القرآن : کیفیت، حال اور مقام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

خوابِ غفلت سے بیداری اور حیاتِ قلبی کے حصول کے بعد روحانی مسافر انوار و تجلیات کی کیفیات سے گزرتا ہوا اور ’’حال‘‘ میں گم ہونے سے اپنے آپ کو بچاتا ہوا ’’مقام‘‘ کی منزل کس طرح حاصل کرتا ہے۔۔۔؟

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

قرآن پاک میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا :

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ

(سبا : 46)

’’آ پ فرمادیں اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمہیں ایک ہی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے قیام اختیار کرلو‘‘۔

اللہ کے لئے قیام اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے لئے بیدار ہو جاؤ اور اللہ کی خاطر متنبہ ہو جاؤ۔

’’منازل السائرین‘‘ (اللہ کی طرف سفر کرنے والوں کی منازل) میں شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ الانصاری الحروی بیان فرماتے ہیں کہ روحانی مسافر کی ہر ایک منزل کا تعلق ایک وادی سے ہے۔

1۔ گذشتہ حصہ (اشاعت ماہ ستمبر08ء ماہنامہ منہاج القرآن) میں بیان کردہ منازل میں سے پہلی منزل ’’تنبہ‘‘ ہے۔ یہ منزل پہلے میدان ’’میدانِ بدایات‘‘ کی ہے یعنی یہ وہ مقام ہے جہاں سے سارے مقامات کی ابتداء ہوتی ہے۔ پس مقام غفلت سے بیداری اور حیات قلبی کے باب میں پہلی منزل تنبہ یعنی متنبہ ہونا، خواب غفلت سے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔

2۔ بیداری کی منازل میں سے دوسری منزل ’’اَلتَّحَرُّز (شیطان کے داعیات سے بچنا)‘‘ ہے۔ اس منزل کا تعلق دوسرے میدان ’’میدان ابواب‘‘ سے ہے۔ اہل اللہ ’’ابتداء‘‘ کے میدان کو عبور کر کے اس میدان میں داخل ہوتے ہیں، جہاں روحانی راستوں کو جانے والے مختلف دروازے کھلتے ہیں اور ہر کوئی اپنے حال کے مطابق مخصوص دروازہ میں داخل ہوتا ہے۔

3۔ بیداری کی منازل میں سے تیسری منزل ’’رعوناتِ نفس‘‘ یعنی تکبر، ریاء، نفاق سے بچنا ہے۔ اس منزل کا تعلق تیسرے میدان ’’میدان معاملات‘‘ سے ہے یعنی ایک بندے کے لئے دوسروں سے کیسا معاملہ رکھنا لازم ہے۔ اس منزل میں دوسروں کے بارے میں خیر خواہی کے جذبات رکھنا اور اپنے عمل کو مستحق اجر و ثواب نہ سمجھنا شامل ہے۔

4۔ بیداری کی چوتھی منزل کا تعلق روحانی مسافر کا اپنی فضیلت و کمال کو دیکھنے سے محفوظ رہنا ہے۔ اس منزل کا تعلق چوتھے میدان ’’میدان اخلاق‘‘ سے ہے۔ تصوف و روحانیت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک دس کے دس میدانوں میں سے ایک ایک منزل طے نہ کر لی جائے یعنی ہر مقام کے لئے ایک ’’ابتداء‘‘ ہے اور ہر ایک کے لئے ایک منزل ’’دروازہ‘‘ کی ہے اور ہر ہر مقام میں ایک منزل ’’معاملہ‘‘ کی ہے، ہر مقام میں ایک منزل ’’اخلاق‘‘ کی ہے۔

5۔ بیداری کی پانچویں منزل ’’حیات قلبی‘‘ ہے۔ اس منزل کا تعلق پانچویں میدان ’’میدان اصول‘‘ سے ہے۔ اس منزل میں دل زندہ ہوجاتا ہے اور ایسی حالت نصیب ہوتی ہے جو خواب غفلت اور موت سے بندے کو بچا لیتی ہے، اس میں نگہبانی دائم ہو جاتی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں حضوری نصیب ہوتی ہے۔

6. تَنَوَّرُ الْبَصِيْرَةِ بِنُوْرِالْقُدْس

بیداری کے مقام کی چھٹی منزل کا تعلق ’’میدانِ کیفیات‘‘ سے ہے۔ اس منزل میں انوار و تجلیات اور روحانی کیفیات کی وادیاں ہیں۔ طرح طرح کی تجلیات ظاہر ہوتی ہیں اور ان سے قلب و باطن میں روحانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے دل اور باطن کی آنکھ نور قدس سے روشن ہو جاتی ہے۔ قلب و باطن کو مالائے اعلیٰ اور عالم قدس کا نور نصیب ہو جاتا ہے۔ ان روحانی کیفیات کی وادیوں میں یہ وہ نور ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَه لِلْاِسْلام فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَبِّه.

’’جس کا سینہ اللہ تعالیٰ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے نور پر ہوتا ہے‘‘۔ (الزمر : 22)

جو لوگ عالم قدس کا نور پاتے ہیں ان کی بصیرت کا چراغ مالائے اعلیٰ کے نور سے روشن ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ النور میں ارشاد فرمایا :

اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط

’’اللہ آسمانوں اور زمینوں کو منور فرمانے والا ہے‘‘۔

پھر فرمایا :

مَثَلُ نُوْرِه کَمِشْکٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ط

’’وہ نور جس سے وہ آسمان و زمین کی کائنات کو روشن کرتا ہے اس کی مثال چراغدان کی ہے‘‘۔

چراغدان جس میں چراغ جلتا ہے اس کی ایک محراب نما مقرر شکل ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمارا سینہ بھی اسی مشکوۃ (چراغدان) کی شکل کا بنایا ہے۔ اگر انسان کے سینے کی تصویر دیکھیں یا ایکسرے دیکھیں تو اس سے بھی واضح نظر آتا ہے کہ چراغدان کی شکل کے پسلیوں کے ڈھانچہ نے سینہ کو ڈھانپ رکھا ہے، گویا پورا سینہ ایک چراغدان بنا ہوا ہے۔ اس چراغدان کے اندر دل ایک چراغ کی صورت روشن ہے، اب بندے کی مرضی ہے کہ وہ اس چراغ (دل) کو جلالے یا بجھالے۔ بیداری کی اس چھٹی منزل میں سینہ کے چراغدان میں موجود دل (چراغ) نور قدس کے ساتھ روشن ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا :

اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ.

’’وہ چراغ شیشے میں ہے‘‘۔

اولیاء کرام و عرفاء عظام کہتے ہیں کہ دل کے دو حصے ہیں۔ اصل دل، بظاہر نظر آنے والے دل کے اندر ہے، وہ حقیقی سمع و بصر ہے اور نور کی جگہ ہے، نظر آنے والا دل، اس حقیقی دل کے اردگرد شیشے / غلاف کی مانند ہے۔ گویا اصل روحانی دل، اس دل کے شیشے کے پردوں میں ہے۔ اس دل کو شیشہ اس لئے کہا کہ اللہ والے اپنے ان دل کے پردوں کو روشن کرلیتے ہیں۔ پس دل کے اندر چراغ جلتا ہے اور اس کی روشنی دل، سینے اور جسم کے پردوں سے نکل کر پورے ماحول کو روشن کر دیتی ہے۔ پھر فرمایا :

اَلزُّجَاجَةُ کَاَنَّهَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ

’’یہ (دل کا) شیشہ ایسے چمکتا ہے جیسے چمکنے والا ستارہ ہو‘‘۔

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

اس شیشے کو ستارے سے تشبیہ دی ہے، سیارے سے نہیں، اس لئے کہ اس کی روشنی (نور) یہاں سے نہیں بلکہ عالم قدس سے آتی ہے۔ وہ اپنے اللہ کے عطا کردہ نور سے چمکتا ہے۔

يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَکَةٍ زَيْتُوْنَةٍ

جس تیل سے چمکتا ہے وہ تیل زیتون کے مبارک درخت سے آیا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس چراغ کو روشن کرنے کے لئے خواہ وہ چراغ دل کا ہو یا کوئی اور چراغ، اس کے تیل کے لئے زیتون کے درخت کے تیل کا ہی ذکر کیوں؟ نیز زیتون کے درخت کو مبارک کیوں کہا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ زیتون کا پھل انبیاء علیہم السلام کا کھانا ہے اور سب سے پہلے یہ ارض انبیاء سے شروع ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے شوق سے تناول فرماتے۔ زیتون کے درخت کی نسبت خالصتاً انبیاء علیہم السلام کی طرف ہے، اس نسبت نبوی کو اللہ تعالیٰ نے ملفوف کر کے اشارتاً ذکر کیا ہے تاکہ عقل والے سمجھ جائیں اور بے عقل بھٹکتے رہ جائیں۔

فرمایا : کہ سینے کے اندر رکھا ہوا چراغدان اور اس کے اندر رکھا ہوا چراغ، زیتون کے تیل سے جلتا ہے اور یہ شجر مبارکہ، شجر نبوت ہے۔ تیل سے مراد فیضان نبوت ہے۔ وہ دل نبوت کے فیض سے جلتا ہے۔ جو بارگاہ نبوت سے تعلق رکھے گا، اس کا دل نبوت کے فیض سے روشن ہوگا اور جو بارگاہ نبوت سے قلب و باطن کا تعلق ہی نہیں رکھتا، وہ جو چاہے کرتا پھرے، اس کا دل فیضان نبوت سے روشن نہیں ہوسکتا۔ پھر ارشاد فرمایا :

لَّاشَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ

اگر اس سے مراد مادی درخت ہوتا تو یا وہ شرقیہ ہوتا یا غربیہ ہوتا مگر چونکہ یہ استعارہ ہے، زیتون کے درخت کا ذکر مجاز کے طرز پر کرتے ہوئے مراد شجر نبوت لیا ہے اور نبوت چونکہ آسمانی ہے، الوہی ہے، اللہ کی طرف سے آئی ہے لہذا نبوت کا فیض اور تعلیم نہ مشرقی ہوتی ہے اور نہ ہی مغربی وہ شرق و غرب ہر چیز پر حاوی ہوتی ہے۔

اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ لوگو! اس چکر میں نہ پڑا کرو کہ ہم مشرق میں رہتے ہیں اور نبی، مدینہ میں ہیں، یہاں سے بیٹھ کر ان کا فیض کیسے ملے گا؟ فرمایا کہ اس نبوت کا فیض نہ مشرق میں بند ہے نہ مغرب میں بند ہے، شرق و غرب اور ساری کائنات اس کے فیض سے روشن ہے، ان کا فیض عام ہے، جہاں کوئی ہو اس کو فیض ملتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی لینے والا ہو۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

ہم تو روشن کرنے والے ہیں، کوئی اپنا چراغ لے کر تو آئے، ہم روشن کردیں گے۔ اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشرق و مغرب کی کوئی قید نہیں ہے۔ پھر فرمایا :

يَّکَادُ زَيْتُهَا يُضِيْئُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌط

’’اس فیض سے جو تیل ملتا ہے، آگ لگنے سے پہلے ہی اس کی اپنی چمک دمک کا عالم یہ ہوتا ہے کہ یوں دکھائی دیتاہے کہ آگ لگائے بغیر جل اٹھے گا یعنی اس نور سے اس قدر شعاعیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ پھر فرمایا :

نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ’’نور پر نور ہے‘‘۔

یعنی تہیں ہیں، درجے ہیں، ہر نور والے سے اوپر ایک نور والا ہے، ہر نور کے طبق، پردوں اور منازل سے اوپر نور کے طبق، پردے اور منازل ہیں۔ ہر ایک کو اس کے حال کے مطابق مالائے اعلیٰ سے فیض ملتا ہے۔ نور، نور کا فرق ہے۔

ولایت۔۔۔ خود سپردگی کا نام

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک عالم، صالح، متقی بزرگ بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ سارا دن وہ بزرگ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے معمولات کو دیکھتے رہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ مصروف رہے ہیں، لوگوں کے مسائل حل کرتے اور اُن کے دکھوں اور غموں کو سننے کے بعد اُن کے حسبِ حال کچھ نہ کچھ حل بتاتے رہے، دعائیں کرتے رہے ہیں۔ رات کو اس بزرگ نے جانے کی اجازت چاہی۔۔۔ آپ نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤ کہ آئے کیوں تھے؟۔۔۔ انہوں نے عرض کیا : بیعت کے لئے آیا تھا۔۔۔ آپ نے فرمایا : کہ بیعت کیوں نہیں کی۔۔۔ انہوں نے کہا کہ صبح سے شام سے آپ کے معمولات دیکھے ہیں، سارا دن آپ مخلوق میں گھرے رہے، اللہ کے لئے کون سا وقت نکالا ہے۔ صرف نماز پڑھی اور بقیہ وقت مخلوق کے مسائل و معاملات کو نمٹاتے ہوئے ہی گزر گیا۔ اس لئے میں نے فیصلہ بدل لیا کہ بیعت کے لئے کوئی اور جگہ ڈھونڈتے ہیں۔

خواجہ نظام الدین اولیاء ہنس پڑے، فرمایا : کہ ہمارا دن دیکھا ہے، ہماری رات بھی دیکھ لو۔۔۔ وہ بزرگ رک گئے کہ چلو رات بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ رات ہوئی تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی، معمول کے کچھ وظائف کئے اور سوگئے۔ وہ بزرگ خود ساری رات مصلے پر بیٹھ کر تلاوت کرتے رہے، نفل پڑھتے رہے، ذکر اذکار کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ ان کی بڑی شہرت سنی تھی، نہ جانے کس طرح لوگ ان کو مانتے اور بیعت کرتے ہیں۔

تہجد کے وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اٹھے، چند رکعات تہجد کی پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی۔ وہ بزرگ آپ کے معمولات دیکھتے رہے، فجر کی ادائیگی کے بعد آپ نے اس شخص کو سلا دیا، اس نے خواب میں دیکھا کہ دو نور جل رہے ہیں۔ ایک اس کے سر پر ہے اور ایک حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سر پر ہے۔۔۔ جو اس کے سر پر نور ہے وہ ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح ہے، مدہم سی روشنی ہے۔ نور اس کے پاس بھی ہے مگر بجھتا ہوا جبکہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سر پر بہت بڑے ستون کی طرح ایک طاقتور نور ہے جس سے اتنی شعاعیں نکل رہی ہیں کہ کوئی شخص آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا اور وہ نور ان کے سر سے لے کر آسمان سے بھی اوپر تک جا رہا ہے۔

اس کی آنکھ کھل گئی، کانپ اٹھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گر پڑا اور توبہ کرنے لگا اور عرض کرنے لگا کہ اس کا راز تو بتا دیں کہ آپ کا کونسا عمل ہے جس کی بدولت آپ کو یہ مقام نصیب ہے کہ ساری رات کی عبادت و ریاضت کے بدلے ہمیں تھوڑا سا نور ملا ہے اور آپ دن بھر مخلوق کے کاموں میں مصروف رہے، رات کو تہجد پڑھی اور تا حد نگاہ نور کے حامل ہوگئے۔۔۔ فرمایا : ولایت تھوڑے یا زیادہ نفلوں، وظائف، تلاوت، عبادت و ریاضت کا نام نہیں ہے بلکہ خود کو اللہ کے سپرد کر دینے کا نام ہے۔

ولایت، خود سپردگی ہے۔ جس نے اپنا قلب و باطن اللہ کے سپرد کر دیا، جو شخص اپنی خواہشوں سے تائب ہوگیا۔۔۔ جس نے اپنے نفس کی خواہشات، تمناؤں، لذتوں، حلاتوں، ذاتی چاہتوں، شہوتوں، ذاتی ترجیحات، ذاتی پسند و ناپسند سے ہاتھ اٹھا لیا۔۔۔ اور اپنی خواہشوں سے فنا ہو کر خود کو مولیٰ کی خواہش میں فنا کر دیا۔۔۔ خود کو اللہ کی رضا کے سپرد کر دیا۔ وہ اہل اللہ میں شامل ہوگیا۔۔۔ پس جو خود سپردگی میں کامل ہوگیا وہ ولی ہے۔ ولایت یہ ہے کہ بندہ اللہ سے ایسی دوستی کرے کہ اپنے معاملے سے اپناہاتھ اٹھالے اور اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دے۔۔۔۔ پھر آپ نے مثال دی کہ اگر بندہ اللہ کی سپردگی میں چلا جائے تو وہ اللہ کو اس طرح پیارا لگتا ہے کہ جس طرح ایک ماں کے دو بیٹے ہیں۔ ایک کی عمر 15 سال ہے اور دوسرے کی عمر 4 سال ہے مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہ بڑا بیٹا اپنی خواہش اور مرضی سے چلتا پھرتا ہے، جبکہ چھوٹا بیٹا ابھی اپنی خواہش اور مرضی کے سپرد نہیں ہوا بلکہ ماں کے سپرد ہے، پس یہ بچہ اگر جاگتا ہو تب بھی ماں اسے چومتی ہے اور اگر سویا ہوا ہو تو تب بھی اسے چومتی ہے۔ ماں کہتی ہے کہ جب یہ میرے ہی سپرد ہے۔۔۔ مرضی آئے تو رلاؤں۔۔۔ مرضی آئے تو ہنساؤں۔۔۔ مرضی سے کھلاؤں، پلاؤں، سلاؤں۔۔۔ جب سارا ہی ماں کے سپرد ہے تو اس کی ہر ادا ماں کو پیاری لگتی ہے۔

پس ولایت، خود سپردگی کا نام ہے، بندہ خود کو مولیٰ کے سپرد کر دے اور احکام و فرائض کی بجا آوری کرے تو اس کی ہر ادا خدا کو محبوب ہوتی ہے۔ خدا کی رضا میں فنا ہونے کے باعث اس کی نیت اتنی اعلیٰ ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’اس کو رتی برابر خرچ کرنے پر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے‘‘۔

اور کچھ وہ بھی ہیں جو احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دیں، لیکن نیت، خدا کی بارگاہ میں خود سپردگی کے ساتھ اتنی کامل اور مخلص نہ ہو تو ان کو اجر ایک دانے کے برابر ملتا ہے۔

پس جب بندے کا دل (چراغ) نور قدس کے ساتھ روشن ہو جائے تو پھر وہ اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، اللہ کے نور سے سنتا، پکڑتا، بولتا، چلتا، خواہش کرتا، دعا مانگتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا :

’’میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔۔۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔۔۔ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔۔۔ میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے‘‘۔

زبان اس کی ہلتی ہے بولتا خدا ہے۔۔۔ آنکھ اس کی اٹھتی ہے، دیکھتا خدا ہے۔۔۔ کان اس کے ہوتے ہیں، سماعت خدا کی ہوتی ہے۔۔۔ پاؤں اس کے ہلتے ہیں، چلنا خدا کا ہوتا ہے۔

پس اس چھٹی منزل پر اللہ کی طرف سفر کرنے والا نور قدس سے روشنی حاصل کر کے منور ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے بدن اور دنیا کی خواہشات کی طرف التفات نہیں کرتا، اس کا تعلق وہاں جڑ جاتا ہے کہ پھر اس سے نیچے اپنے دھیان کو اتارنے کی خواہش ہی نہیں رہتی۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

7. الانحفاظ عن الانجذاب

بیداری کی ساتویں منزل ’’الانحفاظ بذالک النور عن الانجذاب الی مقام القرب والدنو‘‘ ہے یعنی قربت کے مقام میں جذب ہوجانے سے بندے کو اس ساتویں منزل میں بچایا جاتا ہے۔ اس منزل میں اس کی کیفیت حال میں بدل جاتی ہے۔ اس منزل کی لطیف بات یہ ہے کہ جب کیفیت، حال میں بدلتی ہے تو حال اس شخص کو بڑی لذت دیتا ہے اور اس میں کھو جانے کو جی کرتا ہے مگر اس مقام پر پہنچ کر اسے کھو جانے سے بچایا جاتا ہے کیونکہ اگر اس حال میں کھوگیا تو رہ گیا۔ یہ مقام بڑا نازک ہوتا ہے کہ بندہ ’’حال‘‘ میں ہے مگر حال میں انجذاب (جذب ہونے) سے اسے بچانا ہے۔ حال ایک تجلی ہوتی ہے، جب یہ تجلی وارد ہوتی ہے تو اس سے ایک حال (حالت) قلب و باطن پر وارد ہوتا ہے۔

اس ساتویں منزل کا تعلق ’’میدان احوال‘‘ سے ہے۔ چھٹی منزل میں کیفیات کی وادی میں سفر ہوا، یہ عالم قدس کے انوار کی وادی تھی۔ ساتویں منزل میں احوال کی وادی میں سفر ہوتا ہے، یہاں حال نصیب ہوتا ہے۔

اس موقع پر کیفیت حال اور مقام کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

کیفیت، حال اور مقام میں فرق

کیفیت، لمحوں کی ہوتی ہے، پل بھر کی ہوتی ہے، بڑی سرعت کے ساتھ آتی اور جاتی ہے مگر اپنے وجود اور بقاء میں بڑی عارضی ہوتی ہے۔ اہل اللہ جب اُن روحانی کیفیات کی وادی میں رہتے ہیں اور انہیں عالم قدس سے نور ملتا ہے تو ان کی یہ کیفیات بجھنے نہیں پاتیں، کبھی کوئی کیفیت اور کبھی کوئی کیفیت ان پر طاری رہتی ہے۔

ادھر ڈوبے اُدھر نکلے
اُدھر ڈوبے ادھر نکلے

ان کی کیفیات کا سورج ان کے مطلع روح و قلب پر ہمیشہ طلوع رہتا ہے کیونکہ عالم قدس کا نور ان کے دل (چراغ) کو روشن رکھتا ہے اور یہ نور ان کا دھیان رجس، خواہشات نفس اور دنیا کی طرف نہیں جانے دیتا بلکہ عالم قدس کی طرف رکھتا ہے۔ لہذا کیفیات بدلتی رہتی ہیں اور ایک کی جگہ دوسری کیفیت آتی جاتی رہتی ہے۔

کیفیات کی مثال جگنو کی سی ہے کہ رات کے اندھیرے میں جگنو چمکتا ہے مگر مسلسل چمکتا ہی نہیں رہتا بلکہ چمکنے اور بجھنے کی کیفیت میں رہتا ہے۔ اس کی روشنی آتی اور جاتی ہے۔ روشنی کے اس آنے جانے کو کیفیت کہتے ہیں۔

نیک اعمال اور اطاعات کی وجہ سے مالائے اعلیٰ سے آنے والی تجلیات نصیب ہوتی ہیں، ان تجلیات سے قلب و باطن پر حال (حالت) وارد ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھ لیں کہ جس چیز کی کیفیت پیدا ہوجائے اس کا حال نصیب ہونا بھی ممکن ہوتا ہے۔ جس کی کیفیت جائز اور ثابت ہے اس کا حال بھی ممکن ہوگا۔ اس لئے کہ کیفیت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حال بھی ممکن ہے۔ حال اور کیفیت میں فرق یہ ہے کہ کیفیت یہ تھی کہ آئی اور گئی، لرزہ ہوا اتر گئی۔۔۔ رونگھٹے کھڑے ہوئے، اتر گئے۔۔۔ یکلخت ایک کیفیت ہوئی اللہ کی یاد آئی، گناہ یاد آئے، آنکھیں چھلک پڑیں توبہ کی کیفیت ہوئی، آخرت کی بات سنی، کانپ اٹھا۔۔۔ یہ جو کپکپی آئی، رونگھٹے کھڑے ہوئے، لرزہ طاری ہوا، آنکھوں سے آنسو آئے یہ سب کیفیات ہیں۔ کبھی سجدے میں، کبھی تنہائی میں، کبھی عبادت میں، کبھی تلاوت میں، کبھی دعا میں، کبھی التجا میں، کبھی درس و خطاب میں، کبھی سماع میں یہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں، یہ قلب و باطن میں تجلیات کے وارد ہونے سے ہوتا ہے۔

کچھ لوگ کیفیات میں رہتے ہیں، مگر بیداری کی ساتویں منزل میں یہ کیفیات برقرار رہتی ہیں اور حال میں بدل جاتی ہیں۔ لمحہ لمحہ میں آتی جاتی نہیں بلکہ ایک وقت کے لئے برقرار رہتی ہیں، پس ان کیفیات کا برقرار رہنا حال کہلاتا ہے۔ یہ حال بھی عارضی ہوتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس کا دورانیہ کیفیات کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ حال نام ہی عارضی شے کا ہے، حال کے معنی میں بھی یہ ہے کہ ’’جو بدل جائے‘‘ اس حال کو حال اس لئے کہتے ہیں کہ بدل جاتا ہے، رہتا نہیں مگر کیفیت والے کے مقابلے میں زیادہ وقت رہتا ہے۔

عام مسلمان کو کبھی کبھی جو کیفیت نصیب ہو جاتی ہے وہ اس بات کی چنگاری ہے اور علامت ہے کہ کہیں آگ بھی ہے۔۔۔ آگ ہے تو چنگاری ہے۔۔۔ آگ کے بغیر چنگاری کہاں سے آگئی۔ فرق یہ ہے کہ کیفیت والے کو چنگاری ملی اور حال والے کے دل میں آگ لگی ہے۔ جہاں آگ لگی ہو وہ حال والے ہوتے ہیں۔۔۔ جہاں چنگاریاں آ رہی ہوں وہ کیفیت والے ہوتے ہیں۔

یہی حال اگر مستقل ہو جائے، آئے اور جائے نہیں۔۔۔ مستقل رہے تو اسے مقام کہتے ہیں۔ جو کسی بھی درجہ میں مقام پاجائے وہ ولایت ہوتی ہے۔ جو حال پالے وہ ولایت کی راہ میں ہوتا ہے اور جو مقام پاجائے وہ ولایت میں ہوتا ہے۔

پس جس کا حال ممکن ہے اسکا مقام بھی ممکن ہے۔ جو آتا ہے، رہتا ہے چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جہاں مستقلاً رہتا ہے، ہر وقت رہتا ہے، بدلتا نہیں۔

وہ زمین کبھی فصل نہیں اگاتی جس کے سینے کو ہل کے ساتھ پہلے چیرا نہ جائے۔۔۔ چیر چیر کر زمین کو بے حال نہ کردیا جائے۔۔۔ اس زمین کی سختی ہل چلا چلا کر ختم کر دیتے ہیں، اس کے رعب و دبدبہ، چمک دمک کو ختم کر دیتے ہیں۔۔۔ جب زمین کی مٹی کا یہ حال کرتے ہیں تو تب جا کر فصل اگتی ہے۔ ہم ہل چلائے بغیر بیج سے فصل اگانا چاہتے ہیں۔ یہ ریاضت و مشقت ہل ہے، سوچنا یہ ہے کہ ہم نے دل کی زمین پر کتنا ہل چلایا ہے، کیفیات تو ملتی رہتی ہیں مگر ہم اس کو Permanent رکھنے کے لئے محنت نہیں کرتے۔ کاش کوئی کیفیت کو حال میں بدلنے والا بھی ہو اور پھر حال کی رکھوالی کریں اور ریاضت و مشقت کے ذریعے اسے مقام میں بدل دیں۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ اور ’’حال‘‘

مسلم شریف میں مذکور اس حدیث مبارکہ سے کیفیت و حال کا فرق واضح ہوتا ہے۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ پریشان حال گلی میں جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ حنظلہ منافق ہوگیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ راستے میں ملے، پوچھا : کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ انہوں نے جواب دیا : پریشان اس لئے ہوں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھتا ہوں تو ہمارا حال کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ بیوی، بچے، مال و دولت، دنیا کے معاملات سب بھول جاتے ہیں۔۔۔ اور ایسے لگتا ہے کہ جنت آنکھوں کے سامنے ہے، آخرت کا منظر آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔ لیکن جب مجلس سے اٹھ کر گھر آتے ہیں تو وہ حال نہیں رہتا، پھر دنیا میں کھو جاتے ہیں۔۔۔ اس لئے میری سمجھ میں یہ آیا کہ میں منافق ہوگیا ہوں جو کچھ وہاں سے پایا، وہ کھو جاتا ہے۔۔۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا آؤ چلو بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چلتے ہیں میرا بھی یہی حال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حنظلہ نہیں، تم منافق نہیں ہوئے، ایمان کی یہی کیفیت ہے کہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو حال تمہیں میری بارگاہ میں نصیب ہوتا ہے اگر یہ حال دائماً برقرار رہے یعنی مقام بن جائے تو پھر تمہاری حالت یہ ہو کہ تم گلی کوچے اور بازاروں میں چلو تو آسمانوں سے اترے ہوئے فرشتے، دائیں بائیں، قطار اندر قطار کھڑے ہوکر تمہارے دیدار کے انتظار میں ہوں اور جب تم گزر و تو تم سے مصافحے کریں۔

پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ دے دیا کہ یہ حال ہے، اس کو نفاق نہ سمجھنا اور ساتھ ہی اگلی بات بھی بتا دی کہ جس طرح تمہارا یہ حال ہے، کسی کا یہ مقام بھی ہوتا ہے اور جس کو یہ مقام نصیب ہو جائے تو ملائکہ اس کے راستے میں کھڑے ہوکر اس کا دیدار کرتے ہیں۔

پس بیداری کی ساتویں منزل میں روحانی مسافر کو حال کی لذت میں کھوجانے سے بچایا جاتا ہے۔ حال بڑا لذیذ ہوتا ہے۔ یہ عالم قدس کی ایک شراب معرفت و محبت ہوتی ہے، یہ شراب قربت ہوتی ہے، اس کی لذت، مٹھاس، ذائقہ بڑا ہوتا ہے۔ جس کو حال نصیب ہو جائے اس کی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ اس میں کھو جاؤں، پلٹ کر واپس نہ جاؤں، مدہوش ہو جاؤں۔

یہاں بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ طبیعت اس میں کھوجانے کو چاہتی ہے اور جس نے آگے جانا ہو اس کو کھو جانے سے بچایا جاتا ہے کہ اگر کھوگیا تو اگلا سفر جاتا رہا۔ اللہ کی بارگاہِ قرب و دُنو سے تجلیات اور انوار اس کے قلب و باطن پر نازل ہوتے ہیں۔ اس ورود سے حال جنم لیتا ہے اور کبھی آدمی حال میں بے بس ہوجاتا ہے۔ اگر اس میں کھوجائے تو وہ حال پردہ بن جاتا ہے۔

قرآن پاک میں ایک جگہ حال کو پردہ کے معنوں میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ حال وہ ہے جو حائل ہوجائے۔

جب نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو کہہ رہے تھے کہ ہدایت قبول کر لے، ایمان لے آ، نجات پا جائے گا، طوفان آ رہا ہے، جو ایمان نہیں لائے وہ سب غرق ہوجائیں گے، بیٹا جواب میں کہتا تھا کہ میں اونچی پہاڑی پر چڑھ جاؤں گا، آپ نے فرمایا : کہ اللہ کے عذاب سے کوئی پہاڑی بچا نہ سکے گی، مکالمہ جاری تھا کہ

فَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْج ’’(باپ بیٹے کی گفتگو جاری تھی کہ) دونوں کے درمیان موج حال بن گئی‘‘۔

یعنی وہ درمیان میں حائل ہوگئی، پردہ بن گئی اور جب وہ لہر گئی تو طوفان بیٹے سمیت سب کو لپیٹ میں لے چکا تھا۔

پس اگر بندہ حال میں گم ہوجائے، جذب ہو جائے تو وہ حال، پردہ بن جاتا ہے اور پھر اس میں گم ہو جاتا ہے۔۔۔ آگے نہیں چلتا۔۔۔ لذت بڑی ہوتی ہے، پھر وہ مست بے خود ہو جاتا ہے۔۔۔ اس تجلی میں کھو جاتا ہے، دنیا و ماسوا کا ہوش نہیں رہتا۔۔۔ اس تجلی میں جذب ہونے کی وجہ سے مجذوب ہوجاتا ہے اور پھر اس کا ایک اپنا حال ہے، اس میں بھی ناقص اور کامل کا فرق ہے۔

حال اور مقام میں فرق یہ ہے کہ حال میں اللہ کا وہب اور عطاء غالب ہوتی ہے اوربندے کی محنت، ریاضت، مجاہدہ، طاعت، تقویٰ اس کے باطن میں چھپی ہوتی ہے۔ حال میں جو کیفیت وارد ہوتی ہے، اس حالت میں اُسے اللہ کی نعمت وہب لگتی ہے، اُسے محنت و ریاضت نظر نہیں آتی، وہ باطن میں ہوتی ہے۔ اس لئے چونکہ نعمت الہٰیہ غالب ہوتی ہے، اس لذب میں کھوجانے، ڈوب جانے کو دل کرتا ہے۔ جبکہ مقام میں اللہ کی وہب، عطاء، نعمت باطن میں چھپ جاتی ہے اور بندے کی محنت، ریاضت، مجاہدہ غالب آجاتے ہیں۔ حال میں بندہ گم ہو جاتا ہے اور اگر جذب ہونے اور گم ہوجانے سے بچ جائے اور مقام میں چلا جائے تو استقامت میں ہوتا ہے، استقامت میں وہ پیتا رہتا ہے مگر بے خود نہیں ہوتا۔۔۔ پیتا رہتا ہے مگر مدہوش نہیں ہوتا۔۔۔ پینے کے باوجود ہوش میں رہتا ہے۔۔۔ ایسے لگتا ہے کہ اس نے ایک قطرہ بھی نہیں پیا۔ وہ جاموں کے جام، مٹکوں کے مٹکے پی جاتا ہے۔۔۔ کئی لوگ دریاؤں کے دریا پی جاتے ہیں مگر مدہوش نہیں ہوتے۔

خواجہ غلام فرید نے فرمایا :

’’کئی لوگ سات سات سمندر پی جاتے ہیں اور ہوش میں ایسے رہتے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے کہ ایک پیالہ بھی پیا ہے کہ نہیں‘‘۔

تُونہی جو دریا نوش ہِن
پرجوش تھیں خاموش ہِن

’’پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ ایسے بھی ہیں جو تیری محبت، معرفت، قربت کے دریا نوش کرنے والے ہیں، اس دریا کے نوش کرنے سے انہیں جوش بڑا آتا ہے مگر خاموش رہتے ہیں، جوش دبا رہتا ہے‘‘۔

صامت رہن مارن نہ بک
او آہن قلندر روز و شب

’’چپ رہتے ہیں، گپ نہیں مارتے، دعویٰ نہیں کرتے، بولتے نہیں ایسا لگتا ہے کہ چکھا ہی نہیں، یہ ہر روزو شب قلندر ہی رہتے ہیں‘‘۔

یہ لوگ حال پر غالب ہوتے ہیں اور جو جذب ہوجاتے ہیں وہ حال سے مغلوب ہوتے ہیں۔

’’حال‘‘ کے حال کی وضاحت

’’حال‘‘ کے حال کی وضاحت کے لئے تذکرہ غوثیہ میں حضرت غوث علی شاہ صاحب قلندر پانی پتی کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ

’’میں اپنے شیخ کے ساتھ تربیت کے دوران جنگل سے گزر رہا تھا کہ ایک مقام پر دو مجذوب لیٹے ہوئے دیکھے، دونوں کے اوپر آگ کے جلتے ہوئے انگارے رکھے ہوئے تھے۔ ایک مجذوب کی حالت یہ تھی کہ آگ نے اس کے کپڑے اور جسم تک کو جلا ڈالا حتی کہ چربی بھی آگ کی وجہ سے پگھل رہی تھی جبکہ دوسرے کی حالت یہ تھی کہ کہ آگ کے جلنے کے باوجود اس کا کپڑا تک بھی نہ جلا تھا۔ میرے شیخ نے مجھ سے پوچھا کہ ان دونوں میں سے کامل کون ہے؟۔۔۔ میں بچہ تھا، مجھے سُکر اور سہو کا فرق معلوم نہ تھا، حال اور مقام کا فرق معلوم نہ تھا، میں نے کہا کہ آگ کے جلنے کے باوجود جس کے کپڑے بھی نہیں جلے وہ کامل ہے، دوسرا ناقص ہے۔۔۔ میرے شیخ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ نہیں، جس کا سب کچھ جل گیا، چربی تک آگ کی وجہ سے پگھل گئی وہ کامل ہے اور جس کا کپڑا بھی نہیں جلا وہ ناقص ہے۔۔۔ میں نے پوچھا کیوں؟۔۔۔ انہوں نے فرمایا : یہ دونوں حال میں جذب ہوگئے ہیں، یہ صاحبان مقام نہیں ہیں۔ اب ان کی حالت کا تعین ان کے حال میں کرنا ہوگا۔۔۔ جس کا سب کچھ جل گیا، یہ اپنے حال میں کامل ہے اور جس کا کچھ نہیں جلا وہ اپنے حال میں ناقص ہے۔۔۔ اس لئے کہ آگ کا کام جلانا ہے، ایک کا سب کچھ جل گیا اور کسی نے آگ کو جلانے سے نہیں روکا اور دوسری طرف کپڑا تک بھی نہیں جلا۔ معلوم ہوا کہ اس مجذوب نے اپنی توجہ سے آگ کو جلانے سے روک رکھا ہے، اس کا حال ناقص ہے، کیونکہ اس کی کچھ توجہ اپنے آپ کو بچانے میں ہے اور کچھ توجہ مولیٰ کے قرب میں ہے۔ اس کی توجہ تقسیم ہے، ادھر بھی ہے اور اپنے جسم کو بچانے کی طرف بھی ہے۔ دوسرے کا حال کامل ہے اس لئے کہ اس کو آگ جلائے جا رہی ہے، اسے اپنے آپ کا ہوش ہی نہیں، وہ اللہ کے قرب میں جذب ہے۔ اس کی توجہ کاملاً ادھر لگی ہے، اسے اپنا ہوش ہی نہیں۔

پس جو اپنے حال میں کامل ہوتے ہیں، ان کا کوئی نقصان کردے، وہ اپنی روحانیت کے ذریعے اپنے نقصان کو نہیں بچاتے۔۔۔ انہیں کوئی بے عزت کر دے وہ اپنی روحانیت کے ذریعے اپنی عزت کو نہیں بچاتے۔۔۔ اس لئے کہ یہ ان کے ہاں شرک ہو جاتا ہے کہ کیا روحانیت اور حال اس لئے دیا تھا کہ خود کو بچائے، اپنا نفع کمائے، اپنی بھلائی کو محفوظ کرے۔۔۔ حال اپنے لئے نہیں بلکہ مولیٰ کے لئے دیا تھا۔ لہذا اپنا نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے، وہ اسے دنیوی حالات پر چھوڑ دیتے ہیں، اپنی توجہ صرف مقام قرب میں رکھتے ہیں۔ پس اس حال سے گزر کر مقام پر پہنچتے ہیں۔

8۔ استقامت

پس بیداری کی ساتویں منزل میں اس حال میں گم ہونے سے بچایا جاتا ہے۔ پھر وہ آٹھویں منزل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آٹھویں منزل کا تعلق ’’میدان ولایات‘‘ سے ہے۔ آٹھویں منزل میں حال، مقام میں بدل جاتا ہے۔ اس منزل میں ولایات کی وادی میں سفر ہوتا ہے اور ولایت شروع ہوتی ہے۔ جب ولایت نصیب ہوتی ہے تو وہ مقام بن جاتا ہے۔ دریا کے دریا پی جاتے ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے۔ پس انہیں انجذاب سے بچا کر استقامت دی جاتی ہے اور وہ اس حال پر غالب آجاتے ہیں، ان کا مقام ضبط پر ہوتا ہے۔ جو انجذاب سے بچے وہ ’’انحفاظ‘‘ پر پہنچے یعنی محفوظ ہوگئے اور جو محفوظ ہوگئے وہ مضبوط ہوگئے۔ ان کا مقام بے خودی نہیں بلکہ ضبط ہوتا ہے۔ حال اور مقام کے فرق کو اس واقعہ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کامل اولیاء اللہ میں سے تھے۔ قلعہ گوالیار کے گورنر نے انہیں کہاکہ شام تک ریاست گوالیار کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ جب وہ اپنے خاندان کے افراد اور مریدین کو لے کر گوالیار سے نکلے تو ہندو لٹیروں نے یہ جان کر کہ ہمیں روکنے والا کوئی نہیں، پیچھے سے حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کے گھوڑے پر ان کے پیچھے ان کی نو سالہ نواسی سوار تھی جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں۔ ڈاکو لوٹ مار کرتے ہوئے حضرت کے گھوڑے تک آپہنچے اور ایک ڈاکو نے آپ کی نواسی کے کانوں سے بالیاں جو نوچیں تو معصوم بچی کے کان چرگئے۔ درد کے مارے بچی کی چیخ نکل گئی تو حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ سے مقام رضا پر مزید ٹھہرے رہنا مشکل ہوگیا چنانچہ آپ نے بے اختیار اپنی چھڑی کو ہوا میں لہرایا تو تمام ڈاکوؤں کے سر قلم ہوکر زمین پر آ رہے۔

وطن سے نکالے گئے، جوش میں نہیں آئے خاموش رہے۔۔۔ ملک بدر کئے گئے، جوش میں نہیں آئے، خاموش رہے۔۔۔ دور جا کر چھوڑے گئے، جوش میں نہیں آئے، بدلہ نہیں لیا، روحانیت و ولایت کو استعمال میں نہ لائے۔۔۔ مگر جب لخت جگر تڑپی تو اس وقت بے قابو ہوگئے اور ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ولایت میں یہ مقام کہ چھڑی ہلائی اور گردنیں گرگئیں مگر ایک حد تک ضبط کرتے رہے مگر جب نواسی کو تڑپتے دیکھا تو اس مقام پر ہوش اور ضبط توڑ بیٹھے۔ یہ وہ مقام تھا کہ ضبط میں وہ کمال نہ تھا کہ لخت جگر تڑپی تو ضبط ٹوٹ گیا اور ایک مقام سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کا ہے کہ سیدنا علی اصغر ہاتھ میں شہید ہوگئے۔ سیدنا علی اکبر کا لاشہ اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لا رہے ہیں۔۔۔ بچے پیاس سے بلک رہے ہیں۔۔۔ ایک ایک کر خانوادہ قربان کر دیا۔۔۔ مقام یہ تھا کہ اگر پاؤں زمین پر مارتے تو میدان کربلا میں ہر طرف پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے۔۔۔ اگر آسماں کی طرف اشارہ کرتے تو بادل آ کر بارش برسا دیتے۔۔۔ ایک ہاتھ لہرا دیتے تو یزیدی فوج کے ہر سپاہی کی گردن اڑ جاتی، مگر لاشیں اٹھاتے رہے۔۔۔ ہوش میں رہے، جوش میں نہ آئے۔ ضبط میں رہے۔۔۔ یہ پروردہ گودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔۔۔ یہ پروردہ گودِ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھے۔۔۔ ضبط اتنا بلند تھا کہ فرشتے بھی رشک کریں۔

یہ سب ولایت کے مقام ہیں۔ لوگوں کو مضمون کی سمجھ ہی نہیں جس طرح کوئی فزکس، کیمسٹری، طب کے اصول نہ جانے اور ان میدانوں میں اوٹ پٹانگ مارتا پھرے اسی طرح یہ بھی ایک فن ہے جو اس ولایت، فقر، رضا، ضبط اور حال کی گلی میں سے ہی نہ گزرا ہو اور ان سے واقف ہی نہ ہو تو پھر وہ یہی کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر ان کے پاس روحانی طاقت ہوتی تو وہ بچوں کو بچا لیتے۔۔۔ دریائے فرات کو اشارہ کر کے چشمے چلا دیتے۔۔۔ یزیدیوں کو مار دیتے۔۔۔ نادان آدمی تمہیں خبر ہی نہیں کہ یہ حال کیا ہے، اگر اس طرح کر دیتے تو مقام گر جاتا۔ یہ امتحان مقام والوں کا امتحان ہوتا ہے کہ حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اتنے بلند مقام پر بٹھایا ہے تو تمہارا حال کیا ہے؟۔۔۔ اس کیفیت سے تمہیں گزارتے ہیں، دیکھتے ہیں جوش میں آتے ہو یا خاموش رہتے ہو۔

پس آپ لوگ بھی اپنے اندر استقامت پیدا کریں، اللہ آپ کو کیفیات، حال اور مقام سے نوازے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم