کیا ہم واقعی مسلمان ہیں۔ ۔ ۔ ؟

پروفیسر محمد رفیق

اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو کیا مسلمان ہونے کے تقاضوں سے آشنا بھی ہیں کہ نہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہم ان تقاضوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں۔ ۔ ۔ ؟ دل کی گہرائیوں سے اٹھتی، عمل کی جانب مہمیز کا کردار ادا کرتی ہوئی خوبصورت تحریر۔ ۔ ۔ جسے پڑھ کر آپ یقینا بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے

اسلام ایسا جامع دین ہے جو زندگی میں پیش آمدہ جملہ معاملات کی جزئیات تک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جدید مصروفیات مسلمانوں کو دین سے دور لئے جا رہی ہیں ضروری ہے کہ کم از کم فرائض دینی کا ایک جامع نقشہ ہر وقت پیش نظر رہے تاکہ اس کے مطابق عمل کر کے کامیابی کے سفر پر گامزن رہیں۔ اس حوالے سے ترجیحات کا درست تعین بہت ضروری ہے تاکہ تفصیلات میں الجھ کر منزل کھوٹی نہ کر بیٹھیں کیونکہ عقل مند طالب علم صرف انہی سوالوں کی تیاری کرتے ہیں جو امتحانات میں پوچھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت، تقدیر اور مرنے کے بعد زندگی پر پختہ ایمان کے بعد بحیثیت مسلمان ہم پر دو طرح کے فرائض عائد ہوتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہوسکتی یہی مسلمانی کے تقاضے ہیں۔

1۔ ذاتی اصلاح

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو کتابوں اور رسولوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا طریق کار بھی بتادیا لہذا Personal Development کے لئے نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسے ارکان کی ادائیگی بنیادی اہمیت کی حامل ٹھہری۔ جس طرح مشینیں بنانے والے انہیں چلانے کے لئے ساتھ Instruction Manuals بھی فراہم کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لئے قرآن مجید کو نازل کیا۔ قرآن مجید سے احکامات خداوندی معلوم کرکے ان پر عمل پیر اہوتے ہوئے ہمیں تین محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے :

  1. نفس
  2. شیطان
  3. معاشرتی رسم و رواج

ان محاذوں پر قابو پاکر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ قوت ارادی سے کام لے کر نفس کی مخالفت کو موافقت میں بدل کر ہر عبادت میں چاہت کا رنگ بھرنا زندگی کا پہلا مرحلہ ہے۔ جب جملہ فرائض اور واجبات برضا و رغبت ادا ہونے لگیں اور زندگی کی ایک ایک ادا میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی جھلک نظر آنے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ منزل کے قریب پہنچ گئے۔

2۔ معاشرتی اصلاح

اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایمان کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کے لئے صرف ذاتی طور پر نیک بن جانا ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ حسب استطاعت معاشرتی اصلاح کی بھرپور کوشش بھی کی جائے۔ جملہ جدید ذرائع استعمال کر کے دوسروں کو سچائی کا راستہ دکھانا ایک لازمی فریضہ ہے ورنہ اللہ کی بارگاہ میں باز پرس ہوگی۔ اگرچہ ایک آیت یا ایک بات ہی معلوم ہو اسے ہی آگے منتقل کیا جائے۔ برائی کے خلاف جہاد بھی اسی لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ معاشرے سے برائی کی قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس طرح نیکی کے لئے ایک سازگار ماحول میسر آسکے۔

اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال اور اعمال کی حاجت نہیں، ان کی ادائیگی ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ اسلام میں عبادت ’’پوجا پاٹ‘‘ نہیں بلکہ ایک مستقل نظام طرز حیات ہے جس کی تفصیلات قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن اور صاحب قرآن کے ساتھ قلبی اور حبی تعلق کامیابی کی چابی ہے پھر مشکل سے مشکل کام بھی آسان لگے گا۔ حصول علم کا مقصد خدا کی پہچان ہے۔ خدا خوفی کے بغیر معاشرہ کسی جنگل کا منظر پیش کرتا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے اور عدل و انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ ہماری سرگرمیوں کا ایک رخ اللہ کی جانب اور دوسرا اس کے بندوں کی طرف ہوتا ہے لہذا ہمیں حقوق کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد

اللہ کے ساتھ خوف و امید، تقویٰ و طہارت، توکل و استقامت، شکر و دعا، توبہ و استغفار، عجزو انکسار، تسلیم و اطاعت، تسبیح و ثناء، ذکر و فکر اور انفاق و استعانت کا معاملہ رکھا جائے اور شرک سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اس کے ساتھ عبادت اور محبت میں غلو کیا جائے۔

جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے اس کے کئی رخ ہیں۔ والدین، اولاد، دوست احباب، رشتہ دار، پڑوسی، عام لوگ، بیمار، غریب لوگ، اہل کتاب، غیر مسلم حتی کے دشمنوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کئے جائیں۔ کسی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ نفس کو قابو کرتے ہوئے اس کے حقوق بھی پامال نہ کئے جائیں۔

اس کے علاوہ کچھ آداب و اخلاق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہاں چند گوشوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے۔

1۔ آداب

زندگی کے ہر معاملہ اور تعلقات میں آداب کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ کسی معاملے کو اس کے آداب سے ہٹ کر بجا لانے سے وہ کام ہو تو جاتا ہے۔ مگر اس کی اصل روح مجروح ہوتی ہے۔ لہذا اسلام نے ہمیں بول چال، تلاوت، صحبت، مجلس، شکار، ذبح، ازدواجی تعلقات، جسمانی اعضاء، اسلام، ملاقات، خط و کتابت، حاکم و محکوم، مکہ و مدینہ، مسجد، قسم، دعا، غسل، وضو، تعلیم بیت الخلاء، تجہیز و تکفین، عبادت، نکاح و طلاق، سفر، لباس، چھینک، جمائی، ہنسنا، رونا، کھانا پینا، نیند، بازار، والدین، اساتذہ اور دیگر معاملات کے بارے میں جو آداب سکھائے گئے ہیں ان کا لحاظ کیا جائے کیونکہ بے ادب مراد کو نہیں پاسکتا۔

2۔ اچھے اخلاق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا :

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم. ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق.

’’بے شک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی مبعوث فرمایا گیا ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق خلقِ عظیم ہے۔ پس اسی تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کو بھی اسی اخلاقِ حسنہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہئے۔ لہذا ہمیں صداقت و امانت، توکل و استغناء، صبرو قناعت، جود و سخا، رحم و کرم، ایثار، ایفائے عہد، باہمی محبت، زبان و شرم گاہ کی حفاظت، کلام، منام اور طعام میں کمی، عجز و انکسار، ملنساری، عفو و درگزر، رواداری، شکر گزاری، استقامت، تسلیم و رضا، غصہ پر قابو، حوصلہ مندی، شرم و حیا، بردباری، صلح جوئی، امن پسندی، خندہ پیشانی، دوستانہ رویہ، خود احتسابی، تزکیہ و تصفیہ، ریاضت و مجاہدہ، حسن ظن، چشم پوشی، خدا خوفی اور وسعت نظری سے کام لیتے ہوئے ان اخلاق کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنانا چاہئے۔

3۔ برے اخلاق

اسلام کی تعلیمات میں جہاں اپنے ماننے والوں کو اخلاقِ حسنہ کی طرف راغب و مال کیا گیا وہاں برے اخلاق سے بچنے کے لئے بھی راہنمائی عطا فرمائی گئی۔ لہذا اخلاقِ حسنہ کی پیروی کے ساتھ ساتھ رذائلِ اخلاق جھوٹ، خیانت، بہتان بازی، اسراف، بخل، حسد، لالچ، دنیا اور منصب کی محبت، ریاکاری، شہرت اور بڑائی کی خواہش، فخر و تکبر، منافقت، غیبت، چغل خوری، عیب چینی، ظلم، قطع تعلق، قتل، گالی گلوچ، تمسخر، طنز، برے القابات، سخت دلی، بدمزاجی، کینہ، تعصب، خود پسندی، بدنیتی، سستی، لاپرواہی، مایوسی، خود غرضی، نفسانیت، بدگمانی، تجسس، دھڑے بندی، نفرت، احساس کمتری اور احساس برتری، سرگوشی، حیلے بہانے، کم چوری، دھوکہ دہی، شکایت بازی، لعن طعن، فتنہ و فساد، لاف زنی، فحش گوئی، خوشامد، ناجائز ستائش، شہوت، غصہ، کفران نعمت، بدنگاہی، لغویات، عجلت اور غیر مفید کھیل تماشوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں البتہ بڑے بڑے گناہوں سے مکمل اجتناب اور چھوٹے گناہوں پر اصرار سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔

4۔ کبیرہ گناہ

گناہ، صغیرہ ہو یا کبیرہ ہر دو صورت میں رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی ہی ہے۔ البتہ صغیرہ گناہ انسان کی دیگر نیکیوں کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و قربت سے مزید دوری کا باعث بنتے ہوئے انسان کو ذلت و گمراہی کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ شرک، کفر، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، تہمت زنا، جادو، شراب نوشی، سود، بددیانتی، زنا، لواطت، قتل، چوری، ماں باپ کی نافرمانی، جہاد سے فرار، گناہ پر اصرار، رحمت الہٰی سے مایوسی، خوف الہٰی سے بے نیازی، حرام خوری، غضب اور فتنہ فساد کبیرہ گناہ ہی ہیں لیکن دور حاضر میں انہیں اتنے خوبصورت اور دلکش نام دے دئے گئے ہیں کہ احساس گناہ تک باقی نہیں رہا۔ ہر گناہ کو سند جواز عطا کی جارہی ہے لہذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ نفس کو گناہوں، نافرمانیوں اور اخلاقی آلودگیوں سے بچا کر رکھنا ہی تصفیہ اور تزکیہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَO الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَO إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَO فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَO وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَO وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَO أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَO الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَO

(المومنون : 1 تا 11)

’’بیشک ایمان والے مراد پا گئےo جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیںo اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیںo اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیںo اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیںo سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیںo پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیںo اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیںo اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیںo یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیںo یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہوگی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گےo‘‘۔

درج بالا آیات سے ہمیں گناہوں، نافرمانیوں اور برے اخلاق سے بچنے کی طرف دعوت دی گئی ہے اور نیک اعمال کی طرف راغب کیا گیا ہے۔

اسی طرح حدیث جبرائیل سے دین کے تین بڑے شعبوں ایمان، اسلام اور احسان سے بھی عقائد، عبادت اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے انہی کو پیش نظر رکھ کر خشوع و خضوع کا پیکر بننا ہے۔

خود احتسابی

روحانی ترقی کے لئے تھوڑا سا وقت نکال کر روزانہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیجئے۔ ۔ ۔ قول و فعل کا تضاد پریشانی اور بے اطمینانی کو جنم دیتا ہے، حقیقی سکون اللہ کو ہر وقت یاد رکھنے اور اس کے ساتھ تعلق محبت کو استوار کرنے میں ہے۔ سونے سے قبل بستر پر من میں جھانک کر اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ آج عقائد میں کہاں کہاں بگاڑ پیدا ہوا۔ ۔ ۔ اوقات کی تقسیم اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا کتنا لحاظ کیا اور کس قدر وقت ضائع ہو گیا۔ ۔ ۔ خلوص نیت کی کتنی کمی رہی عبادت میں کتنی سستی ہوگئی۔ ۔ ۔ لوگوں کے حقوق اور اپنے ذمہ فرائض کے حوالے سے کتنی کوتاہی ہوئی۔ ۔ ۔ مقصود حیات کے حوالے سے کتنا انحراف ہوا۔ ۔ ۔ آج کا دن کل سے بہتر تھا کہ نہیں۔ ۔ ۔ آنے والے دن کو بہتر بنانے کے لئے کیا سوچ بچار کیا۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

حرف آخر

ہم نے دینِ اسلام کی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح کا ایک خاکہ آپ کے سامنے موجود ہے اس میں حسن نیت اور حسن عمل کے موتی آپ نے پرونے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنا، حقوق العباد کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جانا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کے بعد ہی صحیح معنوں میں احیائے اسلام و تجدیدِ دین کے مشن کے کارکنان اپنے اس مصطفوی مشن کو اس کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مسلمان بنا کر اپنی رضا سے فیضیاب فرمائے۔