القرآن : اسلام کا تصور قربانی

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَO لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَO

(المائده : 27. 28)

’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہےo اگر تو اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف بڑھائے گا (تو پھر بھی) میں اپنا ہاتھ تجھے قتل کرنے کے لئے تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہےo‘‘۔

عیدالاضحی کے ایام اعمال کے اعتبار سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بے پناہ شرف، فضل، مقبولیت اور عظمت کے حامل ہیں۔ عیدالاضحی کو ہم عام طور پر حج اور قربانی کی مناسبت سے یاد کرتے ہیں۔ یہ عید ماہ ذی الحج کو اس قدر سعادتیں اور برکتیں عطا کردیتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جب ماہ ذی الحج کا آغاز ہوتا ہے تو اس رات سے لے کر 10 ذی الحج تک (یعنی اس ماہ کی پہلی دس راتیں) ہر رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے‘‘۔

رمضان المبارک کے پورے مہینے کی عظمت لیلۃ القدر کی نسبت سے ہے، رمضان وہ مہینہ ہے کہ اسے ایک رات ایسی نصیب ہوئی ہے کہ اس رات میں موجود ایک گھڑی ایسی ہے کہ وہ گھڑی اللہ کے بندوں کی بخشش، مغفرت اور اللہ کے لطف و کرم کی گھڑی ہے اور جو شخص صدق دل، اخلاص اور رقت کے ساتھ جو کچھ بھی اپنے رب سے مانگتا ہے اور وہ چیز بندے کے بھلے کے لئے ہو تو اللہ تعالٰی بہر صورت اسے وہ چیز عطا فرماتا ہے۔ گویا پورا مہینہ اس ایک رات میں پائی جانے والی اس ایک گھڑی کی نسبت سے باعظمت ہے جبکہ اس ماہ ذی الحج کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ اس مہینے کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات کی عبادت لیلہ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک اور لیلۃ القدر کی مبارک ساعتوں کے بعد خوشی کے طور پر اللہ تعالٰی نے ایک دن عیدالفطر کا مقرر کیا ہے، اسی طرح ان بابرکت و پرنور 10 راتوں کے اختتام پر باری تعالٰی نے خوشی کی صورت میں ایک دن عیدالاضحی کا مقرر فرمایا ہے۔ عیدالاضحی کی ایک عظیم نسبت ایسی بھی ہے جو سال کے 365 دنوں میں سے کسی دن کو نصیب نہیں اور وہ اس دن کا عیدِ قربان ہونا ہے۔

قربانی کا معنٰی و مفہوم

’’قربانی‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’قُرب‘‘ سے ہے۔ جس کا مطلب ’’کسی شے کے نزدیک ہونا‘‘ ہے۔ ’’قُرب‘‘، دوری کا متضاد ہے۔ ’’دوری‘‘ اور ’’قُرب‘‘ دنوں یکجا نہیں ہوتے۔ اس ’’قرب‘‘ سے ’’قربان‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا مفہوم ان مثالوں سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔

٭ لفظ ’’قرات‘‘ کا مطلب ’’پڑھنا‘‘ ہے اور اس سے ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ’’قرآن‘‘ ہے۔ عربی زبان میں جو لفظ ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ہو تو اس میں اس فعل کا انتہائی مبالغہ پایا جاتا ہے چنانچہ ’’قرات‘‘ کا مطلب صرف ’’پڑھنا‘‘ ہے جبکہ قرآن کا مطلب وہ کتاب جسے بے پناہ کثرت سے پڑھا جائے، بار بار پڑھا جائے، اتنا پڑھا جائے کہ قیامت تک اس کا پڑھا جانا ختم نہ ہو۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کا نام کئی وجوہ سے قرآن رکھا ہے اور ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جسے ابدالآباد تک اللہ تعالٰی نے مقدر کر دیا ہے کہ اتنی کثرت کے ساتھ پڑھا جائے گا کہ کثرت قرات میں دنیا کی کوئی کتاب اس کا بدل نہ ہوسکے گی۔ اللہ تعالٰی نے زبور، انجیل، توریت اور الہامی ہدایت کے طور پر دیگر صحائف بھی نازل فرمائے مگر آج تک دنیا کی کوئی الہامی کتاب کثرتِ قرات کے اعتبار سے قرآن کے برابر نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ نے اسے ’’قرآن‘‘ کہہ دیا۔ پس جب اس کا قرآن ہونا، اللہ کی زبان سے ادا ہوگیا تو اب یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اس سے بڑھ کر دنیا کی کوئی اور کتاب لوگوں کی زبان پر ہو۔

٭ اسی طرح ’’عطش‘‘ عربی زبان میں ’’پیاس‘‘ کو کہتے ہیں اور ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ’’عطش‘‘ سے مبالغہ کا صیغہ ’’عطشان‘‘ ہے جس کا معنی ہے سخت پیاسا۔ یعنی جس کی پیاس کی شدت کی کوئی انتہا نہ رہے۔

٭ اسی طرح ’’غضب‘‘ عربی زبان میں ’’غصے‘‘ کو کہتے ہیں اور ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ’’غضب‘‘ سے مبالغہ کا صیغہ ’’غضبان‘‘ ہے جس کا معنی ہے وہ شخص جو انتہائی غصے والا ہو۔

ان مثالوں کو بیان کرنے سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جس لفظ کو ’’فعلان‘‘ کے وزن پر لایا جائے تو اس سے اس لفظ کا معنی اتنی کثرت، وسعت، بلندی اور اتنی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ وہ معنی اس انداز کے ساتھ پھر کسی اور لفظ میں نہیں پایا جاتا۔

اللہ رب العزت کا کتنا کرم ہے کہ اس نے امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو عیدیں عطا کیں ایک کا تعلق ’’رمضان‘‘ سے ہے اور یہ لفظ بھی ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ہے اور دوسری عید کا تعلق ’’قربان‘‘ سے ہے اور یہ لفظ بھی ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ہے۔ رمضان کے بھی کئی معانی ہیں اور ان میں سے غالب تر معنیٰ یہ ہے کہ ’’رمض‘‘ آگ کی تپش کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اس مہینے کی تپش کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر گناہ کو جلادیتی ہے۔ اس مہینے کو رحمت اس لئے کہا جاتا ہے کہ باری تعالٰی کے لطف و کرم کی تپش اس کثرت کے ساتھ اس مہینے میں ہوتی ہے کہ اس رمضان کی تپش کی کثرت سے کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا، رمضان ’’فعلان‘‘ کے وزن پر ہونے کی وجہ سے وہ مہینہ ہے کہ جس میں انتہائی تپش ہے۔ کیونکہ یہ گناہوں کو جلاتا ہے اس لئے اس کی تپش کو رحمت کی تپش قرار دیا ہے۔ رمضان کو بھی گناہ جلانے کے اعتبار سے اللہ نے اپنے منتہائے کمال پر رکھا ہے اور ذی الحج کو بھی ’’قربان‘‘ کی نسبت سے قرب کے اعتبار سے اللہ نے اپنے منتہائے کمال پر رکھا ہے۔ پس عید قربان کا معنی یہ ہوا کہ وہ عید جو اپنے اندر عمل کے اعتبار سے ایسی خاصیت رکھتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس دن وہ عمل کر لے تو اس عمل کی وجہ سے بندہ اللہ کے اتنے قریب ہو جاتا ہے کہ اور کوئی عمل اس قدر قرب عطا نہیں کرسکتا۔

پس عیدالاضحی وہ عید قربان ہے کہ بندے کو اللہ کے بہت قریب کر دیتی ہے اور بندے اور اللہ کے درمیان موجود سب دوریوں کو ختم کر دیتی ہے۔

یوں تو بے شمار اعمال ایسے ہیں جن اعمال کا مقصود اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔۔۔ کئی اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے صدور سے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔ کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے درجات بلند ہوتے ہیں۔۔۔ کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے انسان حسد سے پاک ہوتاہے۔۔۔ کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے انسان تکبر اور دکھلاوے سے نجات پاتا ہے۔۔۔ کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے انسان کی طبیعت میں سخاوت آتی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر عمل انسانی طبیعت پر ایک خاص اثر رکھتا ہے۔ ہر عمل انسانی نفس، روح اور باطن پر ایک خاص اثر اور تاثیر مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اثر بطور خاص اللہ کے قرب کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔

نماز ساری کی ساری اللہ کے کرم، فضل، رحمت، بخشش، عنایت اور اس کے قرب کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن اس نماز میں تکبیر، قیام، قرات، رکوع، سجود، قعدہ و سلام بھی ہے یعنی مختلف ارکان کا مجموعہ نماز ہے، اس کا ہر ہر رکن بے پناہ حکمتوں اور برکتوں کا حامل ہے لیکن اس نماز میں سے سجدہ وہ رکن ہے جو اپنی خاص تاثیر کے اعتبار سے بندے کو اللہ کا اتنا قرب عطا کر دیتا ہے کہ وہ قرب نماز کے کسی اور رکن کی ادائیگی کے ساتھ اس کثرت کے ساتھ نصیب نہیں ہو سکتا۔

اللہ رب العزت نے ارشا فرمایا :

وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب.

(العلق : 19)

’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ سر بسجود رہئے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جائیے‘‘۔

پس ہر عمل کا ایک مخصوص اثر اور مخصوص جزاء ہے۔

عید قربان اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ

سوال پیدا ہوتا ہے کہ عید قربان کو اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ کیوں قرار دیا گیا؟

اس عید کو قربانی کی عید کہا جانا محض اردو لغت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک معنوی پس منظر ہے۔ اس عید کو ’’عیدِ قربان‘‘ کہنے کا سبب یہ ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کا عمل ایسا عمل ہے کہ بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کردیتا ہے۔

اس سے ایک اور سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ہر شخص جس خیال سے بھی قربانی کرے اس کی قربانی بلا امتیاز اللہ کی بارگاہ میں اُسے قرب عطا کرے گی؟

اس کا جواب نفی میں ہے اس لئے کہ چونکہ اس قربانی کو انتہائی قرب کا سبب قرار دیا گیا ہے لہذا اس عمل قربانی میں اس کی روح برقرار رہنی چاہئے۔ ہر عمل کے اندر ایک اس کی روح ہوتی ہے اور ایک اس کی ہئیت / شکل ہوتی ہے۔ روح کا تعلق نیت کے ساتھ ہوتا ہے اور ہئیت کا تعلق اس عمل کے ظاہری جسم اور ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر عمل حسین یا قبیح۔۔۔ پسندیدہ یا ناپسندیدہ۔۔۔ اللہ کی بارگاہ میں مقبول یا نامقبول۔۔۔ اپنی نیت کے حسن کی بناء پر ہوتا ہے۔ اس کو ان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

٭ ایک شخص بازار سے گزر رہا ہے، راستے میں اسے پتھر یا اینٹ پڑی دکھائی دیتی ہے، وہ اسے اٹھا کرایک طرف پھینک دیتا ہے اس عمل کی نیت اس کے باطن میں مضمر ہے، اگر اس شخص نے وہ پتھر یا اینٹ اس لئے اٹھائی کہ اسے یہ خیال گزرا کہ شاید اس کے نیچے کچھ رقم موجود ہے، لیکن جب اس نے وہ اینٹ اٹھائی تو رقم نیچے موجود نہ تھی، اس نے وہ اینٹ ایک طرف پھینکی اور چلا گیا۔ دیکھنے والوں نے اس کے عمل کو دیکھا مگر اس کے باطن میں چھپی ہوئی نیت کسی کو دکھائی نہیں دی۔ عمل نظر آتا ہے، نیت نظر نہیں آتی۔ نیت محرک ہوتی ہے، عمل، محرک کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔

ایک اور شخص نے اینٹ اٹھا کر پھینکی، عمل دیکھنے میں اس کا بھی پہلے والے شخص کی طرح تھا لیکن اس نے اینٹ اس لئے اٹھائی کہ کسی کو انجانے میں ٹھوکر نہ لگ جائے، لہذا کسی کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس نے اینٹ اٹھا کر ایک طرف کر دی۔

عمل، ظاہری طور پر دونوں کا ایک ہے، سوئی کی نوک کے برابر بھی اس کی ہئیت، شکل و صورت میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن نیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جس نے پیسے کی نیت سے اینٹ اٹھائی اس نے اس عمل سے اللہ کی بارگاہ میں گناہ کمایا۔ اس نے اسی عمل کی وجہ سے اللہ کی ناپسندیدگی اور ناراضگی کو خریدا اور فعلِ لغو کا ارتکاب کیا جبکہ دوسرے شخص نے اوروں کو مصیبت سے بچانے کے لئے یہ عمل کیا اور اس نے اس سے اللہ کی رضا کو پالیا۔

٭ بالکل اسی طرح انسان جب نماز ادا کرتا ہے تو اگر اس خیال سے نماز ادا کی کہ یہ میرے رب کا حکم ہے اور یہ نماز میں اللہ تعالٰی کی رضا، قرب خوشنودی اور لطف و کرم کے حصول کے لئے پڑھ رہا ہوں، اسی مقصد کے لئے وہ خشوع و خضوع، عجزو انکساری کے ساتھ طویل نماز پڑھتا ہے۔ الغرض اس نے اس کیفیت میں ڈوب کر نماز پڑھی اور نیت مولیٰ کی رضا کا حصول تھا تو اس نماز کے سلام پھیرنے سے بھی پہلے اللہ کی رحمتوں کے تمام دروازے نہ صرف اس پر وا کر دیئے جاتے ہیں بلکہ اس کیفیت سے ادا کی ہوئی نماز کے دوران ہی اس نمازی اور اللہ تعالٰی کے درمیان تمام حجابات اٹھا دیئے جاتے ہیں۔

دوسرا شخص بھی دیکھنے کی حد تک اس خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہے، طویل قرات، رقت کی کیفیت بھی طاری ہے لیکن دل اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال ہے کہ لوگ مجھے اس حالت میں دیکھ کر متقی، پرہیزگار، نیک اور عبادت گزار کہیں۔ پس اس خیال و سوچ کی وجہ سے وہ اللہ کی بارگاہ سے مزید دور ہوجاتا ہے اور اس کی اس نیت سے ادا کردہ یہ نماز مزید حجابات کا باعث بنتی ہے کیونکہ اب یہ ریا کاری ہے۔

اگر کسی عمل میں اللہ کی رضا کے علاوہ کسی اور کا خیال آجائے۔۔۔ ریاکاری، نفس کی بلندی۔۔۔ یا بزرگی و برتری کو آشکار کرنے کے خیال کی آمیزش بھی آجائے تو یہ عبادت بھی اللہ کی بارگاہ میں شرک قرار پا جاتی ہے۔ شرک اسی کو کہتے ہیں کہ جو عبادت اللہ کے لئے خاص تھی، اس میں تو نے کسی اور کو اپنی نسبت اچھے خیال پیدا کرنے کے لئے شریک کر لیا۔ اگر نیت، اخلاص پر مبنی ہو تو وہ عمل انسان کو توحید کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اس عمل سے کسی اور کا خیال آجائے تو وہی عمل اس کو شرک کی طرف لے جاتا ہے۔

ان مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ بات واضح ہو سکے کہ عمل دیکھنے کے اعتبار سے اچھائی پر مبنی ہوتا ہے مگر نیت کے اعتبار سے اس کے اجر اور صلہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی حال اس قربانی کے عمل کا ہے۔

عملِ قربانی کی تاریخ

قربانی کا عمل وہ عمل ہے کہ جس کی تاریخ صفحہ ہستی پر اتنی طویل ہے کہ شاید کسی اور عمل کی تاریخ اس قدر طویل نہیں۔ کچھ اعمال ہمیں کسی نبی کی شریعت سے ملے اور کچھ اعمال کسی اور نبی کی شریعت سے ملے۔۔۔ روزہ کا کہیں سے آغاز ہوا۔۔۔ نماز کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا۔۔۔ حج کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا۔۔۔ جہاد کا کہیں اور سے آغاز ہوا۔ ہر عمل کی تاریخ کی ایک ابتداء ہے لیکن قربانی کا عمل تاریخ کے اعتبار سے سب سے زیادہ تاریخ کا حامل ہے۔ قربانی کے عمل کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ گویا اس دنیا میں اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے قرب، رضا، خوشنودی اور اپنے فضل و رحمت کے حصول کے لئے جو اولین اعمال بتائے ان بنیادی تین / چار اعمال میں سے پہلا عمل قربانی کا عمل ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت 27 میں ارشاد فرمایا :

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ

’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے‘‘۔

یعنی اعلان عام کردیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ قربانی دونوں نے کی تھی لیکن ایک کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی اور ایک کی قربانی رد کردی گئی۔

 إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا

’’جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی‘‘۔

ان الفاظ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کی حد تک دونوں نے قربانی کے ذریعے اللہ کا قرب چاہا کیونکہ ’’قربا‘‘ اور ’’قربانا‘‘ دونوں کا مادہ ’’قرب‘‘ ہے۔ دونوں نے ایک ایسا عمل کیا جو اللہ کے قرب کا باعث تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی قربانی کا واقعہ لوگوں کو بتادیں۔ جب دونوں نے قربانی دی۔۔۔ فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا۔۔۔ دونوں میں سے ایک کی قربانی قبول کرلی گئی۔۔۔ وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ اور دوسرے کی قربانی قبول نہ کی گئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کی قربانی کیوں قبول ہوئی؟ اور دوسرے کی قربانی کیوں قبول نہ ہوئی؟

اس کا جواب ہمیں خود ان کے اپنے عمل سے میسر آجاتا ہے۔ قربانی کرتے وقت دو طرح کی نیت ہو سکتی تھی یا یہ کہ مجھے اس عمل سے اللہ کی رضا نصیب ہو جائے، یا یہ کہ مجھے دنیا میں شہرت، قدر و منزلت، احترام اور عہدہ و منصب مل جائے۔ جس بھائی کی قربانی قبول نہ ہوئی اس کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے کہ اس نے دوسرے سے کہا :

لَاَقْتُلَنَّکَ. ’’میں تجھے ضرور قتل کروں گا‘‘

قربانی قبول نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے بھائی کو قتل کرنے کے ارادے کا اظہار کرنا یہ از خود اس کے قربانی کے عمل کے پیچھے موجود نیت کی نشاندہی کر رہا ہے۔ قبول کرنا یا نہ کرنا یہ تو اللہ کا کام ہے۔ اگر کسی کا عمل قبول ہوگیا اور کسی کا عمل قبول نہ ہوا تو ایک کو دوسرے کے قتل کا حق نہیں پہنچتا۔ جس کا قبول کیا تو وہ بھی اللہ نے قبول کیا اور جس کا قبول نہ کیا وہ بھی اللہ نے نہ کیا۔ اس میں دوسرے کا تو کوئی قصور نہیں لیکن جب کوئی اس شخص کو قتل کرنے کے درپے ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قربانی کے عمل کے پیچھے اللہ کی رضا، خوشنودی، فضل و کرم اور محض اللہ کے قرب کے حصول کا خیال کارفرما نہ تھا بلکہ وہ قربانی کسی اور مقصد کے پیش نظر کر رہا تھا۔ اس کے پیچھے محرک کوئی اور نیت تھی جس نے اسے حسد میں مبتلا کر دیا اور اسے قتل کرنے پر آمادہ کر دیا۔

اس کے جواب میں جس بھائی کی قربانی قبول ہوئی اس نے کہا کہ

اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اﷲُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ.

’’بے شک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے‘‘۔

جن کے دل تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہیں۔۔۔ جن کے دل میں نمود و نمائش کا خیال نہیں ہوتا۔۔۔ جن کے دل میں ناموری اور شہرت کا خیال نہیں ہوتا۔۔۔ جن کے دل میں ریاکاری اور اپنی برتری کا تصور نہیں ہوتا۔۔۔ جن کے دل میں کسی کے لئے حسد، بغض، عناد اور عداوت کا تصور نہیں ہوتا۔۔۔ جو جھکے ہیں تو صرف اُسی کے لئے۔۔۔ اور اپنی جان و مال کا نذرانہ اپنے رب کی بارگاہ میں صرف اُسی کو راضی کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔۔۔ کہ اللہ تعالٰی کی نظر عمل کے ظاہر پر نہیں بلکہ دل میں چھپی ہوئی نیت پر ہوتی ہے۔۔۔ قربانیوں کا قبول ہونا یا نہ ہونا یہ کسی اور چیز پر منحصر نہیں بلکہ اگر یہ منحصر ہے تو باطن میں چھپی ہوئی نیت پر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ لَايَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکم اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ يَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ اَعْمَالِکُمْ.

’’بے شک اللہ تعالٰی تمہاری ظاہری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے‘‘۔

(صحيح مسلم، جلد 4، باب النهی عن الشحناء والنهاجر، رقم 2564)

ممکن ہے کہ دکھائی دینے میں کوئی شخص بہت خوبصورت ہو، بھلی صورت کا مالک ہو، اس کے اعمال ظاہری طور پر بہت اچھے ہوں لیکن ان اعمال کی اچھی صورت کے اندر ایک بد اور بری نیت کارفرما ہو۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص دکھائی دینے میں بدصورت ہو، ناقص ہو، کمتر دکھائی دے لیکن اس کی نیت کے حسن اور اخلاص کا یہ عالم ہو کہ اس کے پیش نظر صرف اللہ کی رضا ہو تو اللہ تعالٰی کی ذات اس کے عمل کو سب سے پہلے قبول کرتی ہے۔

جس بھائی کی قربانی قبول ہوئی وہ مزید کہتا ہے کہ

لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَO

(المائده : 28)

’’اگر تو اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف بڑھائے گا (تو پھر بھی) میں اپنا ہاتھ تجھے قتل کرنے کے لئے تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہےo‘‘۔

اس سے وہ فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ کیوں ایک بھائی کی قربانی قبول ہوئی تھی اور دوسرے کی قبول کیوں نہ ہوئی تھی؟

یعنی ایک شخص حسد کی بناء پر دوسرے پر زیادتی کررہا ہے اور دوسرا شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں بے قصور و بے گناہ ہوں اس کی زیادتی کا جواب بھی زیادتی سے نہیں دیتا اور درگزر سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو مجھے قتل کرنے پر آمادہ بھی ہوجائے تو پھر بھی میں تجھ پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا اس لئے کہ میں ہر حال میں اپنے اللہ سے ڈرنے والا ہوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ تیری زیادتی کے جواب میں اگر میں نے بھی ہاتھ اٹھایا تو کہیں میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔

پس اگر تقویٰ اور خوف الہٰی کی کیفیت دلوں میں ہو تو اعمال کو قبول کیا جاتا ہے۔ قربانی کا عمل دونوں نے کیا مگر ایک کا عمل کسی نہ کسی دنیاوی منفعت کے لئے تھا اور ایک کا عمل دل کے تقویٰ، خوف الہٰی، فضل و رضاء الہٰی کی تلاش کی بنیاد پر تھا۔

اس لئے رب کائنات نے فرمایا :

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ

(الحج : 37)

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَةِ الدَّمِواِنَّه لَيَاْتِیْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ علی الارض فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

(سنن ابن ماجه، جلد2، باب ثواب الاضحيه، رقم : 1045)

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔

عملِ قربانی کی روح

قربانی میں مقصود گوشت نہیں ہوتا بلکہ قربانی کے عمل کی روح صرف چُھری چلا کر بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے ہوئے اللہ کے نام پر خون بہا دینا ہے۔ پس اس خون کے قطرے کے گرانے کو قربانی کہتے ہیں جبکہ گوشت کی تقسیم کا معاملہ، عام صدقے کی طرح ایک صدقہ ہے۔ جس طرح آپ اس قربانی کے علاوہ غرباء میں گوشت تقسیم کرتے رہتے ہیں۔

نیز یہ بھی کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک سنت طریقہ ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک غرباء کے لئے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے اور ایک حصہ اپنے لئے لیکن اگر اپنی فیملی کے احباب زیادہ ہوں تو خود دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں اور اگر دو حصے بھی کفایت نہ کریں تو سارے کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ مقصودِ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اس کے نام پر خون بہانا ہے۔ مقصود گوشت کی تقسیم نہیں، اگر مقصود گوشت کی تقسیم ہوتی تو یہ عمل تو سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن عیدالاضحی جس سبب سے اس عید کو عید قربان کرتی ہے وہ گوشت کی تقسیم کے سبب سے نہیں، بلکہ اللہ کی رضا کے لئے اس خون کو گرانے کے عمل سے بندے کو اللہ کا قرب عطا کرتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جان کے نذرانے کی علامت کے طور پر خون گرایا جاتا ہے۔

صدق و اخلاص اور حسن نیت کا اجر

اس عمل کے پس منظر میں جو چیز کارفرما ہے وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ’’صدق‘‘ اور اخلاص ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اگر عمل صدق و اخلاص کی بنیاد پر ہو تو اگر وہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، بندے کو بہت بلند کر دیتا ہے، اگر عمل، صدق و اخلاص، نیک نیتی سے خالی ہو تو اس طرح کے اعمال پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں وہ کبھی اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوسکتے۔

اس لئے انسانوں کے ذہنوں کو متوجہ کرنے کے لئے کہا کہ تم اگر کثرت سے زیادہ قیمتی جانور لے کر اپنے رشتے داروں، محلہ داروں پر اپنی امارت اور دولت کا رعب بٹھانے کے لئے قربانی کرتے ہو کہ لوگ کہیں کہ فلاں کتنا مالدار آدمی ہے کہ اس نے اس برس اتنی مالیت کے جانور قربان کئے، اس طرز عمل اور سوچ سے تم لوگوں کو اپنا بہت بڑا مالدار ہونا دکھا سکتے ہو لیکن خدا کے ہاں ایسا شخص بڑا نہیں ہوتا، خدا کے ہاں تو اس کا درجہ بڑا ہے جو کہ نہایت غریب ہو اور اس کے پاس قربانی دینے کی استطاعت نہ ہو لیکن دل اس کا چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں خدا کی راہ میں قربانیاں دیتا چلا جاتا۔ ممکن ہے کہ وہ قربانی نہ کر سکے مگر اس کو بھی اللہ کی بارگاہ سے وہ اجر مل جائے جو ریاکاری کی بناء پر قربانی کرنے والے کو کبھی میسر نہ آسکے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے دن 12 ربیع الاول کو کثرت کے ساتھ صدقہ کرتے، ایک سال ایسا آیا کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اس دن کی خوشی میں غرباء میں کوئی چیز تقسیم کرسکتے، آخر مجبور ہوکر انہوں نے کچھ چنے لئے اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں صدقہ کردیا لیکن دل میں یہ ملال اور بوجھ رہا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن اور یہ ادنیٰ سا صدقہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے شایان شان نہ تھا، خدا جانے یہ ان کی بارگاہ میں قبول ہوا ہے یا نہیں۔ اس رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لے آئے، آپ دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کے صدقے کئے ہوئے چنے رکھے ہیں اور چنوں کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں کہ ہم تھوڑے یا زیادہ مال کی کثرت پر نہیں جاتے، ہم تو اپنی امت کی نیت کو دیکھا کرتے ہیں، آپ نے میری ولادت کی خوشی میں یہ عمل کیا، پس تمہاری خوشی کی یہی نیت تقویٰ تھی اور اس تقویٰ کی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :

ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِO

(الحج : 32)

’’یہی (حکم) ہے، اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقوٰی نصیب ہوگیا ہو)o‘‘۔

تقویٰ کو دل کی کیفیت قرار دیا گیا ہے قربانی کرنا تو اور بات ہے حتی کہ قربانی کے جانور بھی اللہ کے شعائر (نشانیوں) میں سے ہیں اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف منسوب ہوجاتے ہیں کہ اللہ کے نام پر ذبح کئے جائیں گے۔ اللہ کی رضا اور اس کے قرب کے حصول کے لئے انہیں ذبح کیا جائے گا کیونکہ ان کی نسبت اللہ کے نام پر ذبح کے ساتھ ہوجاتی ہے لہذا یہ شعائر اللہ میں شمار ہوتے ہیں اور جو اللہ تعالٰی کے ان شعائر (نشانیوں) کی تعظیم کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں دلوں کا تقویٰ شمار ہوتا ہے۔ یعنی تعظیم صرف اس لئے کرنا کہ یہ میرے مولیٰ سے منسوب ہیں، صرف اس نسبت کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے۔

پس اس ساری گفتگو سے انسان اس نتیجے پر آسانی سے پہنچ جاتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس شے کی قدرو قیمت ہے وہ اس شے کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے اندر چھپا ہوا حسن نیت ہے، دلوں کا تقویٰ ہے۔ قربانی کے جانور لے کر قصاب کو دے دینا اور کہنا کہ قربانی کردینا، اس طرح قربانی تو ہوجائے گی لیکن دلوں کا تقویٰ کمال پر نہیں پہنچے گا اس لئے کہ جس جانور کا خون اللہ کی رضا کے لئے بہانا ہی مقصود تھا اگر وہ اپنے ہاتھ سے نہ گرایا تو مقصود کامل طور پر حاصل نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنت ادا کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عمر بھر قربانی کے جانور کو ذبح اپنے مقدس ہاتھ سے کرتے، وہ سراپا رحمت تھے، کسی جانور تک کو ادنیٰ سی اذیت پہنچانے کا تصور تک نہ تھا لیکن قربانی خدا کے قرب کے حصول کے لئے وہ لطف کی منزل تھی کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کیا کرتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے لئے بکرا منگوایا اور مجھے فرمایا عائشہ چھری لے آؤ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری کو دیکھا تو فرمایا کہ اسے پتھر پر رگڑ کر تیز کرو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پتھر پر چھری کو رگڑ کر تیز کیا‘‘۔

(صحيح مسلم، جلد 3، باب استحباب الضحيه و ذبحها، رقم : 1967)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کا سبب یہ ہے کہ اگر چھری تیز نہ ہوگی تو ذبح میں جانور کو تکلیف ہوگی اور اسلام سراپا سلامتی و رحمت ہے کہ وہ جانور کو جان نکلتے وقت بھی تکلیف دینا گوارہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کسی کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے کہ کسی زندہ انسان کو تکلیف پہنچائی جائے۔۔۔ زندہ انسانوں کو اذیت دی جائے۔۔۔ زندہ انسانوں کا حق تلف کیا جائے۔۔۔ زندہ انسانوں کو بے عزت کرکے ان کا حق تلف کرے۔۔۔ اسلام قدم قدم پر نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں تک کے حقوق کی حفاظت کا اہتمام کرنے والا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے چھری تیز کردی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھوں سے جانور کو زمین پر گرا لیا اور اس کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا۔ (ایضاً)

جانور کو ذبح کرتے وقت جانور کا رخ قبلہ کی طرف کرنا بھی سنت ہے اس لئے کہ جب جانور ذبح ہو، خون کی دھار نکلے تو اس دھار کا رخ بھی قبلہ کی طرف ہو کہ اگر خدا کے گھر جا کر دوران حج قربانی کا موقع نصیب نہیں ہوسکا تو کوئی بات نہیں، جانور کا رخ، خون کی دھار کا رخ، قربانی دینے والے کا رخ تو قبلہ کی طرف ہے اور یہ سب اپنی نیت کے حسن اور صدق و اخلاص کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے بہانے ہیں تاکہ خدا کی ذات نیت کے حسن کو دیکھ کر راضی ہوجائے اور اس عمل کو قبول کرلے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانور کو ذبح کرتے وقت فرماتے بِسْمِ اللّٰهِ، اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ ومِنْ اُمَّتِ مُحَمَّدٍ. (ایضاً)

’’باری تعالٰی تیرے نام پر میں نے قربانی ادا کی اسے اپنی بارگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے، آل محمد کی طرف سے اور پوری امت محمدی کی طرف سے قبول فرما‘‘۔

محدثین کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفضلاً پوری امت کو قربانی کے ثواب میں شریک کر لیا۔ وہ سراپا نبی رحمت جو قربانی کا عمل کرتے تو اللہ کے لئے تھے مگر ان کی رحمت کا عالم یہ تھا کہ وہ چاہتے کہ میری قربانی کے عمل کے ثواب میں بھی میری امت شریک ہوجائے۔

دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰهُمَّ هَذٰا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ يُضَحِّ مِنْ اُمَّتِیْ.

’’یہ قربانی میری طرف سے اور میری امت کے ہر اس غریب شخص کی طرف سے قبول فرما جو قربانی ادا نہیں کرسکتا‘‘۔

(سنن ابی داؤد، جلد 3، باب فی الشاة يضحی بها عن جماعة رقم : 2810)

گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت پر بے حد شفقت فرماتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت میں حد درجہ دلجوئی تھی کہ اگر کوئی شخص غربت یا مہنگائی کے سبب سے قربانی نہ کر سکے تو اس کو بھی قربانی کے عمل میں شریک کر لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ کلمات آج کل کے حالات و واقعات کے تناظر میں ہمارے لئے ہی ہیں کہ قربانی کے جانور کے مہنگا ہونے کے سبب ہم میں سے جو قربانی نہ کر سکے، وہ مایوس نہ ہو جائیں ان کی طرف سے قربانی میں اپنے ہاتھوں سے دیئے جا رہا ہوں۔

اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

کہ جس طرح میں قربانی میں اپنی امت کو شریک کرتا رہا ہوں میرے بعد تم بھی قربانی دینا تو دو بکرے کرنا ایک اپنی طرف سے اور ایک میری طرف سے تاکہ میری طرف سے بھی قربانی ہوتی رہے۔ گویا یہ ذمہ داری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاتے ہوئے اپنی امت کو منتقل کر کے گئے۔

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت یہ ہے کہ عمل قربانی میں انسان کی اپنی دلچسپی ہو۔ اگر آپ نے قربانی کا جانور قصاب کے حوالے کر دیا اور خود کسی اور کام میں مصروف ہوگئے تو اس طرح سے قربانی ہو جاتی ہے لیکن اس میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہ ہو سکا جتنی دلچسپی کا اظہار خون گراتے وقت ظاہر ہونی تھی کیونکہ قربانی کا فلسفہ محض جانور ذبح کر دینا اور گوشت تقسیم کرنا نہ تھا بلکہ ہاتھ سے اس جانور کا خون بہانا تھا اور اگر خون بہانے کا کام جب انسان نے اپنے ہاتھ سے نہ کیا تو عمل قربانی میں حسن نیت اپنے کمال کو نہ پہنچی۔ اس لئے سنت یہ ہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کی جائے۔

اس قربانی کی تکریم و تعظیم کے تصور کو ذہنوں میں بٹھانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جب ذوی الحج کا آغاز ہوجائے تو جو شخص قربانی دینے کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وہ قربانی کے وقت تک اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے‘‘۔

(صحیح مسلم، جلد3، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ، رقم : 1977)

یہ حکم کیوں دیا گیا؟ اولاً یہ حکم حج کرنے والوں کے لئے تھا لیکن وہ لوگ جو حج نہیں کرتے اور قربانی کرتے ہیں، ان کو اس ناخن اور بال نہ کٹوانے کے عمل میں اس لئے شریک کر لیا کہ اس بندے کو اس کی یہ حالت اور شکل بار بار اللہ کی طرف متوجہ کرتی رہے گی کہ وہ اللہ کے لئے قربانی دینے والا ہے۔ 10 دن بعد ہونے والی قربانی کا تصور نفسیاتی طور پر اس کے ذہن میں موجود رہے گا اور یہی 10دن اللہ تعالٰی کے فراہم کردہ اس تصور کے تحت انسان کو گزارنے چاہئے تاکہ قربانی کی عظمت و قدرومنزلت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔

باری تعالٰی ہمیں اپنے دین کے مقدس و برگزیدہ احکام کی حقیقی معرفت عطا کرے اور بتمام و کمال ان کے ظاہرو باطن کے فیوض و برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم