی ضرورتوں سے بے نیاز ہوکر اقتدار کی راہداریوں میں گھومتا رہا تو عین ممکن ہے اس ملک کے مجبور اور بے بس عوام 60 سالہ زیادتیوں کا انتقام لینے کے لئے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردیں۔ اس صورت میں مقتدر طبقات کا وجود تو شاید ختم ہوجائے لیکن خانہ جنگی سے ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ صورت کوئی بھی ہو عوام اور حکمرانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی، معاشرتی اور طبقاتی تفریق بالآخر کسی انقلاب پر ہی منتج ہوگی۔ بشر بے چین ہو تو انقلاب آیا ہی کرتے ہیں۔

ہالینڈ حکومت کا مستحسن اقدام

ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہالینڈ پولیس کو اسلام کی صحیح معلومات فراہم کرنے کے لئے ڈچ زبان میں ترجمہ شدہ قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق پولیس ترجمان ’’وان ڈرلینڈ‘‘ نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیٹ ڈچ زبان میں تیار کیا گیا ہے جو پولیس کے افسران اور اہل کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں نصف قیمت پر فراہم کیا جائے گا تاکہ اسلام کے متعلق بنیادی معلومات حاصل کی جاسکیں‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں ہالینڈ حکومت کا یہ ایک مستحسن اقدام ہے بشرطیکہ قرآن حکیم اور سیرت طیبہ پر ترجمہ مصدقہ ہو اور یہ کاوش نیک نیتی پر مبنی ہو۔ یورپ اور دیگر مسلم ممالک میں بسنے والے اہل اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے اپنے ذرائع سے مقتدر طبقوں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات متعارف کروائیں تاکہ شر پسند دین دشمن قوتوں کی طرف سے پھیلایا ہوا منفی پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مر جائے اور انسانیت اسلام کے پیغام امن و محبت سے فیض یاب ہوسکے۔