دورہ صحیح مسلم شریف (نشست سوم۔I)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

صحتِ حدیث کا مدار
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حسب پروگرام پچیس گھنٹوں سے زائد دورانیہ پر مشتمل پانچ نشستوں میں سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن اگست، ستمبر08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف کے حوالے سے اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی، دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست کا اول حصہ نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے دورہ صحیح مسلم شریف کے سلسلے کی تیسری نشست کا آغاز کر رہے ہیں۔ پہلی دونوں نشستیں اصول حدیث کے موضوع پر تھیں جن میں اصول حدیث کی بنیادی مباحث کے حوالے سے پائے جانے والے مبالغے، ابہامات اور اشکالات کا حتی الوسع ازالہ کیا ہے۔ اس نشست میں اصول حدیث کے باب میں مزید دو بنیادی موضوعات زیر مطالعہ لائیں گے۔

اصول حدیث اور علم حدیث میں کسی حدیث کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا تعلق یا بالفاظ دیگر حدیث کی صحت کا تعلق اور اس کا مدار قطعاً نہ کسی ایک امام یا ائمہ صحاح ستہ کی روایت پر ہے اور نہ ہی کسی کتاب میں اس حدیث کی روایت کے ہونے یا نہ ہونے پر ہے۔ اس باب میں یہ بڑا مغالطہ پایا جاتا ہے۔ یہ فن سے بے خبری اور لاعلمی کی بات ہے جو بڑی کثرت کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ یہ مغالطہ بعض اوقات TV پر نشر ہونے والے مباحثوں، گلی کوچوں، عام مجالس و مساجد میں دستیاب علم کے ذریعے پیدا ہوتا ہے یا علم و فن سے ناآشنا لوگ یہ مغالطہ پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی حدیث کوڈ کی جائے اور اس کے جواب میں یہ کہنا کہ یہ بخاری و مسلم میں دکھاؤ، اگر بخاری و مسلم میں آئی ہے تو ہم مانتے ہیں وگرنہ نہیں۔ کئی لوگ تو صرف صحیح بخاری سے ہی حوالے کا تقاضا کرتے ہیں، تاہم کئی احباب دیگر ائمہ پر ’’شفقت و مہربانی‘‘ کرتے ہوئے ان کے حوالے کا تقاضا بھی کر لیں گے کہ بخاری و مسلم میں یا صحاح ستہ میں یہ حدیث ہے تو مانتے ہیں وگرنہ نہیں مانتے۔

یہ سوچ اور کسی حدیث کے حوالے کے لئے صرف مذکورہ کتب کا تقاضا کرنا ایک فتنہ ہے جو صرف اس موجودہ دور کی پیداوار ہے (پہلی نشست میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوچکی)۔ حدیث کی 12 سو سال کی تاریخ میں حدیث کی صحت کے حوالے سے یہ شرط کسی امام، کسی طبقہ و مسلک اور کسی مکتبہ فکر نے نہیں لگائی۔ یہ وہ تصور ہے جو 12 سو سال کی علمی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا۔ اگر دو چار علماء نے بھی یہ بات کہی ہوتی تو یہ کہنے کا جواز تھا کہ ہمارا یہ موقف فلاں کے نقطہ نظر پر قائم ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ایک فکر اور نقطۂ نظر کی آخری حد ہیں انہوں نے بھی یہ نہیں کہا۔۔۔ اسی طرح علامہ ابن کثیر اور علامہ ابن قیم نے بھی اس بات کو بیان نہیں کیا۔ علامہ ابن کثیر، علامہ ابن قیم دونوں احباب علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں مگر بہت سے امور میں اپنے استاد سے اختلاف رکھتے ہیں۔۔۔ اس طرح علامہ شوکانی اور علامہ ابن حزم جن کا زمانہ ان کے بعد کا ہے اور ان کی فکر کے علمبردار ہیں، انہوں نے بھی اس حوالے سے یہ موقف اختیار نہیں کیا۔۔۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی جو کسی بھی فن کے امام یا کسی بھی علم کے ماہر متخصص عالم نہیں ہیں، صرف ایک داعی و مبلغ تھے، چند کتب تالیف کیں، مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ انہیں بڑی عزت و احترام سے دیکھتا ہے، ان کے مسلک، نکتہ نظر اور عقیدے کی پیروی کرتا ہے، ان کو بڑا اونچا درجہ دیتا ہے حتی کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب دیتا ہے اگر شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی نے بھی یہ بات کہہ دی ہوتی تو پھر بھی اسے کوئی نقطۂ نظر سمجھتے۔۔۔ ان کے ہاں بھی ہمیں یہ بات نہیں ملتی کہ اگر کوئی حدیث صحیح بخاری یا صحیح مسلم ہے تو قبول کی جائے گی اور اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب کا حوالہ قابل قبول نہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے عالم سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کے امام تک 12 سو سال کی تاریخ میں یہ بات کسی نے بھی نہیں کی۔ یہ ایک جاہلانہ فتنہ ہے جو صرف اس دور کی پیداوار ہے۔ محض علم سے گریز اور لوگوں کو کم علمی کے ساتھ گمراہ کرنے اور دین کا ایک عظیم ذخیرہ جو احادیث نبوی کی شکل میں ہے، اس سے لوگوں کو محروم کرنے کا ایک حربہ ہے۔

اس بات کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اب ہم اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔

حدیث صحیح کا مدار

حدیث صحیح کا مدار نہ کسی امام کی روایت پر ہے نہ ہی کسی کتاب میں درج ہونے پر ہے۔ یہ کہنا کہ بخاری و مسلم شریف میں ہو تب ہی صحیح ہوگی ورنہ نہیں۔۔۔ صحاح ستہ میں ہو تب ہی صحیح ہوگی اگر ان میں نہیں تو صحیح نہیں ہوگی۔۔۔ یہ بات سراسر جہالت ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی جہالت ہے کہ یہ حدیث چونکہ فلاں کتاب میں ہے اس لئے ضعیف ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ کتابیں ضعیف نہیں ہوتیں بلکہ حدیث کے صحیح، حسن، ضعیف ہونے کا مدار دراصل سند پر ہے۔ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں۔

1۔ سند 2۔ متن

سند کو بالعموم علمی اصطلاح میں اسناد کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس یا صحابی سے لے کر صاحب تصنیف / مؤلف تک حدیث کو روایت کرنے والے ائمہ، رواۃ، رجال کا سلسلہ اسناد کہلاتا ہے۔

خالصتاً علم حدیث اور اصول حدیث کے فن میں گفتگو کرتے ہوئے محدثین بالعموم حدیث کے لفظ کا اطلاق بھی ’’اسناد‘‘ پر کرتے ہیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام بخاری نے صحیح بخاری کو 6 لاکھ احادیث میں سے مرتب کیا، امام بخاری خود فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں اور 2 لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں۔ اسی طرح دیگر ائمہ میں سے کسی نے 3 لاکھ، کسی نے 5 لاکھ اور کسی نے 6 لاکھ احادیث میں سے اپنی کتب کے لئے احادیث کا انتخاب کیا۔ امام احمد بن حنبل کی مسند تقریباً 28 ہزار احادیث پر مشتمل ہے، آپ نے ان کا انتخاب 10 لاکھ احادیث میں سے کیا۔

امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ کوئی امام الفقہ کب بنتا ہے؟ کہ وہ فتویٰ دے اور اس کے فتوی اور مذہب کی پیروی کی جائے؟ اور ساتھ ہی سوال کرنے والے نے کہا کہ اگر اس کو ایک لاکھ احادیث یاد ہوں تو فقیہ بن جاتا ہے یعنی امام کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے؟ امام احمد بن حنبل نے ارشاد فرمایا : نہیں، ایک لاکھ احادیث یاد ہونے سے کوئی امام الفقہ نہیں بنتا۔۔۔ پوچھا گیا کہ اگر 2 لاکھ احادیث یاد ہوں؟ فرمایا : نہیں۔۔۔ پوچھا گیا کہ اگر 3 لاکھ احادیث یاد ہوں؟ فرمایا : نہیں۔۔۔ پوچھا گیا کہ اگر 4 لاکھ احادیث یاد ہوں؟ فرمایا : ہاں، اگر کم از کم 4 لاکھ احادیث یاد ہوں اور وہ شخص ان احادیث کے متن اور سند پر گہری نظر رکھتا ہو تو وہ ’’امام الفقہ‘‘ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔

اس شخص نے بعد ازاں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے یا حنابلہ کے ائمہ میں سے کسی سے بات کی کہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اگر کسی کو 4 لاکھ سے زائد احادیث یاد نہ ہوں تو وہ فقیہ نہیں بن سکتا، حالانکہ امام احمد بن حنبل بھی ایک امام الفقہ ہیں تو کیا وہ خود بھی اس شرط پر پورا اترتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ امام احمد بن حنبل نے اپنا ’’مسند‘‘ ساڑھے سات لاکھ احادیث میں سے چن کر مرتب کیا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے امام عبداللہ بن احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ آپ کے والد گرامی کو کتنی احادیث یاد تھیں تو انہوں نے فرمایا کہ گھر میں والد گرامی کا ذخیرہ 10لاکھ احادیث کا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم، امام صاحب کی مذکورہ شرط سے متعلق کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ مجتہد فقیہ ہے جو لوگوں کو اپنے اجتہاد سے فتویٰ دیتا ہے اور اس سے مذہب وجود میں آتا ہے۔

اس کو علامہ ابن تیمیہ نے ’’المسودہ‘‘ میں ص 516 پر اور علامہ ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ جلد،1 ص 45 پر روایت کیا ہے۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ امام احمد بن حنبل سے نچلے درجے کے کسی آدمی کے حوالے سے یہ پوچھا جا رہا تھا اور نہ آپ نے ان کے حوالے سے جواب دیا۔ آپ کا یہ جواب آج کے صاحبان فتویٰ کے لئے نہیں ہے اور نہ ان کے لئے یہ شرط عائد کی جا رہی ہے، یہ دراصل ان ائمہ فقہ کے لئے تھا جو فتویٰ دیتے اور فتویٰ ان کا مذہب بن جاتا اور فقہ ترتیب پاتی، یہ اس درجہ کے فقیہ اور امام کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ وہ زمانہ ائمہ کا زمانہ تھا، جس میں امام اعظم، امام مالک، امام شافعی ہوئے اور ان کے بعد ائمہ حدیث آئے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل فقیہ ہونے کے لئے 4 لاکھ احادیث یا اس سے زائد کا حافظ ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی امام اعظم کو فقہ کا ایسا امام مانتے ہیں کہ ہر دور کے فقہاء ان کے عیال ہیں۔ امام شافعی، امام اعظم کے بارے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر ایک جس نے فقہ میں کوئی مقام حاصل کیا اس نے امام اعظم کے دسترخوان علم سے اکتساب فیض کیا۔ اگر امام احمد بن حنبل امامِ فقہ کے لئے 4 لاکھ احادیث کی شرط مقرر کر رہے ہیں تو ان کی نگاہ میں امام اعظم کتنی احادیث کے حافظ ہوں گے۔۔۔؟ افسوس آج انہی علامہ ابن قیم، علامہ ابن تیمیہ اور امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں میں سے بعض نادان، کم علم لوگ امام اعظم کو برا بھلا کہتے ہیں اور یہ الزام دھرتے ہیں کہ ان کے پاس حدیث نہیں تھی حالانکہ ائمہ کے پاس اس قدر ذخیرہ حدیث موجود ہوتا اور پھر اس میں سے انتخاب کر کے چند ہزار احادیث پر مشتمل ان کی تصنیف و تالیف منظر عام پر آتیں۔ اس حوالے سے امام حاکم کی ’’المدخل‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند ہے جس میں انہوں نے نامور ائمہ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے کہ انہیں کتنی کتنی لاکھ احادیث یاد تھیں۔

لاکھوں احادیث کے ذخیرہ سے مراد

ائمہ کے پاس موجود احادیث کی تعداد لاکھوں تک کیسے پہنچتی تھی؟ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر امام ابن حجر عسقلانی اور ائمہ فن نے بڑی شرح و بسط اور بلا اختلاف متفقہ طور پر مسلمہ گفتگو کی اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ائمہ کے پاس موجود احادیث خواہ وہ 6 لاکھ تھیں یا 4 لاکھ، ساڑھے سات لاکھ تھیں یا 10 لاکھ، اس سے مراد احادیث کے ’’متن‘‘ نہیں بلکہ ’’اسناد‘‘ ہے۔

بعض اوقات ایک ہی متن 2، 3، 4، 5 تا 10 اسناد کے ساتھ ائمہ تک پہنچتا اور جب وہ ان کو یاد کرتے تو سند مع متن یاد کرتے۔ ایک ہی مضمون جتنی سندوں کے ساتھ پہنچتا وہ اس کو یاد کرتے۔ سندیں مختلف ہوتی تھیں، کہیں مختلف صحابہ کرام سے مروی ہوتا ہے۔ کہیں صحابی ایک ہوتا آگے تابعی مختلف ہو جاتے، ایک صحابی نے سنا، اس نے آگے 10 تابعین کو روایت کیا، اُن 10 نے آگے روایت کر دیا پس سند یہیں سے بدل گئی۔

مثلاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آگے اپنے دس تابعی شاگردوں کو بیان کیا اور انہوں نے آگے اپنے تلامذہ میں بیان کیا تو صحابی ایک ہوا مگر تابعی سے 10 کے 10 راوی جدا ہوگئے، انہوں نے آگے تبع تابعین کو روایت کی تو ان کا آگے ایک الگ سلسلہ شروع ہوگیا۔ پس اس طرح سندیں بدل جاتیں۔ جب سندیں بدل جائیں اور متن ایک ہی ہو تو محدثین کا اصول و قاعدہ ہے کہ وہ اس کو ایک حدیث شمار نہیں کرتے بلکہ اگر ایک ہی متن (الفاظ کی تھوڑی بہت تبدیلی مگر ایک ہی مضمون کے ساتھ) 10 سندوں سے روایت ہوتا ہے تو اسے 10 احادیث شمار کرتے۔ اس طرح یہ تعداد لاکھوں تک پہنچتی۔

اس ساری بات کو کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ اسناد کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے۔ اس لئے امام مسلم نے امام عبداللہ بن مبارک، امام ابن سیرین، امام ابو عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد بن حنبل اور اکابر ائمہ کے حوالہ جات سے یہ اقوال جمع کئے ہیں اور دیگر ائمہ نے بھی اس کو اکٹھا کیا ہے کہ وہ اسناد کو دین کہتے اور اسناد کو اس لئے دین کہتے کہ اسناد ہی کو حدیث کہا جاتا۔ (اسناد کی اہمیت پر صحیح بخاری کے سلسلے میں شیخ الاسلام کی گفتگو سماعت فرمائیں، اشاعت نومبر2006ء ماہنامہ منہاج القرآن) ان احادیث و آثار کو میں نے تمام کتب سے اکٹھا کر کے اپنی کتاب ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ میں لکھ دیا ہے، ان کی تعداد 23 بنتی ہے۔ اصول حدیث کی کسی بھی ایک کتاب میں یکجا اتنے اقوال تمام ائمہ و تابعین کے شاید سب سے زیادہ ہیں جو اس میں جمع کئے گئے ہیں۔

جب ہم مسلم شریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امام مسلم ایک ہی باب میں ایک حدیث کو تمام اسانید مختلفہ سے جمع کر دیتے ہیں۔ یہ صحیح مسلم کی وہ خوبی، فضیلت اور اہمیت ہے جو صحیح بخاری میں نہیں پائی جاتی۔ اسی بناء پر بعض ائمہ، محدثین نے اور خاص طور پر ائمہ مغرب نے صحیح مسلم کا درجہ صحیح بخاری سے بھی اونچا قرار دیا ہے مگر اجماع یہ ہے کہ صحت کے معیار میں صحیح بخاری کا درجہ ہی اونچا ہے۔ حسن نظم، ترتیب، جودت نظم اور تمام احادیث کو یکجا لانے کی ترتیب، ابواب کے اندر موجود نظم، منسوخ، مجمل، مفصل، مبین، ناسخ کے حوالے سے حدیث کو ذکر کرنے کی ترجیحات اور دیگر کئی خصوصیات کے حوالے سے صحیح مسلم کا نمایاں مقام ہے۔

دوسری طرف صحیح بخاری میں ایک ہی حدیث اول سے آخر تک بعض اوقات مختلف کتب اور ابواب میں ملتی ہیں۔ امام بخاری نے ایک ہی مقام پر تمام احادیث کو یکجا لانے کا اہتمام نہیں کیا جبکہ امام مسلم نے اہتمام کیا ہے۔ پس Arrangment اور Order اور نظم میں صحیح مسلم بہت اعلیٰ کتاب ہے۔ لہذا جب ان کی تعداد گنی جاتی ہے تو اس میں ایک ہی متن کی تمام اسانید کو بھی الگ الگ شمار کیا جاتا ہے۔

پس اس لئے ائمہ حدیث نے یہ کہا کہ جب یہ کہا جائے کہ کوئی حدیث ضعیف ہے تو محدثین نے علی الاطلاق اور بالاتفاق یہ قانون وضع کر دیا ہے کہ کسی حدیث کو اگر ضعیف کہا تو اس کا معنی ہر گز یہ نہ لیا جائے کہ اس کا متن ضعیف ہے یا صحیح نہیں ہے، وہ صرف ضعیف الاسناد ہوگی کہ اس کے اسناد میں کوئی ضعف، کمزوری یا نقص ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ چونکہ سند میں کمزوری ہے اس لئے اگر وہی متن / مضمون کسی دوسری قوی سند کے ساتھ آگیا تو اس ضعف (مرض) کا ازالہ ہوگیا۔

حدیث کے متن کے کمزور ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ صریحاً مخالفِ احکام شریعت ہو۔ اس لئے محدثین کہتے ہیں کہ سند ضعیف ہونے کے باوجود اس کا متن صحیح ہو سکتا ہے۔ لہذا صحیح، حسن اور ضعیف کی صحت اور ضعف کا انحصار نہ کسی کتاب میں درج ہونے یا نہ ہونے پر ہے اور نہ کسی ایک یا دو امام کے روایت کرنے یا نہ کرنے پر ہے۔ بلکہ صحت کا انحصار اس حدیث کے اسناد پر ہے۔ پس جب یہ اصول سامنے آگیا تو یہ بات 100 فیصد واضح ہوگئی کہ یہ کہنا کہ اگر یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے تو ہم مانتے ہیں وگرنہ نہیں، یہ بات ہی جاہلانہ ہے۔

مدارس کا نصاب

ان دروس کے دوران میں ان مباحث کو بیان کروں گا جو مدارس میں پڑھی، پڑھائی نہیں جاتیں۔ علماء فراغت کے بعد اپنی زندگی کے مطالعہ میں از خود پڑھتے ہیں۔ اس لئے اس موقع پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ مدارس کے نصابات ایک جامع Review (نظرثانی) کا تقاضا کرتے ہیں۔ جو کتب پڑھائی جاتی ہیں ان کو پڑھنے کے باوجود عملی حوالے سے بہت زیادہ کمزوریاں رہ جاتی ہیں۔ مثلاً اصول حدیث کے حوالے سے صرف شرح نخبۃ الفکر، مشکوۃ شریف کا مقدمہ یا کبھی مسلم شریف کے مقدمہ کو پڑھا دیا اور دیگر ابتدائی چیزوں کو پڑھا دیا نتیجتاً ہمارے اہل سنت اصول حدیث میں کمزور رہ جاتے ہیں، جبکہ دوسرے احباب اصول حدیث کی کتابیں زیادہ پڑھتے ہیں، اصول حدیث ان کو یاد رہے یا نہ رہے یہ جدا بات ہے لیکن پڑھتے زیادہ ہیں مگر ہمارے ہاں پڑھتے نہیں۔ مدارس کی لائبریریوں میں کتب موجود ہوتی ہیں مگر چونکہ نصاب میں داخل نہیں اس لئے پڑھتے نہیں، مطالعہ کا شغف نہیں ہوتا اور جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، مسجد کے امام و خطیب بن جاتے ہیں تو ذمہ داریوں اور معاشی مجبوریوں کی بناء پر ضخیم کتب خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں نتیجتاً مطالعہ جاتا رہتا ہے۔ لہذا علماء، علم کے لئے خرچ کیا کریں، اپنا پیٹ کاٹ کر بھی کتب خریدا کریں، اپنی لائبریری بنائیں اورمطالعہ کیا کریں۔

میں چھوٹا سا بچہ تھا تو علماء کا ایک وفد میرے والد گرامی ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس روح کے موضوع پر 2 سوالات لے کر بحث کے لئے آیا۔ میں نے صرف ان کی ابتدائی گفتگو سنی کہ یہ صرف ان دو سوالات کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں خاموشی سے گھر کے اندر چلا گیا اور ان کی باقی گفتگو نہ سنی۔ اندر جا کر وہ تمام کتب، تفاسیر، شروح، لغت جہاں ان کے دو سوالات کے اوپر بحث تھی اور حوالہ جات تھے وہ تمام کتابیں نشانیاں لگانے کے بعد اٹھا کر باہر والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رکھ دیں اور وہ تمام علماء دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ نے جو 2 سوالات کئے ان کے جواب میں جن جن کتب کے میں نے حوالے دینے تھے وہ سارے صفحات نکال کر نشانی لگا کر لے آیا ہے۔

گھر کا ماحول اور ہماری خواہشیں

اس چھوٹے سے ذاتی واقعے کے ذریعے بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان کو اس کے گھر کا ماحول پروان چڑھاتا ہے اگر ہم اولاد کو ماحول نہ دیں اور ان سے توقع کریں کہ وہ آپ کی خواہش کے مطابق بن جائیں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ گھر میں سارا دن TV چلے۔۔۔ گانے، فلمیں، ڈرامے چلیں۔۔۔ ناچ گانا ہو۔۔۔ اور ان شکلوں میں گھروں میں گندگی، غلاظت اور کل جہاں کی پلیدی ہو۔۔۔ ماحول اپنی نگاہ کی عیاشی اور نگاہ کے لطف و سرور کے لئے ہو اور اولاد اسی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہو۔۔۔ جب بچے بڑے ہوکر خراب ہوجائیں، آپ کے نافرمان ہوجائیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نافرمان بنیں۔۔۔ اس وقت ہم پھر پیروں، فقیروں کے پاس آجاتے ہیں کہ کوئی تعویذ دیں بچہ کہنا نہیں مانتا۔۔۔ نماز نہیں پڑھتا۔۔۔ دم کریں کہ دیندار بن جائے۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جو ماحول اس کو مہیا کیا تھا اصل میں یہ سب اسی ’’تعویذ‘‘ کی وجہ سے تھا اب ہم کسی تعویذ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل کی خدمت میں جب کوئی طالب علم پڑھنے جاتا تو اس کو پہلے دن سے نہ پڑھاتے، رات سلا دیتے اور وضو کا برتن بھر کر اس کے کمرے میں رکھوا دیتے، فجر سے پہلے اٹھ کر دیکھتے کہ وہ پانی تہجد، قیام اللیل کے لئے استعمال ہوگیا ہے یا برتن اسی طرح بھرا پڑا ہے۔ اگر وہ پانی استعمال نہ ہوا ہوتا تو سمجھ جاتے کہ تہجد کے لئے نہیں اٹھا۔ صبح اس کو گھر بھیج دیتے اور فرماتے کہ جب رات کو اللہ کے حضور اٹھنا نصیب نہیں تو کیا علم پڑھنے آئے ہو، اس علم سے کیا فائدہ؟

علم تقویٰ، تہجد، شب بیداری، زہد و ورع، پرہیزگاری، اللہ کی بندگی، قلب و باطن کے نور کے بغیر بے کار ہے، غیر نافع ہے۔ علم میں نفع عملِ صالح سے پیدا ہوتا ہے۔ عمل صالح کے بعد انشراح صدر نصیب ہوتا ہے اور مالائے اعلیٰ کے ساتھ رابطہ قائم ہوتا ہے، پھر علم میں معرفت میں بدل جاتا ہے اور زمینی و آسمانی لاکھوں، کروڑوں کتابیں انسان کے سامنے کھل جاتی ہیں۔

اولاد کو نیک بنانا ہو یا کسی بھی سمت لگانا ہو تو اسے وہ ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ ہمارا پاکستانی معاشرہ ساری زندگی کاروبار میں پیسہ کمانے میں گزار دیتے ہیں اور اولاد لاڈ پیار میں بگڑتی رہتی ہے۔ سکول میں جو سیکھتی ہے وہی کرتی ہے اور جب جوان ہوکر نافرمان بنتی ہے تو والدین کو اس بات کی فکر کبھی نہیں ہوئی کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا ہماری اولاد نہیں مانتی، فکر اس وقت شروع ہوتی ہے جب ماں باپ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا کہنا نہیں مانا۔ اپنا کہنا نہ مانا تو فکر مندی اور اگر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا نہ مانا تو والدین کو کوئی پرواہ نہیں ہوئی۔ پس ایک نیک و خوبصورت ماحول چاہئے جس کے اندر اولاد پروان چڑھے۔

تحدیث نعمت کے طور پر بتا رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک سے وہ زمانہ اور عمر بھی یاد نہیں کہ میں نے تہجد کی نماز کا آغاز کب کیا۔ والد گرامی نے مجھے تہجد کی نماز کے لئے کبھی نہیں اٹھایا، صرف پانی بھر کر رکھ دیتے اور ساتھ کچھ کھانے کے لئے رکھ دیتے اور آواز دے دیتے کہ تہجد کے بعد سوہن حلوہ (یا کوئی اور چیز جو رکھی ہوئی) کھا لینا۔ میں آواز سے اٹھ جاتا۔ میں اپنے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کو مصلے پر زار و قطار روتے ہوئے اکثر دیکھتا اور مجھے سمجھ نہ آتی کہ یہ کیوں رو رہی ہیں اور میں ان سے لپٹ جاتا۔ مراد یہ کہ جو ماحول گھر میں دیں گے اسی کا پھل اولاد کی شکل میں پائیں گے۔

ایک دلچسپ مناظرہ

1970ء کی بات ہے میں درس نظامی اور دورہ حدیث مکمل کر چکا تھا۔ جھنگ میں ایک عالم دین سے ’’تقبیل ابہامین‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم پاک پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا اور درود پاک پڑھنا) پر میرا 8 گھنٹے مناظرہ ہوا۔۔۔ منصف تین علماء تھے اور تینوں میرے موقف کے خلاف نکتہ نظر کے حامل تھے۔۔۔۔ میں نے قبول کر لیا مناظرہ شروع ہونے سے قبل میں نے اپنے حریف مولانا صاحب سے کہا کہ آپ اپنا موقف تحریری طور پر لکھ کر منصفین کرام کو دے دیں کہ وہ اس مناظرہ سے کیا ثابت کریں گے اور اس طرح میں بھی اپنا موقف لکھ کر انہیں دے دیتا ہوں اورپھر ہم دونوں اپنے لکھے کو ثابت کرنے کے پابند ہوں گے اور کوئی بھی اپنے لکھے ہوئے مؤقف سے معمولی سا بھی ادھر ادھر نہ ہوگا۔

چنانچہ میں نے اور فریق ثانی نے اپنا اپنا موقف لکھ کر منصفین کو دے دیا۔ جب پڑھ کر سنایا گیا تو انہوں نے جوش اور غصہ میں لکھا تھا کہ انگوٹھے چومنا بدعت ہے، حرام ہے جو ایسا کرے وہ جہنمی ہے، اس کا کوئی عمل قبول نہیں۔۔۔ میرا مؤقف بھی پڑھ کر سنایا گیا، میں نے جو لکھا تھا اسے غور سے سنیں کہ عقیدہ کیا ہے؟ ہم افراط و تفریط کا شکار ہوگئے ہیں، ضرورت عقیدہ کی صحت کے ساتھ اعتدال پر آنے کی ہے۔۔۔ میں نے لکھا کہ’’ تقبیل ابہامین ایک حدیث ضعیف سے ثابت ہے اور فضائل اعمال میں سے حدیث ضعیف پر عمل کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے، پس جو عمل کرے اس کو ثواب ہے اور جو عمل نہ کرے اس کو کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

سن لیں! اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے۔۔۔اکابر میں سے کسی نے بھی اس بات سے معمولی سا بھی انحراف نہیں کیا۔۔۔

منصفین نے میرا مؤقف پڑھ کر سنایا تو مناظر مولانا صاحب ایک دم بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ کیا ہے؟۔۔۔ میں نے کہا کہ یہی عقیدہ ہے۔۔۔ اور اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔۔۔ اب جو کچھ تم، ہم سے منسوب کرتے ہو وہ سب جھوٹ ہے۔۔۔ اب میں آپ کی تہمت کو قبول کروں یا جو اصل عقیدہ ہے اسے بیان کروں۔۔۔ پس وہ مناظرہ اسی بات پر ہی ہارگئے کیونکہ جو کچھ انہوں نے لکھا تھا وہ دنیا کی کسی کتاب سے ثابت نہ ہو سکتا تھا اور جو میں نے لکھا تھا کثیر کتب سے اس کے ثبوت دے دیئے۔ تینوں منصفین نے آخر پر میری فتح اور ان کی شکست کا اعلان کیا۔ لوگوں نے نعرے لگائے میں نے کہا صرف نعرے سے کام نہیں چلے گا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا جائے اور تمام انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگائیں اور پھر اسی طرح ہوا مگر آخر پر ان کے مؤید منصفین نے ایک جملہ لکھا کہ اِن کی جیت اوردوسروں کی شکست کا غالباً سبب یہ ہے کہ دونوں میں علمی تفاوت بہت زیادہ ہے۔۔۔ یہ جوڑ نہیں تھا اگر قادری صاحب کے مقابلے کا کوئی عالم ہوتا تو معلوم نہیں نتیجہ کیا نکلتا۔۔۔ میں وہیں کھڑا ہوگیا اور کہا : اب کوئی مقابلے کا عالم لائیں، اس سے مناظرہ کروں گا۔۔۔ اس پر انہوں نے ایک صاحب کا نام لیا کہ اُن سے آپ کا مناظرہ کروائیں گے، وہ عمر رسیدہ اور پرانے مناظرین میں سے تھے، میں اس وقت 19 سال کا نوجوان تھا، میں نے قبول کر لیا۔ پھر ان کے ساتھ مناظرہ کی تاریخ مقرر ہوگئی، مقررہ تاریخ پر ارد گرد کے کل علماء کثیر تعداد میں مقررہ جگہ پر جمع ہوگئے، ان کے نائبین نے شرائط طے کر لیں مگر اتفاق ایسا ہوا کہ وہ صاحب اپنی کسی مجبوری کی بناء پر نہ آسکے۔۔۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اس کو خوب ہوا دیتا اور کہتا کہ وہ بھاگ گئے۔۔۔ میں نے ایسا نہ کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے کوئی مجبوری ہوگئی ہوگی جس بناء پر نہ آسکے۔ ہماری طبیعت اسی طرح کی ہے کہ کبھی متشدد رویہ اختیار نہیں کیا۔

اس بات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ لفظِ ’’ضعیف‘‘سن کر اس حدیث کو کلیتاً رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جب کبھی حدیث ضعیف کو توابع و شواہد مل جائیں تو وہ درجہ حسن میں داخل ہو جاتی ہے۔

حدیث مقبول کی اقسام

حدیث مقبول کی 4 اقسام ہیں اور یہ اصل میں ’’صحیح‘‘ کی حکماً 4 اقسام ہیں اس لئے کہ ائمہ فن نے ’’حسن‘‘ کو حکماً، احتجاجاً (حجت کے لئے)، استدلال اور عمل کرنے کے لئے اس کا شمار حدیث صحیح کے ذیل میں کیا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث صحیح کی بھی 2 اقسام ہیں اور حدیث حسن کی بھی 2 اقسام ہیں، جب آپ اس کی حجیت، حکم اور اس کے قبول ہونے اور اس پر عمل کرنے پر بات کریں تو وہ صحتِ حدیث کے 4 درجے بن جائیں گے ورنہ حدیث صحیح کی 2 اقسام اور حدیث حسن کی 2 اقسام ہیں۔

1۔ الصحیح لذاتہ 2۔ الصحیح لغیرہ

3۔ حسن لذاتہ 4۔ حسن لغبرہ

صحیح لذاتہ

صحیح لذاتہ کی پانچ شرائط ہیں۔

1۔ راوی عادل ہوں، 2۔تمام الضبط یعنی ضبط میں کامل ہوں (حافظہ)، 3۔اتصال سند (سند متصل ہو)، 4۔عدم شذوذ (کسی اور قوی سند کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو)، 5۔عدم علت (شدید ضعف نہ ہو)

یہ پانچ شرائط جس سند میں پائی جائیں اس حدیث کو صحیح لذاتہ کہیں گے۔ اس حدیث کو کسی خارجی مدد کی ضرورت نہیں، از خود اپنی طاقت کی بنیاد پر یہ صحیح ہے۔

صحیح لغیرہ

اگر درج بالا پانچ شرائط میں سے کسی ایک کی کمی رہ جائے اور وہ سند حسن کی تمام شرائط پوری کرے نیز اسے شواہد و متابعات (Support) مل جائیں تو پھر یہ حدیث حسن کی تمام شرائط کے پورا ہونے کے باوجود شواہد و متابعات مل جانے کی وجہ سے ’’حسن‘‘ نہیں رہتی بلکہ ’’صحیح لغیرہ‘‘ ہوجاتی ہے۔ گویا خارجی مدد سے یہ بھی صحیح ہوگئی۔

اسی طرح کی دو اقسام ’’حسن‘‘ کی ہیں۔

1۔ حسن لذاتہ 2۔ حسن لغیرہ

امام ترمذی سے قبل امام بخاری و مسلم ’’حسن‘‘ کی اصطلاح کو استعمال ہی نہ کرتے تھے بلکہ ’’حسن‘‘، صحیح ہی کے معنی میں لی جاتی تھی۔ بخاری و مسلم کو صحیحین کہا جاتا ہے مگر اس میں بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو حسن کے درجے میں ہیں مگر وہ صحیح ہیں کیونکہ ان کو خارجی مدد ملی۔

حسن لذاتہ

اگر کسی حدیث میں صحیح کی تمام شرائط پائی جائیں صرف حافظہ میں تھوڑی سی کمی ہو تو اس تھوڑی سی کمی کی وجہ سے وہ حدیث حسن لذاتہ ہو جاتی ہے اور اگر اس کو خارجی مدد مل جائے تو پھر یہ دوبارہ حسن سے صحیح ہوجاتی ہے۔

یہی اصول حسن اور ضعیف کے درمیان میں پایا جاتا ہے کہ اگر حسن میں تھوڑی سی کمی رہ جائے تو وہ ضعیف کے درجے میں داخل ہو جاتی ہے اور اگر اس ضعیف کوخارجی مدد شواہد و متابعات مل جائیں تو یہ حسن کے درجہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ صحیح لغیرہ اصلاً حدیث حسن تھی، اس حدیث حسن کو جب توابع و شواہد ملے تو یہ صحیح لغیرہ میں شامل ہوگئی۔

محدثین، کتب حدیث میں لکھتے ہوئے صحیح لذاتہ یا صحیح لغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کرتے وہ صرف یہ لکھتے ہیں کہ ’’ہذا حدیث صحیح‘‘ (یہ حدیث صحیح ہے)، ہذا حدیث حسن / ضعیف (یہ حدیث حسن / ضعیف ہے)۔ لذاتہ یا لغیرہ کے الفاظ نہیں لکھتے، یہ صرف سمجھانے کے لئے ہے۔ جب اس کو صحیح لکھ دیا تو اس میں لذاتہ یا لغیرہ کا کوئی فرق نہ رہا کیونکہ وہ لغیرہ جس فرق کی وجہ سے بنی تھی اب اس کا ازالہ ہو چکا ہے۔

حسن لغیرہ

حسن لغیرہ کا معنی یہ ہے کہ وہ حدیث اصلاً ضعیف تھی، اس کے اسناد کی شرائط میں کچھ ایسی کمزوریاں، نقص تھے، جس نے اس کو بنیادی طور پر حدیث ضعیف بنا دیا تھا مگر یہ نقص / کمزوری شدید نہ تھا، لاعلاج نہ تھا، ایسی کمزوری تھی جس کو متابعات اور شواہد سے دور کیا جا سکتا تھا۔ پس جب اس کو تائید کرنے والی روایات کی مدد ملی، اس مضمون کی تائید میں مزید روایات ملیں تو اس سے وہ حدیث، ضعیف سے نکل کر مرتبہ حسن میں داخل ہوگئی اور ضعیف نہ رہی۔

قابل غور نکتہ

جب ایک محدث کسی حدیث کے آخر پر لکھتا ہے کہ ہذا حدیث ضعیف، تو بڑی جہالت کی بات ہے کہ محض ضعیف کا لفظ پڑھ کر یہ کہنا کہ میں اس حدیث کو نہیں مانتا۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب محدث نے کسی حدیث کو ضعیف کہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے یعنی جس سند کے ساتھ اس کتاب میں روایت کی گئی ہے، یہ سند ضعیف ہے، اس سند میں کوئی کمزوری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسری کتاب میں اس سے قوی سند کے ساتھ وہ حدیث موجود ہو۔ محدثین جب کسی حدیث کو کتب حدیث میں ضعیف لکھتے ہیں تو اس سے ان کی مراد متن کو رد کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔

مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا حدیث ضعیف سے ثابت ہے، یہ حدیث موضوع نہیں ہے کہ اس کو من گھڑت کہہ کر رد کر دیا جائے۔

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ اگر حدیث ضعیف کے مضمون کو علماء کے ہاں قبولیت مل جائے تو اس سے بھی وہ ارتقاء کر کے حسن میں داخل ہو جاتی ہے۔ پس ہذا حدیث ضعیف کے الفاظ پڑھ کر اس حدیث کے مضمون کو رد کر دینا اور قبول کرنے سے انکارکرنا اصول حدیث میں سب سے بڑی جہالت ہے۔ اس لئے کہ حدیث ضعیف کا یہ مطلب ہی نہیں کہ اٹھا کر رد کر دیا جائے کیونکہ ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند میں کوئی کمزوری ہے، تحقیق کریں کہ کس درجہ کی کمزوری ہے، یہ کمزوری خفیف بھی ہوسکتی ہے اور شدید بھی ہوسکتی ہے۔ کسی سند کو ضعیف بنانے کے 15 اسباب ہیں اور ان میں سے صرف 2 آخری اسباب (متروک اور موضوع) ایسے ہیں جو حدیث کو مردود کرتے ہیں۔ 13 اسباب ایسے ہیں جو قابل علاج ہیں اور اس علاج کے ذریعے حدیث مقبول کے درجے میں چلی جاتی ہے۔ (جاری ہے)